موجودہ بحران میں فوج غیر جانبدار ہے تصادم سے جمہوریت ختم ہو سکتی ہے سراج الحق
حکومت کو عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے، خلیفہ وقت عدالت میں پیش ہو سکتا ہے تو موجودہ حکمراں کیوں نہیں
لاہور:
امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ موجودہ بحران میں فوج ابھی تک غیرجانب دار ہے اور اسے غیرجانب دار رہنا بھی چاہیے۔
پرامید ہوں کہ بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا پرچہ درج کرنے کے حوالے سے حکمرانوں کو عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ وہ ایکسپریس فورم میں گفتگو کررہے تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات امیرالعظیم، قیصرشریف اور فرحان شوکت بھی موجود تھے۔ میزبانی کے فرائض اجمل ستار ملک نے انجام دیے جبکہ پینل میں روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری اور چیف رپورٹر خالد قیوم بھی شامل تھے۔
امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال خوش آئند تونہیں لیکن مایوسی بھی گناہ ہے، کہنے کو تو ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے لیکن جمہور تو سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے لیکن موجودہ حکومت لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہوچکی ہے، ہم نے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے عمران خان کی باتیں سنیں اور مرکزی حکومت سے بات کی اور اپنی طرف سے بحران کے حل کے لیے تجاویز دیں، ہم نے کوشش کی کہ فریقین کا موقف سن کر درمیانی راستہ نکالا جائے، الحمدللہ ہم اس حد تک تو کامیاب ہوگئے کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا، ایک لحاظ سے یہ 50 فیصد کامیابی ہے اور کچھ مراحل ابھی باقی ہیں۔
بہت سے لوگ بالکل مایوس ہیں لیکن مایوسی میں ہمارے لیے بہت سے خطرات ہیں کیونکہ ٹکراؤ کے نتیجے میں جمہوریت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور مارشل لاکا راستہ بن سکتا ہے اس لیے ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے رابطہ کیا ہے اور خوشی ہے کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس بحران کا کوئی سیاسی حل نکلے، حکومت نے گزشتہ روز اسلام آباد آنے کی درخواست کی تھی اور خصوصی طیارہ بھی بھجوانے کی پیشکش کی تھی تاہم پارٹی سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پہلے آج (اتوارکو) اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے طے شدہ ملاقات کر لی جائے اور اس کے بعد حکومت کے پاس جایا جائے۔ انھوں نے کہاکہ ہمارا ہدف تو یہ ہے کہ ڈنڈے، بندوق یا توپ کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑے، ہم توڑ کے بجائے جوڑ کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت فوری ختم ہو جائے تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں ایسا ضروری نہیں کیونکہ 1977میں بھی ایسا تجربہ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا تھا، یہ وہ لمحہ ہے کہ حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے اور اصلاحات کے لیے بھی تیار ہو۔ سراج الحق نے ایک سوال پر کہا کہ اپوزیشن آپس میں متفق ہے، سب کے مطالبات ایک ہی ہیں البتہ طریقہ کار میں فرق ہے، موجودہ مشاورتی عمل میں اسمبلیوں کی مدت کم کرنے کی تجویز بھی زیرغورہے ۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ فوج اس وقت حالت جنگ میں ہے، فوج کو پرامن ماحول کی ضرورت ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ فوج موجودہ بحران میں ابھی تک غیرجانب دار ہے اور اسے غیر جانب دار رہنا بھی چاہیے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پرچہ درج کرنے کے عدالتی حکم کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ حکمرانوں کو عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے، اگر خلیفہ وقت عدالت میں حاضر ہو سکتے ہیں تو موجودہ حکمراں کیوںعدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے۔ ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ طاہرالقادری کے 10 نکات جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں،ان میں لچک ہی لچک دکھائی دیتی ہے، اگر مسائل وہی ہیں جو اخبارات میں آرہے ہیں تو پھر تو معاملات کا حل آسان دکھائی دیتا ہے باقی دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ موجودہ بحران میں فوج ابھی تک غیرجانب دار ہے اور اسے غیرجانب دار رہنا بھی چاہیے۔
پرامید ہوں کہ بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا پرچہ درج کرنے کے حوالے سے حکمرانوں کو عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ وہ ایکسپریس فورم میں گفتگو کررہے تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات امیرالعظیم، قیصرشریف اور فرحان شوکت بھی موجود تھے۔ میزبانی کے فرائض اجمل ستار ملک نے انجام دیے جبکہ پینل میں روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری اور چیف رپورٹر خالد قیوم بھی شامل تھے۔
امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال خوش آئند تونہیں لیکن مایوسی بھی گناہ ہے، کہنے کو تو ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے لیکن جمہور تو سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے لیکن موجودہ حکومت لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہوچکی ہے، ہم نے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے عمران خان کی باتیں سنیں اور مرکزی حکومت سے بات کی اور اپنی طرف سے بحران کے حل کے لیے تجاویز دیں، ہم نے کوشش کی کہ فریقین کا موقف سن کر درمیانی راستہ نکالا جائے، الحمدللہ ہم اس حد تک تو کامیاب ہوگئے کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا، ایک لحاظ سے یہ 50 فیصد کامیابی ہے اور کچھ مراحل ابھی باقی ہیں۔
بہت سے لوگ بالکل مایوس ہیں لیکن مایوسی میں ہمارے لیے بہت سے خطرات ہیں کیونکہ ٹکراؤ کے نتیجے میں جمہوریت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور مارشل لاکا راستہ بن سکتا ہے اس لیے ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے رابطہ کیا ہے اور خوشی ہے کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس بحران کا کوئی سیاسی حل نکلے، حکومت نے گزشتہ روز اسلام آباد آنے کی درخواست کی تھی اور خصوصی طیارہ بھی بھجوانے کی پیشکش کی تھی تاہم پارٹی سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پہلے آج (اتوارکو) اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے طے شدہ ملاقات کر لی جائے اور اس کے بعد حکومت کے پاس جایا جائے۔ انھوں نے کہاکہ ہمارا ہدف تو یہ ہے کہ ڈنڈے، بندوق یا توپ کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑے، ہم توڑ کے بجائے جوڑ کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت فوری ختم ہو جائے تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں ایسا ضروری نہیں کیونکہ 1977میں بھی ایسا تجربہ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا تھا، یہ وہ لمحہ ہے کہ حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے اور اصلاحات کے لیے بھی تیار ہو۔ سراج الحق نے ایک سوال پر کہا کہ اپوزیشن آپس میں متفق ہے، سب کے مطالبات ایک ہی ہیں البتہ طریقہ کار میں فرق ہے، موجودہ مشاورتی عمل میں اسمبلیوں کی مدت کم کرنے کی تجویز بھی زیرغورہے ۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ فوج اس وقت حالت جنگ میں ہے، فوج کو پرامن ماحول کی ضرورت ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ فوج موجودہ بحران میں ابھی تک غیرجانب دار ہے اور اسے غیر جانب دار رہنا بھی چاہیے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پرچہ درج کرنے کے عدالتی حکم کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ حکمرانوں کو عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے، اگر خلیفہ وقت عدالت میں حاضر ہو سکتے ہیں تو موجودہ حکمراں کیوںعدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے۔ ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ طاہرالقادری کے 10 نکات جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں،ان میں لچک ہی لچک دکھائی دیتی ہے، اگر مسائل وہی ہیں جو اخبارات میں آرہے ہیں تو پھر تو معاملات کا حل آسان دکھائی دیتا ہے باقی دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔