جمہوریت کو باہر سے نہیں دو تہائی اکثریت سے خطرہ ہے آفتاب احمد خان شیرپاؤ
فیڈریشن شدید خطرات سے دوچار ہے، تحریک انصاف کی حکومت اپنے وعدے ایفا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے
ذاتی زندگی
آفتاب شیر پاؤ خان بہادر غلام حیدر خان شیر پاؤ جو تحریک آزادی کے ایک سرگرم کارکن تھے,ان کے ہاں 20 اگست 1944ء کو پیدا ہوئے، ایڈورڈ کالج پشاور سے ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے 1965ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔
میجر کے عہدے تک ترقی پانے کے بعد اپنے بڑے بھائی حیات محمد شیر پاؤ کی شہادت کے بعد آفتاب شیرپاؤ نے پاک فوج کو خیرباد کہتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلزپارٹی خیبرپختون خوا (اس وقت اس صوبے کا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا) کے نائب صدر منتخب ہو گئے۔
1988ء میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبے کے اٹھارہویں وزیراعلیٰ بن گئے۔ اسی طرح 1994ء میں دوبارہ انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ دو مرتبہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے، بینظیر بھٹو سے اختلافات کے بعد اپنی پارٹی بنائی۔
2004ء سے 2007ء تک ملک کے وزیرداخلہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ 2002ء سے 2004ء تک آفتاب شیر پاؤ وفاقی وزیر پانی و بجلی تھے، 2008ء میں قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ اس وقت وہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔
خیبرپختون خوا کے تاریخی ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے جہاں دیدہ، زیرک، منجھے ہوئے سیاست داں، سابق وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا، سابق وفاقی وزیرداخلہ اور قومی وطن پارٹی کے مرکزی چئیرمین آفتاب احمدخان شیرپاؤ سے گذشتہ دنوں ملک میں برق رفتاری کے ساتھ بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور آئندہ کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے ایک طویل مکالمہ کیاگیا جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان آپریشن کسی اور کی ایما پر شروع کیا گیا۔ خاص کراس ضمن میں امریکا کا نام لیا جارہا ہے؟
آفتاب احمد خان شیر پاؤ: شمالی وزیرستان آپریشن امریکی ایما پر شروع نہیں کیا گیا۔ البتہ یہ امریکا کا دیرینہ مطالبہ ضرور تھا۔ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے اب بھی امریکا کو تحفظات ہیں، لیکن کم از کم شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی ٹھکانا نہیں بچا، اگر افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی وجود ہے، تو یہ افغانستان کا معاملہ ہے، شمالی وزیرستان میں بلاتفریق آپریشن شروع کیا گیا ہے، جس سے وہاں دہشت گردوں کے اڈے ختم ہوگئے ہیں اور وہ منتشر ہوگئے ہیں، وہ اگر مزاحمتی کارروائی کریں گے بھی تو اس کے لیے ان کو وقت چاہیے۔
اب تک ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ ٹی ٹی پی کا کوئی بڑا لیڈر مارا گیا ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ یہ لوگ مختلف صوبوں میں پھیل گئے ہوں گے۔ اب صوبائی حکومتوں بالخصوص خیبرپختون خوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے محتاط رہے اور اس جانب خاص نظر رکھے۔ پشاور کے حالات انتہائی خراب ہیں۔ اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس: کیامتاثرین کی امداد اور آبادکاری کے حوالے سے بروقت اقدامات کیے گئے؟
آفتاب شیر پاؤ: حکومتی اور پولیٹیکل انتظامیہ کی کتابوں میں مردم شماری کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی چھے لاکھ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بارہ لاکھ آئی ڈی پیز نے نقل مکانی کی ہے، جب کہ اندازہ یہ تھا کہ وہاں سے تین لاکھ افراد نقل مکانی کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو رجسٹریشن ٹھیک نہیں کی گئی یا پھر شمالی وزیرستان کی حقیقی آبادی کو پوشیدہ رکھ کر ان کے حقوق غصب کیے گئے ہیں۔ اگر متاثرین کی مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی تو مسائل مزید بڑھیں گے۔ متاثرین کی مدد کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مابین کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آتی اور اس معاملے پر سیاسی دکان چمکانا ایک بڑا المیہ ہے۔
یہ کیسا سرپرائز آپریشن تھا کہ تحریک طالبان کے لوگوں کو تو پتا چل گیا مگر متعلقہ امدادی ادارے سوئے رہے، صرف ایف ڈی ایم اے کے سربراہ کو فارغ کرنا کافی نہیں، صوبائی حکومت اس معاملے سے خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتی، مرکزی حکومت کو بھی اس معاملے پر کل جماعتی کانفرنس بلانی چاہیے تھی، جب سوات سے پچیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے نقل مکانی کی تو پشاور، صوابی، نوشہرہ، مردان اور چارسدہ کے عوام نے ان کی مدد کی، مگر بنوں ایک چھوٹا سا شہر ہے جس پر لاکھوں متاثرین کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، حکومت کو بنوں کی جانب بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی۔
ایکسپریس: عمران خان جو کچھ کررہے ہیں اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟
آفتاب احمدخان شیرپاؤ: عمران خان نے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی ممبر شپ کا حلف لیا اور کے پی کے میں حکومت قائم کی۔ ان کو ایک سال مزے لوٹنے کے بعد خیال آیا کہ چار حلقوں کی چھان بین ہونی چاہیے۔ پھر افغانستان کا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ پورے پاکستان کے الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں اور اب وہ حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کررہے ہیں۔
عمران خان کے پاس خیبرپختون خوا اسمبلی تحلیل کرنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ پختون عوام کی جانب سے ملنے والے مینڈیٹ کی بھی توہین ہوگی۔ قومی وطن پارٹی اسمبلی کو بچانے کے لیے اکیلے کردار ادا نہیں کرسکتی، ہاں اگر چار پانچ جماعتیں متحد ہوجائیں تو اس حوالے سے کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کے ساتھ سب متفق ہیں، لیکن اگر اس اسٹیج پر حکومت نے عمران خان کی بات مانی تو ہم نہیں مانیں گے اور سوال اٹھائیں گے کہ اگر عمران خان کی زبردستی ہی چلنی تھی تو پھر کمیٹی کیوں بنائی؟ اب تک درجنوں اراکینِ اسمبلی عدالتوں کے ذریعے نا اہل ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ پراسس چل رہا ہے، اسی طرح طاہر القادری اور عمران خان کے تانے بانے ایک ہیں۔
ایکسپریس: موجودہ حالات کے تناظر میں کیا آپ نہیں سمجھتے کہ فیڈریشن کم زور ہورہی ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: میرے خیال میں جمہوریت کو باہر سے نہیں دو تہائی اکثریت سے خطرہ ہے، بل کہ میں تو کہوں گا کہ فیڈریشن شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک صوبے کے بل بوتے پر وفاق میں حکومت قائم کرنا چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ پنجاب ہمارے ساتھ بات کرے۔
آج تمام وفاقی سیکریٹریز پنجاب کے ہیں اور خودمختار اداروں کے سربراہان بھی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ساری توجہ پنجاب ہی کو دینی ہے تو تین صوبوں پر وسائل خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ نئے سوشل کنٹریکٹ پر بات کرنا ہوگی، کیوں کہ خیبرپختون خوا کو صرف قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے تک محدود رکھا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کسی پختون شخصیت کو صدر مملکت بنایا جاتا، اگر آبادی کے لحاظ سے بھی بات کی جائے تو پختونوں کا دوسرا نمبر آتا ہے۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بیلنس ہونا چاہیے۔
ایکسپریس: خیبرپختون خوا میں امن وامان کی صورت حال کو تسلی بخش قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
آفتاب احمد خان شیرپاؤ: خیبرپختون خوا میں امن و امان کی ابتر صورت حال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اب تک ہزاروں لوگوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے، جن میں امن کمیٹیوں کے رضاکار بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ناسازگار حالات کے باعث ساڑھے پانچ سو ڈاکٹر پشاور چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ اسی طرح پچاس فی صد صنعت کار بھی صوبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جب کہ ہر طرف خوف کی فضاء چھائی ہوئی ہے، اس لیے اس حوالے سے ایک میکینزم بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ لاقانونیت کو کنٹرول کیاجا سکے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ خیرپختون خوا حکومت نے قانون بنایا ہے کہ اپنی حفاظت خود کریں، اگر عوام کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے تو پھر وہ ٹیکس کیوں دیں؟ دوسری جانب کرپشن کے خاتمے کی دعوے دار صوبائی حکومت اینٹی کرپشن لا پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کراسکی۔
ایکسپریس: تحریک انصاف حکومت کی کارکرگی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا کرپشن پر قابو پایا گیا ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: پی ٹی آئی کی حکومت خیبر پختون خوا میں اپنے انتخابی وعدوں کو ایفا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور اب وہ نان ایشوز میں الجھ کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی ناکام کو شش کر رہی ہے۔ حکومت گذشتہ ایک سال سے کسی بھی شعبے میں تبدیلی نہیں لاسکی اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ شروع کیا جاسکا ہے۔
کرپشن ختم کرنے کے دعوؤں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک صوبائی وزیر نے سرکاری پیسہ اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈالا جس کے بعد اس کو تو اس سے زیادہ اچھی وزارت سے نوازا گیا مگر سیکریٹری اور ڈی جی کو معطل کر دیا گیا۔ اسی طرح چینی سرمایہ کاروں کی شکایات کے بعد متعلقہ مشیر کو ترقی دے دی گئی جب کہ نتھیا گلی کیس سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں اپنے چہیتوں کو دھڑا دھڑ نوازا جا رہا ہے، اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، کیوں کہ اس کے وزیر اور مشیرخود یہ بات کرتے پھررہے ہیں کہ ہم تو سیاست اور حکومت میں نئے ہیں اس لیے ہمیں زیادہ سمجھ بوجھ نہیں۔
ایکسپریس: پرویز مشرف کے دورِحکومت میں وفاقی وزیرداخلہ کی حیثیت سے نواب اکبر خان بگٹی کے قتل سے آپ کا کیا تعلق رہا؟
آفتاب احمدشیرپاؤ: مجھے اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمے میں اس لیے بلایا جارہا ہے کیوں کہ اُس وقت میں وزیرداخلہ تھا اور اس حیثیت سے مجھے نام زد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کیس سے میرا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اُس وقت جو بھی بیانات میں نے جاری کیے وہ وزیرداخلہ کی حیثیت سے تھے، میری ذاتی رائے یا احکامات اس میں شامل نہیں تھے۔
بگٹی کا قتل ایک سیاسی قتل تھا اور یہ کیس بھی سیاسی ہے۔ سیکیوریٹی اداروں نے اس وقت اس آپریشن کے متعلق نہ تو مشاورت کی اور نہ ہی وزارت داخلہ کا ان پر کنٹرول تھا۔ وہاں سے تحریری بیان ملتا جسے میں پڑھ کر اسے جاری کردیتا تھا۔ بگٹی قتل کیس میں سب سے اہم کردار پرویزمشرف کا تھا اور اس حوالے سے سب سے موزوں جواب وہی دے سکتے ہیں، جس دن نواب اکبر بگٹی کو مارا گیا اس دن میں پشاور میں تھا۔ اس واقعے میں میرا کوئی کردار نہیں، لیکن پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ کوئٹہ جاکر عدالت کی پیشیاں بھگت رہا ہوں، کیوںکہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔
ایکسپریس: خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ شراکت اقتدار اور علیحدگی کا کیا قصہ ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: انتخابات میں کام یابی کے بعد ہمیں خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کی کوئی خواہش نہیں تھی، لیکن تحریک انصاف نے خود ہمیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی اور جب ہم نے تحریک انصاف کے ساتھ وعدہ کیا تو اس کے بعد ہی پی ٹی آئی اس قابل ہو گئی کہ صوبے میں حکومت بنا سکے، کیوں کہ ہماری جانب سے حامی بھرنے کے بعد دس سے زائد آزاد اراکین صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور تحریک انصاف مسند اقتدار پر بیٹھنے کے قابل ہوگئی۔
بعد میں تحریک انصاف کی قیادت کی نیت بدل گئی اور بغیر ثبوت کے ہمارے دو وزراء پر کرپشن کے الزام لگا کر حکومت سے الگ کردیا گیا۔ ہم کو حکومت سے الگ کرنے کی وجہ کرپشن نہیں تھی۔ ورنہ اس وقت تو تحریک انصاف کے نو وزراء اور مشیروں پر الزام لگے، مگر کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ ان لوگوں کو بھی حکومت سے باہر نکال دیتا۔ عمران خان کو اگر شکایت تھی تو وہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے مجھے اعتماد میں لیتے۔
ہم نے چوں کہ بیش تر حکومتی اقدامات سے اختلاف کیا تھا، اس لیے ہمارے وزراء کو برطرف کیا گیا اس کے لیے صوبائی انسپکشن ٹیم کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ قومی وطن پارٹی کے وزراء کے خلاف تحقیقات کرے۔ دو روز تک تحقیقات کا ڈراما چلا اور جب انسپکشن ٹیم نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے وزراء پر بھی تو الزامات لگے ہیں، کیا ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی؟ تو اس وقت انہیں روک دیا گیا۔
ایکسپریس: مزید صوبوں کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ قومی وطن پارٹی کا اس پر کیا مؤقف ہے؟کیا فاٹا کو الگ صوبائی حیثیت ملنی چاہیے؟
آفتاب شیرپاؤ: ہم فاٹا ریفارمز کے حق میں ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ فاٹا کی انتظامی حیثیت کے حوالے سے فیصلے کا اختیار فاٹا کے عوام کو ہونا چاہیے۔ ابتدائی مرحلے میں ایف آرز کو متعلقہ اضلاع کے ساتھ ملایا جائے۔ اس کے بعد فاٹا کو پاٹا میں تبدیل کرنے کا تجربہ کیا جائے۔
تاہم حتمی فیصلے کا اختیار فاٹا کے عوام کو ہونا چاہیے۔ خیبر پختون خوا میں تمام زبانیں اور بولیاں بولنے والے پختون ہیں، اگر انتظامی بنیادوں پر صوبے بنائے جائیں تو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام خیبر پختون خوا کو تقسیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ اگر ہزارہ کے لوگوں کی خواہش ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
اسی طرح سرائیکی صوبہ بھی اگر انتظامی بنیادوں پر بنے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا، بل کہ ہم ہر فورم پر اس کی حمایت کریں گے، ہزارہ کے عوام نے آخر کیوں ایک الگ صوبے کے لیے آواز اٹھائی اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیں تو یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ صوبہ ہزارہ کا نعرہ ایک ردعمل کے طور پر بلند کیا گیا تھا۔
ہزارہ کے عوام کو ہمیشہ اہم امور میں نظر انداز کیا گیا اور یہی محرومیاں ایک لاوے کی طرح پھٹ پڑیں، ہمارا مؤقف ہے کہ تمام وسائل کی تقسیم علاقائی سطح پر کی جائے اس طرح سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ اس خطے میں ہندکو اور سرائیکی بولنے والے تمام پختون ہیں بل کہ میری رائے ہے کہ جو اس خطے میں رہائش پذیر ہیں وہ پختون ہیں۔
اسی طرح آپ نے فاٹا کی بات کی تو اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں شامل کیا جائے یا اس کو الگ صوبے کی حیثیت دی جائے۔ میرے خیال میں اگر ان باتوں پر بحث سے قبل قبائلی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائے تو یہ بہتر ہو گا۔ قبائلی عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کریں کہ وہ خیبر پختون خوا کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پھر وفاق کے زیرانتظام الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ فاٹا کو اہمیت نہیں دی گئی اور اسے ہر دور میں پس ماندہ رکھا گیا، جس کی وجہ سے قبائل کی محرومیاں بڑھیں۔ حالیہ مذاکرات کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مذاکرات کاروں میں قبائلی نمائندگی بالکل نہیں تھی۔ ہم نے فاٹا میں اصلاحات کے لیے 13 نکات پیش کیے ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ایکسپریس: افغانستان اور پاکستان کے درمیان پڑوسی ہونے کے باوجود اعتماد کا فقدان کیوں ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اور افغانستان کے مابین اعتماد کا فقدان ہے، کیوں کہ ماضی میں ہم نے افغانستان میں بے جا مداخلت کی، اگر ہم افغانستان میں مداخلت بند کردیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوریاں ختم نہ ہوجائیں، میری خواہش ہے کہ بولان سے کوئٹہ تک ایک پختون بیلٹ ہو، اس کے لیے میں کام کر رہا ہوں۔
افغانستان میں انتخابات ہوگئے ہیں اور وہاں اب ایک مخلوط حکومت بننے جارہی ہے۔ بحیثیت پڑوسی ملک ہمیں اس معاملے میں غیرجانب دار رہنا چاہیے، اگر یہ تاثر انہیں ملا کہ پاکستان مداخلت نہیں کر رہا تو یقین ہے کہ برف پگھل جائے گی۔ 2014ء خطے میں تبدیلی کا سال ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں انتخابی عمل کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی جماعت نے حکومت سنبھال لی ہے۔
اس لیے پاکستان کو اس حوالے سے بہت پہلے کام شروع کرنا چاہیے تھا۔ خطے میں جو تبدیلیاں آئیں گی میرے خیال میں ابھی تک پاکستان کی سابق و موجودہ حکومت نے اس کے لیے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہے اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا، تو پورے خطے میں ایک بہت بڑی خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ خطے میں تبدیلی کے حوالے سے ہم نے کبھی بھی افغانوں کی رائے کو فوقیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ 35 سال سے زاید عرصے تک پاکستان میں رہنے کے باوجود افغانوں کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے۔ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے۔
ہمیں کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ افغانستان کے ساتھ دوطرفہ اور برابری کی سطح پر روابط شروع کیے جائیں تو افغانستان ایک بہترین پڑوسی کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ ہاں البتہ پچھلے دنوں سرحدی چوکیوں پر جو حملے ہوئے ہیں، اس سے تلخیاں مزید بڑھیں گی۔
ایکسپریس: کیا آپ کی پارٹی واقعی پختونوں کی نمائندگی کا حق اداکر رہی ہے؟
آفتاب شیرپاؤ:2008ء میں خیبر پختون خوا کے عوام نے قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دیے۔ پختونوں کے لیے ہم نے ماضی میں بھی آواز اٹھائی اور اب بھی اپنے اسی مؤقف پر قائم ہیں میرے دور میں کالا باغ ڈیم کے خلاف خیبر پختون خوا اسمبلی میں قرارداد منظور ہوئی۔ 2008ء میں اے این پی کو صوبے کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا تھا اے این پی نے وہ توقعات پوری نہیں کیں۔
2013ء کے انتخابات سے قبل ہی ہم نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی اور اس فیصلے پر پہنچے کہ پختونوں کی آواز صرف قومی سطح پر نہیں بل کہ بین الاقوامی سطح پر پہنچانی چاہیے، وزیرداخلہ کی حیثیت سے میں نے پاکستان خصوصاً پختون عوام کی لو یہ جرگہ میں نمائندگی کی۔ اسفندیار ولی خان جو خارجہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین تھے، نے صرف دو مرتبہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو گیس رائلٹی دینے میں ہماری تجاویز شامل کی گئیں۔ پہلے صوبے پچاس میگا واٹ سے زاید بجلی کے منصوبے شروع نہیں کر سکتے تھے۔ اب ہماری تجویز کے بعد صوبے با اختیار ہوگئے ہیں۔ ہم صوبوں کو خودمختار نہیں بل کہ بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں، نیشنل سیکیوریٹی کونسل میں بھی ہماری بہت سی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
ایکسپریس: خطے میں بدامنی پر کنٹرول اور امن وامان کس طرح قائم ہوگا؟
آفتاب شیرپاؤ: موجودہ وفاقی و صوبائی حکومت میں سے کوئی بھی صوبے خصوصاً پختون خطے میں امن کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ کوئی اس بات کو تسلیم ہی نہیں کر رہا کہ پختونوں کا اصل مسئلہ کیا ہے، نوازشریف حکومت نے بھی ابتدائی طور پر مذاکراتی عمل شروع کیا، لیکن اس کی حالت بھی آپ کے سامنے ہے۔ پختونوں کو اس صوبے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، دوسری بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ سام راجی قوتیں بھی اس خطے میں موجود وسائل پر کنٹرول کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لے کر ان سازشوں کو ہر صورت ناکام بنانا ہوگا اور اپنے وسائل کو اس خطے کے عوام کی فلاح وبہبود کے استعمال میں لانا ہوگا۔
ایکسپریس:۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی پر آپ کا کیا موقف ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوئی تو ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ ان کے پاس اختیار تھا انہوں نے ایمرجینسی نافذ کی۔ ق لیگ اور مشرف کا اتحاد دیرپا نہیں تھا۔ قومی وطن پارٹی نے اس وقت ظفر اﷲ خان جمالی کو ووٹ دیا تھا۔ 2002ء کے انتخابات میں ہماری سیاسی جماعت اتنی بڑی نہیں تھی اور ہمیں ضرورت تھی اس لیے ہم نے پرویز مشرف کے ساتھ نہیں بل کہ مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ ایم ایم اے نے بھی اس وقت ہمارے ساتھ رابطے کیے تھے، لیکن اتحاد ق لیگ کے ساتھ کیا گیا۔ میں نے آج تک کبھی آمریت کی حمایت نہیں کی۔ ضیاء دور میں پانچ سال جیل میں گزارے۔
آفتاب شیر پاؤ خان بہادر غلام حیدر خان شیر پاؤ جو تحریک آزادی کے ایک سرگرم کارکن تھے,ان کے ہاں 20 اگست 1944ء کو پیدا ہوئے، ایڈورڈ کالج پشاور سے ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے 1965ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔
میجر کے عہدے تک ترقی پانے کے بعد اپنے بڑے بھائی حیات محمد شیر پاؤ کی شہادت کے بعد آفتاب شیرپاؤ نے پاک فوج کو خیرباد کہتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلزپارٹی خیبرپختون خوا (اس وقت اس صوبے کا نام شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا) کے نائب صدر منتخب ہو گئے۔
1988ء میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبے کے اٹھارہویں وزیراعلیٰ بن گئے۔ اسی طرح 1994ء میں دوبارہ انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ دو مرتبہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے، بینظیر بھٹو سے اختلافات کے بعد اپنی پارٹی بنائی۔
2004ء سے 2007ء تک ملک کے وزیرداخلہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ 2002ء سے 2004ء تک آفتاب شیر پاؤ وفاقی وزیر پانی و بجلی تھے، 2008ء میں قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ اس وقت وہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔
خیبرپختون خوا کے تاریخی ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے جہاں دیدہ، زیرک، منجھے ہوئے سیاست داں، سابق وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا، سابق وفاقی وزیرداخلہ اور قومی وطن پارٹی کے مرکزی چئیرمین آفتاب احمدخان شیرپاؤ سے گذشتہ دنوں ملک میں برق رفتاری کے ساتھ بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور آئندہ کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے ایک طویل مکالمہ کیاگیا جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان آپریشن کسی اور کی ایما پر شروع کیا گیا۔ خاص کراس ضمن میں امریکا کا نام لیا جارہا ہے؟
آفتاب احمد خان شیر پاؤ: شمالی وزیرستان آپریشن امریکی ایما پر شروع نہیں کیا گیا۔ البتہ یہ امریکا کا دیرینہ مطالبہ ضرور تھا۔ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے اب بھی امریکا کو تحفظات ہیں، لیکن کم از کم شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی ٹھکانا نہیں بچا، اگر افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی وجود ہے، تو یہ افغانستان کا معاملہ ہے، شمالی وزیرستان میں بلاتفریق آپریشن شروع کیا گیا ہے، جس سے وہاں دہشت گردوں کے اڈے ختم ہوگئے ہیں اور وہ منتشر ہوگئے ہیں، وہ اگر مزاحمتی کارروائی کریں گے بھی تو اس کے لیے ان کو وقت چاہیے۔
اب تک ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ ٹی ٹی پی کا کوئی بڑا لیڈر مارا گیا ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ یہ لوگ مختلف صوبوں میں پھیل گئے ہوں گے۔ اب صوبائی حکومتوں بالخصوص خیبرپختون خوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے محتاط رہے اور اس جانب خاص نظر رکھے۔ پشاور کے حالات انتہائی خراب ہیں۔ اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس: کیامتاثرین کی امداد اور آبادکاری کے حوالے سے بروقت اقدامات کیے گئے؟
آفتاب شیر پاؤ: حکومتی اور پولیٹیکل انتظامیہ کی کتابوں میں مردم شماری کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی چھے لاکھ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بارہ لاکھ آئی ڈی پیز نے نقل مکانی کی ہے، جب کہ اندازہ یہ تھا کہ وہاں سے تین لاکھ افراد نقل مکانی کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو رجسٹریشن ٹھیک نہیں کی گئی یا پھر شمالی وزیرستان کی حقیقی آبادی کو پوشیدہ رکھ کر ان کے حقوق غصب کیے گئے ہیں۔ اگر متاثرین کی مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی تو مسائل مزید بڑھیں گے۔ متاثرین کی مدد کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مابین کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آتی اور اس معاملے پر سیاسی دکان چمکانا ایک بڑا المیہ ہے۔
یہ کیسا سرپرائز آپریشن تھا کہ تحریک طالبان کے لوگوں کو تو پتا چل گیا مگر متعلقہ امدادی ادارے سوئے رہے، صرف ایف ڈی ایم اے کے سربراہ کو فارغ کرنا کافی نہیں، صوبائی حکومت اس معاملے سے خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتی، مرکزی حکومت کو بھی اس معاملے پر کل جماعتی کانفرنس بلانی چاہیے تھی، جب سوات سے پچیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے نقل مکانی کی تو پشاور، صوابی، نوشہرہ، مردان اور چارسدہ کے عوام نے ان کی مدد کی، مگر بنوں ایک چھوٹا سا شہر ہے جس پر لاکھوں متاثرین کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، حکومت کو بنوں کی جانب بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی۔
ایکسپریس: عمران خان جو کچھ کررہے ہیں اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟
آفتاب احمدخان شیرپاؤ: عمران خان نے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی ممبر شپ کا حلف لیا اور کے پی کے میں حکومت قائم کی۔ ان کو ایک سال مزے لوٹنے کے بعد خیال آیا کہ چار حلقوں کی چھان بین ہونی چاہیے۔ پھر افغانستان کا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ پورے پاکستان کے الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں اور اب وہ حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کررہے ہیں۔
عمران خان کے پاس خیبرپختون خوا اسمبلی تحلیل کرنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ پختون عوام کی جانب سے ملنے والے مینڈیٹ کی بھی توہین ہوگی۔ قومی وطن پارٹی اسمبلی کو بچانے کے لیے اکیلے کردار ادا نہیں کرسکتی، ہاں اگر چار پانچ جماعتیں متحد ہوجائیں تو اس حوالے سے کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کے ساتھ سب متفق ہیں، لیکن اگر اس اسٹیج پر حکومت نے عمران خان کی بات مانی تو ہم نہیں مانیں گے اور سوال اٹھائیں گے کہ اگر عمران خان کی زبردستی ہی چلنی تھی تو پھر کمیٹی کیوں بنائی؟ اب تک درجنوں اراکینِ اسمبلی عدالتوں کے ذریعے نا اہل ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ پراسس چل رہا ہے، اسی طرح طاہر القادری اور عمران خان کے تانے بانے ایک ہیں۔
ایکسپریس: موجودہ حالات کے تناظر میں کیا آپ نہیں سمجھتے کہ فیڈریشن کم زور ہورہی ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: میرے خیال میں جمہوریت کو باہر سے نہیں دو تہائی اکثریت سے خطرہ ہے، بل کہ میں تو کہوں گا کہ فیڈریشن شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک صوبے کے بل بوتے پر وفاق میں حکومت قائم کرنا چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ پنجاب ہمارے ساتھ بات کرے۔
آج تمام وفاقی سیکریٹریز پنجاب کے ہیں اور خودمختار اداروں کے سربراہان بھی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ساری توجہ پنجاب ہی کو دینی ہے تو تین صوبوں پر وسائل خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ نئے سوشل کنٹریکٹ پر بات کرنا ہوگی، کیوں کہ خیبرپختون خوا کو صرف قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے تک محدود رکھا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کسی پختون شخصیت کو صدر مملکت بنایا جاتا، اگر آبادی کے لحاظ سے بھی بات کی جائے تو پختونوں کا دوسرا نمبر آتا ہے۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بیلنس ہونا چاہیے۔
ایکسپریس: خیبرپختون خوا میں امن وامان کی صورت حال کو تسلی بخش قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
آفتاب احمد خان شیرپاؤ: خیبرپختون خوا میں امن و امان کی ابتر صورت حال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اب تک ہزاروں لوگوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے، جن میں امن کمیٹیوں کے رضاکار بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ناسازگار حالات کے باعث ساڑھے پانچ سو ڈاکٹر پشاور چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ اسی طرح پچاس فی صد صنعت کار بھی صوبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جب کہ ہر طرف خوف کی فضاء چھائی ہوئی ہے، اس لیے اس حوالے سے ایک میکینزم بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ لاقانونیت کو کنٹرول کیاجا سکے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ خیرپختون خوا حکومت نے قانون بنایا ہے کہ اپنی حفاظت خود کریں، اگر عوام کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے تو پھر وہ ٹیکس کیوں دیں؟ دوسری جانب کرپشن کے خاتمے کی دعوے دار صوبائی حکومت اینٹی کرپشن لا پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کراسکی۔
ایکسپریس: تحریک انصاف حکومت کی کارکرگی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا کرپشن پر قابو پایا گیا ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: پی ٹی آئی کی حکومت خیبر پختون خوا میں اپنے انتخابی وعدوں کو ایفا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور اب وہ نان ایشوز میں الجھ کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی ناکام کو شش کر رہی ہے۔ حکومت گذشتہ ایک سال سے کسی بھی شعبے میں تبدیلی نہیں لاسکی اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ شروع کیا جاسکا ہے۔
کرپشن ختم کرنے کے دعوؤں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک صوبائی وزیر نے سرکاری پیسہ اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈالا جس کے بعد اس کو تو اس سے زیادہ اچھی وزارت سے نوازا گیا مگر سیکریٹری اور ڈی جی کو معطل کر دیا گیا۔ اسی طرح چینی سرمایہ کاروں کی شکایات کے بعد متعلقہ مشیر کو ترقی دے دی گئی جب کہ نتھیا گلی کیس سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں اپنے چہیتوں کو دھڑا دھڑ نوازا جا رہا ہے، اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، کیوں کہ اس کے وزیر اور مشیرخود یہ بات کرتے پھررہے ہیں کہ ہم تو سیاست اور حکومت میں نئے ہیں اس لیے ہمیں زیادہ سمجھ بوجھ نہیں۔
ایکسپریس: پرویز مشرف کے دورِحکومت میں وفاقی وزیرداخلہ کی حیثیت سے نواب اکبر خان بگٹی کے قتل سے آپ کا کیا تعلق رہا؟
آفتاب احمدشیرپاؤ: مجھے اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمے میں اس لیے بلایا جارہا ہے کیوں کہ اُس وقت میں وزیرداخلہ تھا اور اس حیثیت سے مجھے نام زد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کیس سے میرا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اُس وقت جو بھی بیانات میں نے جاری کیے وہ وزیرداخلہ کی حیثیت سے تھے، میری ذاتی رائے یا احکامات اس میں شامل نہیں تھے۔
بگٹی کا قتل ایک سیاسی قتل تھا اور یہ کیس بھی سیاسی ہے۔ سیکیوریٹی اداروں نے اس وقت اس آپریشن کے متعلق نہ تو مشاورت کی اور نہ ہی وزارت داخلہ کا ان پر کنٹرول تھا۔ وہاں سے تحریری بیان ملتا جسے میں پڑھ کر اسے جاری کردیتا تھا۔ بگٹی قتل کیس میں سب سے اہم کردار پرویزمشرف کا تھا اور اس حوالے سے سب سے موزوں جواب وہی دے سکتے ہیں، جس دن نواب اکبر بگٹی کو مارا گیا اس دن میں پشاور میں تھا۔ اس واقعے میں میرا کوئی کردار نہیں، لیکن پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ کوئٹہ جاکر عدالت کی پیشیاں بھگت رہا ہوں، کیوںکہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔
ایکسپریس: خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ شراکت اقتدار اور علیحدگی کا کیا قصہ ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: انتخابات میں کام یابی کے بعد ہمیں خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کی کوئی خواہش نہیں تھی، لیکن تحریک انصاف نے خود ہمیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی اور جب ہم نے تحریک انصاف کے ساتھ وعدہ کیا تو اس کے بعد ہی پی ٹی آئی اس قابل ہو گئی کہ صوبے میں حکومت بنا سکے، کیوں کہ ہماری جانب سے حامی بھرنے کے بعد دس سے زائد آزاد اراکین صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور تحریک انصاف مسند اقتدار پر بیٹھنے کے قابل ہوگئی۔
بعد میں تحریک انصاف کی قیادت کی نیت بدل گئی اور بغیر ثبوت کے ہمارے دو وزراء پر کرپشن کے الزام لگا کر حکومت سے الگ کردیا گیا۔ ہم کو حکومت سے الگ کرنے کی وجہ کرپشن نہیں تھی۔ ورنہ اس وقت تو تحریک انصاف کے نو وزراء اور مشیروں پر الزام لگے، مگر کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ ان لوگوں کو بھی حکومت سے باہر نکال دیتا۔ عمران خان کو اگر شکایت تھی تو وہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے مجھے اعتماد میں لیتے۔
ہم نے چوں کہ بیش تر حکومتی اقدامات سے اختلاف کیا تھا، اس لیے ہمارے وزراء کو برطرف کیا گیا اس کے لیے صوبائی انسپکشن ٹیم کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ قومی وطن پارٹی کے وزراء کے خلاف تحقیقات کرے۔ دو روز تک تحقیقات کا ڈراما چلا اور جب انسپکشن ٹیم نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے وزراء پر بھی تو الزامات لگے ہیں، کیا ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی؟ تو اس وقت انہیں روک دیا گیا۔
ایکسپریس: مزید صوبوں کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ قومی وطن پارٹی کا اس پر کیا مؤقف ہے؟کیا فاٹا کو الگ صوبائی حیثیت ملنی چاہیے؟
آفتاب شیرپاؤ: ہم فاٹا ریفارمز کے حق میں ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ فاٹا کی انتظامی حیثیت کے حوالے سے فیصلے کا اختیار فاٹا کے عوام کو ہونا چاہیے۔ ابتدائی مرحلے میں ایف آرز کو متعلقہ اضلاع کے ساتھ ملایا جائے۔ اس کے بعد فاٹا کو پاٹا میں تبدیل کرنے کا تجربہ کیا جائے۔
تاہم حتمی فیصلے کا اختیار فاٹا کے عوام کو ہونا چاہیے۔ خیبر پختون خوا میں تمام زبانیں اور بولیاں بولنے والے پختون ہیں، اگر انتظامی بنیادوں پر صوبے بنائے جائیں تو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام خیبر پختون خوا کو تقسیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ اگر ہزارہ کے لوگوں کی خواہش ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
اسی طرح سرائیکی صوبہ بھی اگر انتظامی بنیادوں پر بنے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا، بل کہ ہم ہر فورم پر اس کی حمایت کریں گے، ہزارہ کے عوام نے آخر کیوں ایک الگ صوبے کے لیے آواز اٹھائی اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیں تو یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ صوبہ ہزارہ کا نعرہ ایک ردعمل کے طور پر بلند کیا گیا تھا۔
ہزارہ کے عوام کو ہمیشہ اہم امور میں نظر انداز کیا گیا اور یہی محرومیاں ایک لاوے کی طرح پھٹ پڑیں، ہمارا مؤقف ہے کہ تمام وسائل کی تقسیم علاقائی سطح پر کی جائے اس طرح سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ اس خطے میں ہندکو اور سرائیکی بولنے والے تمام پختون ہیں بل کہ میری رائے ہے کہ جو اس خطے میں رہائش پذیر ہیں وہ پختون ہیں۔
اسی طرح آپ نے فاٹا کی بات کی تو اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں شامل کیا جائے یا اس کو الگ صوبے کی حیثیت دی جائے۔ میرے خیال میں اگر ان باتوں پر بحث سے قبل قبائلی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائے تو یہ بہتر ہو گا۔ قبائلی عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کریں کہ وہ خیبر پختون خوا کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پھر وفاق کے زیرانتظام الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ فاٹا کو اہمیت نہیں دی گئی اور اسے ہر دور میں پس ماندہ رکھا گیا، جس کی وجہ سے قبائل کی محرومیاں بڑھیں۔ حالیہ مذاکرات کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مذاکرات کاروں میں قبائلی نمائندگی بالکل نہیں تھی۔ ہم نے فاٹا میں اصلاحات کے لیے 13 نکات پیش کیے ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ایکسپریس: افغانستان اور پاکستان کے درمیان پڑوسی ہونے کے باوجود اعتماد کا فقدان کیوں ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اور افغانستان کے مابین اعتماد کا فقدان ہے، کیوں کہ ماضی میں ہم نے افغانستان میں بے جا مداخلت کی، اگر ہم افغانستان میں مداخلت بند کردیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوریاں ختم نہ ہوجائیں، میری خواہش ہے کہ بولان سے کوئٹہ تک ایک پختون بیلٹ ہو، اس کے لیے میں کام کر رہا ہوں۔
افغانستان میں انتخابات ہوگئے ہیں اور وہاں اب ایک مخلوط حکومت بننے جارہی ہے۔ بحیثیت پڑوسی ملک ہمیں اس معاملے میں غیرجانب دار رہنا چاہیے، اگر یہ تاثر انہیں ملا کہ پاکستان مداخلت نہیں کر رہا تو یقین ہے کہ برف پگھل جائے گی۔ 2014ء خطے میں تبدیلی کا سال ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں انتخابی عمل کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی جماعت نے حکومت سنبھال لی ہے۔
اس لیے پاکستان کو اس حوالے سے بہت پہلے کام شروع کرنا چاہیے تھا۔ خطے میں جو تبدیلیاں آئیں گی میرے خیال میں ابھی تک پاکستان کی سابق و موجودہ حکومت نے اس کے لیے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہے اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا، تو پورے خطے میں ایک بہت بڑی خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ خطے میں تبدیلی کے حوالے سے ہم نے کبھی بھی افغانوں کی رائے کو فوقیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ 35 سال سے زاید عرصے تک پاکستان میں رہنے کے باوجود افغانوں کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے۔ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے۔
ہمیں کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ افغانستان کے ساتھ دوطرفہ اور برابری کی سطح پر روابط شروع کیے جائیں تو افغانستان ایک بہترین پڑوسی کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ ہاں البتہ پچھلے دنوں سرحدی چوکیوں پر جو حملے ہوئے ہیں، اس سے تلخیاں مزید بڑھیں گی۔
ایکسپریس: کیا آپ کی پارٹی واقعی پختونوں کی نمائندگی کا حق اداکر رہی ہے؟
آفتاب شیرپاؤ:2008ء میں خیبر پختون خوا کے عوام نے قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دیے۔ پختونوں کے لیے ہم نے ماضی میں بھی آواز اٹھائی اور اب بھی اپنے اسی مؤقف پر قائم ہیں میرے دور میں کالا باغ ڈیم کے خلاف خیبر پختون خوا اسمبلی میں قرارداد منظور ہوئی۔ 2008ء میں اے این پی کو صوبے کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا تھا اے این پی نے وہ توقعات پوری نہیں کیں۔
2013ء کے انتخابات سے قبل ہی ہم نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی اور اس فیصلے پر پہنچے کہ پختونوں کی آواز صرف قومی سطح پر نہیں بل کہ بین الاقوامی سطح پر پہنچانی چاہیے، وزیرداخلہ کی حیثیت سے میں نے پاکستان خصوصاً پختون عوام کی لو یہ جرگہ میں نمائندگی کی۔ اسفندیار ولی خان جو خارجہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین تھے، نے صرف دو مرتبہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو گیس رائلٹی دینے میں ہماری تجاویز شامل کی گئیں۔ پہلے صوبے پچاس میگا واٹ سے زاید بجلی کے منصوبے شروع نہیں کر سکتے تھے۔ اب ہماری تجویز کے بعد صوبے با اختیار ہوگئے ہیں۔ ہم صوبوں کو خودمختار نہیں بل کہ بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں، نیشنل سیکیوریٹی کونسل میں بھی ہماری بہت سی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
ایکسپریس: خطے میں بدامنی پر کنٹرول اور امن وامان کس طرح قائم ہوگا؟
آفتاب شیرپاؤ: موجودہ وفاقی و صوبائی حکومت میں سے کوئی بھی صوبے خصوصاً پختون خطے میں امن کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ کوئی اس بات کو تسلیم ہی نہیں کر رہا کہ پختونوں کا اصل مسئلہ کیا ہے، نوازشریف حکومت نے بھی ابتدائی طور پر مذاکراتی عمل شروع کیا، لیکن اس کی حالت بھی آپ کے سامنے ہے۔ پختونوں کو اس صوبے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، دوسری بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ سام راجی قوتیں بھی اس خطے میں موجود وسائل پر کنٹرول کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لے کر ان سازشوں کو ہر صورت ناکام بنانا ہوگا اور اپنے وسائل کو اس خطے کے عوام کی فلاح وبہبود کے استعمال میں لانا ہوگا۔
ایکسپریس:۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی پر آپ کا کیا موقف ہے؟
آفتاب شیرپاؤ: سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوئی تو ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ ان کے پاس اختیار تھا انہوں نے ایمرجینسی نافذ کی۔ ق لیگ اور مشرف کا اتحاد دیرپا نہیں تھا۔ قومی وطن پارٹی نے اس وقت ظفر اﷲ خان جمالی کو ووٹ دیا تھا۔ 2002ء کے انتخابات میں ہماری سیاسی جماعت اتنی بڑی نہیں تھی اور ہمیں ضرورت تھی اس لیے ہم نے پرویز مشرف کے ساتھ نہیں بل کہ مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ ایم ایم اے نے بھی اس وقت ہمارے ساتھ رابطے کیے تھے، لیکن اتحاد ق لیگ کے ساتھ کیا گیا۔ میں نے آج تک کبھی آمریت کی حمایت نہیں کی۔ ضیاء دور میں پانچ سال جیل میں گزارے۔