مودی کا زعفرانی انقلاب
نریندر مودی ایک ہی سانس میں مختلف اور متضاد باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔۔
بھارت کے نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران لداخ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاچن پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، پاکستان کشمیر میں پراکسی وار لڑ رہا ہے کیونکہ وہ روایتی جنگ کی طاقت کھو چکا ہے، شدت پسندوں کی حمایت کی وجہ بھی یہی ہے۔ موصوف نے اس الزام تراشی کے ساتھ ساتھ دو باتیں ایسی بھی کہہ دی ہیں جو خود ان کے الزامی خیالات کے برعکس ہیں۔
موصوف نے کہا ہے کہ ہم بندوقوں کی گرج نہیں بلکہ معاشی ترقی چاہتے ہیں، دوسری بات وہ مقبوضہ کشمیر میں زعفرانی انقلاب لائیں گے۔ اس انقلاب کے لیے انھوں نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کی ذمے 60 کروڑ مالیت کے واجب الادا ٹیکس معاف کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ نریندر مودی سیاچن کے دورے کے بعد کشمیر پہنچے ہیں لداخ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کشمیر کی تعمیر و ترقی کے لیے اتنے بھاری وسائل مہیا کریں گے کہ نفرت ٹکراؤ کی فضا، ترقی اور خوشحالی کی فضا میں بدل جائے گی۔
نریندر مودی ایک ہی سانس میں مختلف اور متضاد باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پاکستان پر روایتی جنگ کی طاقت کھو دینے کا الزام یا طعنہ دیتے ہوئے وہ یہ حقیقت فراموش کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے اور پاکستان کے اس ریڈ زون میں داخلے کی وجہ بھارت کی فوجی برتری کا وہ خوف ہے جس کا شکار پاکستان 1965 اور 1971 میں ہوچکا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ فوجی اور معاشی طاقت رکھنے والے بھارت کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اصل بات یہ ہے کہ بھارت کی یہ فوجی تیاریاں خاص طور پر ہتھیاروں کی صنعت لگانے کے لیے مغربی ملکوں کو ترغیب فراہم کرنا اس بدنما حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ بھارت کا حکمران ٹولہ اس خطے میں اپنی فوجی برتری قائم کرکے اس خطے کے چھوٹے ممالک پر اپنی برتری قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا سے فوجی معاہدے اور چین کے خلاف امریکا کے حصار میں بھارت کی شمولیت سے بھارتی حکمران طبقے کی جنگجویانہ ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی نے پاکستان پر جو الزامات لگائے ہیں ان میں ایک الزام یہ ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کا جس جماعت سے تعلق ہے وہ بھارت کی شدت پسند جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت ہے اور اس جماعت نے ہندو توا کے نام پر بھارتی عوام میں اتنا مذہبی زہر گھولا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھارتی عوام نے اس کی جماعت کو بڑی تعداد میں ووٹ دے کر اقتدار کا مالک بنادیا پاکستان میں پچھلے 66 سالوں سے جو جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی شدت پسند نہیں ہے۔ پاکستان کی بی جے پی ٹائپ کی جماعتوں کو یہاں کے عوام نے ہمیشہ مسترد کردیا ہے اس پس منظر میں پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کا الزام ایک بے ہودہ بکواس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی نے بھارتی عوام کو اس قدر شدت پسند بنادیا ہے کہ وہ اب بی جے پی جیسی شدت پسند جماعت کو اقتدار میں لا رہے ہیں اور نریندر مودی جیسا شدت پسندی کے حوالے سے بدنام شخص بھارت کا وزیر اعظم بن گیا ہے۔ جس پر گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ نریندر مودی بھارت میں جس انتہا پسندی کو مستحکم کر رہا ہے اس پر خود بھارت کے لبرل دانشور اور قلمکار سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کلدیپ نائر کا شمار بھارت کے ان اہل قلم میں ہوتا ہے جو شدت پسندی کے سخت خلاف ہیں۔
ایکسپریس میں شایع ہونے والے اپنے کالم میں کلدیپ نائر کہتے ہیں ''ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت انتظامی تبدیلیوں کے لیے ایک کمیشن قائم کرنا چاہتی ہے اور خطرہ ہے کہ یہ کمیشن زعفرانی لباس والوں پر مشتمل ہوگا اور ایسا کمیشن انتظامی ڈھانچے کو ہندوتوا کے مطابق ڈھالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں بھارتی عوام نے بی جے پی کو ووٹ دیے ہیں۔ مودی حکومت عوام کی بہتری کے لیے کام کرنے کے بجائے وہ زعفرانی لبادوں والوں کے لیے پروگرام ترتیب دے رہی ہے۔''
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن اس صلاحیت کے حصول کے لیے پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے اور اس صلاحیت کے سامنے روایتی جنگ کی صلاحیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر بھارت اپنی روایتی جنگ کی صلاحیت کی برتری، ایٹمی طاقت کے زعم میں پاکستان پر اپنی فوجی برتری مسلط کرناچاہتا ہے تو پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر مجبور ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو یہ خطہ جہنم میں بدل جائے گا۔ نریندر مودی کو ان خوفناک امکانات کو سامنے رکھنا چاہیے۔
نریندر مودی پاکستان پر پراکسی وار کا الزام لگا رہے ہیں وہ وار دہشت گردوں کے حوالے سے لڑی جا رہی ہے اگر ہم مان بھی لیتے ہیں کہ کشمیر میں جنگ لڑنے والے انتہا پسندوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے تو اس جنگ کو پراکسی جنگ کسی حوالے سے بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ جنگ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادی کی جنگ ہے جس کا اہم حصہ کشمیری عوام ہیں۔
میں ذاتی طور پر مذہب کے حوالے سے لڑی جانے والی ہر جنگ کا سخت ہوں لیکن کشمیر کی صورتحال بالکل مختلف ہے تقسیم کے بعد تقسیم کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن بھارت نے اپنی فوج بھیج کر کشمیر پر کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف قبضہ کرلیا اور پچھلے 66 سالوں سے فوج کے ذریعے کشمیر پر قابض ہے آج بھی 7-6 لاکھ بھارتی فوج کشمیر میں موجود ہے۔
اور کشمیر کے عوام بھارتی تسلط کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کر رہے ہیں اگر مودی کشمیری عوام کی بھارت مخالف ذہنیت کو سمجھ سکتا تو وہ کبھی یہ امید نہیں کرسکتا کہ کسی زعفرانی انقلاب کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ کشمیری عوام کے دلوں میں بھارت کے خلاف جو نفرت موجود ہے اسے نہ زعفرانی انقلاب سے دور کیا جاسکتا ہے نہ اس نفرت کو بھاری وسائل فراہم کرکے محبت میں بدلا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی جڑیں ایک ہزار سال کی گہرائی میں گڑھی ہوئی ہیں۔ اس نفرت کو ختم کرنے کے لیے کشمیریوں کو حق خود ارادی دینا ہوگا۔
نریندر مودی بندوقوں کی گھن گرج نہیں بلکہ ترقی چاہتے ہیں۔ موصوف کی اس نیک تمنا سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندوق کی گھن گرج کی نفسیات کا مظاہرہ پاکستان کر رہا ہے یا بھارت؟ اربوں ڈالر کے جدید ہتھیاروں کی خریداری حکومت اور فوج کی طرف سے پاکستان کو مختلف بہانوں سے دھمکانا، ہتھیاروں کے ذخیرے کرنے کی اندھی خواہش میں ترقی یافتہ ملکوں کو بھارت میں ناقابل یقین مراعات کے ساتھ بھارت میں ہتھیاروں کی صنعتیں قائم کرنے کی پیشکش اور امریکا کی چین مخالفت میں حصے داری کیا اس خطے کو بندوق کی گھن گرج کی طرف لے جائے گی؟ یا معاشی ترقی کی طرف؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نریندر مودی کی جماعت کی سیاست میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
مذہبی منافرت اگرچہ عوام کے حقوق کے استحصال سے پیدا ہوتی ہے لیکن اس کو محض بھاری معاشی امداد سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان تمام عوامل کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے جو انسانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرتے ہیں۔ نریندر مودی ایک مذہبی انتہا پسند کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس کے جواب میں اگر مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمے داری بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعتوں پر عائد ہوتی ہے اگر پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی دہشت گردی میں بدل گئی ہے تو اس کی اصل ذمے داری بی جے پی جیسی ذہنیت پر عائد ہوتی ہے۔ کیا اس حقیقت پر مودی غور فرمائیں گے؟
موصوف نے کہا ہے کہ ہم بندوقوں کی گرج نہیں بلکہ معاشی ترقی چاہتے ہیں، دوسری بات وہ مقبوضہ کشمیر میں زعفرانی انقلاب لائیں گے۔ اس انقلاب کے لیے انھوں نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کی ذمے 60 کروڑ مالیت کے واجب الادا ٹیکس معاف کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ نریندر مودی سیاچن کے دورے کے بعد کشمیر پہنچے ہیں لداخ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کشمیر کی تعمیر و ترقی کے لیے اتنے بھاری وسائل مہیا کریں گے کہ نفرت ٹکراؤ کی فضا، ترقی اور خوشحالی کی فضا میں بدل جائے گی۔
نریندر مودی ایک ہی سانس میں مختلف اور متضاد باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پاکستان پر روایتی جنگ کی طاقت کھو دینے کا الزام یا طعنہ دیتے ہوئے وہ یہ حقیقت فراموش کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے اور پاکستان کے اس ریڈ زون میں داخلے کی وجہ بھارت کی فوجی برتری کا وہ خوف ہے جس کا شکار پاکستان 1965 اور 1971 میں ہوچکا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ فوجی اور معاشی طاقت رکھنے والے بھارت کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اصل بات یہ ہے کہ بھارت کی یہ فوجی تیاریاں خاص طور پر ہتھیاروں کی صنعت لگانے کے لیے مغربی ملکوں کو ترغیب فراہم کرنا اس بدنما حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ بھارت کا حکمران ٹولہ اس خطے میں اپنی فوجی برتری قائم کرکے اس خطے کے چھوٹے ممالک پر اپنی برتری قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا سے فوجی معاہدے اور چین کے خلاف امریکا کے حصار میں بھارت کی شمولیت سے بھارتی حکمران طبقے کی جنگجویانہ ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی نے پاکستان پر جو الزامات لگائے ہیں ان میں ایک الزام یہ ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کا جس جماعت سے تعلق ہے وہ بھارت کی شدت پسند جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت ہے اور اس جماعت نے ہندو توا کے نام پر بھارتی عوام میں اتنا مذہبی زہر گھولا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھارتی عوام نے اس کی جماعت کو بڑی تعداد میں ووٹ دے کر اقتدار کا مالک بنادیا پاکستان میں پچھلے 66 سالوں سے جو جماعتیں برسراقتدار رہی ہیں ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی شدت پسند نہیں ہے۔ پاکستان کی بی جے پی ٹائپ کی جماعتوں کو یہاں کے عوام نے ہمیشہ مسترد کردیا ہے اس پس منظر میں پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کا الزام ایک بے ہودہ بکواس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی نے بھارتی عوام کو اس قدر شدت پسند بنادیا ہے کہ وہ اب بی جے پی جیسی شدت پسند جماعت کو اقتدار میں لا رہے ہیں اور نریندر مودی جیسا شدت پسندی کے حوالے سے بدنام شخص بھارت کا وزیر اعظم بن گیا ہے۔ جس پر گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ نریندر مودی بھارت میں جس انتہا پسندی کو مستحکم کر رہا ہے اس پر خود بھارت کے لبرل دانشور اور قلمکار سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کلدیپ نائر کا شمار بھارت کے ان اہل قلم میں ہوتا ہے جو شدت پسندی کے سخت خلاف ہیں۔
ایکسپریس میں شایع ہونے والے اپنے کالم میں کلدیپ نائر کہتے ہیں ''ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت انتظامی تبدیلیوں کے لیے ایک کمیشن قائم کرنا چاہتی ہے اور خطرہ ہے کہ یہ کمیشن زعفرانی لباس والوں پر مشتمل ہوگا اور ایسا کمیشن انتظامی ڈھانچے کو ہندوتوا کے مطابق ڈھالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں بھارتی عوام نے بی جے پی کو ووٹ دیے ہیں۔ مودی حکومت عوام کی بہتری کے لیے کام کرنے کے بجائے وہ زعفرانی لبادوں والوں کے لیے پروگرام ترتیب دے رہی ہے۔''
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن اس صلاحیت کے حصول کے لیے پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے اور اس صلاحیت کے سامنے روایتی جنگ کی صلاحیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر بھارت اپنی روایتی جنگ کی صلاحیت کی برتری، ایٹمی طاقت کے زعم میں پاکستان پر اپنی فوجی برتری مسلط کرناچاہتا ہے تو پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر مجبور ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو یہ خطہ جہنم میں بدل جائے گا۔ نریندر مودی کو ان خوفناک امکانات کو سامنے رکھنا چاہیے۔
نریندر مودی پاکستان پر پراکسی وار کا الزام لگا رہے ہیں وہ وار دہشت گردوں کے حوالے سے لڑی جا رہی ہے اگر ہم مان بھی لیتے ہیں کہ کشمیر میں جنگ لڑنے والے انتہا پسندوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے تو اس جنگ کو پراکسی جنگ کسی حوالے سے بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ جنگ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادی کی جنگ ہے جس کا اہم حصہ کشمیری عوام ہیں۔
میں ذاتی طور پر مذہب کے حوالے سے لڑی جانے والی ہر جنگ کا سخت ہوں لیکن کشمیر کی صورتحال بالکل مختلف ہے تقسیم کے بعد تقسیم کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن بھارت نے اپنی فوج بھیج کر کشمیر پر کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف قبضہ کرلیا اور پچھلے 66 سالوں سے فوج کے ذریعے کشمیر پر قابض ہے آج بھی 7-6 لاکھ بھارتی فوج کشمیر میں موجود ہے۔
اور کشمیر کے عوام بھارتی تسلط کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کر رہے ہیں اگر مودی کشمیری عوام کی بھارت مخالف ذہنیت کو سمجھ سکتا تو وہ کبھی یہ امید نہیں کرسکتا کہ کسی زعفرانی انقلاب کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ کشمیری عوام کے دلوں میں بھارت کے خلاف جو نفرت موجود ہے اسے نہ زعفرانی انقلاب سے دور کیا جاسکتا ہے نہ اس نفرت کو بھاری وسائل فراہم کرکے محبت میں بدلا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی جڑیں ایک ہزار سال کی گہرائی میں گڑھی ہوئی ہیں۔ اس نفرت کو ختم کرنے کے لیے کشمیریوں کو حق خود ارادی دینا ہوگا۔
نریندر مودی بندوقوں کی گھن گرج نہیں بلکہ ترقی چاہتے ہیں۔ موصوف کی اس نیک تمنا سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندوق کی گھن گرج کی نفسیات کا مظاہرہ پاکستان کر رہا ہے یا بھارت؟ اربوں ڈالر کے جدید ہتھیاروں کی خریداری حکومت اور فوج کی طرف سے پاکستان کو مختلف بہانوں سے دھمکانا، ہتھیاروں کے ذخیرے کرنے کی اندھی خواہش میں ترقی یافتہ ملکوں کو بھارت میں ناقابل یقین مراعات کے ساتھ بھارت میں ہتھیاروں کی صنعتیں قائم کرنے کی پیشکش اور امریکا کی چین مخالفت میں حصے داری کیا اس خطے کو بندوق کی گھن گرج کی طرف لے جائے گی؟ یا معاشی ترقی کی طرف؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نریندر مودی کی جماعت کی سیاست میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
مذہبی منافرت اگرچہ عوام کے حقوق کے استحصال سے پیدا ہوتی ہے لیکن اس کو محض بھاری معاشی امداد سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان تمام عوامل کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے جو انسانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرتے ہیں۔ نریندر مودی ایک مذہبی انتہا پسند کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس کے جواب میں اگر مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمے داری بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعتوں پر عائد ہوتی ہے اگر پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی دہشت گردی میں بدل گئی ہے تو اس کی اصل ذمے داری بی جے پی جیسی ذہنیت پر عائد ہوتی ہے۔ کیا اس حقیقت پر مودی غور فرمائیں گے؟