فلاحی ریاست

ریاست سے وفاداری اس وقت تک جب تک وہ حق خلافت ادا کرتی رہے اور خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی وفادار رہے ۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

عہد حاضر کے تناظر میں جب ہم ایک فلاحی ریاست کے تصور کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے ایک مکمل فلاحی ریاست کا تصور آج سے چودہ سو برس قبل پیش کیا۔ اسلام نے جس فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا اس کے مطابق اسلامی ریاست دراصل ایک اصولی نظریاتی اور مقصدی ریاست ہے۔

یہ ریاست اﷲ کی حاکمیت اعلیٰ کا فخریہ اعلان کرتی ہے قرآن اور سنت کی مشعل بردار ہوتی ہے اسلامی شریعت کا قیام، نفاذ اور سربلندی کی ذمے داری اور مقصد ہوتا ہے وہ اپنی خلاف کی پوزیشن کو شعوری طور پر تسلیم اور حلفیہ طور پر اس کا اقرار کرتی ہے اپنے اختیارات کی توانائی شمس اسلام سے حاصل کرتی ہے۔ ہر مسلم شہری کی بنیادی وفاداری اور فرماں برداری شریعت سے ہوتی ہے۔

ریاست سے وفاداری اس وقت تک جب تک وہ حق خلافت ادا کرتی رہے اور خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی وفادار رہے۔ اگر وہ ان سے بے وفائی کرے تو ہر گز مسلمانوں پر اس کی اطاعت لازم نہیں۔ اسلام میں اطاعت ایک اصول کی ہے، اقتدار کی نہیں۔ اسلامی ریاست کا مقصد مسلمانوں کو وہ مواقعے فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے وہ با آسانی ہدایت الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔

اسلام نے چودہ سو برس پہلے فلاحی ریاست کا کامل ترین تصور پیش کیا اور دنیا کی پہلی فلاحی ریاست عملاً قائم کر کے ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔ آج کل مغرب میں اجتماعی معاشی تحفظ کو جو نظام رائج ہے وہ انسان نے ایک طویل معاشی مطالعے اور جد وجہد کے بعد آگ اور خون کے دریا سے گزر کر اپنا نوالہ حق حاصل کیا ہے۔ یہ اسلام کے عطا کردہ شعور اور بیداری کی ارتقائی تاریخ کا آغاز پانچویں صدی قبل از مسیح کے یونان سے کرتے ہوئے اور پھر پانچویں صدی کے روم سے اپنے شعور اور بیداری کا تعلق جوڑتے ہوئے ایک ہی چھلانگ میں گیارہویں صدی عیسوی میں داخل ہو جاتے ہیں۔

چھٹی صدی سے دسویں صدی عیسوی تک پانچ سو سالہ تاریخ کا زمانہ طوطا چشمی کے ساتھ فراموش اور نظر انداز کر دیتے ہیں کیوں کہ یہ اسلام کی عالمی سیاسی قیادت کا زمانہ ہے جس میں محسن انسانیت انسان کے بنیادی حق معاش کا یہ تاریخی اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ ابن آدم کا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کے لیے رہنے کو گھر، پہننے کے لیے کپڑا، کھانے کے لیے روٹی اور پینے کے لیے پانی ہو۔

حکومت ہر اس مسئلے (مثلاً قرض اور بے سہارا خاندان وغیرہ) کی ذمے دار ہے کیوں کہ یہ وہ تاریخ ساز اور سنہری دور ہے جس میں حضرت عمر فاروقؓ یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ '' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا (بعض روایات میں ہے کہ) ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر جائے تو اس کی ذمے داری عمرؓ (سربراہ مملکت) پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ اس تاریخ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اجتماعی اور معاشرتی انصاف کا وہ سنہری زمانہ بھی شامل ہے جس میں معاشی خوش حالی کا یہ عالم تھا کہ زکوٰۃ دینے والے تو بے شمار تھے لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔


یہ اہل مغرب کی اسلام کے خلاف بغض و عناد، تعصب و دشمنی اور تنگ نظری نہیں تو کیا ہے؟ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ فلاحی ریاست کا تصور علم و آگہی خاص اسلام کا عطیہ اور سوغات ہے اس سلسلے میں اسلام دنیا کا پیش رو ہے۔ اس حقیقت کا جھٹلانا اسلام کے ساتھ زیادتی نہیں تاریخ کے ساتھ نا انصافی بھی ہے۔

معاشی انصاف اسلامی ریاست کی اہم ترین ذمے داریوں میں سے ایک ہے، اسلامی ریاست اس فرض کو ہر قیمت اور ہر حال میں ادا کرتی ہے۔ یہ احسان نہیں ادائیگی فرض ہے کیوں کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کا معاشی تحفظ بھی ہر اسلامی ریاست کے شہری کا بنیادی اور اولین حق ہے، اسلامی ریاست افلاس اور غربت کو مٹانے میں کفر کی ظلمتوں کے مٹانے کے مترادف سرگرم عمل نظر آتی اور اپنا اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

وہ کام کے اہل تمام افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے اور جب تک بیروزگار کو ذریعہ معاش نہیں مل پاتا وہ ان کی معاشی کفالت کرتی ہے۔ ان تمام افراد کی معاشی کفالت بھی حکومت وقت کے ذمے ہوتی ہے جو بڑھاپے، بیماری، معذوری اور کمسنی کی وجہ سے اپنی روزی آپ کمانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی مالی مدد ملتی ہے جن کے ذرایع آمدنی محدود اور ناکافی ہوتے ہیں۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلاف میں عام شہریوں سے لے کر نو مولود بچوں تک کے وظائف سرکاری خزانے سے مقرر تھے۔ کوئی شہری، مسلم یا غیر مسلم معاشی لحاظ سے پریشان نہ تھا۔ اس کو اپنا معاشی حق گھر بیٹھے ملتا تھا اس حصول کے لیے اس کو دوڑ دھوپ ہر گز نہیں کرنی پڑتی تھی۔ شہریوں کے لیے کھانے پینے کا سامان، سردی، گرمی کے کپڑے، سفری سہولیات حکومت کے ذمے تھیں۔

اجتماعی عدل کا یہ درخشاں آفتاب پوری آب و تاب کے ساتھ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی المرضیٰؓ کے دور خلافت میں رو شن اور چمکتا دمکتا رہا۔ پھر یہ روشنی چھٹی صدی سے دسویں صدی عیسوی یعنی پانچ سو سال تک کبھی تیز اور کبھی ہلکی حالت میں دیکھی جاتی رہی اس کے بعد اس آفتاب کو گہن لگنا شروع ہوا پھر یہ آفتاب عالم اسلام کے افق پر ڈھلنے لگا اور ڈھلتے ڈھلتے غروب ہوگیا۔ آج مغرب میں رائج یہی نظام اول تا آخر کلی طور پر درحقیقت اسلام اور تاریخ اسلام کا ہی مرہون منت ہے۔

آج اسلامی دنیا پھر اس آفتاب کے طلوع ہونے کی بے چینی سے منتظر ہے اور آفتاب منتظر ہے کہ پہلے مسلمانوں میں حضرت ابراہیمؑ کا ایمان اور پھر ایمان پر ثابت قدم رہنے کا عزم و حوصلہ پیدا ہوجائے تو وہ طلوع ہونے کے لیے چشم براہ ہے۔
Load Next Story