سندھ دھرتی کو مبارک ہو پہلا حصہ
خط لکھے تو ایسے یادگار کہ قدردانوں نے کتابی صورت میں چھپوا لیے ۔۔۔۔
سچ پوچھو تو ہماری دنیا میں نئے دور کا پہلا سورج طلوع ہو چکا ہے، ایسا عظیم دور جس میں خالی جینا بھی ثواب ہے۔ جہالت اور خوف کا دور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس میں ہر جینے والے انسان کو زندگی بچانا بھی مشکل مرحلہ لگتا ہے۔ ایسے دور میں پیدا ہونے والے لوگ اور کام کرنے والے مفکر خراج تحسین کے مستحق ہوتے ہیں۔ ہمارے دور کا ''سورج'' اور ''سچ'' جس کے تعارف کے لیے مجھے ابتدا میں ہی اسی کے الفاظ مستعار لینے پڑے وہ محمد ابراہیم جویو ہیں۔ جویو علم کا وہ سورج ہیں جو کہ ایک صدی تک سندھ کی دھرتی پر مسلسل اپنی روشنی بکھیرتا رہا۔ قلم سے، سوچ سے، شعور بکھیرنے والے سقراطی قافلے کے سالار ہوتے ہیں۔ مشکلیں اور رکاوٹیں انھیں سفر سے روک نہیں سکتیں۔
صدیوں سے سقراط کا پیا ہوا جام نہ کم ہوا ہے نہ ٹوٹا ہے یہ علامتی زہر کا پیالہ زندگی پر نہ جھکنے والے اور معاشرے کے مخصوص فرسودہ نظام کو للکارنے والے کے آگے ضرور رکھتی ہے۔ کچھ لوگ واپس لوٹ جاتے ہیں کچھ بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی کے دیے ہوئے زہر کو گھونٹ گھونٹ پیتے، ہر گھونٹ سے آب حیات کا مزہ لیتے جاتے ہیں اور ان کی فکر ابدیت حاصل کر لیتی ہے۔ محمد ابراہیم جویو سندھ کی وہ عظیم ہستی ہیں جن پر سندھ کے ادیبوں، دانشوروں اور دوستوں نے بہت لکھا ہے لیکن ان کا کام اس سے بہت زیادہ ہے۔
ساگر جیسے آدمی کو لفظوں میں قید کرنا اور اس کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہے۔ جویو صاحب وہ سنگ میل ہیں جن کو چھونا ممکن ہی نہیں، ایک صدی میں بکھرے ہوئے ان کے کام اور ان کی سوچ کا مرکز اور محور انسان کا شعور رہا ہے۔ ضلع دادو، تعلقہ کوٹری کی حدود میں ساٹھ، ستر گھروں پر مشتمل چھوٹے سے گاؤں کے محنت کش کسان کے گھر میں 13 اگست 1915 کو آنکھ کھولنے والے بچے نے تعلیمی میدان میں اپنی محنت سے قدم رکھا اور آگے بڑھتا گیا۔ پڑھا بھی اور پڑھایا بھی۔
سید مظہر جمیل نے محمد ابراہیم جویو پر ''ایک صدی کی آواز'' کتاب میں ان کی زندگی کے حالات بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ ان کا لکھنا، ان کا بولنا سب کچھ اوروں کے لیے اپنی ذات میں مست ملنگ ابراہیم جویو نے ادب کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جس صنف پر بھی قلم اٹھایا ہے اس کو ادب میں اہم مقام پر لے گئے ہیں ان کے تراجم اتنے بہترین کہ اصل تحریر پھیکی پڑ جائے۔ ادبی مہاگ پیش لفظ پڑھیں تو اصل کتاب سے زیادہ سیر حاصل بحث اس میں نظر آتی ہے۔
کتاب کو سمجھ کر اس پر لکھنا کوئی ان سے سیکھے۔ خط لکھے تو ایسے یادگار کہ قدردانوں نے کتابی صورت میں چھپوا لیے، کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے اور تراجم کے انتخاب کے کیا کہنے ایملی یا تعلیم از جان جیکب، بچوں کی تعلیم از پلوٹارک، وحشی جیوت کے نشان از ہارورڈ مور، فرانسیسی انقلاب از اییلی انگرکین اور ایلگزینڈر چائباں، فلسفے کا اولین کورس، جارج یولیسز ، فکر کی آزادی از اسٹیفن زویگ، گیلیلو کی زندگی ازبرٹولٹ بریخت، علم تدریس مظلوموں کے لیے ہائیلو فریری، بچوں کا مسیح از انڈریلا۔ ساری شہرہ آفاق کتابیں اپنے اپنے ملکوں اور اپنی زبانوں کی شاہکار کتب جویو نے سندھ کے والیوں کو تحفہ دے دیں۔
موضوع کوئی بھی ہو، سماجیات، سیاسیات، ادبیات، تاریخ، تعلیم، مذہب اس کا مخاطب عام آدمی ہے۔ آخر جویو صاحب کو اتنی جانفشانی کی کیا ضرورت تھی اس نے قلم کیوں اٹھایا۔ جویو صاحب کے کچھ خواب ہیں جن کو اس نے قلم کے ذریعے پورا کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ اس کے سپنے اس کے لفظوں سے ظاہر ہیں اور ان کی تعبیریں بھی وہ خود ہی دیتا ہے، غلام سوچ کا خاتمہ، اظہار کی آزادی انسان کو تبدیلی کی طرف لے جاتی ہے، یہی جویو کا خواب ہے جو کہ ایک صدی پر مشتمل ہے۔ ''غلامانہ سوچ کبھی بھی آزادی کے خواب نہیں دیکھتی۔''
جویو صاحب کا ایک ڈرامہ جو کہ 1950ء میں ٹریننگ کالج فار مین حیدر آباد کے سالانہ فنکشن میں اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس مختصر ڈرامے میں ایک گہری فکر کو پیش کیا گیا تھا۔ قوموں کی آزادی، انسان کی آزادی کو شعور کی روش اور علم کی جستجو سے منسلک کیا گیا۔ غلامی کی ہتھکڑیاں پہنے، آنکھوں پہ جہالت کی پٹی، پاؤں میں بیڑیاں لگائے بے بس انسان، ظلم، جہالت، بھوک، بیماری، رشوت اور خوف کے غلافوں میں لپٹا ہوا دکھایا جاتا ہے ''ظلم'' اپنی ہیبت ناک شکل اور اسلحے سے لیس اپنی جابریت کا اعلان کرتا ہے۔
''میں ظلم ہوں، غلامی میرا فعل ہے، جسمانی غلامی سے بڑھ کر ذہنی غلامی پیدا کرنا اور پیدا کر کے ہمیشہ قائم رکھنا میرا مقصد ہے۔ ظلم، خوف کو جنم دیتا ہے اور خوف سے بزدلی جنم لیتی ہے خوف میں جکڑا ہوا انسان کبھی بھی آزادی سے سوچ نہیں سکتا، ظلم سے نجات کا ذریعہ جویو نے علم کو قرار دیا ہے۔ ڈرامے کا ایک کردار علم کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور قیدی غلام انسان کی آنکھوں سے جہالت کی پٹی اتارتا ہے۔
ہاتھوں پیروں کی زنجیر کاٹتا ہے اور کہتا ہے ''میں تمہارے لیے روشنی کا پیغام اور آزادی کا سندیسہ لایا ہوں، تم اپنے ذہن کے دروازے کھولو اور میری روشنی کو اندر آنے دو۔ میرے نور کو اپنی تاریک روح میں جگہ دو۔'' ڈرامے کے آخری منظر میں انسان آزاد ہوتا ہے اور برابری اور انصاف کے راستے پہ چلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔
جویو کا پیغام فکر سندھ تک محدود نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے سپنے سندھ کی خوشحالی کے ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں کو محدود نہیں کر رہا اس کا شعور انسان کی بھلائی کے لیے ہے۔ دنیا کے اہم انقلابات کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ اپنے لوگوں کے ذہنوں کے بند دروازوں پہ دستک دیتا ہے۔ انقلاب کیا ہے۔
انقلاب کیسے آتا ہے اپنی کتاب ''ادب بولی اور تعلیم'' میں لکھتا ہے کہ ''خیال کی آزادی ایک بے مثال اور بے بہا نعمت ہے، یورپ کے ادیبوں، مفکروں اور دانشوروں نے صدیوں کے قلمی جہاد سے اور قید کی تاریک کھولیوں میں عمریں کاٹنے اور عیاشی علما اور مشائخین کی جلائی ہوئی آگ کے شعلوں میں چپ چاپ جل کر راکھ ہو کر، آزادی ایک حد تک حاصل کی یورپ اور دوسری مغربی دنیا کی ساری ترقی جو کہ انھوں نے کی اور آج کل کے انسان کے سارے... سلامتی، ثقافتی عظمت کی بنیاد اور ضمانت ہے وہ خیال کے اظہار کی آزادی کے حصول کے بعد ہی کر سکے۔''
18 ویں صدی کو روشنی کی صدی اس لیے کہا گیا کہ فرینچ انقلاب کے بعد دنیا میں ہلچل شروع ہو گئی۔ اس انقلاب کے بعد کئی تحریکیں ابھریں فرینچ انقلاب یورپ کی تاریخ میں انسان کی بہت بڑی جیت ہے۔ فرینچ انقلاب سے پہلے تین فلاسفرز کی سوچ اور محنت کو جویو صاحب نے تحسین کے قابل سمجھا ہے اور اپنی تحریروں میں ان کی مثالیں پیش کی ہیں۔ مانٹیگو، والٹیئر اور روسو ایسے فلاسفر اور مفکر ہیں جو انقلاب کو دیکھ نہیں سکے لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے جو انقلاب لائے جویو صاحب ان کو منظر پہ لاتے ہیں۔
کتاب ''فرینچ انقلاب'' میں جویو نے فرینچ انقلاب سے پہلے، فرانس کے حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس دور کے فلسفے کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اس انقلاب کو وہ انسان کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ سوچنے والے ذہنوں میں لاکھوں سوال پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے قلمکاروں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے قلم سے انقلاب ممکن ہے تو پھر ہم کہاں ہیں؟ ہمارے اہل قلم کچھ تو سوچیں۔ یورپ کی تبدیلی کی وجہ اظہار آزادی اور فکر کی آزادی ہے انسانی ذہن میں اٹھتے ابھرتے سوالوں نے سائنسی ایجادیں کیں۔
حالانکہ اپنے اپنے دور میں سائنسدان زیر عتاب رہے ہیں لیکن آنے والی صدیوں کے لیے وہ ترقی کی بنیادیں بنا کر گئے۔ جویو صاحب اپنی ترجمہ کی ہوئی کتاب گلیلو کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ وہم، وسوسے اور غیر علمی عقیدے... کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، اس کے برعکس علمی اور سائنسی تحقیق کے ذریعے انسان کو کائنات کے رازوں کو سمجھنے اور پرکھنے کا شعور حاصل ہوتا ہے اور خوف و خطر سے نجات ملتی ہے۔ جس کے زیر اثر انسان صدیوں تک ذہنی اور اخلاقی طرح بونے، لولے اور لنگڑے رہتے ہیں۔
صدیوں سے سقراط کا پیا ہوا جام نہ کم ہوا ہے نہ ٹوٹا ہے یہ علامتی زہر کا پیالہ زندگی پر نہ جھکنے والے اور معاشرے کے مخصوص فرسودہ نظام کو للکارنے والے کے آگے ضرور رکھتی ہے۔ کچھ لوگ واپس لوٹ جاتے ہیں کچھ بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی کے دیے ہوئے زہر کو گھونٹ گھونٹ پیتے، ہر گھونٹ سے آب حیات کا مزہ لیتے جاتے ہیں اور ان کی فکر ابدیت حاصل کر لیتی ہے۔ محمد ابراہیم جویو سندھ کی وہ عظیم ہستی ہیں جن پر سندھ کے ادیبوں، دانشوروں اور دوستوں نے بہت لکھا ہے لیکن ان کا کام اس سے بہت زیادہ ہے۔
ساگر جیسے آدمی کو لفظوں میں قید کرنا اور اس کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہے۔ جویو صاحب وہ سنگ میل ہیں جن کو چھونا ممکن ہی نہیں، ایک صدی میں بکھرے ہوئے ان کے کام اور ان کی سوچ کا مرکز اور محور انسان کا شعور رہا ہے۔ ضلع دادو، تعلقہ کوٹری کی حدود میں ساٹھ، ستر گھروں پر مشتمل چھوٹے سے گاؤں کے محنت کش کسان کے گھر میں 13 اگست 1915 کو آنکھ کھولنے والے بچے نے تعلیمی میدان میں اپنی محنت سے قدم رکھا اور آگے بڑھتا گیا۔ پڑھا بھی اور پڑھایا بھی۔
سید مظہر جمیل نے محمد ابراہیم جویو پر ''ایک صدی کی آواز'' کتاب میں ان کی زندگی کے حالات بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ ان کا لکھنا، ان کا بولنا سب کچھ اوروں کے لیے اپنی ذات میں مست ملنگ ابراہیم جویو نے ادب کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جس صنف پر بھی قلم اٹھایا ہے اس کو ادب میں اہم مقام پر لے گئے ہیں ان کے تراجم اتنے بہترین کہ اصل تحریر پھیکی پڑ جائے۔ ادبی مہاگ پیش لفظ پڑھیں تو اصل کتاب سے زیادہ سیر حاصل بحث اس میں نظر آتی ہے۔
کتاب کو سمجھ کر اس پر لکھنا کوئی ان سے سیکھے۔ خط لکھے تو ایسے یادگار کہ قدردانوں نے کتابی صورت میں چھپوا لیے، کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے اور تراجم کے انتخاب کے کیا کہنے ایملی یا تعلیم از جان جیکب، بچوں کی تعلیم از پلوٹارک، وحشی جیوت کے نشان از ہارورڈ مور، فرانسیسی انقلاب از اییلی انگرکین اور ایلگزینڈر چائباں، فلسفے کا اولین کورس، جارج یولیسز ، فکر کی آزادی از اسٹیفن زویگ، گیلیلو کی زندگی ازبرٹولٹ بریخت، علم تدریس مظلوموں کے لیے ہائیلو فریری، بچوں کا مسیح از انڈریلا۔ ساری شہرہ آفاق کتابیں اپنے اپنے ملکوں اور اپنی زبانوں کی شاہکار کتب جویو نے سندھ کے والیوں کو تحفہ دے دیں۔
موضوع کوئی بھی ہو، سماجیات، سیاسیات، ادبیات، تاریخ، تعلیم، مذہب اس کا مخاطب عام آدمی ہے۔ آخر جویو صاحب کو اتنی جانفشانی کی کیا ضرورت تھی اس نے قلم کیوں اٹھایا۔ جویو صاحب کے کچھ خواب ہیں جن کو اس نے قلم کے ذریعے پورا کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ اس کے سپنے اس کے لفظوں سے ظاہر ہیں اور ان کی تعبیریں بھی وہ خود ہی دیتا ہے، غلام سوچ کا خاتمہ، اظہار کی آزادی انسان کو تبدیلی کی طرف لے جاتی ہے، یہی جویو کا خواب ہے جو کہ ایک صدی پر مشتمل ہے۔ ''غلامانہ سوچ کبھی بھی آزادی کے خواب نہیں دیکھتی۔''
جویو صاحب کا ایک ڈرامہ جو کہ 1950ء میں ٹریننگ کالج فار مین حیدر آباد کے سالانہ فنکشن میں اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس مختصر ڈرامے میں ایک گہری فکر کو پیش کیا گیا تھا۔ قوموں کی آزادی، انسان کی آزادی کو شعور کی روش اور علم کی جستجو سے منسلک کیا گیا۔ غلامی کی ہتھکڑیاں پہنے، آنکھوں پہ جہالت کی پٹی، پاؤں میں بیڑیاں لگائے بے بس انسان، ظلم، جہالت، بھوک، بیماری، رشوت اور خوف کے غلافوں میں لپٹا ہوا دکھایا جاتا ہے ''ظلم'' اپنی ہیبت ناک شکل اور اسلحے سے لیس اپنی جابریت کا اعلان کرتا ہے۔
''میں ظلم ہوں، غلامی میرا فعل ہے، جسمانی غلامی سے بڑھ کر ذہنی غلامی پیدا کرنا اور پیدا کر کے ہمیشہ قائم رکھنا میرا مقصد ہے۔ ظلم، خوف کو جنم دیتا ہے اور خوف سے بزدلی جنم لیتی ہے خوف میں جکڑا ہوا انسان کبھی بھی آزادی سے سوچ نہیں سکتا، ظلم سے نجات کا ذریعہ جویو نے علم کو قرار دیا ہے۔ ڈرامے کا ایک کردار علم کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور قیدی غلام انسان کی آنکھوں سے جہالت کی پٹی اتارتا ہے۔
ہاتھوں پیروں کی زنجیر کاٹتا ہے اور کہتا ہے ''میں تمہارے لیے روشنی کا پیغام اور آزادی کا سندیسہ لایا ہوں، تم اپنے ذہن کے دروازے کھولو اور میری روشنی کو اندر آنے دو۔ میرے نور کو اپنی تاریک روح میں جگہ دو۔'' ڈرامے کے آخری منظر میں انسان آزاد ہوتا ہے اور برابری اور انصاف کے راستے پہ چلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔
جویو کا پیغام فکر سندھ تک محدود نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے سپنے سندھ کی خوشحالی کے ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں کو محدود نہیں کر رہا اس کا شعور انسان کی بھلائی کے لیے ہے۔ دنیا کے اہم انقلابات کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ اپنے لوگوں کے ذہنوں کے بند دروازوں پہ دستک دیتا ہے۔ انقلاب کیا ہے۔
انقلاب کیسے آتا ہے اپنی کتاب ''ادب بولی اور تعلیم'' میں لکھتا ہے کہ ''خیال کی آزادی ایک بے مثال اور بے بہا نعمت ہے، یورپ کے ادیبوں، مفکروں اور دانشوروں نے صدیوں کے قلمی جہاد سے اور قید کی تاریک کھولیوں میں عمریں کاٹنے اور عیاشی علما اور مشائخین کی جلائی ہوئی آگ کے شعلوں میں چپ چاپ جل کر راکھ ہو کر، آزادی ایک حد تک حاصل کی یورپ اور دوسری مغربی دنیا کی ساری ترقی جو کہ انھوں نے کی اور آج کل کے انسان کے سارے... سلامتی، ثقافتی عظمت کی بنیاد اور ضمانت ہے وہ خیال کے اظہار کی آزادی کے حصول کے بعد ہی کر سکے۔''
18 ویں صدی کو روشنی کی صدی اس لیے کہا گیا کہ فرینچ انقلاب کے بعد دنیا میں ہلچل شروع ہو گئی۔ اس انقلاب کے بعد کئی تحریکیں ابھریں فرینچ انقلاب یورپ کی تاریخ میں انسان کی بہت بڑی جیت ہے۔ فرینچ انقلاب سے پہلے تین فلاسفرز کی سوچ اور محنت کو جویو صاحب نے تحسین کے قابل سمجھا ہے اور اپنی تحریروں میں ان کی مثالیں پیش کی ہیں۔ مانٹیگو، والٹیئر اور روسو ایسے فلاسفر اور مفکر ہیں جو انقلاب کو دیکھ نہیں سکے لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے جو انقلاب لائے جویو صاحب ان کو منظر پہ لاتے ہیں۔
کتاب ''فرینچ انقلاب'' میں جویو نے فرینچ انقلاب سے پہلے، فرانس کے حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس دور کے فلسفے کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اس انقلاب کو وہ انسان کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ سوچنے والے ذہنوں میں لاکھوں سوال پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے قلمکاروں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے قلم سے انقلاب ممکن ہے تو پھر ہم کہاں ہیں؟ ہمارے اہل قلم کچھ تو سوچیں۔ یورپ کی تبدیلی کی وجہ اظہار آزادی اور فکر کی آزادی ہے انسانی ذہن میں اٹھتے ابھرتے سوالوں نے سائنسی ایجادیں کیں۔
حالانکہ اپنے اپنے دور میں سائنسدان زیر عتاب رہے ہیں لیکن آنے والی صدیوں کے لیے وہ ترقی کی بنیادیں بنا کر گئے۔ جویو صاحب اپنی ترجمہ کی ہوئی کتاب گلیلو کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ وہم، وسوسے اور غیر علمی عقیدے... کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، اس کے برعکس علمی اور سائنسی تحقیق کے ذریعے انسان کو کائنات کے رازوں کو سمجھنے اور پرکھنے کا شعور حاصل ہوتا ہے اور خوف و خطر سے نجات ملتی ہے۔ جس کے زیر اثر انسان صدیوں تک ذہنی اور اخلاقی طرح بونے، لولے اور لنگڑے رہتے ہیں۔