تحریک آزادی سندھ کے اخبارات کا کردار…
اگست 1927میں انھوں نے جیکب آباد سے صداقت اخبار جاری کیا ۔۔۔۔
ISLAMABAD:
تحریک پاکستان میں جہاں برصغیر کے مشہور عالم اخبارات ''الہلال'' زمیندار، انقلاب وغیرہ نے عظیم الشان کردار ادا کیا وہیں چھوٹے چھوٹے اخبارات نے بھی بہت موثر کردار نبھایا جو ملک کے مختلف علاقوں سے اور انگریزی کے علاوہ سندھی، گجراتی، بنگالی و دیگر مقامی زبانوں میں جاری ہوئے تھے۔ اس وقت میرے پیش نظر تحریک میں سندھ کی صحافت کے عظیم الشان کردار کو پیش کرنا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے لیکن چند اخبارات کی خدمات کے تذکرے سے بھی بات کسی حد تک واضح ہوسکتی ہے۔
اگر جنگ آزادی کی جدوجہد کے جائزے کو 1935 سے تھوڑا آگے لے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں سندھ کی صحافتی تاریخ گزشتہ صدی کے آخر سے شروع ہوجاتی ہے جب مولانا عبیداللہ سندھی نے 19 ویں صدی کی آخری دہائی میں سکھر سے ایک انقلابی پرچہ ''ہدایت الاخوان'' کے نام سے جاری کیا اگرچہ یہ رسالہ چند ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا لیکن اس کا نقش بہت گہرا تھا۔ یہ پرچہ تاریخ میں اپنا نام پیدا کرگیا اس سے انقلابی فکر کی ایک ایسی شمع روشن ہوئی جس کے اجالے میں انقلاب پسندوں کا قافلہ چل پڑا، سندھ میں آزاد اور انقلابی صحافت کی یہ ایک مستثنیٰ مثال تھی جو 19 ویں صدی کے اواخر میں ہمیں نظر آتی ہے یہ رسالہ سکھر کے الحق پریس میں چھپتا تھا۔
بیسویں صدی میں سندھ کی صحافت نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ درحقیقت سندھ میں صحافت کا یہ پہلا دور تھا جو بمبئی کی سندھ سے علیحدگی کی تحریک تک جاری رہا اس دور میں ملک کی آزادی کے لیے ہندو مسلم صحافت نے کم و بیش یکساں حصہ لیا۔ سندھ کی تاریخ میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ہندو مسلم صحافت میں نصب العین کی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اس دوران مسلم صحافت کو ہندو پریس کے بارے میں تجربات ہوئے یہی وہ تجربات تھے جنھوں نے رفتہ رفتہ مسلم صحافت کو تحریک پاکستان کی راہ پر ڈالا۔
1914 کے لگ بھگ ''نومسلم'' کے نام سے ایک اخبار شیخ عبداللہ مرحوم نے جاری کیا تھا شیخ صاحب خود بھی نو مسلم تھے، شیخ عبیداللہ سندھی کی کوششوں سے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا انھوں نے اپنے اخبار کے ذریعے حریت پسندانہ خیالات، برطانوی استعمار کے خلاف نفرت اور غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں بہترین خدمات انجام دیں۔ خیرپور ریاست کے مسلمانوں نے شیخ محمد سلیمان کی قیادت میں ''الحق'' جاری کیا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر محمد علی خان دہلوی مقرر ہوئے تھے جو بعد میں کونسل کے مشہور و معروف پریذیڈنٹ بنے۔
''الحق'' کا اجرا حیدر آباد سے ہوا، لیکن پھر جلد ہی اسے حیدر آباد سے مستقل طور پر سکھر منتقل کردیا گیا۔ شیخ محمد سلیمان، بابو سلیمان کے نام سے مشہور تھے انھوں نے اپنی انتھک کوششوں سے اس اخبار کے ذریعے مسلمانوں کی بہترین خدمات انجام دیں۔ ان کے بعد ان کے فرزند شیخ عبدالعزیز نے پریس اور اخبار کا کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس وقت تک حالات بدل گئے تھے اور چونکہ شیخ صاحب بھی آزاد خیال واقع ہوئے تھے۔ انگریزوں کی وفاداری تو کجا وہ ملازمین کے ہمنوا بھی نہ بن سکے اس لیے تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھیں اخبار سے بے تعلق ہونا پڑا۔
شیخ صاحب اپنی تقریروں میں انگریزوں کی خوب خبر لیتے تھے اس لیے ابن الوقت قسم کے لوگ ان سے کنارہ کش ہوگئے لیکن انھوں نے اپنے سیاسی نظریات نہیں بدلے۔ آخر میں پیر ضیا الدین جھنڈے والے سے وابستہ ہوگئے اور باقی زندگی ان ہی کی خدمت میں گزاردی۔ شیخ عبدالعزیز کے بعد ''الحق'' کا انتظام ان کے بیٹے عبدالحکیم کے ہاتھوں میں آگیا لیکن شیخ عبدالحکیم کی انقلابی روح مرچکی تھی۔ سرکاری اشتہاروں پر گزارا تھا۔ اشتہار مل جاتا تو اخبار بھی نظر آجاتا۔ اب یہ اخبار انگریزوں کے مفادات کا ترجمان بن چکا تھا۔ انگریز حکومت کی ثنا خوانی کرتا تھا اس وجہ سے مسلمانوں کی اس سے دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔
انھوں نے اخبار کی مدد ترک کردی۔ ''الحق'' کی اس پالیسی کو دیکھ کر مسلمانوں کے آزاد طبقے نے ''الحق'' کے مقابلے میں ایک دوسرا اخبار نکالا۔ اس کا نام ''آفتاب سندھ'' رکھا گیا سندھ کے مشہور صحافی شمس الدین کو اس کا پہلا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ شمس الدین مرحوم سندھ میں اخبار نویسی اور ادب کے ''بابا آدم'' مانے جاتے تھے جب تک وہ اس اخبار کے ایڈیٹر رہے اخبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ عوام میں اسے بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ یہ اخبار ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کے لیے سینہ سپر رہتا تھا۔ ''الحق'' و ''آفتاب سندھ'' کی بدولت سندھ کے مسلمانوں اور عوام میں سیاسی شعور بڑی حد تک بیدار ہوچکا تھا۔
اس وقت لاہور سے مولانا ظفر علی خان کا اخبار ''زمیندار'' آیا کرتا تھا اس نے بھی مسلمانوں میں ایثار اور قربانی کے جذبات پروان چڑھائے تھے اس لیے حکومت کو ایک ایسے وسیع الاشاعت اخبار کی ضرورت پیش آئی جو برطانوی حکومت سے مسلمانوں اور عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کو پھیلنے سے روکے اور ارباب اختیار سے وفاداری کے جذبات دلوں میں پیدا کرے۔ چنانچہ شیخ محمد قادر وزیر ریاست خیرپور کے تعاون سے اس مقصد کے لیے حکومت نے سندھ کے زمینداروں کو اشارہ کیا۔ انھوں نے ماسٹر عبدالوہاب پٹھان کی ادارت میں ''سندھ زمیندار'' کے نام سے سکھر سے ایک اخبار جاری کیا۔
ماسٹر عبدالوہاب پٹھان نہایت دور اندیش، سنجیدہ شخص تھے، حکومت پر تنقید میں وہ نرم رویہ اختیار کرتے تھے۔ حکومت سے تعلق رکھنے والی تحریروں میں ادب و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھے ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ نہ ہوتا تھا۔ آسان سندھی زبان میں مطالب کو ادا کرتے تھے۔ ماسٹر عبدالوہاب کی رحلت کے بعد احمد علی ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ان کے بعد 1928 میں پیر علی راشدی اس کے ایڈیٹر بنا دیے گئے اس زمانے میں اخبار کا سارا انتظام خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کے ہاتھوں میں تھا۔ ''سندھ زمیندار'' کی تاریخ کا یہ سب سے بہتر دور تھا۔
پیر علی راشدی 1933 تک '' سندھ زمیندار'' کی ایڈیٹری کے منصب پر فائز رہے۔ متذکرہ اخبارات سے زیادہ مقبول و معروف اخبار ''الوحید'' تھا۔ جسے سندھ کا سب سے بڑا اخبار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اس کے مدیر مولانا دین محمد وفائی تھے جو خود بھی تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے اور الوحید کے ذریعے بھی تحریک کی ترجمانی کر رہے تھے۔ ''الوحید'' میں سندھ کے بڑے بڑے ادیب و صحافی تحریک آزادی اور ملی و ملکی تحریکات کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً لکھتے اور سندھ کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔
ایک مرتبہ مولانا شوکت علی نے فرمایا تھا کہ سندھ میں ''الوحید'' اس طرح ہے جس طرح جان کے اندر روح اور سندھ کا مطلب الوحید اور الوحید کا مطلب سندھ ہے۔ 1943 میں الوحید سے جب مولانا وفائی کا قطع تعلق ہوا تو اللہ بخش سومرو کے جاری کردہ روزنامہ ''آزاد'' میں شریک ہوئے۔ الوحید کی ادارت کے فرائض ابتدائی ایام میں مولانا عبدالکریم چشتی نے بھی سرانجام دیے۔ مولانا کریم چشتی تحریک کے ایک اہم رکن تھے سندھ میں ایسی کوئی ملی تحریک نہیں جس میں انھوں نے حصہ نہ لیا ہو۔
اگست 1927میں انھوں نے جیکب آباد سے صداقت اخبار جاری کیا لیکن 5ماہ بعد ''الحنیف'' کے مدیر جناب ٹانوری کے حوالے کردیا۔ جتنے عرصے مولانا اس کی ادارت میں رہے اخبار بہت مقبول رہا۔ ''صداقت'' چھوڑ کر مولانا چشتی نے شکار پور سے 1929میں ''پیغام'' جاری کیا ان اخبارات کے علاوہ مولانا عبدالکریم چشتی اخبارات ''جمہور'' شکارپور اور قربانی کراچی میں پیر الٰہی بخش کی کوششوں سے جاری ہونیوالے روزنامہ کے بھی ایڈیٹر رہے وہ لاڑکانہ سے جاری ہونیوالے ہفت روزہ پاکستان کے بھی ایڈیٹر رہ چکے تھے۔
ان اخبارات کے علاوہ بھی سندھ کے مختلف شہروں سے متعدد اخبارات جاری ہوئے جن میں کراچی سے نکلنے والا روزنامہ ''الاصلاح'' ہے یہ اخبار حکیم فتح محمد سہوانی عباسی کی سرپرستی میں نکالا گیا تھا اس کے مدیر عبدالغفور سیتائی تھے جو بعد میں ''نوائے سندھ'' کے ایڈیٹر رہے۔ ''نوائے سندھ'' محمد ایوب کھوڑو اور ایک دوسرے زمیندار صاحب کے تعاون سے جاری ہوا تھا۔ میرپورخاص سے ہفت روزہ ''مسلمان'' ایک قدیم صحافی محمد ہاشم مخلص کی ادارت میں شایع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی لکھتے ہیں کہ ''مسلمان'' ترکی کے حق میں انگریزوں کے خلاف کام کرنے کا ایک موثر ذریعہ تھا۔
اس اخبار میں ہاشم مخلص نے نہایت زور و شور کے ساتھ اپنے قلم کی جولانیاں دکھاکر طنز و مزاح کے ذریعے انگریزوں کے خلاف عوامی دلوں میں نفرت کی شدید ترین آگ بھڑکا دی تھی۔ مسلم قوم، برصغیر کی آزادی اور عام بیداری جیسے موضوعات پر ان کے علاوہ بھی تحریک پاکستان میں سندھ کے جن اخبارات و رسائل نے اہم کردار ادا کیا ان میں معاون ، سندھ سدھار، ہلال پاکستان، مسافر، الہلال، تعلیم، تحفہ الاحباب وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
تحریک پاکستان میں جہاں برصغیر کے مشہور عالم اخبارات ''الہلال'' زمیندار، انقلاب وغیرہ نے عظیم الشان کردار ادا کیا وہیں چھوٹے چھوٹے اخبارات نے بھی بہت موثر کردار نبھایا جو ملک کے مختلف علاقوں سے اور انگریزی کے علاوہ سندھی، گجراتی، بنگالی و دیگر مقامی زبانوں میں جاری ہوئے تھے۔ اس وقت میرے پیش نظر تحریک میں سندھ کی صحافت کے عظیم الشان کردار کو پیش کرنا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع ایک ضخیم کتاب کا متقاضی ہے لیکن چند اخبارات کی خدمات کے تذکرے سے بھی بات کسی حد تک واضح ہوسکتی ہے۔
اگر جنگ آزادی کی جدوجہد کے جائزے کو 1935 سے تھوڑا آگے لے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں سندھ کی صحافتی تاریخ گزشتہ صدی کے آخر سے شروع ہوجاتی ہے جب مولانا عبیداللہ سندھی نے 19 ویں صدی کی آخری دہائی میں سکھر سے ایک انقلابی پرچہ ''ہدایت الاخوان'' کے نام سے جاری کیا اگرچہ یہ رسالہ چند ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا لیکن اس کا نقش بہت گہرا تھا۔ یہ پرچہ تاریخ میں اپنا نام پیدا کرگیا اس سے انقلابی فکر کی ایک ایسی شمع روشن ہوئی جس کے اجالے میں انقلاب پسندوں کا قافلہ چل پڑا، سندھ میں آزاد اور انقلابی صحافت کی یہ ایک مستثنیٰ مثال تھی جو 19 ویں صدی کے اواخر میں ہمیں نظر آتی ہے یہ رسالہ سکھر کے الحق پریس میں چھپتا تھا۔
بیسویں صدی میں سندھ کی صحافت نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ درحقیقت سندھ میں صحافت کا یہ پہلا دور تھا جو بمبئی کی سندھ سے علیحدگی کی تحریک تک جاری رہا اس دور میں ملک کی آزادی کے لیے ہندو مسلم صحافت نے کم و بیش یکساں حصہ لیا۔ سندھ کی تاریخ میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ہندو مسلم صحافت میں نصب العین کی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اس دوران مسلم صحافت کو ہندو پریس کے بارے میں تجربات ہوئے یہی وہ تجربات تھے جنھوں نے رفتہ رفتہ مسلم صحافت کو تحریک پاکستان کی راہ پر ڈالا۔
1914 کے لگ بھگ ''نومسلم'' کے نام سے ایک اخبار شیخ عبداللہ مرحوم نے جاری کیا تھا شیخ صاحب خود بھی نو مسلم تھے، شیخ عبیداللہ سندھی کی کوششوں سے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا انھوں نے اپنے اخبار کے ذریعے حریت پسندانہ خیالات، برطانوی استعمار کے خلاف نفرت اور غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں بہترین خدمات انجام دیں۔ خیرپور ریاست کے مسلمانوں نے شیخ محمد سلیمان کی قیادت میں ''الحق'' جاری کیا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر محمد علی خان دہلوی مقرر ہوئے تھے جو بعد میں کونسل کے مشہور و معروف پریذیڈنٹ بنے۔
''الحق'' کا اجرا حیدر آباد سے ہوا، لیکن پھر جلد ہی اسے حیدر آباد سے مستقل طور پر سکھر منتقل کردیا گیا۔ شیخ محمد سلیمان، بابو سلیمان کے نام سے مشہور تھے انھوں نے اپنی انتھک کوششوں سے اس اخبار کے ذریعے مسلمانوں کی بہترین خدمات انجام دیں۔ ان کے بعد ان کے فرزند شیخ عبدالعزیز نے پریس اور اخبار کا کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس وقت تک حالات بدل گئے تھے اور چونکہ شیخ صاحب بھی آزاد خیال واقع ہوئے تھے۔ انگریزوں کی وفاداری تو کجا وہ ملازمین کے ہمنوا بھی نہ بن سکے اس لیے تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھیں اخبار سے بے تعلق ہونا پڑا۔
شیخ صاحب اپنی تقریروں میں انگریزوں کی خوب خبر لیتے تھے اس لیے ابن الوقت قسم کے لوگ ان سے کنارہ کش ہوگئے لیکن انھوں نے اپنے سیاسی نظریات نہیں بدلے۔ آخر میں پیر ضیا الدین جھنڈے والے سے وابستہ ہوگئے اور باقی زندگی ان ہی کی خدمت میں گزاردی۔ شیخ عبدالعزیز کے بعد ''الحق'' کا انتظام ان کے بیٹے عبدالحکیم کے ہاتھوں میں آگیا لیکن شیخ عبدالحکیم کی انقلابی روح مرچکی تھی۔ سرکاری اشتہاروں پر گزارا تھا۔ اشتہار مل جاتا تو اخبار بھی نظر آجاتا۔ اب یہ اخبار انگریزوں کے مفادات کا ترجمان بن چکا تھا۔ انگریز حکومت کی ثنا خوانی کرتا تھا اس وجہ سے مسلمانوں کی اس سے دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔
انھوں نے اخبار کی مدد ترک کردی۔ ''الحق'' کی اس پالیسی کو دیکھ کر مسلمانوں کے آزاد طبقے نے ''الحق'' کے مقابلے میں ایک دوسرا اخبار نکالا۔ اس کا نام ''آفتاب سندھ'' رکھا گیا سندھ کے مشہور صحافی شمس الدین کو اس کا پہلا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ شمس الدین مرحوم سندھ میں اخبار نویسی اور ادب کے ''بابا آدم'' مانے جاتے تھے جب تک وہ اس اخبار کے ایڈیٹر رہے اخبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ عوام میں اسے بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ یہ اخبار ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کے لیے سینہ سپر رہتا تھا۔ ''الحق'' و ''آفتاب سندھ'' کی بدولت سندھ کے مسلمانوں اور عوام میں سیاسی شعور بڑی حد تک بیدار ہوچکا تھا۔
اس وقت لاہور سے مولانا ظفر علی خان کا اخبار ''زمیندار'' آیا کرتا تھا اس نے بھی مسلمانوں میں ایثار اور قربانی کے جذبات پروان چڑھائے تھے اس لیے حکومت کو ایک ایسے وسیع الاشاعت اخبار کی ضرورت پیش آئی جو برطانوی حکومت سے مسلمانوں اور عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کو پھیلنے سے روکے اور ارباب اختیار سے وفاداری کے جذبات دلوں میں پیدا کرے۔ چنانچہ شیخ محمد قادر وزیر ریاست خیرپور کے تعاون سے اس مقصد کے لیے حکومت نے سندھ کے زمینداروں کو اشارہ کیا۔ انھوں نے ماسٹر عبدالوہاب پٹھان کی ادارت میں ''سندھ زمیندار'' کے نام سے سکھر سے ایک اخبار جاری کیا۔
ماسٹر عبدالوہاب پٹھان نہایت دور اندیش، سنجیدہ شخص تھے، حکومت پر تنقید میں وہ نرم رویہ اختیار کرتے تھے۔ حکومت سے تعلق رکھنے والی تحریروں میں ادب و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھے ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ نہ ہوتا تھا۔ آسان سندھی زبان میں مطالب کو ادا کرتے تھے۔ ماسٹر عبدالوہاب کی رحلت کے بعد احمد علی ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ان کے بعد 1928 میں پیر علی راشدی اس کے ایڈیٹر بنا دیے گئے اس زمانے میں اخبار کا سارا انتظام خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کے ہاتھوں میں تھا۔ ''سندھ زمیندار'' کی تاریخ کا یہ سب سے بہتر دور تھا۔
پیر علی راشدی 1933 تک '' سندھ زمیندار'' کی ایڈیٹری کے منصب پر فائز رہے۔ متذکرہ اخبارات سے زیادہ مقبول و معروف اخبار ''الوحید'' تھا۔ جسے سندھ کا سب سے بڑا اخبار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اس کے مدیر مولانا دین محمد وفائی تھے جو خود بھی تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے اور الوحید کے ذریعے بھی تحریک کی ترجمانی کر رہے تھے۔ ''الوحید'' میں سندھ کے بڑے بڑے ادیب و صحافی تحریک آزادی اور ملی و ملکی تحریکات کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً لکھتے اور سندھ کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔
ایک مرتبہ مولانا شوکت علی نے فرمایا تھا کہ سندھ میں ''الوحید'' اس طرح ہے جس طرح جان کے اندر روح اور سندھ کا مطلب الوحید اور الوحید کا مطلب سندھ ہے۔ 1943 میں الوحید سے جب مولانا وفائی کا قطع تعلق ہوا تو اللہ بخش سومرو کے جاری کردہ روزنامہ ''آزاد'' میں شریک ہوئے۔ الوحید کی ادارت کے فرائض ابتدائی ایام میں مولانا عبدالکریم چشتی نے بھی سرانجام دیے۔ مولانا کریم چشتی تحریک کے ایک اہم رکن تھے سندھ میں ایسی کوئی ملی تحریک نہیں جس میں انھوں نے حصہ نہ لیا ہو۔
اگست 1927میں انھوں نے جیکب آباد سے صداقت اخبار جاری کیا لیکن 5ماہ بعد ''الحنیف'' کے مدیر جناب ٹانوری کے حوالے کردیا۔ جتنے عرصے مولانا اس کی ادارت میں رہے اخبار بہت مقبول رہا۔ ''صداقت'' چھوڑ کر مولانا چشتی نے شکار پور سے 1929میں ''پیغام'' جاری کیا ان اخبارات کے علاوہ مولانا عبدالکریم چشتی اخبارات ''جمہور'' شکارپور اور قربانی کراچی میں پیر الٰہی بخش کی کوششوں سے جاری ہونیوالے روزنامہ کے بھی ایڈیٹر رہے وہ لاڑکانہ سے جاری ہونیوالے ہفت روزہ پاکستان کے بھی ایڈیٹر رہ چکے تھے۔
ان اخبارات کے علاوہ بھی سندھ کے مختلف شہروں سے متعدد اخبارات جاری ہوئے جن میں کراچی سے نکلنے والا روزنامہ ''الاصلاح'' ہے یہ اخبار حکیم فتح محمد سہوانی عباسی کی سرپرستی میں نکالا گیا تھا اس کے مدیر عبدالغفور سیتائی تھے جو بعد میں ''نوائے سندھ'' کے ایڈیٹر رہے۔ ''نوائے سندھ'' محمد ایوب کھوڑو اور ایک دوسرے زمیندار صاحب کے تعاون سے جاری ہوا تھا۔ میرپورخاص سے ہفت روزہ ''مسلمان'' ایک قدیم صحافی محمد ہاشم مخلص کی ادارت میں شایع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی لکھتے ہیں کہ ''مسلمان'' ترکی کے حق میں انگریزوں کے خلاف کام کرنے کا ایک موثر ذریعہ تھا۔
اس اخبار میں ہاشم مخلص نے نہایت زور و شور کے ساتھ اپنے قلم کی جولانیاں دکھاکر طنز و مزاح کے ذریعے انگریزوں کے خلاف عوامی دلوں میں نفرت کی شدید ترین آگ بھڑکا دی تھی۔ مسلم قوم، برصغیر کی آزادی اور عام بیداری جیسے موضوعات پر ان کے علاوہ بھی تحریک پاکستان میں سندھ کے جن اخبارات و رسائل نے اہم کردار ادا کیا ان میں معاون ، سندھ سدھار، ہلال پاکستان، مسافر، الہلال، تعلیم، تحفہ الاحباب وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔