بندہ مزدور کے اوقات
فیکٹری ورکرز آئے دن ناگہانی حادثات کا بھی شکار ہوتے رہتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ۔۔۔
گزشتہ دنوں ٹریڈ یونین تحریک کے سرگرم کارکن مرزا محمد ابراہیم کی 15 ویں برسی نہایت عقیدت و احترام سے منائی گئی، جس طرح مشہور و معروف بزرگ شاعر حضرات احسان دانش محض شاعر مزدور نہیں بلکہ بذات خود ایک محنت کش تھے اسی طرح مرزا ابراہیم بھی صرف مزدور رہنما نہیں بلکہ خود بھی ایک پیشہ اور مزدور تھے۔ انھوں نے محنت کشی کی ابتدا ایک مالی کی حیثیت سے کی تھی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ انھوں نے بھٹہ مزدور کی حیثیت سے بھی اپنی روزی کمائی اور پھر پاکستان ریلوے کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔
وہ پاکستان ٹریڈ یونین کے بانی صدر کی حیثیت سے عرصہ دراز تک مزدوروں کے لیے گراں قدر اور بے لوث خدمات انجام دیتے رہے۔ مزدوروں کی خدمت کرنا ساری زندگی ان کا مشن رہا جسے وہ عبادت کا درجہ دے کر تادم آخر انجام دیتے رہے۔ مزدوروں کی خدمت کی خاطر انھوں نے بڑی بڑی پیشکشیں بھی ٹھکرادیں جس میں وزارت محنت کے قلم دان کی پرکشش پیشکش بھی شامل تھی۔مزدوروں کی تحریکوں کے سلسلے میں انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ان کے پایہ استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔
گزشتہ 11 اگست سے ایک روز قبل کراچی میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی قیادت میں آرٹس کونسل کے نزدیک واقع چوراہے سے کراچی پریس کلب تک بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کے سانحے سے متاثر ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں نے ایک احتجاجی ریلی نکالی۔خوفناک ترین آتش زدگی کے اس سانحے میں بہت سے مزدور لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ عظیم سانحہ ستمبر 2012 کو رونما ہوا تھا مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس کا نشانہ بننے والے مزدوروں کے اہل خانہ آج تک دربدر کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور ان بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان متاثرین کا سب سے بڑا اور بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ای او بی آئی (EOBI) کے ادارے کی جانب سے انھیں پنشن کے اجازت نامے جاری کیے جائیں۔ احتجاج کرنے والوں کو سب سے بڑا گلہ اس بات کا تھا کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی حکام بالا کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ مزدوروں اور فیکٹری ورکرز کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے ۔
پاکستان کے فیکٹری مزدوروں کو کن خطرناک حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اس کا عام لوگوں کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سوں کی جان تو ہر وقت ہتھیلی پر رہتی ہے۔ بعض کاموں کی نوعیت تو ایسی ہے کہ ورکرز کی صحت کو گھن لگ جاتا ہے جب کہ ان کے علاج معالجے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بیماری کی حالت میں ورکر کے لیے زیادہ چھٹیاں کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ایسی صورت میں فیکٹری یا مل کا مالک اس کی ہمیشہ کے لیے چھٹی بھی کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں اس بے چارے کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑجائے گا اور بال بچے بھوکے مرجائیں گے۔
اگرچہ پاکستان نے عالمی ادارہ محنت (ILO) کے بہت سے معاہدوں اور کنونشنوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں لیکن جہاں تک ورکرز کے تحفظ کا معاملہ ہے تو ان معاہدوں پر ہماری فیکٹریوں اور کارخانوں میں عمل درآمد صفر کے برابر ہے۔ بے چارے ورکرز کو طویل گھنٹوں تک سستائے بغیر مسلسل کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت رفتہ رفتہ جواب دینے لگتی ہے حتیٰ کہ ان کی موت واقع ہوجاتی ہے اور کوئی اس کا نوٹس بھی نہیں لیتا۔
آئی ایل او کی جانب سے فیکٹری مالکان کے لیے بہت سے ضوابط اور قواعد مقرر کیے گئے ہیں جس میں ایمرجنسی کی صورتحال میں خصوصی خارجی دروازوں کا بندوبست بھی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ان قوانین و ضوابط کے تحت فیکٹری مالکان پر لازم ہے کہ وہ ورکرز کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بھی بندوبست کریں مگر عملاً یہ تمام قوانین و ضوابط محض کاغذات کی زینت ہی ہوتے ہیں۔
فیکٹری ورکرز آئے دن ناگہانی حادثات کا بھی شکار ہوتے رہتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر فیکٹریوں اور کارخانوں میں پرانی، فرسودہ اور ناکارہ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں جو عملاً پھینک دیے جانے کے قابل ہوتی ہیں۔ اس طرح کی مشینوں پر کام کرنا زندگی کو داؤ پر لگا دینے سے کم نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مالکان ان مشینوں کو خود ہی نئی مشینوں سے Replace کر دیں مگر ایسا بھلا کہاں ممکن ہے۔ رہی بات لیبر آفیسر کی کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں تو امر واقعہ یہ ہے کہ لیبر کے محکمے کا تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔
فیکٹری مالکان کی جانب سے ان کے بھتے مقرر ہیں جن کے مقابلے میں ان کی ماہانہ تنخواہوں کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ لیبر آفیسرز فیکٹری مالکان کے زر خرید غلاموں سے بھی زیادہ تابع فرمان نظر آتے ہیں۔ فیکٹریوں میں لاقانونیت کی صورتحال کا ہلکا پھلکا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ Embroidery کی اکثر فیکٹریاں غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں مگر کسی سرکاری اہل کار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
اگرچہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 37-E میں ورکرز کے کام کے حالات کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے مگر عملاً صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کے قیام کو 67 سال ہوچکے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک 1934 کے پرانے اور فرسودہ فیکٹریز ایکٹ کے تحت عمل کیا جاتا رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مزدور دوستی کا مظاہرہ کیا اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کا پرچم بلند کیا۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ریڈیو پاکستان سے مزدوروں کے لیے مخصوص پروگرام نشر کیے گئے ۔مزدوروں کے حوالے سے یہ بات خوش آیند ہے کہ ابھی حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2012 کو درست اور جائز قرار دے دیا ہے۔ بینچ نے آبزرو کیا کہ آئی آر اے 2012 مزدوروں کو بین الصوبائی سطح پر یونین سازی کا حق دیتا ہے جسے آئین کے آرٹیکل 17 میں بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر تاج حیدر نے سندھ ہائی کورٹ کے خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مزدوروں کی فتح اور ان کے موقف کی سچائی قرار دیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ:
ہیں بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ
وہ پاکستان ٹریڈ یونین کے بانی صدر کی حیثیت سے عرصہ دراز تک مزدوروں کے لیے گراں قدر اور بے لوث خدمات انجام دیتے رہے۔ مزدوروں کی خدمت کرنا ساری زندگی ان کا مشن رہا جسے وہ عبادت کا درجہ دے کر تادم آخر انجام دیتے رہے۔ مزدوروں کی خدمت کی خاطر انھوں نے بڑی بڑی پیشکشیں بھی ٹھکرادیں جس میں وزارت محنت کے قلم دان کی پرکشش پیشکش بھی شامل تھی۔مزدوروں کی تحریکوں کے سلسلے میں انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ان کے پایہ استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔
گزشتہ 11 اگست سے ایک روز قبل کراچی میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی قیادت میں آرٹس کونسل کے نزدیک واقع چوراہے سے کراچی پریس کلب تک بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کے سانحے سے متاثر ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں نے ایک احتجاجی ریلی نکالی۔خوفناک ترین آتش زدگی کے اس سانحے میں بہت سے مزدور لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ عظیم سانحہ ستمبر 2012 کو رونما ہوا تھا مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس کا نشانہ بننے والے مزدوروں کے اہل خانہ آج تک دربدر کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور ان بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان متاثرین کا سب سے بڑا اور بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ای او بی آئی (EOBI) کے ادارے کی جانب سے انھیں پنشن کے اجازت نامے جاری کیے جائیں۔ احتجاج کرنے والوں کو سب سے بڑا گلہ اس بات کا تھا کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی حکام بالا کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ مزدوروں اور فیکٹری ورکرز کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے ۔
پاکستان کے فیکٹری مزدوروں کو کن خطرناک حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اس کا عام لوگوں کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سوں کی جان تو ہر وقت ہتھیلی پر رہتی ہے۔ بعض کاموں کی نوعیت تو ایسی ہے کہ ورکرز کی صحت کو گھن لگ جاتا ہے جب کہ ان کے علاج معالجے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بیماری کی حالت میں ورکر کے لیے زیادہ چھٹیاں کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ایسی صورت میں فیکٹری یا مل کا مالک اس کی ہمیشہ کے لیے چھٹی بھی کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں اس بے چارے کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑجائے گا اور بال بچے بھوکے مرجائیں گے۔
اگرچہ پاکستان نے عالمی ادارہ محنت (ILO) کے بہت سے معاہدوں اور کنونشنوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں لیکن جہاں تک ورکرز کے تحفظ کا معاملہ ہے تو ان معاہدوں پر ہماری فیکٹریوں اور کارخانوں میں عمل درآمد صفر کے برابر ہے۔ بے چارے ورکرز کو طویل گھنٹوں تک سستائے بغیر مسلسل کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت رفتہ رفتہ جواب دینے لگتی ہے حتیٰ کہ ان کی موت واقع ہوجاتی ہے اور کوئی اس کا نوٹس بھی نہیں لیتا۔
آئی ایل او کی جانب سے فیکٹری مالکان کے لیے بہت سے ضوابط اور قواعد مقرر کیے گئے ہیں جس میں ایمرجنسی کی صورتحال میں خصوصی خارجی دروازوں کا بندوبست بھی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ان قوانین و ضوابط کے تحت فیکٹری مالکان پر لازم ہے کہ وہ ورکرز کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بھی بندوبست کریں مگر عملاً یہ تمام قوانین و ضوابط محض کاغذات کی زینت ہی ہوتے ہیں۔
فیکٹری ورکرز آئے دن ناگہانی حادثات کا بھی شکار ہوتے رہتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر فیکٹریوں اور کارخانوں میں پرانی، فرسودہ اور ناکارہ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں جو عملاً پھینک دیے جانے کے قابل ہوتی ہیں۔ اس طرح کی مشینوں پر کام کرنا زندگی کو داؤ پر لگا دینے سے کم نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مالکان ان مشینوں کو خود ہی نئی مشینوں سے Replace کر دیں مگر ایسا بھلا کہاں ممکن ہے۔ رہی بات لیبر آفیسر کی کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں تو امر واقعہ یہ ہے کہ لیبر کے محکمے کا تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔
فیکٹری مالکان کی جانب سے ان کے بھتے مقرر ہیں جن کے مقابلے میں ان کی ماہانہ تنخواہوں کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ لیبر آفیسرز فیکٹری مالکان کے زر خرید غلاموں سے بھی زیادہ تابع فرمان نظر آتے ہیں۔ فیکٹریوں میں لاقانونیت کی صورتحال کا ہلکا پھلکا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ Embroidery کی اکثر فیکٹریاں غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں مگر کسی سرکاری اہل کار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
اگرچہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 37-E میں ورکرز کے کام کے حالات کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے مگر عملاً صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کے قیام کو 67 سال ہوچکے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک 1934 کے پرانے اور فرسودہ فیکٹریز ایکٹ کے تحت عمل کیا جاتا رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مزدور دوستی کا مظاہرہ کیا اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کا پرچم بلند کیا۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ریڈیو پاکستان سے مزدوروں کے لیے مخصوص پروگرام نشر کیے گئے ۔مزدوروں کے حوالے سے یہ بات خوش آیند ہے کہ ابھی حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2012 کو درست اور جائز قرار دے دیا ہے۔ بینچ نے آبزرو کیا کہ آئی آر اے 2012 مزدوروں کو بین الصوبائی سطح پر یونین سازی کا حق دیتا ہے جسے آئین کے آرٹیکل 17 میں بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر تاج حیدر نے سندھ ہائی کورٹ کے خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مزدوروں کی فتح اور ان کے موقف کی سچائی قرار دیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ:
ہیں بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ