سگ گزیدگی سے2500افراد ریبیز کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں ماہرین

ریبیزکے علاج کیلیے کوئی اچھی ویکسین دستیاب نہیں ہے

دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے متاثرہ ہر سال 55ہزار افراد ریبیز جیسے خطرناک مرض کا شکارہوجاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ماہرین طب نے کہاہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے متاثرہ ہر سال 55ہزار افراد ریبیز جیسے خطرناک مرض کا شکارہوجاتے ہیں ان میں سے 25سو افراد کا تعلق پاکستان سے ہوتاہے ان افرادکو فوری بہتر علاج فراہم نہ کرنیکی وجہ سے تقریباً20فیصد افراد مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

لہٰذا پاکستان میں آوارہ کتوں کے خاتمے کیلیے ضروری اقدامات کیے جائیں اور آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے موثر مہم شروع کی جائے۔


یہ بات مائیکروبیالوجی ایسوسی پاکستان کے چیئرمین اور اردو نیورسٹی کے لیکچرار سکندرشیروانی اوردیگرنے فرنچ کلچر سینٹرڈیفنس میں منعقدہ آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انھوں نے کہا کہ کتے سمیت ،بلی،گدھا ، لومڑی، بندر کے پنچوں اوران کے کاٹنے کے تین ہفتوں کے بعد ریبیزکی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

جس کی ابتدائی علامات میں گردن میں درد،سرمیں درد،سرکو جھنجھوڑنا،رگیں اکٹر جانا،روشنی اور پانی سے ڈرنا سمیت دیگر علامات شامل ہیں اور ایسی صورت میں مریض کو فوری اسپتال میں داخل کرکے علاج کرنا ضروری ہوتا ہے،ایسے مریضوں کوہائیڈروفوبیا ہوجاتا ہے،انھوںنے کہا کہ ریبیزکے علاج کیلیے کوئی اچھی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔

جس کی وجہ سے ریبیز کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکاہے، انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک بھر کے تمام بڑے اسپتالوں میں '' ڈاگ بائیٹ کلینک'' قائم کرے جہاں پر آنے والے تمام متاثرہ افراد کو فوری طور پرویکسین کی سہولیات فراہم کی جاسکیں،انھوںنے کہاکہ ریبیز کے زیادہ ترکیسز دیہی علاقوں میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

کیونکہ وہاںپر کتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ریبیز کے کیسز زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں ،اس موقع پر فرنچ کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر ڈینئل پولمی اورکراچی یونیورسٹی، اردو یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات بھی موجود تھے۔
Load Next Story