بلوچستان کی سیاست
بلوچستان میں آزاد بلوچستان کارواں بھی بنا ہوا ہے جو پرانی آزمودہ سیاست کے خلاف اور آزاد وطن کی بات کرتے ہیں ۔۔۔
ویسے تو ملک بھر میں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے مگر بلوچستان ایسا پس ماندہ صوبہ ہے جہاں سیاست کا جمہوریت سے صرف کہنے کی حد تک واسطہ ہے اور سیاست اور جمہوریت کے علمبردار وہاں کے سردار، خان، مَلک اور قوم پرست لیڈر ہیں اور بلوچستان مُلک کا پہلا صوبہ ہے جہاں قوم پرست علاقائی پارٹیوں پختون خواہ ملی پارٹی کا گورنر اور دوسری قوم پرست پارٹی کا ایک گروپ نیشنل پارٹی (بزنجو) کا وزیر اعلیٰ ہے اور ایک قومی پارٹی مسلم لیگ (ن) ان کی اتحادی ہے جب کہ پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اے این پی اپوزیشن میں موجود ہیں۔
کہنے کو تو مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونیوالے ارکان اسمبلی موجود ہیں جنھوں نے (ق) لیگ کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت قبول کر رکھی ہے اور وہ حکومت میں بھی شامل ہیں مگر (ق) لیگ میں اتنا دم نہیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے اور وہ خاموش رہنے پر مجبور ہے۔
ایک قومی پارٹی جے یو آئی ف بھی موجود ہے جو جنرل پرویز اور صدر آصف علی زرداری کے اقتدار میں مسلسل دس سال بلوچستان حکومت میں شامل رہی مگر اس بار (ن) لیگ کی رضامندی مگر برسر اقتدار قوم پرست پارٹیوں کی مخالفت کے باعث جے یو آئی کو بلوچستان حکومت میں شامل نہیں کیا گیا اور جے یو آئی ف کا ایک نظریاتی گروپ بلوچستان کی سیاست میں موجود ہے۔ بلوچستان میں تحریک انصاف تو موجود ہے مگر اس کا ایک بھی رکن اسمبلی بلوچستان سے نہیں ہے اور نہ عمران خان بلوچستان اور سندھ کو اہمیت دے رہے ہیں۔
بلوچستان کی پشتون خواہ میپ کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی80 سالہ تاریخ میں ہمیشہ جابر حکمرانوں اور آمریتوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور ان کے شہید رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کی لازوال جدوجہد سے ہی پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا اور ہمارے رہنماؤں کی وجہ سے ہی جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں۔
پشتون خوا میپ جنوبی پشتونخوا سمجھتی ہے کہ اگر وہ 1970ء کے بعد چالیس سالوں میں اقتدار میں ہوتی تو آج جنوبی پشتونخوا اذیت ناک صورتحال سے دوچار نہ ہوتا اور چالیس سال اقتدار میں رہنے والوں نے غلط سیاست، لوٹ مار اور کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا۔ بلوچستان میں جے یو آئی ایسی پارٹی ہے جس میں پشتون اور بلوچ کافی اور واضح طور پر موجود ہیں اور دیگر قومی پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ جے یو آئی کے قریب سمجھی جانے والی جماعت اہلسنت و الجماعت سنی انقلاب کی داعی ہے اور وہ اپنا مقصد سنی انقلاب ملک میں برپا کرنا قرار دیتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین اور تحریک نفاذ جعفریہ بھی بلوچستان میں اپنے مسلک والوں کے لیے سیاست میں سرگرم ہیں اور مجلس ماضی میں کوئٹہ میں اہم دھرنے دے چکی ہے جس کا صوبے میں ایک رکن اسمبلی بھی ہے جو اپوزیشن کا حصہ ہے۔
ان دونوں جماعتوں کی طرح بلوچستان شیعہ کانفرنس بھی ہے اور دھرنوں کی حامی ہے بلوچستان میں جو تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں بی ایل اے کا نام زیادہ لیا جاتا ہے جب کہ کالعدم تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی بھی ہے جو حکومت بلوچستان سے مذاکرات کے خلاف اور بلوچستان کو آزادی دلانے کی حمایت کرتی ہیں اور عجب بات ہے کہ جب بھی بلوچستان میں کوئی تخریب کاری ہوتی ہے۔
یہ تینوں علیحدگی پسند جماعتیں اس کی ذمے داری خود قبول کر لیتی ہیں جس کا ثبوت 4 اگست کو فورسز پر جو حملہ ہوا اس کی ذمے داری یو بی اے اور بی ایل ایف دونوں نے قبول کی ہے ۔ بعض حساس حلقوں کے مطابق علیحدگی پسند جماعتوں نے ہی بلوچستان میں قومی پرچم لہرانے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔
بلوچستان میں آزاد بلوچستان کارواں بھی بنا ہوا ہے جو پرانی آزمودہ سیاست کے خلاف اور آزاد وطن کی بات کرتے ہیں اور ان چاروں علیحدگی پسند جماعتوں کا عوامی سطح پر کوئی وجود نہیں ہے۔ ایک غیر مرئی گوریلا وار جیسی فضا ہے جس میں بلوچستان کے دشت و جبل سراسیمہ ہیں۔ مگر غربت جو بلوچستان کی سیاست کو بے سروساماں کیے ہوئے ہے اس کے خلاف لڑنیوالی کوئی سیاسی قوت فعال نہیں۔
اے این پی بھی بلوچستان میں اہم پارٹی رہی ہے مگر اب اس کی اہمیت کے پی کے میں زیادہ ہے کیونکہ بلوچستان میں پشتون خوا ملی پارٹی بھی پشتونوں کی نمایندگی کی دعویدار ہے اور بلوچستان میں پشتونوں کی ایک نئی پارٹی متحدہ ترین قومی موومنٹ بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور پشتون علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کر چکی ہے۔ پشتون خوا ملی پارٹی صوبے کے اقتدار میں اہم فریق ہے جس کا گورنر بھی اپنا ہے۔
اے این پی پشتون قوم کی سیاست کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ پشتونوں کا محافظ ہونے کی وجہ سے وہ مقتدر قوتوں کے نشانے پر ہے اور قومی ایشوز پر عدم مصلحت سب سے بڑی سزا اور گناہ بن چکی ہے کیونکہ کاسہ لیسی کبھی اے این پی کی پالیسی نہیں رہی۔ اے این پی سمجھتی ہے کہ وہ ہی پشتونوں کو مسائل اور مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق نیشنل پارٹی کے بزنجو گروپ سے ہے اور نیشنل پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ اب ایک قومی جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے اور اس کی حکومت کے قیام سے قبل بلوچستان جل رہا تھا اور آج عوام بہتر امن و امان کی وجہ سے سکھ کا سانس لے رہی ہے جو نیشنل پارٹی کی حکومت کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔
نیشنل پارٹی کا مینگل گروپ حکمران نیشنل پارٹی کے سخت خلاف ہے اور اس کا موقف ہے کہ حکمران جماعت بی این پی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے۔ اے این پی سے تعلق رکھنے والے کاسی قبیلے کے سربراہ ارباب عبدالظاہر کو اغوا ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں مگر موجودہ حکومت اب تک انھیں بازیاب نہیں کرا سکی ہے جن کی رہائی کے لیے پچاس کروڑ روپے تاوان طلب کیا گیا ہے اور ارباب عبدالظاہر کی بازیابی کے لیے بینر کوئٹہ شہر میں لگے ہوئے راقم نے خود بھی دیکھے ہیں۔
بلوچستان کی اہم سیاسی جماعتوں میں جمہوری وطن پارٹی بھی ہے جس کے بانی نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی رہے مگر اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد جمہوری پارٹی بھی اپنی مقبولیت کھو بیٹھی اور اکبر بگٹی کے ورثا اس پارٹی کو فعال اور موثر رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
بلوچستان میں قوم پرست پارٹیاں تو موجود ہی تھیں مگر بعد میں فرقہ پرستی پر سیاست کرنیوالی پارٹیاں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، مجلس وحدت المسلمین وجود میں آئیں اور ساتھ ساتھ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں ترین قومی موومنٹ، ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، خلجی قومی تحریک و دیگر بھی وجود میں آ چکی ہیں جو اپنی اپنی قوم کے افراد کو قومی اور صوبائی سیاسی پارٹیوں سے دور کر کے اپنی طرف لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پشتون اور بلوچ قوموں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں میں بھی شدید اختلافات ہیں۔ حکمران نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی ہے تو جے یو آئی ف، جے یو آئی (س) کے بعد اب جے یو آئی نظریاتی بھی موجود ہے۔ مسلم لیگ (ق) کا بھی بلوچستان میں وجود نظر آتا ہے تو مسلم لیگ (ن) بھی بلوچستان حکومت کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اب تک گروپنگ سے محفوظ ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں میں جتنی گروپنگ ہے وہ ملک کے کسی صوبے میں نظر نہیں آتی۔ یہاں پشتون قومی تحریک ہے تو بلوچستان متحدہ محاذ بھی ہے۔ یہاں جماعت اسلامی موثر سیاسی جماعت نہیں ہے اس کے مقابلے میں جے یو آئی ف صوبے میں اہمیت کی حامل جماعت ہے مگر تین گروپوں میں تقسیم ہے۔
بلوچستان میں پشتون اور بلوچوں کی نمایندگی کی دعویدار بے شمار پارٹیاں کام کر رہی ہیں اور ان کی سیاست ایک دوسرے پر الزامات تک محدود ہے۔بلوچستان کا سب سے اہم مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے اور موجودہ مخلوط حکومت بھی یہ مسئلہ حل کرانے میں ناکام رہی ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو تقریباً سترہ سو دن ہونیوالے ہیں جہاں ان سے اظہار یکجہتی کرنیوالوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔ ماما قدیر بلوچ لاپتہ افراد کے لیے اسلام آباد تک طویل ترین پیدل مارچ بھی کر چکے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہو رہا اور احتجاجی کیمپ مسلسل چل رہا ہے۔
بلوچستان کی سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے اور یہ سیاسی لوگ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور تک ملک کی سب سے بڑی کابینائیں بنتی رہیں۔
کہنے کو تو مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونیوالے ارکان اسمبلی موجود ہیں جنھوں نے (ق) لیگ کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت قبول کر رکھی ہے اور وہ حکومت میں بھی شامل ہیں مگر (ق) لیگ میں اتنا دم نہیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے اور وہ خاموش رہنے پر مجبور ہے۔
ایک قومی پارٹی جے یو آئی ف بھی موجود ہے جو جنرل پرویز اور صدر آصف علی زرداری کے اقتدار میں مسلسل دس سال بلوچستان حکومت میں شامل رہی مگر اس بار (ن) لیگ کی رضامندی مگر برسر اقتدار قوم پرست پارٹیوں کی مخالفت کے باعث جے یو آئی کو بلوچستان حکومت میں شامل نہیں کیا گیا اور جے یو آئی ف کا ایک نظریاتی گروپ بلوچستان کی سیاست میں موجود ہے۔ بلوچستان میں تحریک انصاف تو موجود ہے مگر اس کا ایک بھی رکن اسمبلی بلوچستان سے نہیں ہے اور نہ عمران خان بلوچستان اور سندھ کو اہمیت دے رہے ہیں۔
بلوچستان کی پشتون خواہ میپ کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی80 سالہ تاریخ میں ہمیشہ جابر حکمرانوں اور آمریتوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور ان کے شہید رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کی لازوال جدوجہد سے ہی پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا اور ہمارے رہنماؤں کی وجہ سے ہی جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں۔
پشتون خوا میپ جنوبی پشتونخوا سمجھتی ہے کہ اگر وہ 1970ء کے بعد چالیس سالوں میں اقتدار میں ہوتی تو آج جنوبی پشتونخوا اذیت ناک صورتحال سے دوچار نہ ہوتا اور چالیس سال اقتدار میں رہنے والوں نے غلط سیاست، لوٹ مار اور کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا۔ بلوچستان میں جے یو آئی ایسی پارٹی ہے جس میں پشتون اور بلوچ کافی اور واضح طور پر موجود ہیں اور دیگر قومی پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ جے یو آئی کے قریب سمجھی جانے والی جماعت اہلسنت و الجماعت سنی انقلاب کی داعی ہے اور وہ اپنا مقصد سنی انقلاب ملک میں برپا کرنا قرار دیتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین اور تحریک نفاذ جعفریہ بھی بلوچستان میں اپنے مسلک والوں کے لیے سیاست میں سرگرم ہیں اور مجلس ماضی میں کوئٹہ میں اہم دھرنے دے چکی ہے جس کا صوبے میں ایک رکن اسمبلی بھی ہے جو اپوزیشن کا حصہ ہے۔
ان دونوں جماعتوں کی طرح بلوچستان شیعہ کانفرنس بھی ہے اور دھرنوں کی حامی ہے بلوچستان میں جو تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں ان میں بی ایل اے کا نام زیادہ لیا جاتا ہے جب کہ کالعدم تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی بھی ہے جو حکومت بلوچستان سے مذاکرات کے خلاف اور بلوچستان کو آزادی دلانے کی حمایت کرتی ہیں اور عجب بات ہے کہ جب بھی بلوچستان میں کوئی تخریب کاری ہوتی ہے۔
یہ تینوں علیحدگی پسند جماعتیں اس کی ذمے داری خود قبول کر لیتی ہیں جس کا ثبوت 4 اگست کو فورسز پر جو حملہ ہوا اس کی ذمے داری یو بی اے اور بی ایل ایف دونوں نے قبول کی ہے ۔ بعض حساس حلقوں کے مطابق علیحدگی پسند جماعتوں نے ہی بلوچستان میں قومی پرچم لہرانے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔
بلوچستان میں آزاد بلوچستان کارواں بھی بنا ہوا ہے جو پرانی آزمودہ سیاست کے خلاف اور آزاد وطن کی بات کرتے ہیں اور ان چاروں علیحدگی پسند جماعتوں کا عوامی سطح پر کوئی وجود نہیں ہے۔ ایک غیر مرئی گوریلا وار جیسی فضا ہے جس میں بلوچستان کے دشت و جبل سراسیمہ ہیں۔ مگر غربت جو بلوچستان کی سیاست کو بے سروساماں کیے ہوئے ہے اس کے خلاف لڑنیوالی کوئی سیاسی قوت فعال نہیں۔
اے این پی بھی بلوچستان میں اہم پارٹی رہی ہے مگر اب اس کی اہمیت کے پی کے میں زیادہ ہے کیونکہ بلوچستان میں پشتون خوا ملی پارٹی بھی پشتونوں کی نمایندگی کی دعویدار ہے اور بلوچستان میں پشتونوں کی ایک نئی پارٹی متحدہ ترین قومی موومنٹ بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور پشتون علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کر چکی ہے۔ پشتون خوا ملی پارٹی صوبے کے اقتدار میں اہم فریق ہے جس کا گورنر بھی اپنا ہے۔
اے این پی پشتون قوم کی سیاست کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ پشتونوں کا محافظ ہونے کی وجہ سے وہ مقتدر قوتوں کے نشانے پر ہے اور قومی ایشوز پر عدم مصلحت سب سے بڑی سزا اور گناہ بن چکی ہے کیونکہ کاسہ لیسی کبھی اے این پی کی پالیسی نہیں رہی۔ اے این پی سمجھتی ہے کہ وہ ہی پشتونوں کو مسائل اور مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق نیشنل پارٹی کے بزنجو گروپ سے ہے اور نیشنل پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ اب ایک قومی جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے اور اس کی حکومت کے قیام سے قبل بلوچستان جل رہا تھا اور آج عوام بہتر امن و امان کی وجہ سے سکھ کا سانس لے رہی ہے جو نیشنل پارٹی کی حکومت کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔
نیشنل پارٹی کا مینگل گروپ حکمران نیشنل پارٹی کے سخت خلاف ہے اور اس کا موقف ہے کہ حکمران جماعت بی این پی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے۔ اے این پی سے تعلق رکھنے والے کاسی قبیلے کے سربراہ ارباب عبدالظاہر کو اغوا ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں مگر موجودہ حکومت اب تک انھیں بازیاب نہیں کرا سکی ہے جن کی رہائی کے لیے پچاس کروڑ روپے تاوان طلب کیا گیا ہے اور ارباب عبدالظاہر کی بازیابی کے لیے بینر کوئٹہ شہر میں لگے ہوئے راقم نے خود بھی دیکھے ہیں۔
بلوچستان کی اہم سیاسی جماعتوں میں جمہوری وطن پارٹی بھی ہے جس کے بانی نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی رہے مگر اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد جمہوری پارٹی بھی اپنی مقبولیت کھو بیٹھی اور اکبر بگٹی کے ورثا اس پارٹی کو فعال اور موثر رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
بلوچستان میں قوم پرست پارٹیاں تو موجود ہی تھیں مگر بعد میں فرقہ پرستی پر سیاست کرنیوالی پارٹیاں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، مجلس وحدت المسلمین وجود میں آئیں اور ساتھ ساتھ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں ترین قومی موومنٹ، ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، خلجی قومی تحریک و دیگر بھی وجود میں آ چکی ہیں جو اپنی اپنی قوم کے افراد کو قومی اور صوبائی سیاسی پارٹیوں سے دور کر کے اپنی طرف لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پشتون اور بلوچ قوموں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں میں بھی شدید اختلافات ہیں۔ حکمران نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی ہے تو جے یو آئی ف، جے یو آئی (س) کے بعد اب جے یو آئی نظریاتی بھی موجود ہے۔ مسلم لیگ (ق) کا بھی بلوچستان میں وجود نظر آتا ہے تو مسلم لیگ (ن) بھی بلوچستان حکومت کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اب تک گروپنگ سے محفوظ ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں میں جتنی گروپنگ ہے وہ ملک کے کسی صوبے میں نظر نہیں آتی۔ یہاں پشتون قومی تحریک ہے تو بلوچستان متحدہ محاذ بھی ہے۔ یہاں جماعت اسلامی موثر سیاسی جماعت نہیں ہے اس کے مقابلے میں جے یو آئی ف صوبے میں اہمیت کی حامل جماعت ہے مگر تین گروپوں میں تقسیم ہے۔
بلوچستان میں پشتون اور بلوچوں کی نمایندگی کی دعویدار بے شمار پارٹیاں کام کر رہی ہیں اور ان کی سیاست ایک دوسرے پر الزامات تک محدود ہے۔بلوچستان کا سب سے اہم مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے اور موجودہ مخلوط حکومت بھی یہ مسئلہ حل کرانے میں ناکام رہی ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو تقریباً سترہ سو دن ہونیوالے ہیں جہاں ان سے اظہار یکجہتی کرنیوالوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔ ماما قدیر بلوچ لاپتہ افراد کے لیے اسلام آباد تک طویل ترین پیدل مارچ بھی کر چکے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہو رہا اور احتجاجی کیمپ مسلسل چل رہا ہے۔
بلوچستان کی سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے اور یہ سیاسی لوگ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور تک ملک کی سب سے بڑی کابینائیں بنتی رہیں۔