سیاسی خاندانوں کی نئی ’’ذہانت‘‘
پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی نئی چالاکی کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم پہلے بھارت کے نہرو گاندھی خاندان کی تاریخ۔۔۔
KARACHI:
پاکستان میں بھٹو، شریف اور چوہدری خاندانوں کو سیاسی خانوادے کہا جاسکتا ہے، امریکا میں کینڈی و بش تو بھارت میں نہروگاندھی پریوار اس فہرست میں شامل ہیں۔ بنگلہ دیش میں مجیب و ضیا آج کی حقیقت ہیں تو سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
سیاسی مقبولیت، پیسہ اور افرادی قوت وہ تین شرائط ہیں جن سے کوئی سیاسی خاندان جنم لیتا ہے، اقتدار کی قربت اور پھر اپنی اولاد کو تیارکرنا اس کام کی چوتھی اور پانچویں شرطیں ہیں۔ ماؤ، خمینی، مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا اپنے خاندانوں کو آگے لائے بغیر سیاست یا دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سیاسی خانوادے بڑی چالاکی سے اپنی آنے والی نسلوں کو اقتدار کے لیے تیار کرتے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کو دو تین صدیاں گزرنے کے باوجود بادشاہت کا نیا روپ ہمارے سامنے ہے۔ اب پاکستان کے سیاسی خاندانوں نے ایک نئی چالاکی اختیار کی ہے۔
بھٹو خاندان سے قبل پاکستان میں سیاسی خانوادوں کا تصور بڑا پھیکا تھا۔ ایک دو قومی اسمبلی کی نشستوں یا تین چار صوبائی سیٹوں سے زیادہ کوئی تصور نہ تھا۔ قائد اعظم کی زندگی میں محترمہ فاطمہ جناح کا کوئی سیاسی کردار نہ تھا۔ دو عشروں بعد اپوزیشن نے انھیں ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار بنایا۔ لیاقت علی کے بعد بیگم رعنا سماجی خدمات تک محدود تھیں۔
دولتانہ، قیوم، کھوڑو اور جمالی جیسے وزرائے اعلیٰ اپنے بعد صوبے کی قیادت اولاد کو منتقل نہ کرسکے۔ یوں بھٹو خاندان پاکستان کا پہلا خاندان ہے جس نے شعوری طور پر اپنی اگلی نسل کو اپنی مقبولیت منتقل کی۔ پہلے بھٹو اپنی صاحبزادی بے نظیر کو شملہ لے گئے۔ دوسرے مرحلے پر آکسفورڈ یونی ورسٹی کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی صدارت۔ یہ وزارت خارجہ میں دلچسپی تھی یا اقتدار کی غلام گردشوں سے قریب رہنے کی منصوبہ بندی؟ تاریخ اس سوال کا جواب دے گی، خود بخود مل جانے والی پارٹی صدارت نصرت بھٹو سے وابستہ ہے۔
پیپلز پارٹی اقتدار سے محروم اور قائد کے جیل میں ہونے کے سبب لیڈر کی حاجت مند تھی۔ راولپنڈی کے شیخ محمد رشید سینئر وائس چیئرمین تھے۔ ''بابائے سوشلزم'' کو پیچھے دھکیل کر قیادت کا تاج نصرت بھٹو کے سر پر سجایا گیا۔ اس عمل میں بھٹو خاندان کی شعوری کوشش کا کوئی دخل نہ تھا۔ بے نظیر کا شریک چیئر پرسن بننا اور زمام کار اپنے ہاتھ میں لے لینا ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ یہ خواب شاہ نواز کی تدفین کے موقعے پر جیالوں کی پرجوش دیوانگی نے دکھایا۔
بے نظیر بھٹو کی تین عشروں کی سیاسی زندگی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جدوجہد، اقتدار کا کھیل اورجلاوطنی کی تکالیف۔ شہادت کے بعد وصیت کے ذریعے آصف اور بلاول کی چیئرمینی زرداری کا پارٹی کو سنبھالنا اور صدارت کے منصب سے خیریت سے رخصت ہوجانا آج کے طالب علموں کے علم میں ہے۔ اب بلاول آگے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ تو بھارت میں سونیا اور راہول بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی نئی ''ذہانت'' کیا ہے؟
پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی نئی چالاکی کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم پہلے بھارت کے نہرو گاندھی خاندان کی تاریخ پر نگاہ دہرالیں۔ موتی لال نہرو کے بیٹے جواہر کانگریس کی تحریک آزادی کے دوسرے بڑے رہنما تھے۔ وہ سترہ سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔ ان کے دور میں اندرا گاندھی کو عام سا وزیر بنایا گیا۔ جب نہرو کے انتقال کے بعد شاستری وزیراعظم بنے تو اندرا گاندھی کو اطلاعات کا اہم محکمہ دیا گیا۔
بزرگ سیاست دان کے اچانک انتقال پر اندرا کو ہندوستان کا پردھان منتری بنایا گیا۔ خاندان کی سیاسی بقا کے لیے انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سنجے کو جانشین بنانا چاہا۔ ہوائی حادثے کا شکار ہوجانے کے بعد دکھیاری ماں نے پائلٹ بیٹے راجیو کو تیار کیا۔ ماں کے قتل کے بعد راجیو پانچ سال وزیراعظم رہے اور اگلا انتخاب ہار گئے۔ دو سال بعد سن 91 میں تامل لڑکی کے خودکش حملے نے راجیو کی جان لے لی۔
بیوہ سونیا کے سامنے بیٹے راہول کے علاوہ بیٹی پریانکا تھیں۔ ماں عموماً حکمرانی کے لیے بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کو پسند کرتی ہے۔ نصرت بھٹو بھی بے نظیر و مرتضیٰ کشمکش کے دور میں دختر کے بجائے فرزند کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ذہین پریانکا گھر گر ہستی کو رہ گئیں اور اقتدار کی غلام گردشوں کے لیے اوسط ذہن کا راہول ہے۔ بھارت کی بات کو سمجھے بغیر ہم نئی صدی میں بھٹو و شریف خاندان کی نئی ''ذہانت'' کو نہیں سمجھ سکیںگے۔
نواز شریف پہلے صوبائی وزیر اور پھر وزیراعلیٰ بنے۔ 85 میں شہری وزیراعلیٰ کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پنجاب کے چیف کے لیے جاگیردار و سرمایہ دار اور دیہی و شہری کشمکش میں جنرل ضیا کا ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے'' والا بیان پاکستان کی سیاست کے رخ کو بدل گیا۔ تین سال بعد بھی طاقت ور حلقوں نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا۔ بے نظیر کو ٹف ٹائم دینے پر نوے میں وزارت عظمیٰ ملی۔ یہ آئی جے آئی کا دور تھا۔ جتوئی اور جونیجو کے ہوتے ہوئے خاندان کے کسی فرد کو آگے نہیں لایا جاسکتا تھا۔
تین سال بعد پھر بے نظیر برسر اقتدار آئیں۔ پنجاب تو انھوں نے شریفوں سے لے لیا لیکن وزیراعلیٰ کا منصب پیپلز پارٹی کو نہ ملا۔ مجبوراً اٹھارہ اراکین اسمبلی کے قائد منظور وٹو کو یہ عہدہ دینا پڑا۔ 97 میں مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو پنجاب کا وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بنایا گیا۔ یہ سوچا گیا کہ اصل طاقت پنجاب میں ہے اور اسے کسی اور کو دے کر پاؤں پر کلہاڑا نہیں مارنا چاہیے۔ سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا کہ 12 اکتوبر کو مشرف آگئے۔ جلاوطنی کے دوران پاکستان میں شریف خاندان کے معاملات حمزہ نے سنبھالے۔
جدہ سے واپسی ہوئی تو 2008 میں پنجاب کا اقتدار اور پانچ سال بعد وزارت عظمیٰ کی ہیٹ ٹرک ہوئی۔ حالات نے دوسری بار دونوں بھائیوں کو اسلام آباد اور لاہور کا اقتدار بخشا ہے۔ اب عمر چالیس کے بجائے ساٹھ کے ہندسے کو عبور کررہی ہے بچے بڑے ہورہے ہیں۔ بلاول و مونس الٰہی کی طرح حمزہ میدان میں ہیں۔ اب تک سمجھ میں نہیں آرہا کہ بھٹو و شریف خاندان کیا ذہانت دکھا رہے ہیں؟ ایسی سیاسی حکمت عملی جو دنیا میں کسی سیاسی خانوادے نے نہیں اپنائی۔ وہ ترکیب جو سونیا کو پریانکا کے لیے نہ سوجھی، حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کی سمجھ میں نہ آئی۔ بش اور بندرا نائیکے کے خیالات میں نہ سمائی۔
کالم اختتامی لمحے پر آگیا ہے تاریخ تو ہم نے جان لی لیکن اتنا سسپنس بھی ٹھیک نہیں۔ سیاسی کالم کو جاسوسی ناول نہیں ہونا چاہیے۔ مریم نواز اور آصفہ بھٹو کو آگے لانا دونوں خاندانوں کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ سیاسی کاموں کے لیے بیٹا تو سماجی کاموں کے لیے بیٹی کو تیار کیا جارہا ہے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں سر گرم، جانی پہچانی اور مشہور و معروف خاتون اپنے بھائی یا کزن کی جگہ لے سکتی ہے۔
نام کے ساتھ بھٹو یا شریف اور خون میں حکمرانی کی گردش۔ یوں اگر ہم پرانی نسل کے پرستار ہیں تو کل ہماری اولاد ان ہی خاندانوں کی نئی نسل کی پرستار ہوگی۔ یہاں لفظ غلام برا لگے اس لیے پرستار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یوں اس مرحلے پر بھی ہم کالم کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ذہین قارئین تو ضرور کہیں گے کہ کالم نگار نے ظاہر کردی ہے سیاسی خاندانوں کی نئی ذہانت۔
پاکستان میں بھٹو، شریف اور چوہدری خاندانوں کو سیاسی خانوادے کہا جاسکتا ہے، امریکا میں کینڈی و بش تو بھارت میں نہروگاندھی پریوار اس فہرست میں شامل ہیں۔ بنگلہ دیش میں مجیب و ضیا آج کی حقیقت ہیں تو سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
سیاسی مقبولیت، پیسہ اور افرادی قوت وہ تین شرائط ہیں جن سے کوئی سیاسی خاندان جنم لیتا ہے، اقتدار کی قربت اور پھر اپنی اولاد کو تیارکرنا اس کام کی چوتھی اور پانچویں شرطیں ہیں۔ ماؤ، خمینی، مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا اپنے خاندانوں کو آگے لائے بغیر سیاست یا دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سیاسی خانوادے بڑی چالاکی سے اپنی آنے والی نسلوں کو اقتدار کے لیے تیار کرتے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کو دو تین صدیاں گزرنے کے باوجود بادشاہت کا نیا روپ ہمارے سامنے ہے۔ اب پاکستان کے سیاسی خاندانوں نے ایک نئی چالاکی اختیار کی ہے۔
بھٹو خاندان سے قبل پاکستان میں سیاسی خانوادوں کا تصور بڑا پھیکا تھا۔ ایک دو قومی اسمبلی کی نشستوں یا تین چار صوبائی سیٹوں سے زیادہ کوئی تصور نہ تھا۔ قائد اعظم کی زندگی میں محترمہ فاطمہ جناح کا کوئی سیاسی کردار نہ تھا۔ دو عشروں بعد اپوزیشن نے انھیں ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار بنایا۔ لیاقت علی کے بعد بیگم رعنا سماجی خدمات تک محدود تھیں۔
دولتانہ، قیوم، کھوڑو اور جمالی جیسے وزرائے اعلیٰ اپنے بعد صوبے کی قیادت اولاد کو منتقل نہ کرسکے۔ یوں بھٹو خاندان پاکستان کا پہلا خاندان ہے جس نے شعوری طور پر اپنی اگلی نسل کو اپنی مقبولیت منتقل کی۔ پہلے بھٹو اپنی صاحبزادی بے نظیر کو شملہ لے گئے۔ دوسرے مرحلے پر آکسفورڈ یونی ورسٹی کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی صدارت۔ یہ وزارت خارجہ میں دلچسپی تھی یا اقتدار کی غلام گردشوں سے قریب رہنے کی منصوبہ بندی؟ تاریخ اس سوال کا جواب دے گی، خود بخود مل جانے والی پارٹی صدارت نصرت بھٹو سے وابستہ ہے۔
پیپلز پارٹی اقتدار سے محروم اور قائد کے جیل میں ہونے کے سبب لیڈر کی حاجت مند تھی۔ راولپنڈی کے شیخ محمد رشید سینئر وائس چیئرمین تھے۔ ''بابائے سوشلزم'' کو پیچھے دھکیل کر قیادت کا تاج نصرت بھٹو کے سر پر سجایا گیا۔ اس عمل میں بھٹو خاندان کی شعوری کوشش کا کوئی دخل نہ تھا۔ بے نظیر کا شریک چیئر پرسن بننا اور زمام کار اپنے ہاتھ میں لے لینا ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ یہ خواب شاہ نواز کی تدفین کے موقعے پر جیالوں کی پرجوش دیوانگی نے دکھایا۔
بے نظیر بھٹو کی تین عشروں کی سیاسی زندگی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جدوجہد، اقتدار کا کھیل اورجلاوطنی کی تکالیف۔ شہادت کے بعد وصیت کے ذریعے آصف اور بلاول کی چیئرمینی زرداری کا پارٹی کو سنبھالنا اور صدارت کے منصب سے خیریت سے رخصت ہوجانا آج کے طالب علموں کے علم میں ہے۔ اب بلاول آگے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ تو بھارت میں سونیا اور راہول بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی نئی ''ذہانت'' کیا ہے؟
پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی نئی چالاکی کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم پہلے بھارت کے نہرو گاندھی خاندان کی تاریخ پر نگاہ دہرالیں۔ موتی لال نہرو کے بیٹے جواہر کانگریس کی تحریک آزادی کے دوسرے بڑے رہنما تھے۔ وہ سترہ سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔ ان کے دور میں اندرا گاندھی کو عام سا وزیر بنایا گیا۔ جب نہرو کے انتقال کے بعد شاستری وزیراعظم بنے تو اندرا گاندھی کو اطلاعات کا اہم محکمہ دیا گیا۔
بزرگ سیاست دان کے اچانک انتقال پر اندرا کو ہندوستان کا پردھان منتری بنایا گیا۔ خاندان کی سیاسی بقا کے لیے انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سنجے کو جانشین بنانا چاہا۔ ہوائی حادثے کا شکار ہوجانے کے بعد دکھیاری ماں نے پائلٹ بیٹے راجیو کو تیار کیا۔ ماں کے قتل کے بعد راجیو پانچ سال وزیراعظم رہے اور اگلا انتخاب ہار گئے۔ دو سال بعد سن 91 میں تامل لڑکی کے خودکش حملے نے راجیو کی جان لے لی۔
بیوہ سونیا کے سامنے بیٹے راہول کے علاوہ بیٹی پریانکا تھیں۔ ماں عموماً حکمرانی کے لیے بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کو پسند کرتی ہے۔ نصرت بھٹو بھی بے نظیر و مرتضیٰ کشمکش کے دور میں دختر کے بجائے فرزند کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ذہین پریانکا گھر گر ہستی کو رہ گئیں اور اقتدار کی غلام گردشوں کے لیے اوسط ذہن کا راہول ہے۔ بھارت کی بات کو سمجھے بغیر ہم نئی صدی میں بھٹو و شریف خاندان کی نئی ''ذہانت'' کو نہیں سمجھ سکیںگے۔
نواز شریف پہلے صوبائی وزیر اور پھر وزیراعلیٰ بنے۔ 85 میں شہری وزیراعلیٰ کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پنجاب کے چیف کے لیے جاگیردار و سرمایہ دار اور دیہی و شہری کشمکش میں جنرل ضیا کا ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے'' والا بیان پاکستان کی سیاست کے رخ کو بدل گیا۔ تین سال بعد بھی طاقت ور حلقوں نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا۔ بے نظیر کو ٹف ٹائم دینے پر نوے میں وزارت عظمیٰ ملی۔ یہ آئی جے آئی کا دور تھا۔ جتوئی اور جونیجو کے ہوتے ہوئے خاندان کے کسی فرد کو آگے نہیں لایا جاسکتا تھا۔
تین سال بعد پھر بے نظیر برسر اقتدار آئیں۔ پنجاب تو انھوں نے شریفوں سے لے لیا لیکن وزیراعلیٰ کا منصب پیپلز پارٹی کو نہ ملا۔ مجبوراً اٹھارہ اراکین اسمبلی کے قائد منظور وٹو کو یہ عہدہ دینا پڑا۔ 97 میں مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو پنجاب کا وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بنایا گیا۔ یہ سوچا گیا کہ اصل طاقت پنجاب میں ہے اور اسے کسی اور کو دے کر پاؤں پر کلہاڑا نہیں مارنا چاہیے۔ سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا کہ 12 اکتوبر کو مشرف آگئے۔ جلاوطنی کے دوران پاکستان میں شریف خاندان کے معاملات حمزہ نے سنبھالے۔
جدہ سے واپسی ہوئی تو 2008 میں پنجاب کا اقتدار اور پانچ سال بعد وزارت عظمیٰ کی ہیٹ ٹرک ہوئی۔ حالات نے دوسری بار دونوں بھائیوں کو اسلام آباد اور لاہور کا اقتدار بخشا ہے۔ اب عمر چالیس کے بجائے ساٹھ کے ہندسے کو عبور کررہی ہے بچے بڑے ہورہے ہیں۔ بلاول و مونس الٰہی کی طرح حمزہ میدان میں ہیں۔ اب تک سمجھ میں نہیں آرہا کہ بھٹو و شریف خاندان کیا ذہانت دکھا رہے ہیں؟ ایسی سیاسی حکمت عملی جو دنیا میں کسی سیاسی خانوادے نے نہیں اپنائی۔ وہ ترکیب جو سونیا کو پریانکا کے لیے نہ سوجھی، حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کی سمجھ میں نہ آئی۔ بش اور بندرا نائیکے کے خیالات میں نہ سمائی۔
کالم اختتامی لمحے پر آگیا ہے تاریخ تو ہم نے جان لی لیکن اتنا سسپنس بھی ٹھیک نہیں۔ سیاسی کالم کو جاسوسی ناول نہیں ہونا چاہیے۔ مریم نواز اور آصفہ بھٹو کو آگے لانا دونوں خاندانوں کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ سیاسی کاموں کے لیے بیٹا تو سماجی کاموں کے لیے بیٹی کو تیار کیا جارہا ہے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں سر گرم، جانی پہچانی اور مشہور و معروف خاتون اپنے بھائی یا کزن کی جگہ لے سکتی ہے۔
نام کے ساتھ بھٹو یا شریف اور خون میں حکمرانی کی گردش۔ یوں اگر ہم پرانی نسل کے پرستار ہیں تو کل ہماری اولاد ان ہی خاندانوں کی نئی نسل کی پرستار ہوگی۔ یہاں لفظ غلام برا لگے اس لیے پرستار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یوں اس مرحلے پر بھی ہم کالم کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ذہین قارئین تو ضرور کہیں گے کہ کالم نگار نے ظاہر کردی ہے سیاسی خاندانوں کی نئی ذہانت۔