میڈیا واچ ڈاگ – اس میں غلط کیا ہے

بھارت جیسے ملک میں جہاں ریپ کے کئی واقعات منظرِ عام پر آچکے ہیں وہاں اس طرح کے پوسٹر پر اتنا شور مچانے کا کیا جواز ہے؟

بھارت جیسے ملک میں جہاں ریپ کے کئی واقعات منظرِ عام پر آچکے ہیں وہاں اس طرح کے پوسٹر پر اتنا شور مچانے کا کیا جواز ہے؟ فوٹو : فائل

عامر خان عرف" مسٹر پرفیکٹ" کوکون نہیں جانتا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ بھارتی اداکار نے ترقی کے بے شمار منازل طے کئے ہیں اور اب پھر ایک نئی کامیابی کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے راج کمار ہیرانی کی فلم "پی کے" میں کام کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن اس بار قسمت شاید مسٹر پرفیکٹ پر اتنی مہربان دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ حال ہی میں ان کی فلم کے پوسٹر پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل ظاہر کیا گیا۔


یہاں تک کہ پوسٹر کی ریلیز کے کچھ گھنٹے بعد ہی عامر خان اور ہیرانی کے خلاف ایڈووکیٹ منوج کمار کی جانب سے مبینہ فحاشی پھیلانے اور مذہبی جذبات مجروح کرنے مقدمہ درج کیا گیا۔ جس کی سماعت گزشتہ دنوں بھارتی سپریم کورٹ میں زور و شور سے جاری تھی۔


جب عدلت کے سامنے پوسٹر دکھایا گیا تو درخواست گزار کے وکیل سے تین رکنی بینچ نے سوال کیا کہ'' اس میں غلط کیا ہے؟ اس طرح کی چیزوں پر بہت زیادہ حساس ہونے کی ضرورت نہیں''۔ اور عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے بعد فلم پر لگے الزامات مسترد کر دیئے گئے۔ ایک سوال جو یہاں میرے ذہن میں جنم لے رہا ہے وہ یہ کہ کیا واقعی بھارت جیسے ملک میں جہاں ریپ کے کئی واقعات منظرِ عام پر آچکے ہیں، جہاں فحاش مواد کی تلاش کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال عام ہے، وہاں اس طرح کے پوسٹر پر اتنا شور مچانے کا کیا جواز ہے؟


لیکن ہمارا فرض بھی تو ہے کہ ہم نوجوان نسل کو برائیوں سے روکیں کیونکہ جو مداح اپنے من پسند اداکار یا اداکاراؤں کے اٹھنے بیٹھے سے لر کر ہر چیز کو آنکھ بند کر کے اپنا لیتے ہیں ان پر اس پوسٹر کا کیا اثر پڑے گا؟۔



عدالت کا یہ کہنا کہ مذہب اور انٹرٹینمنٹ کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے اور انٹرٹینمٹ کو مذہبی رخ نہ دیا جائے، صحیح بات ہے۔ تو دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا تفریح کا یہ طریقہِ کار صحیح ہے؟ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جب بھارتی فلموں میں اس طرح کا فحش مواد دکھایا جارہا ہو۔ اس سے پہلے کئی بار بھارتی فلموں میں کئی بولڈ سین دکھائے جاچکے ہیں، اکثر ایسے مذاق پیش کئے جاتے ہیں جن سے فحاشی کو فروغ ملتا ہے مگر انہیں کوئی نہیں دیکھتا۔


یہ تضاد تب بھی نظر آیا جب سنی لیون کو بھارتی فلموں میں کام کرنے کی اجازت ملی تب تو کسی وکیل، کسی عدالت، کسی سماجی حقوق کی بات کرنے والی تنظیم نے کچھ نہیں کہا۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟


لیکن عدالت کے پاس ان سب باتوں سے نمٹنے کا بہترین حل یہ ہے کہ ''جسے اعتراض ہے وہ فلم ہی نہ دیکھے'' جبکہ عدلیہ سے اس قسم کے رویئے کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی ۔ایک لحاظ سے منوج کمار کی بات سے اتفاق کرنا صحیح ہو گا کہ یہ تصاویر بچے،بوڑھے سب دیکھیں گے۔


لیکن کمار صاحب! آپ سے گزارش ہے یہ محض ایک تصویر نہیں بلکہ ایک نظر عمران ہاشمی کی فلموں پر بھی ڈالیں پھر اسی طرح انٹرٹینمنٹ پر موجود غیر اخلاقی مواد کو بھی ختم کروائیں تاکہ فحاشی اور بڑھتے ہوئے جنسی واقعات کو روکا جا سکے کیونکہ دنیا کی کوئی بھی قوم غیر اخلاقی باتوں کو پسند نہیں کرسکتی۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story