خیالی پلاو ہمیں کسی کو اینٹ مارنے کا موقع نہیں دینا چاہئے
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی زندگی کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے اِس لیے ہمیں لوگوں کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔
وہ اپنی سیا ہ اور چمکدار جیگوار کار میں سوارتھا ،وہ پوری توجہ کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک اسے ہوا میں کوئی شے تیرتی ہوئی نظر آئی ،دھم کی آواز آئی اور گاڑی کی دائیں جانب کے چمکدار سیا ہ دروازے سے کوئی چیز ٹکرائی۔نوجوان جو پورے انہماک کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا نے فوری بریک دبائی،گئیر تبدیل کیا اور گاڑی کو واپس اس مقام پر لے آیا جہاں سے وہ چیز پھینکی گئی تھی،اس نے گاڑی روکی اور شدید غصے کی حالت میں باہر نکلا،دیکھاتو یہ ایک اینٹ تھی جو اس کی مہنگی ترین گاڑی پر پھینکی گئی تھی۔اِس نے قریب کھڑے ایک چھوٹے سے بچے کو اپنی گرفت میں لے لیا اور پیچھے دھکیل کے کنارے پرکھڑی اپنی گاڑی کے ساتھ لگاتے ہوئے چیخ کے بولا:''تم کون ہو اور یہ تم نے کیا کیا؟''بچہ پہلے تو سہم گیا اور مارے خوف کے اس سے کچھ نہ بو لا گیا۔
نوجوان کا خون بُری طرح کھول رہا تھا اور مارے غصے کے اس کا چہرہ بھی سرخ ہوتا جا رہا تھا ۔اس نے بچے کو پہلے سے کئی زیادہ بُری طرح جھنجھوڑ کے بولا:''یہ میری نئی جیگوار ہے ،تم نے اس پرجو اینٹ ماری ہے اس کا خمیازہ تو تمہیں بھگتنا پڑے گا،بولوتم نے میری گاڑی پر اینٹ کیوں ماری؟''۔ بچے نے معصومیت اور خوف کے ملے جلے احساس کے ساتھ کچھ کہنے کی ہمت کی اور بولا:''جناب!مہربانی کریں،میں معافی چاہتا ہوں۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں اورکیا کروں''بچے نے ملتجی لہجے میں کہا:''کوئی بھی تو نہیں رک رہا تھا اس لئے مجھے آپ کو روکنے کے لئے اینٹ کا سہارا لینا پڑا''۔آنسو بچے کے رخسار وں سے ہو کے زمین پر گر نا شروع ہو گئے۔اس نے سڑک کنارے کھڑی گاڑیوں کے عقب کی طرف اشارہ کیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے بولا:''وہ میرا بھائی ہے ،وہ فٹ پاتھ سے لڑھکتے ہوئے اپنی ویل چیر سے گر پڑا ہے ،اسے چوٹ آئی ہے اور اس کے وزن کی زیادتی کی وجہ سے میں اُسے اٹھا نہیں سکتا،کیا آپ اسے واپس ویل چئیر پر بٹھانے میں میری مدد کر سکتے ہیں؟''یہ سن کے نوجوان کے منہ سے کوئی لفظ ادا نہ ہو سکا ،اس نے بمشکل اپنا حلق تر کیا اور بچے کی مدد سے زمین پر گرے ہوئے معذور لڑکے کو دوبارہ اس کی ویل چئیر پر بٹھا دیااور اپنی جیب سے رومال نکال کے معذور لڑکے کے جسم پر لگی خراشوں سے نکلنے والے خون کو صاف کر نے لگا۔بچے نے مسکراتے ہوئے نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے بھائی کی ویل چئیر فٹ پاتھ پر دھکیلتا ہواگھر کی جانب چل پڑا۔
یہ تو محض ایک واقعہ ہے مگر ہماری زندگیوں میں بھی اکثر وبیشتر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جب کسی دکھیارے کو اپنا دکھ کم کر نے اور کسی ضرورت مند کو اپنی شدید ترین ضرورت کو پورا کر نے کے لئے ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس نوجوان کی طرح جوملازمت کے حصول کی خاطر ڈگریوں کا بنڈل ہاتھ میں تھامے بہت سے دفتروں کے طواف کے بعد بھی بے روزگاری کی زندگی گذارنے کے عذاب میں مبتلا ہے، اس کی جوان بہن شادی کے انتظار میں بیٹھی ہے کہ جہیز کا بندو بست ہو تو اس کے ہاتھ پیلے ہوں،بوڑھا باپ جسے کینسر جیسے موذی مرض نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کہ جس کے علاج کی خاطر اس نے اپنی ماں کا زیور اور گھر کا قیمتی سامان بھی بیچ ڈالاہے ۔ لیکن ہم اپنی موج مستیوں میں گم ،دل پر بے بسی اور بے حسی کا بڑا سا تالا لگائے اس کے کے دکھ در دکو سننے کو تیا ر نہیں ہوتے اور بالآخر گھر میں بھوک ،افلاس اور بیماری کو ناچتا دیکھتے اس کے پاس بھی ہمیں متوجہ کر نے کے لئے اینٹ کا سہارا ہی ہوتا ہے اور یوں ہم اسے خود ڈکیتی و چوری کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی زندگی کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے جس کی مثالیں ہمیں وقت حاضر میں نظر آتی ہیں کہ معمر قذافی حسنی مبارک جیسے بادشا ہ جانے والے شخص جن کے ایک اشارے سے کچھ بھی ممکن تھا لیکن دیکھنے والوں نے یہ بھی منظر دیکھا کہ کسی کو تو ذلت آمیز موت کا سامنا کر نا پرا اور کوئی جیل میں اپنی زندگی گذارنے پر مجبور ہوا۔لہذا ہمیں چاہئے کہ دکھ کے مارے ان لوگوں کو اپنے گلے سے لگائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پو را کر نے کی کو شش کریں ۔ہمیں چاہئے کہ کوشش کریں کہ زندگی کی گاڑی کو کبھی اتنی تیزرفتاری کے ساتھ ڈرائیو نہ کریں کہ آپ کی توجہ حاصل کر نے کے لئے کسی کوآپ پر اینٹ کھینچ کے مارنی پڑے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
نوجوان کا خون بُری طرح کھول رہا تھا اور مارے غصے کے اس کا چہرہ بھی سرخ ہوتا جا رہا تھا ۔اس نے بچے کو پہلے سے کئی زیادہ بُری طرح جھنجھوڑ کے بولا:''یہ میری نئی جیگوار ہے ،تم نے اس پرجو اینٹ ماری ہے اس کا خمیازہ تو تمہیں بھگتنا پڑے گا،بولوتم نے میری گاڑی پر اینٹ کیوں ماری؟''۔ بچے نے معصومیت اور خوف کے ملے جلے احساس کے ساتھ کچھ کہنے کی ہمت کی اور بولا:''جناب!مہربانی کریں،میں معافی چاہتا ہوں۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں اورکیا کروں''بچے نے ملتجی لہجے میں کہا:''کوئی بھی تو نہیں رک رہا تھا اس لئے مجھے آپ کو روکنے کے لئے اینٹ کا سہارا لینا پڑا''۔آنسو بچے کے رخسار وں سے ہو کے زمین پر گر نا شروع ہو گئے۔اس نے سڑک کنارے کھڑی گاڑیوں کے عقب کی طرف اشارہ کیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے بولا:''وہ میرا بھائی ہے ،وہ فٹ پاتھ سے لڑھکتے ہوئے اپنی ویل چیر سے گر پڑا ہے ،اسے چوٹ آئی ہے اور اس کے وزن کی زیادتی کی وجہ سے میں اُسے اٹھا نہیں سکتا،کیا آپ اسے واپس ویل چئیر پر بٹھانے میں میری مدد کر سکتے ہیں؟''یہ سن کے نوجوان کے منہ سے کوئی لفظ ادا نہ ہو سکا ،اس نے بمشکل اپنا حلق تر کیا اور بچے کی مدد سے زمین پر گرے ہوئے معذور لڑکے کو دوبارہ اس کی ویل چئیر پر بٹھا دیااور اپنی جیب سے رومال نکال کے معذور لڑکے کے جسم پر لگی خراشوں سے نکلنے والے خون کو صاف کر نے لگا۔بچے نے مسکراتے ہوئے نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے بھائی کی ویل چئیر فٹ پاتھ پر دھکیلتا ہواگھر کی جانب چل پڑا۔
یہ تو محض ایک واقعہ ہے مگر ہماری زندگیوں میں بھی اکثر وبیشتر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جب کسی دکھیارے کو اپنا دکھ کم کر نے اور کسی ضرورت مند کو اپنی شدید ترین ضرورت کو پورا کر نے کے لئے ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس نوجوان کی طرح جوملازمت کے حصول کی خاطر ڈگریوں کا بنڈل ہاتھ میں تھامے بہت سے دفتروں کے طواف کے بعد بھی بے روزگاری کی زندگی گذارنے کے عذاب میں مبتلا ہے، اس کی جوان بہن شادی کے انتظار میں بیٹھی ہے کہ جہیز کا بندو بست ہو تو اس کے ہاتھ پیلے ہوں،بوڑھا باپ جسے کینسر جیسے موذی مرض نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کہ جس کے علاج کی خاطر اس نے اپنی ماں کا زیور اور گھر کا قیمتی سامان بھی بیچ ڈالاہے ۔ لیکن ہم اپنی موج مستیوں میں گم ،دل پر بے بسی اور بے حسی کا بڑا سا تالا لگائے اس کے کے دکھ در دکو سننے کو تیا ر نہیں ہوتے اور بالآخر گھر میں بھوک ،افلاس اور بیماری کو ناچتا دیکھتے اس کے پاس بھی ہمیں متوجہ کر نے کے لئے اینٹ کا سہارا ہی ہوتا ہے اور یوں ہم اسے خود ڈکیتی و چوری کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی زندگی کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے جس کی مثالیں ہمیں وقت حاضر میں نظر آتی ہیں کہ معمر قذافی حسنی مبارک جیسے بادشا ہ جانے والے شخص جن کے ایک اشارے سے کچھ بھی ممکن تھا لیکن دیکھنے والوں نے یہ بھی منظر دیکھا کہ کسی کو تو ذلت آمیز موت کا سامنا کر نا پرا اور کوئی جیل میں اپنی زندگی گذارنے پر مجبور ہوا۔لہذا ہمیں چاہئے کہ دکھ کے مارے ان لوگوں کو اپنے گلے سے لگائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پو را کر نے کی کو شش کریں ۔ہمیں چاہئے کہ کوشش کریں کہ زندگی کی گاڑی کو کبھی اتنی تیزرفتاری کے ساتھ ڈرائیو نہ کریں کہ آپ کی توجہ حاصل کر نے کے لئے کسی کوآپ پر اینٹ کھینچ کے مارنی پڑے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔