ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں
انقلاب پرامن بھی ہوتے ہیں اور خونی بھی۔ دنیا ان دونوں طرح کے انقلابات کو عملی طور پر دیکھ چکی ہے ۔۔۔
گزشتہ ہفتے جو غیر یقینی صورتحال تھی وہ ابھی برقرار ہے۔ کچھ منفی رجحانات رکھنے والے تو یہ تک کہتے ہیں کہ یہ سارا ڈراما ہی آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے اور ملک دشمن عناصر (اندرونی و بیرونی) کو سنہری موقع پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے رچایا گیا ہے۔ اس انداز فکر میں کہاں تک صداقت ہے اس سے قطع نظر بہرحال سب کو اپنے اپنے خدشات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔
یہ الگ بات کہ دراصل مسئلہ ہی عوام کے بنیادی حقوق غصب اور پامال کرنے کا ہے ورنہ کوئی آئے دن اپنے ذاتی کام چھوڑ کر جلسے جلوس میں کیوں وقت ضایع کرتا۔ بات یہ بھی ہے کہ وقت تو وہی ضایع کرے گا جس کے پاس کرنے کو کچھ ہو گا نہیں۔ ہو گا تو صرف وقت ہی وقت تو اس کی مرضی وہ اپنے وقت کو جس طرح چاہے استعمال کرے۔
اگر حکومت وقت اتنی چھوٹی سی بات سمجھ لے ان کو کوئی نہ کوئی چھوٹے چھوٹے سے تعمیری کام پر لگا دے جس سے ان کی کچھ آمدنی بھی ہو جائے بیکار روائی توائی بھی نہ پھریں ملک کے بھی کئی چھوٹے موٹے کام جو حکمرانوں کی غفلت سے برسوں جوں کے توں پڑے رہتے ہیں وہ بھی ہو جائیں۔ تو جن کو کرنے کے لیے کچھ کام ہو گا تو پھر ان کو کوئی بدنظمی و انتشار پھیلانے، دھرنوں میں شرکت کرنے پر اکسانے میں کیسے کامیاب ہوگا؟
کیونکہ مصدقہ ذرایع سے یہ بات ہمارے کانوں تک بھی پہنچی کہ ان دھرنوں اور مارچوں میں شرکت یومیہ کئی کئی ہزار، کھانا پینا مفت کے علاوہ اسلام آباد کی سیر الگ کی پیشکش پر روز کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے جن میں اکثر شام کو بلا کام حاصل کیے ہی خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں اور ایک وقت بھی اپنے کنبے کو پیٹ بھر کر کھانے کے قابل نہ ہوں وہ کئی ہزار یومیہ پھر کھانا ناشتہ جو عام حالات میں ان کو روز تو کیا کئی روز میسر نہیں آتا اگر مل رہا ہو تو پورے کنبے کے ساتھ، تھوڑے دھکے، آنسو گیس کو برداشت کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟
جب باوثوق ذرایع نے ہمیں اس صورتحال سے آگاہ کیا تو ہم اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے مگر جب مختلف چینلز پر دھرنوں کے شرکا کی حرکات و سکنات کرتب اور قلابازیاں دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑا کہ یہ نظریاتی لوگ ہیں نہ اصل صورتحال سے واقف۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ کیوں اور کیا کرنے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ایک چینل کی رپورٹر نے کئی افراد سے پوچھا کہ آپ سول نافرمانی کے لیے تیار ہیں تو معصومیت سے جواب ملا کہ جی یہ کیا چیز ہے؟ یہ تو ہم کو معلوم نہیں مگر خان صاحب جو کہیں گے وہ ہم کریں گے۔ بس دعا ہے کہ دھرنے اور مارچ کامیاب ہوں یا ناکام ان بیچاروں کو ان کی دیہاڑی مل جائے ورنہ تو ان کا واپس اپنے گھر پہنچنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
اب ذرا ہمارے باضمیر پڑھے لکھے، عقل و دانش اور باشعور قارئین (کیونکہ اخبارات ان ہی خصوصیات کے حامل پڑھتے ہیں) کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ ایسے سادہ لوح افراد جو ملکی صورتحال (اندرونی و بیرونی) کے بارے میں ذرا واقف نہ ہوں، قائدین کے مقاصد سے آگاہ نہ ہوں، اپنے اچھے برے کا ادراک نہ رکھتے ہوں وہ قوم کو ملک کے مضبوط طبقے یعنی جاگیرداروں سے نجات دلانے اور انقلاب برپا کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں؟ جب کہ دونوں طرف ایسا کوئی ذکر بھی نہیں کہ ہم اس نظام کو ختم کر کے دم لیں گے (حالانکہ پاکستانی عوام کے مسائل کی جڑ یہی طبقہ ہے) دراصل لفظ انقلاب کا استعمال جتنا آسان ہے اس کے معنی و روح سمجھنے اور سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے۔
انقلاب پرامن بھی ہوتے ہیں اور خونی بھی۔ دنیا ان دونوں طرح کے انقلابات کو عملی طور پر دیکھ چکی ہے کیونکہ یہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔ انقلاب اسلامی سے بڑا پرامن انقلاب کون سا ہوگا؟ اس انقلاب کے داعی کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا نہ شخصیت میں ابہام۔ انھوں نے انقلاب بعد میں برپا کیا پہلے صادق و امین قرار پائے اور یہ خطاب ان کو اپنوں نے نہیں غیروں نے بلکہ بعد میں جانی دشمنوں نے دیے تھے۔
مختصر یہ کہ شرط انقلاب ہے کہ انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والے کی شخصیت متنازعہ نہ ہو، اس کے قول و فعل میں سرمو فرق نہ ہو وہ اپنے ارادے اور عمل میں شروع سے آخر تک ایک اصول پر کاربند ہو۔ کوئی بڑی سے بڑی طاقت اس کو اپنے ارادوں سے باز نہ رکھ سکے۔ بات چند حلقوں میں دھاندلی سے شروع ہوئی تھی اور سول نافرمانی تک پہنچ گئی۔ کل تک ریڈزون میں قدم تک نہ رکھنے کا اعلان تھا آج سب رکاوٹیں توڑ کر داخل ہو رہے ہیں ۔ پرجوش بیانات کس بنیاد پر؟ کیا یہ شخصی وعملی تضاد نہیں ہے؟ چلیے اپنے دوسرے ہمدرد و مہربان کے کردار پر بھی نظر ڈال لیجیے وہ کیونکہ مذہبی جبہ و دستار میں ملبوس ہیں لہٰذا انھیں کچھ کہنا توہین مذہب میں شمار ہوسکتا ہے۔
میں نے اپنے معزز قارئین کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا غور و فکر کیجیے کیا یہ لوگ قابل اعتبار ہیں، علامہ موصوف نے نیو یارک میں مقیم پاکستانیوں کو اپنا ایک فتویٰ یا نظریہ کتابی شکل میں اس کی رونمائی کی ایک محفل میں تقسیم فرمایا۔ 38 سال سے میرے بڑے بھائی نیویارک میں رہائش پذیر ہیں انھوں نے اس کا مطالعہ کر کے زبانی مجھے اس کے اندراج (چیدہ چیدہ سے) آگاہ کیا۔ (وہ کتاب ابھی مجھے ملی نہیں ہے) مگر میں اب تک خوف فساد خلق کے باعث اس کو اپنے کسی کالم میں تحریر نہ کر سکی تھی۔ مگر آج جب وہ معاملہ خود چل کر اسلام آباد پہنچ گیا ہے تو پھر اب کیسا پردہ؟
اس کتابی فتوے میں علامہ موصوف نے قران و حدیث اور تمام فقہی مکاتب کے حوالے سے مسلمان ریاست اور حکمرانوں کے خلاف اقدام اور ان کی حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کے لیے سزا اور بدعنوان حکومت کے خلاف جانے کے بارے میں نظریات کے علاوہ اپنا فتویٰ بھی جاری کیا ہے کہ ''مسلمان حکمران چاہے بدعنوان ہوں، ظالم ہوں، ناانصافی کے مرتکب ہوں تب بھی ان کے خلاف جانا جائز نہیں ہے تا کہ خلق خدا کے جان و مال کا نقصان نہ ہو۔
البتہ بدعنوان حکمرانوں کی اصلاح کے لیے پرامن طریقے اختیار کرنے کا حق عوام کو حاصل ہے۔ جب تک مسلمان حکمران اعلانیہ کافرانہ انداز نہ اختیار کریں ان کے خلاف جانے یا بغاوت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے علاوہ موصوف نے یہ تک فرمایا کہ کوئی گروہ نظام اسلامی کے نام پر مسلح کارروائی، بدامنی، اسلامی ریاست میں انتشار کا باعث بنے تو اس صورت میں حکمران کو اختیار ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت سے اس فتنے کو کچل دے اور اسلامی ریاست کے عوام کو بھی حکومت کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ یہ بہت مختصراً تحریر کیا ہے ابھی بہت کچھ باقی ہے جس کے لیے الگ کالم درکار ہو گا۔
اپنی آنکھوں سے علاقائی، سیاسی، مذہبی اور لسانی تعصب کی عینک اتار دیجیے آپ کو اپنے اردگرد ایسے مخلص اور باکردار افراد اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے انشاء اللہ آپ کی تلاش رائیگاں نہ جائے گی بقول فراز:
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
تو صاحبو! والدین کی دولت اور سہولت کے بل بوتے پر ملکی و غیرملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے، ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں سفر اور گھر میں قیام کرنے والے، زندگی کی ہر آسائش کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے کیا جانیں۔
یہ الگ بات کہ دراصل مسئلہ ہی عوام کے بنیادی حقوق غصب اور پامال کرنے کا ہے ورنہ کوئی آئے دن اپنے ذاتی کام چھوڑ کر جلسے جلوس میں کیوں وقت ضایع کرتا۔ بات یہ بھی ہے کہ وقت تو وہی ضایع کرے گا جس کے پاس کرنے کو کچھ ہو گا نہیں۔ ہو گا تو صرف وقت ہی وقت تو اس کی مرضی وہ اپنے وقت کو جس طرح چاہے استعمال کرے۔
اگر حکومت وقت اتنی چھوٹی سی بات سمجھ لے ان کو کوئی نہ کوئی چھوٹے چھوٹے سے تعمیری کام پر لگا دے جس سے ان کی کچھ آمدنی بھی ہو جائے بیکار روائی توائی بھی نہ پھریں ملک کے بھی کئی چھوٹے موٹے کام جو حکمرانوں کی غفلت سے برسوں جوں کے توں پڑے رہتے ہیں وہ بھی ہو جائیں۔ تو جن کو کرنے کے لیے کچھ کام ہو گا تو پھر ان کو کوئی بدنظمی و انتشار پھیلانے، دھرنوں میں شرکت کرنے پر اکسانے میں کیسے کامیاب ہوگا؟
کیونکہ مصدقہ ذرایع سے یہ بات ہمارے کانوں تک بھی پہنچی کہ ان دھرنوں اور مارچوں میں شرکت یومیہ کئی کئی ہزار، کھانا پینا مفت کے علاوہ اسلام آباد کی سیر الگ کی پیشکش پر روز کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے جن میں اکثر شام کو بلا کام حاصل کیے ہی خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں اور ایک وقت بھی اپنے کنبے کو پیٹ بھر کر کھانے کے قابل نہ ہوں وہ کئی ہزار یومیہ پھر کھانا ناشتہ جو عام حالات میں ان کو روز تو کیا کئی روز میسر نہیں آتا اگر مل رہا ہو تو پورے کنبے کے ساتھ، تھوڑے دھکے، آنسو گیس کو برداشت کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟
جب باوثوق ذرایع نے ہمیں اس صورتحال سے آگاہ کیا تو ہم اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے مگر جب مختلف چینلز پر دھرنوں کے شرکا کی حرکات و سکنات کرتب اور قلابازیاں دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑا کہ یہ نظریاتی لوگ ہیں نہ اصل صورتحال سے واقف۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ کیوں اور کیا کرنے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ایک چینل کی رپورٹر نے کئی افراد سے پوچھا کہ آپ سول نافرمانی کے لیے تیار ہیں تو معصومیت سے جواب ملا کہ جی یہ کیا چیز ہے؟ یہ تو ہم کو معلوم نہیں مگر خان صاحب جو کہیں گے وہ ہم کریں گے۔ بس دعا ہے کہ دھرنے اور مارچ کامیاب ہوں یا ناکام ان بیچاروں کو ان کی دیہاڑی مل جائے ورنہ تو ان کا واپس اپنے گھر پہنچنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
اب ذرا ہمارے باضمیر پڑھے لکھے، عقل و دانش اور باشعور قارئین (کیونکہ اخبارات ان ہی خصوصیات کے حامل پڑھتے ہیں) کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ ایسے سادہ لوح افراد جو ملکی صورتحال (اندرونی و بیرونی) کے بارے میں ذرا واقف نہ ہوں، قائدین کے مقاصد سے آگاہ نہ ہوں، اپنے اچھے برے کا ادراک نہ رکھتے ہوں وہ قوم کو ملک کے مضبوط طبقے یعنی جاگیرداروں سے نجات دلانے اور انقلاب برپا کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں؟ جب کہ دونوں طرف ایسا کوئی ذکر بھی نہیں کہ ہم اس نظام کو ختم کر کے دم لیں گے (حالانکہ پاکستانی عوام کے مسائل کی جڑ یہی طبقہ ہے) دراصل لفظ انقلاب کا استعمال جتنا آسان ہے اس کے معنی و روح سمجھنے اور سمجھانا اتنا ہی مشکل ہے۔
انقلاب پرامن بھی ہوتے ہیں اور خونی بھی۔ دنیا ان دونوں طرح کے انقلابات کو عملی طور پر دیکھ چکی ہے کیونکہ یہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔ انقلاب اسلامی سے بڑا پرامن انقلاب کون سا ہوگا؟ اس انقلاب کے داعی کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا نہ شخصیت میں ابہام۔ انھوں نے انقلاب بعد میں برپا کیا پہلے صادق و امین قرار پائے اور یہ خطاب ان کو اپنوں نے نہیں غیروں نے بلکہ بعد میں جانی دشمنوں نے دیے تھے۔
مختصر یہ کہ شرط انقلاب ہے کہ انقلاب کا نعرہ بلند کرنے والے کی شخصیت متنازعہ نہ ہو، اس کے قول و فعل میں سرمو فرق نہ ہو وہ اپنے ارادے اور عمل میں شروع سے آخر تک ایک اصول پر کاربند ہو۔ کوئی بڑی سے بڑی طاقت اس کو اپنے ارادوں سے باز نہ رکھ سکے۔ بات چند حلقوں میں دھاندلی سے شروع ہوئی تھی اور سول نافرمانی تک پہنچ گئی۔ کل تک ریڈزون میں قدم تک نہ رکھنے کا اعلان تھا آج سب رکاوٹیں توڑ کر داخل ہو رہے ہیں ۔ پرجوش بیانات کس بنیاد پر؟ کیا یہ شخصی وعملی تضاد نہیں ہے؟ چلیے اپنے دوسرے ہمدرد و مہربان کے کردار پر بھی نظر ڈال لیجیے وہ کیونکہ مذہبی جبہ و دستار میں ملبوس ہیں لہٰذا انھیں کچھ کہنا توہین مذہب میں شمار ہوسکتا ہے۔
میں نے اپنے معزز قارئین کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا غور و فکر کیجیے کیا یہ لوگ قابل اعتبار ہیں، علامہ موصوف نے نیو یارک میں مقیم پاکستانیوں کو اپنا ایک فتویٰ یا نظریہ کتابی شکل میں اس کی رونمائی کی ایک محفل میں تقسیم فرمایا۔ 38 سال سے میرے بڑے بھائی نیویارک میں رہائش پذیر ہیں انھوں نے اس کا مطالعہ کر کے زبانی مجھے اس کے اندراج (چیدہ چیدہ سے) آگاہ کیا۔ (وہ کتاب ابھی مجھے ملی نہیں ہے) مگر میں اب تک خوف فساد خلق کے باعث اس کو اپنے کسی کالم میں تحریر نہ کر سکی تھی۔ مگر آج جب وہ معاملہ خود چل کر اسلام آباد پہنچ گیا ہے تو پھر اب کیسا پردہ؟
اس کتابی فتوے میں علامہ موصوف نے قران و حدیث اور تمام فقہی مکاتب کے حوالے سے مسلمان ریاست اور حکمرانوں کے خلاف اقدام اور ان کی حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کے لیے سزا اور بدعنوان حکومت کے خلاف جانے کے بارے میں نظریات کے علاوہ اپنا فتویٰ بھی جاری کیا ہے کہ ''مسلمان حکمران چاہے بدعنوان ہوں، ظالم ہوں، ناانصافی کے مرتکب ہوں تب بھی ان کے خلاف جانا جائز نہیں ہے تا کہ خلق خدا کے جان و مال کا نقصان نہ ہو۔
البتہ بدعنوان حکمرانوں کی اصلاح کے لیے پرامن طریقے اختیار کرنے کا حق عوام کو حاصل ہے۔ جب تک مسلمان حکمران اعلانیہ کافرانہ انداز نہ اختیار کریں ان کے خلاف جانے یا بغاوت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے علاوہ موصوف نے یہ تک فرمایا کہ کوئی گروہ نظام اسلامی کے نام پر مسلح کارروائی، بدامنی، اسلامی ریاست میں انتشار کا باعث بنے تو اس صورت میں حکمران کو اختیار ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت سے اس فتنے کو کچل دے اور اسلامی ریاست کے عوام کو بھی حکومت کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ یہ بہت مختصراً تحریر کیا ہے ابھی بہت کچھ باقی ہے جس کے لیے الگ کالم درکار ہو گا۔
اپنی آنکھوں سے علاقائی، سیاسی، مذہبی اور لسانی تعصب کی عینک اتار دیجیے آپ کو اپنے اردگرد ایسے مخلص اور باکردار افراد اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے انشاء اللہ آپ کی تلاش رائیگاں نہ جائے گی بقول فراز:
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
تو صاحبو! والدین کی دولت اور سہولت کے بل بوتے پر ملکی و غیرملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے، ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں سفر اور گھر میں قیام کرنے والے، زندگی کی ہر آسائش کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے کیا جانیں۔