منفی رجحان
مابعدالنفسیات کے مختلف پہلوؤں پر بحث کے ساتھ ہم نے نفسیاتی الجھنوں پر بھی قارئین کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے
مابعدالنفسیات پر آپ ہمارا یہ آخری مضمون پڑھ رہے ہیں۔ اس کالم کے مستقل قاری یقیناً چونک گئے ہوں گے۔ نفسیات ومابعد نفسیات کے کالموں کا یہ سلسلہ مرحوم عاشق حسین البدوی کے انتقال کے بعد شروع کیا گیا تھا اور قارئین کی طرف سے اسے بے پناہ پذیرائی بھی ملی لیکن کالم کا یہ سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ قارئین میں بڑھتے اس منفی رجحان کے سبب کیا گیا ہے ۔
جس کا اندازہ ہمیں آپ کی ای میلز اور خطوط سے ہوتا ہے۔ اس کالم میں پیش کیے گئے مشورے اور مشقیں انسان کی شخصیت و کردار سازی میں مہمیز کا کردار ادا کرسکتی ہیں اور منفی رجحانات کے خاتمے کا بھی باعث ہیں لیکن اگر مشقیں منفی رجحانات کے سبب ہی کی جائیں تو مثبت نتائج کیسے برآمد ہوسکتے ہیں؟ ہم ان ہی کالموں میں نفس کے مظاہر اور رجحانات پر بحث کرچکے ہیں، یہ ایسا موضوع نہیں جسے چند الفاظ میں سمیٹ دیا جائے یا دو اور دو چار کے فارمولے کے مطابق آپ اسے بیان کرسکیں۔
قارئین کی جانب سے موصول ہونے والی بیشتر ای میلز میں اب منفی رجحانات بڑھتے جارہے ہیں، لوگ ''شارٹ کٹ'' کی تلاش میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم کوئی عامل کامل نہیں، نہ ہی آپ کو عملیات کے وہ طریقے بتا سکتے ہیں جس کا چرچا جعلی عامل و پیر فقیر اپنے اشتہاری ہتھکنڈوں میں کرتے رہتے ہیں، بلکہ ہم نے اس پلیٹ فارم پر ہمیشہ ان عاملوں کی چال بازیوں سے عوام کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی ہے، لیکن 'ڈھاک کے وہی تین پات'۔
مابعدالنفسیات کے مختلف پہلوؤں پر بحث کے ساتھ ہم نے نفسیاتی الجھنوں پر بھی قارئین کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اور خود علاجی کے طریقہ کار بھی بتائے ہیں۔ آج کے پرفتن ماحول میں جہاں نفسیاتی مسائل تیزی سے سر اٹھا رہے ہیں ہر شہر میں نفسیات کے مستند اداروں اور معالجوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
بڑے شہروں میں نفسیاتی معالجین کے ادارے اور بڑے ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جو اپنی بساط بھر لوگوں کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں لیکن عوام عام بخار، نزلہ کھانسی کے لیے تو ڈاکٹرز سے رجوع کرلیتے ہیں لیکن نفسیاتی عوارض کے علاج کے لیے نفسیات دان سے مشورہ کرتے ہچکچاتے ہیں۔ ہم قارئین کو مشورہ دیں گے وہ عام ڈگر سے ہٹ کر اپنے رجحانات اور رویوں میں اگر شدت پاتے ہیں تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ نفسیات کے ماہرین سے مشورہ ضرور کریں۔ نفسیات کے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پر پاگل پن کا شک کیا جارہا ہے۔
جیسا کہ اگر کسی بھی شخص کو نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے کا بتایا جائے تو وہ اس بات پر جھگڑ پڑتا ہے کہ اسے پاگل سمجھا جارہا ہے۔ عمومی طور پر نفسیاتی عارضے میں مبتلا اشخاص میں شدت پسندی اور حساسیت بڑھ جاتی ہے، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ ایسا موضوع نہیں جہاں دو اور دو چار کا فارمولا کارگر ہوسکے، اس لیے ہر اس شخص کو انفرادی توجہ کی ضرورت ہے جو کسی نہ کسی سبب نفسیاتی کجی کا شکار ہو۔
ہر چیز کی طرف ذہانت کے بھی دو رخ ہوا کرتے ہیں مثبت یا تعمیر ذہانت، منفی یا تخریبی ذہانت۔ نفسیاتی مریض شعور کی صلاحیت اور ذہانت کی استعداد سے محروم نہیں ہوتے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ تربیت کی خامی اور آموزش کی خرابی کے سبب ان کا شعور پختہ نہیں ہوپاتا اور ان کی ذہانت بنجر ہوکر رہ جاتی ہے۔ خاص خاص کیسوں سے قطع نظر عام نفسیاتی مریضوں کو ازسر نو تعلیم و تربیت کے ذریعے صحت مند اور حقیقت پسند بنایا جاسکتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی اصلاح نفس پر قادر ہوسکتے ہیں۔ انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کی تربیت میں کیا نقص رہ گیا ہے، وہ خود محسوس کریں گے کہ ان کی سوچ میں مبالغہ پسندی پیدا ہوگئی ہے۔
وہ خود اپنی ذہنی ناآسودگی، جذباتی ناپختگی اور قوت ارادی و خود اعتمادی کے فقدان کا اعتراف کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں تو ان کی اصلاح کیوں نہیں کرسکتے؟ اس موقع پر عذر پیش کیا جائے گا کہ نفسیاتی مریض خود اپنی اصلاح پر قادر نہیں ہوا کرتا، وہ محسوس کرتا ہے کہ میں بے سبب ڈر رہا ہوں۔ لیکن ''ڈر'' پر غالب آنا اس کے امکان سے باہر ہے۔ یہ عذر کسی حد تک صحیح ہے لیکن ان میں سو فیصد صحت و صداقت نہیں ہے۔ نفسیاتی مریض کے ذہن میں منفی اور فاسد جذبات تہہ در تہہ جمع ہوجایا کرتے ہیں اور علاج کے لیے ان جذبات کا اخراج ازحد ضروری ہے۔
اکثر قارئین ہم سے اپنی جذباتی الجھنوں کے حوالے سے رابطہ کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی ذاتی مصروفیات کے سبب ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ سب کو انفرادی توجہ دے سکیں، لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اپنی مشکلوں اور پریشانی کے حل کے لیے کسی شارٹ کٹ کی تلاش یا فرسودہ سوچ کے مطابق کسی جعلی عامل یا پیر فقیر کا رخ کرنے کے بجائے دیگر مثبت راستے اختیار کیجیے۔ اگر آپ کا مسئلہ نفسیاتی ہے تو اس کا علاج صرف نفسیاتی معالج کے پاس ہے، معاشرتی مسئلے کے حل کے لیے آپ کو معاشرتی عوامل کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔
اکثر افراد کو بلاوجہ شک ہے کہ ان پر جادو کرادیا ہے، رشتے دار ان کی کامیابی میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے بندش کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک سوچ ہے جو اس معاشرے میں تیزی سے پنپ رہی ہے۔ آپ کی ناکامیوں کے پیچھے خود آپ کی غلط حکمت عملی ہے۔ اور سو کی ایک بات ''اﷲ مسبب الاسباب ہے''۔ اپنی جانب سے تمام تر کوششیں کرنے کے بعد اپنے معاملات اﷲ کے سپرد کردیجیے۔
پھر ہر مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اﷲ بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، رزق کی تلاش کے لیے چڑیا کو بھی اپنے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے، گھر بیٹھے کبھی غیبی امداد نہیں ملتی۔ مابعد نفسیات پر بے شک یہ آخری کالم ہے لیکن قارئین مہمیز کے مستقل عنوان سے ہمارے کالم ایکسپریس میں پڑھتے رہیں گے، ہم کوشش کریں گے کہ نفسیات کے دیگر پہلوؤں پر وقتاً فوقتاً آپ سے گفتگو ہوتی رہے۔
جس کا اندازہ ہمیں آپ کی ای میلز اور خطوط سے ہوتا ہے۔ اس کالم میں پیش کیے گئے مشورے اور مشقیں انسان کی شخصیت و کردار سازی میں مہمیز کا کردار ادا کرسکتی ہیں اور منفی رجحانات کے خاتمے کا بھی باعث ہیں لیکن اگر مشقیں منفی رجحانات کے سبب ہی کی جائیں تو مثبت نتائج کیسے برآمد ہوسکتے ہیں؟ ہم ان ہی کالموں میں نفس کے مظاہر اور رجحانات پر بحث کرچکے ہیں، یہ ایسا موضوع نہیں جسے چند الفاظ میں سمیٹ دیا جائے یا دو اور دو چار کے فارمولے کے مطابق آپ اسے بیان کرسکیں۔
قارئین کی جانب سے موصول ہونے والی بیشتر ای میلز میں اب منفی رجحانات بڑھتے جارہے ہیں، لوگ ''شارٹ کٹ'' کی تلاش میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم کوئی عامل کامل نہیں، نہ ہی آپ کو عملیات کے وہ طریقے بتا سکتے ہیں جس کا چرچا جعلی عامل و پیر فقیر اپنے اشتہاری ہتھکنڈوں میں کرتے رہتے ہیں، بلکہ ہم نے اس پلیٹ فارم پر ہمیشہ ان عاملوں کی چال بازیوں سے عوام کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی ہے، لیکن 'ڈھاک کے وہی تین پات'۔
مابعدالنفسیات کے مختلف پہلوؤں پر بحث کے ساتھ ہم نے نفسیاتی الجھنوں پر بھی قارئین کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اور خود علاجی کے طریقہ کار بھی بتائے ہیں۔ آج کے پرفتن ماحول میں جہاں نفسیاتی مسائل تیزی سے سر اٹھا رہے ہیں ہر شہر میں نفسیات کے مستند اداروں اور معالجوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
بڑے شہروں میں نفسیاتی معالجین کے ادارے اور بڑے ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جو اپنی بساط بھر لوگوں کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں لیکن عوام عام بخار، نزلہ کھانسی کے لیے تو ڈاکٹرز سے رجوع کرلیتے ہیں لیکن نفسیاتی عوارض کے علاج کے لیے نفسیات دان سے مشورہ کرتے ہچکچاتے ہیں۔ ہم قارئین کو مشورہ دیں گے وہ عام ڈگر سے ہٹ کر اپنے رجحانات اور رویوں میں اگر شدت پاتے ہیں تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ نفسیات کے ماہرین سے مشورہ ضرور کریں۔ نفسیات کے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پر پاگل پن کا شک کیا جارہا ہے۔
جیسا کہ اگر کسی بھی شخص کو نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے کا بتایا جائے تو وہ اس بات پر جھگڑ پڑتا ہے کہ اسے پاگل سمجھا جارہا ہے۔ عمومی طور پر نفسیاتی عارضے میں مبتلا اشخاص میں شدت پسندی اور حساسیت بڑھ جاتی ہے، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ ایسا موضوع نہیں جہاں دو اور دو چار کا فارمولا کارگر ہوسکے، اس لیے ہر اس شخص کو انفرادی توجہ کی ضرورت ہے جو کسی نہ کسی سبب نفسیاتی کجی کا شکار ہو۔
ہر چیز کی طرف ذہانت کے بھی دو رخ ہوا کرتے ہیں مثبت یا تعمیر ذہانت، منفی یا تخریبی ذہانت۔ نفسیاتی مریض شعور کی صلاحیت اور ذہانت کی استعداد سے محروم نہیں ہوتے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ تربیت کی خامی اور آموزش کی خرابی کے سبب ان کا شعور پختہ نہیں ہوپاتا اور ان کی ذہانت بنجر ہوکر رہ جاتی ہے۔ خاص خاص کیسوں سے قطع نظر عام نفسیاتی مریضوں کو ازسر نو تعلیم و تربیت کے ذریعے صحت مند اور حقیقت پسند بنایا جاسکتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی اصلاح نفس پر قادر ہوسکتے ہیں۔ انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کی تربیت میں کیا نقص رہ گیا ہے، وہ خود محسوس کریں گے کہ ان کی سوچ میں مبالغہ پسندی پیدا ہوگئی ہے۔
وہ خود اپنی ذہنی ناآسودگی، جذباتی ناپختگی اور قوت ارادی و خود اعتمادی کے فقدان کا اعتراف کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں تو ان کی اصلاح کیوں نہیں کرسکتے؟ اس موقع پر عذر پیش کیا جائے گا کہ نفسیاتی مریض خود اپنی اصلاح پر قادر نہیں ہوا کرتا، وہ محسوس کرتا ہے کہ میں بے سبب ڈر رہا ہوں۔ لیکن ''ڈر'' پر غالب آنا اس کے امکان سے باہر ہے۔ یہ عذر کسی حد تک صحیح ہے لیکن ان میں سو فیصد صحت و صداقت نہیں ہے۔ نفسیاتی مریض کے ذہن میں منفی اور فاسد جذبات تہہ در تہہ جمع ہوجایا کرتے ہیں اور علاج کے لیے ان جذبات کا اخراج ازحد ضروری ہے۔
اکثر قارئین ہم سے اپنی جذباتی الجھنوں کے حوالے سے رابطہ کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی ذاتی مصروفیات کے سبب ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ سب کو انفرادی توجہ دے سکیں، لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اپنی مشکلوں اور پریشانی کے حل کے لیے کسی شارٹ کٹ کی تلاش یا فرسودہ سوچ کے مطابق کسی جعلی عامل یا پیر فقیر کا رخ کرنے کے بجائے دیگر مثبت راستے اختیار کیجیے۔ اگر آپ کا مسئلہ نفسیاتی ہے تو اس کا علاج صرف نفسیاتی معالج کے پاس ہے، معاشرتی مسئلے کے حل کے لیے آپ کو معاشرتی عوامل کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔
اکثر افراد کو بلاوجہ شک ہے کہ ان پر جادو کرادیا ہے، رشتے دار ان کی کامیابی میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے بندش کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک سوچ ہے جو اس معاشرے میں تیزی سے پنپ رہی ہے۔ آپ کی ناکامیوں کے پیچھے خود آپ کی غلط حکمت عملی ہے۔ اور سو کی ایک بات ''اﷲ مسبب الاسباب ہے''۔ اپنی جانب سے تمام تر کوششیں کرنے کے بعد اپنے معاملات اﷲ کے سپرد کردیجیے۔
پھر ہر مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اﷲ بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، رزق کی تلاش کے لیے چڑیا کو بھی اپنے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے، گھر بیٹھے کبھی غیبی امداد نہیں ملتی۔ مابعد نفسیات پر بے شک یہ آخری کالم ہے لیکن قارئین مہمیز کے مستقل عنوان سے ہمارے کالم ایکسپریس میں پڑھتے رہیں گے، ہم کوشش کریں گے کہ نفسیات کے دیگر پہلوؤں پر وقتاً فوقتاً آپ سے گفتگو ہوتی رہے۔