فلسطین ریلیاں سیاسی دھرنوں کی نذر ہو گئیں
اتوار کے روز جماعۃ الدعوۃ اورجماعت اسلامی نے اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے غزہ مارچ کے نام سے ریلیوں اور مظاہروں۔۔۔
ماہ رواں کا دوسرا عشرہ مارچوں کی زد میں رہا۔
پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اورپھر عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری نے انقلاب مارچ کا عندیہ دے دیا۔ دونو ں مارچز کی منزل اسلام آباد ٹھہرایا گیا اور دونوں جماعتوں کے مطالبات کی فہرست میں کامن پوائنٹ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ تھا۔
ان مارچوں نے دھرنوں کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اسی دوران جماعۃ الدعوۃ اور جماعت اسلامی نے بھی اپنے اپنے طور پر اسرائیلی بربریت کاشکار اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے سلسلے میں ملک بھر میں ریلیوں کاانعقاد کیا، یوں وہ لوگ جو اسلام آباد دھرنوں میں شرکت سے بوجوہ محروم رہ گئے تھے انہیں اپنے شہر میں ہی ان ریلیوں میں شرکت کرکے اس محرومی کا ازالہ کرنے کا موقع میسر آگیا۔
چودہ اگست کو لاہور سے شروع ہونے والے آزادی اور انقلاب مارچ آج ان سطور کی اشاعت تک اپنے فیصلہ کن موڑ (یا منطقی انجام ) تک پہنچ چکے ہوں گے۔ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے ہزاروں کارکن چودہ اگست کو پنجاب حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد پولیس محاصرے سے نکل کر جب ماڈل ٹاون سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تو مال روڈ، جیل روڈ اور کینال روڈ عجیب منظر پیش کر رہی تھیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن بھی زمان پارک سے نکل آئے تھے یوں انسانوں کا ایک سمندر تھا جو شہر میں بہتا چلا آرہا تھا۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے اپنے کاروان لیے اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے ۔ مارچ کے آغاز میں تو تحریک انصاف عوامی تحریک سے پہلے نکل آئی تھی لیکن عوامی تحریک کے قائدین شارٹ کٹ استعمال کرکے تحریک انصاف سے سبقت لے گئے، یوں وہ اسلام آباد اپنی منزل مقصود پر تحریک انصاف سے پہلے پہنچ گئے۔
جہاں دونوں جماعتوں نے الگ الگ دھرنا دیا جو گزشتہ روزتک جاری رہا کہ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے قائدین ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی طرف سے دی جانے والے ڈیڈ لائنز ختم ہوگئی تھیں اور اس کے بعد انہیں ماورائے آئین و قانون قدم اٹھانا تھا۔ اس لیے کہ ان کے کارکن اب مزید صبر برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ اس صورت حال میں وہ مارو یا مرجاو کی کیفیت میں وہاں بیٹھے کسی فیصلہ کن گھڑی کے انتظار میں تھے۔
دوسری طرف حکومت (کہ تکبر، رعونت اور'' تجاہل ِمجرمانہ '' جس کے عناصر ترکیبی ہیں) کا رویہ بھی شرمناک حد تک لاتعلقی، بے نیازی اور سست روی کا مظہر رہا۔ وزیرا عظم اپنے رفقاء سے مشورے بھی کرتے رہے اور دوسری جماعتوں سے بھی انہوں نے اس گرداب سے نکلنے کے لیے مدد طلب کی لیکن شاید انہیں تیسری قوت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی مل چکی تھی۔
اس لیے انہوں نے ان دھرنوں اور مخالف قائدین کی دھمکیوں کو دیوانے کی بڑ سے تعبیر کیا تاآنکہ دوسری سیاسی جماعتوں (پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جماعت اسلامی وغیرہ) نے معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کسی فوری حل کی جانب پیش قدمی کے لیے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تاکہ ثالثی کا کردار ادا کرکے ملک کو کسی بڑے حادثے یا سانحے سے بچایا جاسکے۔ اس دوران ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان دونوں نے اپنے اپنے کارکنوں کو ''دھرنے کی کھونٹی'' سے باندھے رکھنے اور ان میں تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اپنے وجود اور قد سے بھی بڑے بڑے اعلانات کرنے شروع کردیے۔
ایک نے پارلیمنٹ اور ریڈ زون کی طرف جانے، اسمبلیوں سے استعفے دینے اور سول نافرمانی کی دھمکی دے دی تو دوسرے نے دھرنے کی جگہ پر عوامی پارلیمنٹ لگانے اور ''تاریخی انقلاب '' کا سورج طلوع ہوتا دیکھنے کے لیے عوام کو وہاں پہنچنے کے ''احکامات'' جاری کردیے ۔گویا جھنجھلاہٹ اور شکست خوردگی نے انہیں اس حد تک زچ کردیا تھا کہ فہم وفراست اورصبرو استقامت کادامن خود ان کے ہاتھ سے چھوٹنے لگا اور انہوں نے اپنے فیصلے کی لگام بپھرے کارکنوں اور جذبات سے لبریز جنون کے ہاتھ میں تھما دینے ہی میں عافیت سمجھی تاکہ مخالف فریق (حکومت ) کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں رکھ کر جھک جانے پر مجبور کیاجا سکے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب سیاستدانوں نے اپنی اپنی اناوں، ذاتی مفادات، خود غرضانہ انداز فکر اور انتہا پسندانہ سوچ کو ملک و قوم کے مفادات پر اس طرح غالب کردیا کہ ملک کی بقاء اور سلامتی ہی داؤ پر لگتی نظر آنے لگی ۔ پورا ملک ایک سکتے کے عالم میں چلاگیا، قومی معیشت پر نزع طاری ہونے لگا، حکومتی رٹ اپنا جوا ز کھو بیٹھی اور سنسنی خیزی، بے یقینی اور خوف و دہشت کی چادر پوری فضا پر تن گئی جس نے اٹھارہ کروڑ عوام کو ذہنی طور پر یرغمال بنا کے رکھ دیا۔
ایسے عالم میں جب ملک کی ساری سیاست اور تمام تر توجہات کا مرکز و محور وفاقی دارالحکومت بناہوا تھا اور صوبائی دارالحکومت پر ایک سکوت چھایا ہوا تھا اتوار کے روز جماعۃ الدعوۃ اور جماعت اسلامی نے اپنے اپنے طور پر اسرائیلی وحشت و بربریت کا شکار اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے سلسلے میں غزہ مارچ کے نام سے ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کرکے یہاں کی جمود زدہ فضا میں ارتعاش پیداکردیا ۔
جماعۃ الدعوۃ نے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ناصر باغ سے ریلی نکالی اور مسجد شہداء پر جلسہ عام کا انعقاد کیا جس سے جماعۃ الدعوٓۃ کے امیر حافظ محمد سعید کے علاوہ ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے علاوہ دوسری جماعتوں کے قائدین نے بھی اظہار خیال کیا اور اسرائیل، امریکہ اور بھارت سمیت تمام استعماری طاقتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی انسانیت کش پالیسیوں کی مزمت کی اور مقابلے کے لئے مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت پر زوردیا ۔ اسی طرح جماعت اسلامی لاہور نے بھی غزہ مارچ کا اہتمام کیا اور مسجد شہداء پر جلسہ منعقد کیا جس سے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید پراچہ ، پنجاب کے امیر ڈاکٹر وسیم اختر، لاہور کے امیر میاںمقصود احمد اور دیگر عہدیداروں کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا امجد خان، مولانا سیف الدین سیف، تنظیم اسلامی کے رہنما مرزا ایوب بیگ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنما حافظ زبیر احمد ظہیر سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔
جماعۃ الدعوۃ اور جماعت اسلامی دونوں جماعتوں نے صہیونی جارحیت کے خلاف جو صدائے احتجاج بلند کی ۔ اسلام آباد کے دھرنوں کے باعث اس کو میڈیا کے ذریعے اس قدر موثر انداز میں اجاگر نہ کیا جا سکا جس قدر اس کی ضرورت اور وقت کا تقاضا تھا۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ اسلام آباد دھرنا دینے والی جماعتیں اپنی ڈفلی بجا رہی ہیں اور لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں میں اہل فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والی جماعتیں اپنا الگ راگ الاپ رہی ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ قوم کے سنجیدہ فکر حلقے، اہل علم ودانش اور صاحبان فہم و ذکاء مصلحت کی چادر اتار کر میدان عمل میں اتریں اوردھرتی کا قرض اتارنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔ ورنہ بے رحم تاریخ ملک دشمن عناصر ، مفاد پرست سیاستدانوں اور اناپرست حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی معاف نہیں کرے گی اور اس کا خمیازہ انہیں بھی اسی طرح بھگتنا پڑے گا جس طرح دشمنان ملک وملت کو۔
پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اورپھر عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری نے انقلاب مارچ کا عندیہ دے دیا۔ دونو ں مارچز کی منزل اسلام آباد ٹھہرایا گیا اور دونوں جماعتوں کے مطالبات کی فہرست میں کامن پوائنٹ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ تھا۔
ان مارچوں نے دھرنوں کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اسی دوران جماعۃ الدعوۃ اور جماعت اسلامی نے بھی اپنے اپنے طور پر اسرائیلی بربریت کاشکار اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے سلسلے میں ملک بھر میں ریلیوں کاانعقاد کیا، یوں وہ لوگ جو اسلام آباد دھرنوں میں شرکت سے بوجوہ محروم رہ گئے تھے انہیں اپنے شہر میں ہی ان ریلیوں میں شرکت کرکے اس محرومی کا ازالہ کرنے کا موقع میسر آگیا۔
چودہ اگست کو لاہور سے شروع ہونے والے آزادی اور انقلاب مارچ آج ان سطور کی اشاعت تک اپنے فیصلہ کن موڑ (یا منطقی انجام ) تک پہنچ چکے ہوں گے۔ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے ہزاروں کارکن چودہ اگست کو پنجاب حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد پولیس محاصرے سے نکل کر جب ماڈل ٹاون سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تو مال روڈ، جیل روڈ اور کینال روڈ عجیب منظر پیش کر رہی تھیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن بھی زمان پارک سے نکل آئے تھے یوں انسانوں کا ایک سمندر تھا جو شہر میں بہتا چلا آرہا تھا۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے اپنے کاروان لیے اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے ۔ مارچ کے آغاز میں تو تحریک انصاف عوامی تحریک سے پہلے نکل آئی تھی لیکن عوامی تحریک کے قائدین شارٹ کٹ استعمال کرکے تحریک انصاف سے سبقت لے گئے، یوں وہ اسلام آباد اپنی منزل مقصود پر تحریک انصاف سے پہلے پہنچ گئے۔
جہاں دونوں جماعتوں نے الگ الگ دھرنا دیا جو گزشتہ روزتک جاری رہا کہ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے قائدین ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی طرف سے دی جانے والے ڈیڈ لائنز ختم ہوگئی تھیں اور اس کے بعد انہیں ماورائے آئین و قانون قدم اٹھانا تھا۔ اس لیے کہ ان کے کارکن اب مزید صبر برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ اس صورت حال میں وہ مارو یا مرجاو کی کیفیت میں وہاں بیٹھے کسی فیصلہ کن گھڑی کے انتظار میں تھے۔
دوسری طرف حکومت (کہ تکبر، رعونت اور'' تجاہل ِمجرمانہ '' جس کے عناصر ترکیبی ہیں) کا رویہ بھی شرمناک حد تک لاتعلقی، بے نیازی اور سست روی کا مظہر رہا۔ وزیرا عظم اپنے رفقاء سے مشورے بھی کرتے رہے اور دوسری جماعتوں سے بھی انہوں نے اس گرداب سے نکلنے کے لیے مدد طلب کی لیکن شاید انہیں تیسری قوت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی مل چکی تھی۔
اس لیے انہوں نے ان دھرنوں اور مخالف قائدین کی دھمکیوں کو دیوانے کی بڑ سے تعبیر کیا تاآنکہ دوسری سیاسی جماعتوں (پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جماعت اسلامی وغیرہ) نے معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کسی فوری حل کی جانب پیش قدمی کے لیے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تاکہ ثالثی کا کردار ادا کرکے ملک کو کسی بڑے حادثے یا سانحے سے بچایا جاسکے۔ اس دوران ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان دونوں نے اپنے اپنے کارکنوں کو ''دھرنے کی کھونٹی'' سے باندھے رکھنے اور ان میں تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اپنے وجود اور قد سے بھی بڑے بڑے اعلانات کرنے شروع کردیے۔
ایک نے پارلیمنٹ اور ریڈ زون کی طرف جانے، اسمبلیوں سے استعفے دینے اور سول نافرمانی کی دھمکی دے دی تو دوسرے نے دھرنے کی جگہ پر عوامی پارلیمنٹ لگانے اور ''تاریخی انقلاب '' کا سورج طلوع ہوتا دیکھنے کے لیے عوام کو وہاں پہنچنے کے ''احکامات'' جاری کردیے ۔گویا جھنجھلاہٹ اور شکست خوردگی نے انہیں اس حد تک زچ کردیا تھا کہ فہم وفراست اورصبرو استقامت کادامن خود ان کے ہاتھ سے چھوٹنے لگا اور انہوں نے اپنے فیصلے کی لگام بپھرے کارکنوں اور جذبات سے لبریز جنون کے ہاتھ میں تھما دینے ہی میں عافیت سمجھی تاکہ مخالف فریق (حکومت ) کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں رکھ کر جھک جانے پر مجبور کیاجا سکے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب سیاستدانوں نے اپنی اپنی اناوں، ذاتی مفادات، خود غرضانہ انداز فکر اور انتہا پسندانہ سوچ کو ملک و قوم کے مفادات پر اس طرح غالب کردیا کہ ملک کی بقاء اور سلامتی ہی داؤ پر لگتی نظر آنے لگی ۔ پورا ملک ایک سکتے کے عالم میں چلاگیا، قومی معیشت پر نزع طاری ہونے لگا، حکومتی رٹ اپنا جوا ز کھو بیٹھی اور سنسنی خیزی، بے یقینی اور خوف و دہشت کی چادر پوری فضا پر تن گئی جس نے اٹھارہ کروڑ عوام کو ذہنی طور پر یرغمال بنا کے رکھ دیا۔
ایسے عالم میں جب ملک کی ساری سیاست اور تمام تر توجہات کا مرکز و محور وفاقی دارالحکومت بناہوا تھا اور صوبائی دارالحکومت پر ایک سکوت چھایا ہوا تھا اتوار کے روز جماعۃ الدعوۃ اور جماعت اسلامی نے اپنے اپنے طور پر اسرائیلی وحشت و بربریت کا شکار اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے سلسلے میں غزہ مارچ کے نام سے ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کرکے یہاں کی جمود زدہ فضا میں ارتعاش پیداکردیا ۔
جماعۃ الدعوۃ نے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ناصر باغ سے ریلی نکالی اور مسجد شہداء پر جلسہ عام کا انعقاد کیا جس سے جماعۃ الدعوٓۃ کے امیر حافظ محمد سعید کے علاوہ ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے علاوہ دوسری جماعتوں کے قائدین نے بھی اظہار خیال کیا اور اسرائیل، امریکہ اور بھارت سمیت تمام استعماری طاقتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی انسانیت کش پالیسیوں کی مزمت کی اور مقابلے کے لئے مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت پر زوردیا ۔ اسی طرح جماعت اسلامی لاہور نے بھی غزہ مارچ کا اہتمام کیا اور مسجد شہداء پر جلسہ منعقد کیا جس سے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید پراچہ ، پنجاب کے امیر ڈاکٹر وسیم اختر، لاہور کے امیر میاںمقصود احمد اور دیگر عہدیداروں کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا امجد خان، مولانا سیف الدین سیف، تنظیم اسلامی کے رہنما مرزا ایوب بیگ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنما حافظ زبیر احمد ظہیر سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔
جماعۃ الدعوۃ اور جماعت اسلامی دونوں جماعتوں نے صہیونی جارحیت کے خلاف جو صدائے احتجاج بلند کی ۔ اسلام آباد کے دھرنوں کے باعث اس کو میڈیا کے ذریعے اس قدر موثر انداز میں اجاگر نہ کیا جا سکا جس قدر اس کی ضرورت اور وقت کا تقاضا تھا۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ اسلام آباد دھرنا دینے والی جماعتیں اپنی ڈفلی بجا رہی ہیں اور لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں میں اہل فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والی جماعتیں اپنا الگ راگ الاپ رہی ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ قوم کے سنجیدہ فکر حلقے، اہل علم ودانش اور صاحبان فہم و ذکاء مصلحت کی چادر اتار کر میدان عمل میں اتریں اوردھرتی کا قرض اتارنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔ ورنہ بے رحم تاریخ ملک دشمن عناصر ، مفاد پرست سیاستدانوں اور اناپرست حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی معاف نہیں کرے گی اور اس کا خمیازہ انہیں بھی اسی طرح بھگتنا پڑے گا جس طرح دشمنان ملک وملت کو۔