پاکستان ایک نظر میں ریڈ زون چلو

مارچ میں 10 لاکھ لوگوں کو لانے میں ناکامی کی خفت کا بدلہ عمران خان پاکستان کی مظلوم و مقہور جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں۔

مارچ میں 10 لاکھ لوگوں کو لانے میں ناکامی کی خفت کا بدلہ عمران خان پاکستان کی مظلوم و مقہور جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

سیاسی بصیرت اور قائدانہ بالغ نظری اگر کسی چڑیا کا نام تھا تو وہ اب تک تحریکِ انصاف کے گھونسلے سے پرواز کر چکی ہے ۔ سول نافرمانی اوراسمبلیوں سے استعفے کے بعد ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ تحریکِ انصاف کی قیادت سے زیادہ اس مارچ میں آئے ہوئے لاہور کے ماجھے گامے اور پشاور کے گل خان کر رہے ہیں۔ جب قیادت اپنے کارکنوں کے ہاتھوں یرغما ل بن جائے اور سڑک چھاپ کارکن فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگیں تو پھر سیاست پر فاتح پڑھ لینی چاہیے۔ عمران خان اپنی شعلہ بیانی کے زعم میں نواز شریف اور ان کی پارٹی کے خلاف جنوں بھوتوں کے جو قصے اپنے جنونیوں کو سناتے رہے ہیں اب انہوں نے ثمر دینا شروع کر دیے ہیں۔ 18سال کی شبانہ روز تگ و دو سے عمران خان نے اپنا جو بت اپنے ماننے والوں کے ذہنوں میں تراشا تھااب اس کی پوجا شروع ہوگئی ہے اور پجاری ہر قربانی دینے کے لیے بظاہر تیار بیٹھے ہیں۔ آزادی مارچ میں بھڑکیلی تقریروں سے دیوتا عمران خان کا قد شاید کچھ اور بڑھ گیا ہو لیکن سیاست دان عمران خان بہت بونہ لگنے لگا ہے۔

کچھ لوگو ں کا یہ خیال کہ مارچ میں 10 لاکھ لوگوں کو لانے میں ناکامی کی خفت کا بدلہ عمران خان پاکستان کی مظلوم و مقہور جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں اس وقت درست دکھائی دینے لگتا ہے جب عمران اور پی ٹی آئی کی قیادت واشگاف الفاظ میں مارشل لا لگنے کے خدشے کا اعتراف کر تی دکھائی دیتی ہے ۔ نواز شریف کی ہٹ دھرمی پر اسے کوسنے دیتے ہوئے تحریکِ انصاف اپنی انا پرستی سے صرف نذر کر جاتی ہے اور ممکنہ مارشل لا کا سارا ثواب نون لیگ کی جھولی میں ڈالتی دکھائی دے رہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ عمران مارچ کی بند گلی میں پھنسنے کے بعد اب بے نیل و مرام واپس جانے کی شرمندگی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ نہ ڈرنے والا نہ جھکنے والا لیڈر بھلا اپنے مطالبے سے الٹے پیروں واپس آنے کی خفت کیسے ہضم کر سکتا ہے ۔ خود کو ہرکولیس اور سپرمین بنا کر پیش کرنے میں یہی مسئلہ ہے کہ پھر لیڈر عام انسان نہیں بن سکتا۔ وہ عام انسان جو خون خرابے سے بچنے کے لیے اپنی انا کی قربانی دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔عمران خان اپنے خیالی جنت کے حصول میں اس وقت ایک ایسے راستے کی طرف چل پڑے ہیں جہاں وہ اپنے کارکنوں کے خون سے اقتدار کی سیڑھی کو سینچنا چاہتے ہیں۔ خود عمران خان اور ان کی جماعت خیبر پختونخواہ کے تجربے سے یہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ پاکستان کے گنجلک مسائل ایک سال میں اللہ دین کا جن بھی حل نہیں کر سکتا اس لیے نون لیگ کے خلاف صرف ایک سال بعد یورش کا تعلق انتخابی دھاندلی یاگڈ گورننس سے کسی طرح بھی نہیں ہے اس جہاد کے تانے بانے کہیں اور جا کے ملتے ہیں!

موجودہ بحران میں مسلم لیگ نون پی ٹی آئی اور اس کے ساتھ شامل تانگہ پارٹیوں کے علاوہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی سازشوں کے نشانے پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔ قادری صاحب کے انقلاب کو ماڈل ٹاؤن سے اٹھا کر اسلام آباد لا بٹھانے کا سہرا ایم کیو ایم کے سر ہے جس نے یہ ضمانت لی تھی کہ قادری صاحب کا انقلاب پر امن رہے گا لیکن اب جبکہ قبلہ قائدِ انقلاب مذاکراتی ٹیموں سے ملنے سے انکاری ہو چکے ہیں تو ایم کیو ایم کی طرف سے پراسرار خاموشی معنی خیز ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جس کے جمہوری چمپیئن لیڈر نون لیگ کو بڑے خلوص سے یہ مشورہ دیتے رہے تھے کہ اجتجاج کر نا ہر پارٹی کا جمہوری حق ہے اس لیے قادری و عمران کو اسلام آباد میں میلہ سجانے دیناچاہیے اب جبکہ حالات بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں تو جمہوریت پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کے پھسپھسے نعروں کے علاوہ یہ کچھ بھی کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ خیال بعید از قیاس نہیں کہ نون لیگ کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی سازش میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آزادی اور انقلاب مارچ کے پسِ پردہ حمایتی ہوں کیوں کہ2018 تک انتظار کرنا شاید ان پارٹیوں کے لیے بھی کوئی اتنا مرغوب نہیں ۔


سازشیں جہاں بھی بنتی اور پھوٹتی رہی ہوں پاکستان کے سیاست دان آج اگر جمہوریت کو عمران خان کی ہٹ دھرمی اور قادری کی ضد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں تو پھر یہ ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مارشل لاؤں سے پے درپے ماریں کھانے اور قربانیاں دینے کے باوجود انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ آزادی اور انقلاب مارچ والے لیڈروں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے جمہوریت کی بساط لپٹ گئی تو ان کا نیا اور انقلابی پاکستان ان کے مر جھاے ہوئے خوابوں میں ہی کسمساتا رہ جائے گا کیونکہ آمریتیں پرانے پاکستان کو زیادہ پسند کرتی ہیں! اقتدار کی خواہش ایک مثبت جذبہ ہے لیکن جب یہ جذبہ حد سے بڑھ جائے اور عملی جامہ پہننے کے لیے خون مانگنے لگے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ فرزانگی اور دیوانگی کے درمیان باریک خطِ فاصل عبور کی جاچکی ہے ۔

دیوانے قصے کہانیوں اور غزلوں میں مست خرامی کرتے تو اچھے لگتے ہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر ڈنڈے لہراتے انقلاب اور نئے پاکستان کے نعرے لگاتے مناسب نہیں لگتے ۔ ایٹمی پاکستان کی آج جگ ہنسائی ہوگی، قد آور لیڈر آج بونے بنیں گے یا پاکستان اس ابتلا سے بھی سرخرو ہوگا اگلی چند گھڑیاں اس کا فیصلہ کریں گی!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story