ڈیورنڈ لائن پار سے دہشت گردوں کا حملہ

پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک حوالے سے افغانستان مسائل کا سبب بن رہا ہے ۔۔۔

پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک حوالے سے افغانستان مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ فوٹو: فائل

کسی قوم کی آزمائش کی خاطر قسمت کبھی اسے کسی ایسے ملک کا ہمسایہ بنا دیتی ہے جو اس کے لیے راحت کے بجائے پریشانی اور مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔ مملکت خداداد اس حوالے سے دہرا لطف اٹھا رہی ہے۔

مشرق میں بھارت ہے جب کہ شمالی مغرب میں کرزئی کے افغانستان کی شکل میں ایک ''اوازار'' پڑوسی موجود ہے جس پر روس کے حملے سے بے گھر ہونے والے لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی مہمانداری برداشت کی حالانکہ ہمارے اس برادر مسلم پڑوسی نے قیام پاکستان کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اب جب کہ وہاں امریکا، نیٹو اور دیگر بین الاقوامی فوجیں متعین ہیں۔جن کے موعودہ انخلا کی تاریخیں قریب تر آرہی ہیں اور ملک میں غیر یقینی کا عالم ہے۔ امریکا ابھی تک وہاں حکومت مضبوط و مستحکم اور ذمے دار قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لہٰذا افغانستان سے مسلح دہشت گردوں کے حملے کی کوشش سے بہ آسانی صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے۔

تشویسناک خبر یہ ہے کہ گزشتہ روز پاک افغان سرحدی علاقے مسلم باغ سیکٹر میں افغانستان سے پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے درجنوں حملہ آوروں کے ساتھ جھڑپ میں ایک ایف سی اہلکار جاں بحق ہو گیا جب کہ تربت کے علاقے دشت میں ایف سی کے سرچ آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 12 مسلح افراد مارے گئے ان سے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کر لیا گیا، ترجمان فرنٹیئر کور کے مطابق جمعہ کو علاقے مرغہ فقیر زئی میں 60 سے 70دہشتگردوں نے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی، ایف سی اہلکاروں کے روکنے پر انھوں نے فائرنگ شروع کر دی جس سے نائیک نیاز موقع پر شہید ہو گیا، جوابی کارروائی میں متعدد حملہ آور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ترجمان نے کہا کہ ایف سی کی موثر کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے دہشت گرد پسپا ہو کر سرحد پار چلے گئے۔

افغانستان کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کا ہماری سرحد عبور کر کے حملہ آور ہونا غیرمعمولی واقعہ ہے جو کہ ایک برادر مسلمان پڑوسی ملک کی طرف سے پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ویسے تو ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز نے اس حملے کا منہ توڑ جواب دے دیا ہے لیکن ہمارے امور خارجہ کے محکمے کو اس معاملے پر ضرور سنجیدگی سے ایکشن لینا چاہیے تا کہ آئندہ ایسی جسارت نہ ہو۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد پہلے زیادہ تر ہمارے قبائلی علاقوں سے ہوتی تھی' لیکن اب بلوچستان کے راستے بھی اس قسم کی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں۔


پاکستان کی مسلح افواج اس وقت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔ شمالی علاقوں میں پاک فوج نے سیکیورٹی کو فول پروف بنا رکھا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان سے ملحق افغان بارڈر پر دراندازی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد بڑی آسانی سے پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک حوالے سے افغانستان مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ اور اس کی دوسری قیادت افغانستان میں مقیم ہے' وہ وہاں آزادی سے نقل و حرکت کر رہے ہیں' ہونا تو یہ چاہیے کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کو مطلوب افراد کو اپنے ملک میں پناہ نہ دے' پاکستان نے متعدد مرتبہ افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے کہا بھی ہے لیکن اس کے باوجود کرزئی انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

ادھر افغانستان میں سیاسی عدم استحکام ہے اور کوئی مضبوط حکومت قائم نہیں ہے۔ صدر حامد کرزئی کی حیثیت نگران صدر سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں عام انتخابات ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں دو شخصیات ابھر کر سامنے آئی ہیں' ان میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی شامل ہیں' امریکا نے مداخلت کر کے ان کے درمیان مفاہمت کرا دی ہے اور اب جلد ہی افغانستان کے نئے صدر کا فیصلہ ہو جائے گا۔ افغانستان میں جب نیا صدر اقتدار سنبھالے گا' اس کے بعد وہاں جو حکومت قائم ہو گی' وہ اس قابل ہو سکتی ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکے۔

افغانستان کی اس صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کی انتظامیہ اس وقت انتہائی کمزور ہے لیکن دوسری جانب یہ امر بھی قابل غور ہے کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج موجود ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ افغانستان کی سرحدی نگرانی کریں۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی ہے' اس جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ادھر وہ اب بھی قربانیاں دے رہا ہے۔

افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے کمانڈرز کو پاکستان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے تاکہ پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان جانے والے دہشت گردوں کا قلع قمع کریں اور اس طرح افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والوں کو روکیں' اب پاکستان کو بلوچستان سے متصل افغان سرحد پر بھی نگرانی زیادہ سخت کرنا ہو گی' حالات کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد کو زیادہ سے زیادہ فول پروف بنایا جائے۔ بلاشبہ یہ طویل سرحد ہے اور دشوار گزار بھی ہے لیکن پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور یہاں قیام امن کے لیے ڈیورنڈ لائن پر انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے۔
Load Next Story