کسان کا بیٹا وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا
انتخابات میں کروڑوں روپے لگانا ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہے...
پاکستان کی آبادی کا 60 فی صد حصہ زرعی معیشت سے جڑے کسانوں اور ہاریوں کا ہے، فارمل اور انفارمل سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد تقریباً4 کروڑ ہے، دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے غریب طبقات کو اگر شامل کر لیا جائے تو ہماری کل آبادی کا 90 فی صد غریب طبقات کے عوام ہیں۔
ہمارے جمہوریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہے، کیا 67 سال سے جاری جمہوریت میں 90 فی صد غریب آبادی کا کوئی حصہ ہے۔ ملک میں 69 سال سے جو لوگ برسر اقتدار آ رہے ہیں وہ گنتی کے چند جاگیر دار، صنعت کار اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے لوگ ہیں۔ کیا رائے ونڈ، بلاول ہائوس جیسے محلوں کے مکینوں کا تعلق کسانوں، مزدوروں اور غریب طبقات سے ہے؟
یہ اشرافیہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے یعنی اسے حکومت کرنے کا اختیار عوام نے دیا ہے۔ یہ اختیار اشرافیہ عرف کم ذاتیہ کس طرح حاصل کرتی ہے، ذرا اس پر نظر ڈالیے۔ یہ اختیار حاصل کرنے کا ذریعہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو طریقہ انتخابات اشرافیہ نے رائج کیا ہے اس میں صرف وہی شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ جس کے بینک یا جیب میں دس بیس کروڑ روپے موجود ہوں اور یہ بھاری رقم کرپشن اور بد دیانتی ہی سے حاصل کی جاتی ہے۔
انتخابات میں کروڑوں روپے لگانا ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہے جس میں نقصان کا تو کوئی امکان ہوتا ہی نہیں فائدے کی ہر طرح گارنٹی ضرور ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم جمہوریت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ایک ایسی منافع بخش انڈسٹری نظر آتی ہے جس کی پیشانی پر تو ''عوام'' کا نام لکھا رہتا ہے لیکن اس کے اندر عوام حکمران کی حیثیت سے نہیں بلکہ مزدور کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، عوامی جمہوریت کے نام سے کام کرنے والی ا س انڈسٹری میں عوام کا کام کارڈ پنچ کر کے کام پر جانا ہوتا ہے اور کارڈ پنچ کرنے کا مطلب ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔
اب ذرا آیئے دیکھیں کہ ووٹ کس طرح ڈالے یا ڈلوائے جاتے ہیں۔ ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی کر دی ہے کہ ہماری آبادی کا 60 فی صد حصہ کسانوں، ہاریوں پر مشتمل ہے جو زرعی معیشت سے وابستہ ہے اور زرعی معیشت پر وہ وڈیرے اور جاگیردار قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جو ہاریوں اور کسانوں کو غلام بنا کر رکھے ہیں۔ جب انتخابات کا دن آتا ہے تو ہاریوں اور کسانوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ انھیں کس نشان پر ٹھپہ لگانا ہے۔ ووٹ یعنی لاکھوں بیلٹ پیپر دھاندلی سے حاصل کر کے اس سے دو کام لیے جاتے ہیں۔
پہلا کام یہ کرنا خواندہ اور مجبور ہاریوں اور کسانوں اور ان کی خواتین کو بیلٹ پیپر پر مقررہ نشان پر ٹھپہ لگانے کی مشق کرائی جاتی ہے، دوسرے ناجائز طریقوں سے حاصل کیے ہوئے لاکھوں بیلٹ پیپر سے غلام اور کرپٹ انتخابی عملے اور اپنے کارکنوں کے ذریعے بیلٹ بکس بھرے جاتے ہیں۔ یہی کام شہر و دیہات میں مزدوروں اور دوسرے غریب طبقات سے بہ جبر یا ذات برادری وغیرہ کے حوالے سے لیا جاتا ہے، ان بد دیانتیوں سے غریب طبقات کے ووٹ لے کر کہا جاتا ہے کہ ہمیں عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔
ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ٹھیکیداری سسٹم نافذ ہے، مالکان، مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق دینے سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام نافذ کیا ہے جس میں مالکان کے آلہ کار ٹھیکیدار دیہی علاقوں سے بے روزگار لوگوں کو گھیر کر اور لالچ دیکر کراچی لاتے ہیں اور انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ملوں، کارخانوں میں بند کردیتے ہیں۔
انھیں زندہ رہنے کے لیے روٹی اور چھپانے کے لیے چھت فراہم کر دی جاتی ہے اس کے علاوہ انھیں کوئی آزادی، کوئی حق حاصل نہیں ہوتا حتیٰ کہ یہ صنعتی غلام ملوں اور کارخانوں سے مالکان کی اجازت کے بغیر باہر بھی نہیں نکل سکتے، مالکان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ انھیں مزدوروں کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ کیا ہمارے سیاست کے ٹھیکیداروں کو جو مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے وہ ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کے ٹھیکیداری نظام سے مختلف ہے؟
عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ 2013ء کے انتخابی ٹھیکیداری نظام میں تحریک انصاف کے لاکھوں ووٹ کھلے عام چرائے گئے۔ صنعتی ایلیٹ نے اپنے دلالوں کے ذریعے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر جعلی ووٹوں سے ڈبے بھروائے اور ان ہی جعلی ووٹوں کو عوامی مینڈیٹ کا نام دے کر عوام کے سروں پر مسلط ہیں۔
اگر عمران خان ہمارے انتخابی نظام کی اس بد دیانتی کے خلاف سڑکوں پر آ رہا ہے اور پالیمنٹ کے سامنے کھڑا ہے تو اس کے اس احتجاج کو ہمارے بھنڈی مارکہ اہل فکر، اہل دانش حماقت مہم جوئی، پاگل پن اور جمہوریت دشمنی کا نام دے کر اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں تو ان کی عقل و دانش پر ماتم کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کیا ہمارے دانشوروں میں دانش کا اس قدر قحط ہے کہ وہ ٹھیکیداری جمہوریت کی حقیقت کو سمجھے بغیر اسے ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے اخباری بیانات دے رہے ہیں۔ پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور اب جوابی احتجاج میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔
عمران خان اور طاہر القادری میں ہزار خامیاں اور کمزوریاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ جس فراڈ اور فریب جعلی جمہوریت اور ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف لاکھوں عوام بوڑھے، جوان، مرد، عورتوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا ہماری فکری اور قلمی ایلیٹ اس کے مضمرات اس کے اثرات کو سمجھ سکتی ہے؟
ہاں ہمیں عمران خان کے اس ایک فردی مطالبہ پر اعتراض ہے وہ صرف ایک فرد کو ٹارگٹ کر رہا ہے اگر ایک فرد منظر سے ہٹ بھی گیا تو وہ طبقہ تو باقی رہے گا جو 67 سال سے اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے جسموں سے جونکوں کی طرح چمٹا ان کا خون چوس رہا ہے۔ کیا ہمارے باشعور دانشور اور اہل قلم اس ٹھیکیداری جمہوریت کی حمایت کر کے پورے استحصالی طبقے کی بالواسطہ حمایت اور اسے مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔؟
میں ذاتی طور پر ایسے کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جن کے مزدوری کرنے والے ماں باپ رات دن محنت کرکے انھیں حصول تعلیم کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی اداروں میں بھجواتے اور یہ نوجوان ان درسگاہوں سے تعلیم اور ڈگریاں حاصل کر کے پاکستان آئے ہیں اور ملازمتوں کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسان اور ہاری خاندانوں میں بھی ایسے با صلاحیت، با شعور نوجوان موجود ہوں گے جو ہمارے قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں میں موجود نکموں، نا اہلوں اور چوروں، لٹیروں سے زیادہ بہتر ہیں لیکن ان غریب طبقات کے ہونہار قوم و ملک سے مخلص کسانوں اور مزدوروں کے ان اہل افراد کو ہماری اشرافیائی عرف کم ذاتیہ جمہوریت نے سیاست کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا ہے۔
انھیں کمی کمین جیسے تحقیر آمیز نام دے کر نفسیاتی طور پر اس طرح احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ خواب میں بھی یہ سوچ نہیں سکتے کہ وہ ایم این اے، ایم پی اے اور وزیر بن سکتے ہیں جب کہ یہ طبقات ہماری آبادی کا 90 فی صد حصہ ہیں اور اپنی اس تعداد کے حوالے سے انھیں قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں میں 90 فی صد حصہ ملنا چاہیے کیا کسی دانشور، کسی مفکر، کسی اہل قلم نے یہ مطالبہ کرنے کی زحمت کی ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کی 90 فی صد آبادی کو ہمارے قانون ساز اداروں میں اور اسمبلیوں میں ان کی تعداد کے حوالے سے حصہ ملنا چاہیے۔؟
کسان کا تعلیم یافتہ با صلاحیت بیٹا اس ملک کے وزیر اعظم بننے کا اور مزدور کا تعلیم یافتہ با صلاحیت، مخلص اور ایماندار بیٹا ملک کا صدر بننے کا حق رکھتا ہے۔ کیا ہماری جعلی اور فراڈ جمہوریت 90 فی صد آبادی کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔؟ کیا ہمارے محترم اہل دانش، اہل قلم، کسانوں، مزدوروں کے اس جائز حق پر آواز اور قلم اٹھاتے ہیں کہ اس 90 فی صد آبادی کے ہونہاروں کو کسانوں اور مزدوروں کو صدر اور وزیر اعظم بننے کا حق ہے۔؟
ہمارے جمہوریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہے، کیا 67 سال سے جاری جمہوریت میں 90 فی صد غریب آبادی کا کوئی حصہ ہے۔ ملک میں 69 سال سے جو لوگ برسر اقتدار آ رہے ہیں وہ گنتی کے چند جاگیر دار، صنعت کار اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے لوگ ہیں۔ کیا رائے ونڈ، بلاول ہائوس جیسے محلوں کے مکینوں کا تعلق کسانوں، مزدوروں اور غریب طبقات سے ہے؟
یہ اشرافیہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے یعنی اسے حکومت کرنے کا اختیار عوام نے دیا ہے۔ یہ اختیار اشرافیہ عرف کم ذاتیہ کس طرح حاصل کرتی ہے، ذرا اس پر نظر ڈالیے۔ یہ اختیار حاصل کرنے کا ذریعہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو طریقہ انتخابات اشرافیہ نے رائج کیا ہے اس میں صرف وہی شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ جس کے بینک یا جیب میں دس بیس کروڑ روپے موجود ہوں اور یہ بھاری رقم کرپشن اور بد دیانتی ہی سے حاصل کی جاتی ہے۔
انتخابات میں کروڑوں روپے لگانا ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہے جس میں نقصان کا تو کوئی امکان ہوتا ہی نہیں فائدے کی ہر طرح گارنٹی ضرور ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم جمہوریت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ایک ایسی منافع بخش انڈسٹری نظر آتی ہے جس کی پیشانی پر تو ''عوام'' کا نام لکھا رہتا ہے لیکن اس کے اندر عوام حکمران کی حیثیت سے نہیں بلکہ مزدور کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، عوامی جمہوریت کے نام سے کام کرنے والی ا س انڈسٹری میں عوام کا کام کارڈ پنچ کر کے کام پر جانا ہوتا ہے اور کارڈ پنچ کرنے کا مطلب ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔
اب ذرا آیئے دیکھیں کہ ووٹ کس طرح ڈالے یا ڈلوائے جاتے ہیں۔ ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی کر دی ہے کہ ہماری آبادی کا 60 فی صد حصہ کسانوں، ہاریوں پر مشتمل ہے جو زرعی معیشت سے وابستہ ہے اور زرعی معیشت پر وہ وڈیرے اور جاگیردار قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جو ہاریوں اور کسانوں کو غلام بنا کر رکھے ہیں۔ جب انتخابات کا دن آتا ہے تو ہاریوں اور کسانوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ انھیں کس نشان پر ٹھپہ لگانا ہے۔ ووٹ یعنی لاکھوں بیلٹ پیپر دھاندلی سے حاصل کر کے اس سے دو کام لیے جاتے ہیں۔
پہلا کام یہ کرنا خواندہ اور مجبور ہاریوں اور کسانوں اور ان کی خواتین کو بیلٹ پیپر پر مقررہ نشان پر ٹھپہ لگانے کی مشق کرائی جاتی ہے، دوسرے ناجائز طریقوں سے حاصل کیے ہوئے لاکھوں بیلٹ پیپر سے غلام اور کرپٹ انتخابی عملے اور اپنے کارکنوں کے ذریعے بیلٹ بکس بھرے جاتے ہیں۔ یہی کام شہر و دیہات میں مزدوروں اور دوسرے غریب طبقات سے بہ جبر یا ذات برادری وغیرہ کے حوالے سے لیا جاتا ہے، ان بد دیانتیوں سے غریب طبقات کے ووٹ لے کر کہا جاتا ہے کہ ہمیں عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔
ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ٹھیکیداری سسٹم نافذ ہے، مالکان، مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق دینے سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام نافذ کیا ہے جس میں مالکان کے آلہ کار ٹھیکیدار دیہی علاقوں سے بے روزگار لوگوں کو گھیر کر اور لالچ دیکر کراچی لاتے ہیں اور انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ملوں، کارخانوں میں بند کردیتے ہیں۔
انھیں زندہ رہنے کے لیے روٹی اور چھپانے کے لیے چھت فراہم کر دی جاتی ہے اس کے علاوہ انھیں کوئی آزادی، کوئی حق حاصل نہیں ہوتا حتیٰ کہ یہ صنعتی غلام ملوں اور کارخانوں سے مالکان کی اجازت کے بغیر باہر بھی نہیں نکل سکتے، مالکان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ انھیں مزدوروں کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ کیا ہمارے سیاست کے ٹھیکیداروں کو جو مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے وہ ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کے ٹھیکیداری نظام سے مختلف ہے؟
عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ 2013ء کے انتخابی ٹھیکیداری نظام میں تحریک انصاف کے لاکھوں ووٹ کھلے عام چرائے گئے۔ صنعتی ایلیٹ نے اپنے دلالوں کے ذریعے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر جعلی ووٹوں سے ڈبے بھروائے اور ان ہی جعلی ووٹوں کو عوامی مینڈیٹ کا نام دے کر عوام کے سروں پر مسلط ہیں۔
اگر عمران خان ہمارے انتخابی نظام کی اس بد دیانتی کے خلاف سڑکوں پر آ رہا ہے اور پالیمنٹ کے سامنے کھڑا ہے تو اس کے اس احتجاج کو ہمارے بھنڈی مارکہ اہل فکر، اہل دانش حماقت مہم جوئی، پاگل پن اور جمہوریت دشمنی کا نام دے کر اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں تو ان کی عقل و دانش پر ماتم کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کیا ہمارے دانشوروں میں دانش کا اس قدر قحط ہے کہ وہ ٹھیکیداری جمہوریت کی حقیقت کو سمجھے بغیر اسے ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے اخباری بیانات دے رہے ہیں۔ پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور اب جوابی احتجاج میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔
عمران خان اور طاہر القادری میں ہزار خامیاں اور کمزوریاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ جس فراڈ اور فریب جعلی جمہوریت اور ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف لاکھوں عوام بوڑھے، جوان، مرد، عورتوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا ہماری فکری اور قلمی ایلیٹ اس کے مضمرات اس کے اثرات کو سمجھ سکتی ہے؟
ہاں ہمیں عمران خان کے اس ایک فردی مطالبہ پر اعتراض ہے وہ صرف ایک فرد کو ٹارگٹ کر رہا ہے اگر ایک فرد منظر سے ہٹ بھی گیا تو وہ طبقہ تو باقی رہے گا جو 67 سال سے اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے جسموں سے جونکوں کی طرح چمٹا ان کا خون چوس رہا ہے۔ کیا ہمارے باشعور دانشور اور اہل قلم اس ٹھیکیداری جمہوریت کی حمایت کر کے پورے استحصالی طبقے کی بالواسطہ حمایت اور اسے مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔؟
میں ذاتی طور پر ایسے کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جن کے مزدوری کرنے والے ماں باپ رات دن محنت کرکے انھیں حصول تعلیم کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی اداروں میں بھجواتے اور یہ نوجوان ان درسگاہوں سے تعلیم اور ڈگریاں حاصل کر کے پاکستان آئے ہیں اور ملازمتوں کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسان اور ہاری خاندانوں میں بھی ایسے با صلاحیت، با شعور نوجوان موجود ہوں گے جو ہمارے قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں میں موجود نکموں، نا اہلوں اور چوروں، لٹیروں سے زیادہ بہتر ہیں لیکن ان غریب طبقات کے ہونہار قوم و ملک سے مخلص کسانوں اور مزدوروں کے ان اہل افراد کو ہماری اشرافیائی عرف کم ذاتیہ جمہوریت نے سیاست کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا ہے۔
انھیں کمی کمین جیسے تحقیر آمیز نام دے کر نفسیاتی طور پر اس طرح احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ خواب میں بھی یہ سوچ نہیں سکتے کہ وہ ایم این اے، ایم پی اے اور وزیر بن سکتے ہیں جب کہ یہ طبقات ہماری آبادی کا 90 فی صد حصہ ہیں اور اپنی اس تعداد کے حوالے سے انھیں قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں میں 90 فی صد حصہ ملنا چاہیے کیا کسی دانشور، کسی مفکر، کسی اہل قلم نے یہ مطالبہ کرنے کی زحمت کی ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کی 90 فی صد آبادی کو ہمارے قانون ساز اداروں میں اور اسمبلیوں میں ان کی تعداد کے حوالے سے حصہ ملنا چاہیے۔؟
کسان کا تعلیم یافتہ با صلاحیت بیٹا اس ملک کے وزیر اعظم بننے کا اور مزدور کا تعلیم یافتہ با صلاحیت، مخلص اور ایماندار بیٹا ملک کا صدر بننے کا حق رکھتا ہے۔ کیا ہماری جعلی اور فراڈ جمہوریت 90 فی صد آبادی کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔؟ کیا ہمارے محترم اہل دانش، اہل قلم، کسانوں، مزدوروں کے اس جائز حق پر آواز اور قلم اٹھاتے ہیں کہ اس 90 فی صد آبادی کے ہونہاروں کو کسانوں اور مزدوروں کو صدر اور وزیر اعظم بننے کا حق ہے۔؟