قیادت کا امتحان
اب بعض خفیہ ایجنسیوں پر الزام لگانے اور تہمتیں عائد کرنے سے بات بھی نہیں بن رہی۔۔۔۔
ہمارے محلے میں شہزاد نامی ایک نوجوان رہتا تھا۔ عمر ہوگی کوئی تیس پینتیس برس۔ لمبا تڑنگا اور نہایت صحت مند۔ ایک سرکاری فیکٹری میں افسر تھا۔ ایک شام وہ نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچا تو اچانک اسے دانت درد نے آلیا۔ رفتہ رفتہ درد میں شدت آتی گئی۔ مقامی ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا۔ اس نے دوائی دی جس سے رات کو افاقہ ہوگیا مگر دوسرے روز دانت کا درد پھر عود کر آیا۔ شہزاد نے مقامی ڈاکٹر، جو سند یافتہ اور تجربہ کار ڈینٹسٹ نہیں تھا، سے دوائی لی۔ درد میں خاصی کمی آئی لیکن مکمل خاتمہ نہ ہوسکا۔
کئی ہفتے یہی سلسلہ جاری رہا لیکن شہزاد صاحب نے کسی بھی مستند ڈینٹل سرجن سے رابطہ نہ کیا۔ ایک صبح وہ اٹھا تاکہ نمازِ فجر ادا کرسکے۔ وضو کرنے لگا تو آئینے میں دیکھا کہ اس کے منہ کا دایاں حصہ خاصا سوجا ہوا تھا۔ وہ متفکر ہوگیا۔ ڈیوٹی پر جانے سے قبل ایک بڑے اسپتال گیا اور ڈینٹسٹ کو دانت دکھایا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر دانت کا ایکسرے لیا اور چند ٹیسٹ بھی کیے۔نتائج سامنے آئے تو یہ افسوسناک خبر دی گئی کہ شہزاد صاحب کو دانتوں کا کینسر ہوچکا ہے۔ فوری طور پر اسپتال میں داخل کردیے گئے۔
چند روز بعد ہی شہزاد صاحب اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ دانت کا معمولی سا درد، جس سے مسلسل اغماض برتا گیا اور مناسب توجہ نہ دی گئی، موت کا سبب بن گیا۔ گھر والے روتے پیٹتے رہ گئے۔ ابتدا میں عدم توجہی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ اس سانحے سے بچا جاسکتا۔ اسی پس منظر میں انگریزی کا ایک محاورہ بولا جاتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ معمولی سی پھٹی قمیض کو اگر بروقت ٹانکا لگا دیا جائے تو پوری قمیض کو پھٹنے اور ادھڑنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
''ہماری'' مرکزی حکومت کو آج جس شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس پیش منظر میں ہمیں مرحوم شہزاد صاحب کا واقعہ یاد آیا ہے۔ اگر ابتداء میں ہمارے سیاسی اور منتخب حکمران عمران خان کے مطالبے اور ماڈل ٹائون لاہور کے خونریز سانحے کی طرف مطلوبہ توجہ مبذول کرتے تو عین ممکن تھا کہ آج اسلام آباد دونوں جماعتوں کے مظاہروں سے محفوظ رہتا۔ اب ان کے مطالبات میں اضافہ بھی ہوا ہے اور ان میں سختی بھی در آئی ہے۔
اگر آغاز میں چار انتخابی حلقوں کی ازسرِ نو چھان پھٹک کا مطالبہ بروقت مان لیا جاتا اور ماڈل ٹائون لاہور میں مقتولین کے وارثوں کے گھروں میں جا کر صوبائی حکومت کے اعلیٰ ذمے داران اشک شوئی کا مظاہرہ کرتے تو آج وفاقی دارالحکومت میں عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری کے مطالبات کے سامنے حکومتِ وقت پشیماں نظر نہ آتی مگر سرکار نے اسے دانستہ نظرانداز(Ignore) بھی کیا اور اس کے رویے میں تجاہل و تکبر (Arrogance) کا عنصر بھی نمایاں رہا اور جب عدم توجہی اور تجاہل و تساہل (Ignorance and Arrogance) یکجا ہوگئیں تو وہی نتیجہ برآمد ہوا جو ایک ٹھوس حقیقت بن کر آجکل اسلام آباد میں نظر آرہا ہے۔
اب بعض خفیہ ایجنسیوں پر الزام لگانے اور تہمتیں عائد کرنے سے بات بھی نہیں بن رہی۔ ان الزام تراشیوں سے حالات میں مزید سنگینی اور ترشی آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک انگریزی جریدے کے اخبار نویس نے اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام دھرا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور تا اسلام آباد جو ''تماشہ'' لگایا ہے، اس کے عقب میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد بروئے کار ہے۔ مذکورہ اخبار نویس نے اس خفیہ ہاتھ کی کارفرمائی کے لیے ایک نئی اصطلاح تخلیق کرتے ہوئے اسے Miltablishment کا عنوان دیا ہے۔
مذکورہ اخبارنویس نے اپنے انگریزی جریدے کے اداریے میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسوں، مطالبوں اور دھرنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نہایت یقین کے ساتھ لکھا ہے: ''عمران خان اور طاہرالقادری، دونوں کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط مشرف اور پاشا دور ہی سے ثابت شدہ ہیں۔ سیاسی نظام میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی جارحانہ مگر بالواسطہ مداخلت کی پالیسی کا مقصد سول حکمرانوں کو مخصوص حدود میں رکھتے ہوئے طاقت کا توازن فوج کے حق میں رکھنا ہے... موجودہ سیاسی ہنگامے کی لگام ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور آنے والے ہفتوں میں اس کا جو بھی انجام ہو، اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ ہی کو ہوگا۔''
یہ تہمتی تجزیہ اپنے تئیں درست ہی لکھا گیا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ قبل ماڈل ٹائون لاہور میں ایک پارٹی کے جن چودہ بے گناہ افراد کو قتل کردیا گیا، کیا اس خونیں سانحے میں بھی Miltablishment کا ہاتھ کارفرما تھا؟ اگر ایسا نہیں تھا، اور یقینا ایسا نہیں تھا، تو کوئی صاحب کیسے تیقن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام عائد کر سکتا ہے کہ طاہر القادری کو ''مشرف اور پاشا'' کے دور ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد حاصل رہی؟
''ثابت شدہ حقیقت'' کو ثابت کرنے کے لیے کیا موصوف کے پاس مستند دستاویزات ہیں؟ کوئی شواہد؟ صحافتی تہذیب و دیانت کا تقاضا تھا کہ صحیح تناظر میں حالات کو بگاڑنے والوں کا بھی ذکر کیا جاتا لیکن اس سے دانستہ اعراض برتا گیا۔ اگر آپ بوجوہ کسی موہوم اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں، گزشتہ کچھ عرصہ سے آپ حکمرانوں کے قرب وجوار میں بس رہے ہیں اور آپ کئی شکلوں میں حکومت سے مستفید بھی ہوئے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ قلم کاری کرتے ہوئے دانستہ جانبداری کا مظاہر کیا جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا ''اسٹیبلشمنٹ سے روابط'' کا الزام کوئی نئی بات نہیں۔
چند روز قبل ایک وفاقی وزیر صاحب، جن کے پاس حکومت کا ایک اہم قلمدان ہے، نے بھی ایسا ہی تہمتی بیان داغتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک سابق سپائی ماسٹر (اشارہ ریٹائرڈ جنرل شجاع پاشا کی طرف ہے) لاہور میں آچکے ہیں اور شنید ہے کہ عمران و قادری کو ان کی طرف سے مشورے جاری ہیں۔ اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور حزب مخالف کو کمزور اور غیر مؤثر کرنے کے لیے حکومتی کارپرداز، خصوصاً وزراء حضرات، مختلف النوع ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔
یہ ہمارے ہاں سیاست کا ہمیشہ سے چلن ہے لیکن اس چلن میں اپنے چال چلن کی طرف توجہ دینا اور اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنا بھی از بس ضروری ہے۔ 14اگست سے قبل مرکزی حکومت کی اسٹرٹیجی یہ تھی کہ کپتان کے لیے راستے کھلے اور ڈاکٹر طاہر القادری کے راستے مسدود کیے جائیں۔ جب دونوں قافلے اسلام آباد پہنچ گئے تو حکمرانوں نے پینترا بدلتے ہوئے عمران کی مخالفت اور ڈاکٹر قادری کے لیے نرم گوشہ اختیار کرنا شروع کردیا، یہ کہہ کر کہ قادری صاحب اسلام آباد میں لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کررہے ہیں جب کہ کپتان کا رویہ مختلف ہے۔
ملک ابتر صورتحال کا شکار ہے۔ سیکیورٹی فورسز شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں سے نمٹ کر امن کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں تندی اور تندہی سے کام لے رہی ہیں۔ ایل او سی پر بھارتی شرارتیں پھر سے شروع ہوچکی ہیں۔ اگلے ماہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو اقوام متحدہ کے ایک اہم عالمی اجلاس میں شریک ہونا ہے۔ یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ملک میں یکجہتی اور استحکام کی فضا غالب ہو۔ الزامات اور تہمتوں سے پرہیز کرنا بہت لازم ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کے بعض بہی خواہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر بعض حساس اداروں کو اپنی لپیٹ میں لینے کی ناقابلِ رشک کوششیں کررہے ہیں۔
حالات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لیے گزشتہ روز وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کی متحمل پریس کانفرنس کی تحسین کی جانی چاہیے، اگرچہ یہ اقدام تاخیر سے کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تینوں فریقوں (حکومت، پاکستانی عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف) کو سخت آزمائش کا سامنا ہے۔ آزمائش ہی میں لیڈر شپ اور قیادت کے بھید کھلتے ہیں۔ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس کشاکش میں ملک اور قومی اداروں کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔
کئی ہفتے یہی سلسلہ جاری رہا لیکن شہزاد صاحب نے کسی بھی مستند ڈینٹل سرجن سے رابطہ نہ کیا۔ ایک صبح وہ اٹھا تاکہ نمازِ فجر ادا کرسکے۔ وضو کرنے لگا تو آئینے میں دیکھا کہ اس کے منہ کا دایاں حصہ خاصا سوجا ہوا تھا۔ وہ متفکر ہوگیا۔ ڈیوٹی پر جانے سے قبل ایک بڑے اسپتال گیا اور ڈینٹسٹ کو دانت دکھایا۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر دانت کا ایکسرے لیا اور چند ٹیسٹ بھی کیے۔نتائج سامنے آئے تو یہ افسوسناک خبر دی گئی کہ شہزاد صاحب کو دانتوں کا کینسر ہوچکا ہے۔ فوری طور پر اسپتال میں داخل کردیے گئے۔
چند روز بعد ہی شہزاد صاحب اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ دانت کا معمولی سا درد، جس سے مسلسل اغماض برتا گیا اور مناسب توجہ نہ دی گئی، موت کا سبب بن گیا۔ گھر والے روتے پیٹتے رہ گئے۔ ابتدا میں عدم توجہی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ اس سانحے سے بچا جاسکتا۔ اسی پس منظر میں انگریزی کا ایک محاورہ بولا جاتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ معمولی سی پھٹی قمیض کو اگر بروقت ٹانکا لگا دیا جائے تو پوری قمیض کو پھٹنے اور ادھڑنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
''ہماری'' مرکزی حکومت کو آج جس شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس پیش منظر میں ہمیں مرحوم شہزاد صاحب کا واقعہ یاد آیا ہے۔ اگر ابتداء میں ہمارے سیاسی اور منتخب حکمران عمران خان کے مطالبے اور ماڈل ٹائون لاہور کے خونریز سانحے کی طرف مطلوبہ توجہ مبذول کرتے تو عین ممکن تھا کہ آج اسلام آباد دونوں جماعتوں کے مظاہروں سے محفوظ رہتا۔ اب ان کے مطالبات میں اضافہ بھی ہوا ہے اور ان میں سختی بھی در آئی ہے۔
اگر آغاز میں چار انتخابی حلقوں کی ازسرِ نو چھان پھٹک کا مطالبہ بروقت مان لیا جاتا اور ماڈل ٹائون لاہور میں مقتولین کے وارثوں کے گھروں میں جا کر صوبائی حکومت کے اعلیٰ ذمے داران اشک شوئی کا مظاہرہ کرتے تو آج وفاقی دارالحکومت میں عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری کے مطالبات کے سامنے حکومتِ وقت پشیماں نظر نہ آتی مگر سرکار نے اسے دانستہ نظرانداز(Ignore) بھی کیا اور اس کے رویے میں تجاہل و تکبر (Arrogance) کا عنصر بھی نمایاں رہا اور جب عدم توجہی اور تجاہل و تساہل (Ignorance and Arrogance) یکجا ہوگئیں تو وہی نتیجہ برآمد ہوا جو ایک ٹھوس حقیقت بن کر آجکل اسلام آباد میں نظر آرہا ہے۔
اب بعض خفیہ ایجنسیوں پر الزام لگانے اور تہمتیں عائد کرنے سے بات بھی نہیں بن رہی۔ ان الزام تراشیوں سے حالات میں مزید سنگینی اور ترشی آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک انگریزی جریدے کے اخبار نویس نے اپنے تجزیے میں صاف الفاظ میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام دھرا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور تا اسلام آباد جو ''تماشہ'' لگایا ہے، اس کے عقب میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد بروئے کار ہے۔ مذکورہ اخبار نویس نے اس خفیہ ہاتھ کی کارفرمائی کے لیے ایک نئی اصطلاح تخلیق کرتے ہوئے اسے Miltablishment کا عنوان دیا ہے۔
مذکورہ اخبارنویس نے اپنے انگریزی جریدے کے اداریے میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسوں، مطالبوں اور دھرنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نہایت یقین کے ساتھ لکھا ہے: ''عمران خان اور طاہرالقادری، دونوں کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط مشرف اور پاشا دور ہی سے ثابت شدہ ہیں۔ سیاسی نظام میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی جارحانہ مگر بالواسطہ مداخلت کی پالیسی کا مقصد سول حکمرانوں کو مخصوص حدود میں رکھتے ہوئے طاقت کا توازن فوج کے حق میں رکھنا ہے... موجودہ سیاسی ہنگامے کی لگام ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور آنے والے ہفتوں میں اس کا جو بھی انجام ہو، اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ ہی کو ہوگا۔''
یہ تہمتی تجزیہ اپنے تئیں درست ہی لکھا گیا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ قبل ماڈل ٹائون لاہور میں ایک پارٹی کے جن چودہ بے گناہ افراد کو قتل کردیا گیا، کیا اس خونیں سانحے میں بھی Miltablishment کا ہاتھ کارفرما تھا؟ اگر ایسا نہیں تھا، اور یقینا ایسا نہیں تھا، تو کوئی صاحب کیسے تیقن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام عائد کر سکتا ہے کہ طاہر القادری کو ''مشرف اور پاشا'' کے دور ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد حاصل رہی؟
''ثابت شدہ حقیقت'' کو ثابت کرنے کے لیے کیا موصوف کے پاس مستند دستاویزات ہیں؟ کوئی شواہد؟ صحافتی تہذیب و دیانت کا تقاضا تھا کہ صحیح تناظر میں حالات کو بگاڑنے والوں کا بھی ذکر کیا جاتا لیکن اس سے دانستہ اعراض برتا گیا۔ اگر آپ بوجوہ کسی موہوم اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں، گزشتہ کچھ عرصہ سے آپ حکمرانوں کے قرب وجوار میں بس رہے ہیں اور آپ کئی شکلوں میں حکومت سے مستفید بھی ہوئے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ قلم کاری کرتے ہوئے دانستہ جانبداری کا مظاہر کیا جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا ''اسٹیبلشمنٹ سے روابط'' کا الزام کوئی نئی بات نہیں۔
چند روز قبل ایک وفاقی وزیر صاحب، جن کے پاس حکومت کا ایک اہم قلمدان ہے، نے بھی ایسا ہی تہمتی بیان داغتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک سابق سپائی ماسٹر (اشارہ ریٹائرڈ جنرل شجاع پاشا کی طرف ہے) لاہور میں آچکے ہیں اور شنید ہے کہ عمران و قادری کو ان کی طرف سے مشورے جاری ہیں۔ اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور حزب مخالف کو کمزور اور غیر مؤثر کرنے کے لیے حکومتی کارپرداز، خصوصاً وزراء حضرات، مختلف النوع ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔
یہ ہمارے ہاں سیاست کا ہمیشہ سے چلن ہے لیکن اس چلن میں اپنے چال چلن کی طرف توجہ دینا اور اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنا بھی از بس ضروری ہے۔ 14اگست سے قبل مرکزی حکومت کی اسٹرٹیجی یہ تھی کہ کپتان کے لیے راستے کھلے اور ڈاکٹر طاہر القادری کے راستے مسدود کیے جائیں۔ جب دونوں قافلے اسلام آباد پہنچ گئے تو حکمرانوں نے پینترا بدلتے ہوئے عمران کی مخالفت اور ڈاکٹر قادری کے لیے نرم گوشہ اختیار کرنا شروع کردیا، یہ کہہ کر کہ قادری صاحب اسلام آباد میں لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کررہے ہیں جب کہ کپتان کا رویہ مختلف ہے۔
ملک ابتر صورتحال کا شکار ہے۔ سیکیورٹی فورسز شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں سے نمٹ کر امن کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں تندی اور تندہی سے کام لے رہی ہیں۔ ایل او سی پر بھارتی شرارتیں پھر سے شروع ہوچکی ہیں۔ اگلے ماہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو اقوام متحدہ کے ایک اہم عالمی اجلاس میں شریک ہونا ہے۔ یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ملک میں یکجہتی اور استحکام کی فضا غالب ہو۔ الزامات اور تہمتوں سے پرہیز کرنا بہت لازم ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کے بعض بہی خواہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر بعض حساس اداروں کو اپنی لپیٹ میں لینے کی ناقابلِ رشک کوششیں کررہے ہیں۔
حالات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لیے گزشتہ روز وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کی متحمل پریس کانفرنس کی تحسین کی جانی چاہیے، اگرچہ یہ اقدام تاخیر سے کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تینوں فریقوں (حکومت، پاکستانی عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف) کو سخت آزمائش کا سامنا ہے۔ آزمائش ہی میں لیڈر شپ اور قیادت کے بھید کھلتے ہیں۔ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس کشاکش میں ملک اور قومی اداروں کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔