امریکا کے لیے سب سے خطر ناک نیا گروپ
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے انکشاف کیا ہے کہ اس خطرناک گروپ کے پاس نہایت جدید قسم کا اسلحہ موجود ہے.
امریکا نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں برسرپیکار اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) ایک اس قدر خطرناک گروپ ہے جس کا اسے حالیہ برسوں میں سامنا ہو رہا ہے اور اس کے لیے نہ صرف یہ کہ امریکا کو بلکہ مشرق وسطیٰ اور خلیج عرب کی ریاستوں کو بھی زبردست خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے خاصی طویل لڑائی لڑنا پڑے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے چوٹی کے جرنیلوں کا کہنا ہے کہ اس خطرناک گروپ پر صرف اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے جب اس کے مقامی حامی اس کی حمایت سے یکسر ہاتھ اٹھا لیں۔ نیز مقامی طاقتوں کو اس ہولناک خطرے کے خلاف باہم متحد ہو کر اس سے مبارزت کا تہیہ کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی جرنیلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایس کے خلاف لڑائی شام میں لڑی جانی چاہیے۔
عراق میں یہ لڑائی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہاں پہلے ہی حالات خاصے مخدوش ہیں۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے انکشاف کیا ہے کہ اس خطرناک گروپ کے پاس نہایت جدید قسم کا اسلحہ موجود ہے علاوہ ازیں وہ خاصی منضبط حکمت عملی کے تحت پیشقدمی کر رہے ہیں جس سے ان کے آپریشن بالعموم کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ان کی تزویراتی حربی طاقت بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی حکمران انھیں بربریت کے حامل عسکریت پسند قرار دے رہے ہیں۔ چک ہیگل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس خطر ناک گروپ کو بہت بھاری مقدار میں مالیاتی فنڈ موصول ہو رہے ہیں جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس گروپ کے خلاف مقابلے میں قدرے امید افزا ریمارک دیتے ہوئے کہا ہے کہ لمبی لڑائی میں بالآخر اس پر فتح پا لی جائے گی۔ جنرل ڈیمپسی نے مزید انتباہ کیا ہے کہ آئی ایس کا اسلامی خلافت قائم کرنے کا مقصد ہر گز پورا ہونے نہیں دیا جائے گا۔ گویا اصل خطرہ یہ گروپ نہیں بلکہ اس کا ''نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر'' والا ارادہ ہے۔دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ میں جو خلفشار پیدا ہوا ہے'اس کی ذمے داری امریکا اور مغربی اقوام پر ہی عائد ہوتی ہے ۔
آج امریکا جس تنظیم کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ وہ انتہائی خطرناک ہے تو اس کے قیام کی وجوہات پر غور کرنا بھی امریکی انتظامیہ کی ذمے داری بنتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایس کی آڑ میں امریکا شام میں مداخلت کرنا چاہتا ہے ۔شام پر امریکا بڑی دیر سے نظریں جمائے ہوئے ہے لیکن عالمی طاقتوں کے ردعمل کے خوف نے اسے شام میں مداخلت سے روک رکھا ہے۔مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ امریکا اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے چوٹی کے جرنیلوں کا کہنا ہے کہ اس خطرناک گروپ پر صرف اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے جب اس کے مقامی حامی اس کی حمایت سے یکسر ہاتھ اٹھا لیں۔ نیز مقامی طاقتوں کو اس ہولناک خطرے کے خلاف باہم متحد ہو کر اس سے مبارزت کا تہیہ کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی جرنیلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایس کے خلاف لڑائی شام میں لڑی جانی چاہیے۔
عراق میں یہ لڑائی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہاں پہلے ہی حالات خاصے مخدوش ہیں۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے انکشاف کیا ہے کہ اس خطرناک گروپ کے پاس نہایت جدید قسم کا اسلحہ موجود ہے علاوہ ازیں وہ خاصی منضبط حکمت عملی کے تحت پیشقدمی کر رہے ہیں جس سے ان کے آپریشن بالعموم کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ان کی تزویراتی حربی طاقت بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی امریکی حکمران انھیں بربریت کے حامل عسکریت پسند قرار دے رہے ہیں۔ چک ہیگل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس خطر ناک گروپ کو بہت بھاری مقدار میں مالیاتی فنڈ موصول ہو رہے ہیں جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس گروپ کے خلاف مقابلے میں قدرے امید افزا ریمارک دیتے ہوئے کہا ہے کہ لمبی لڑائی میں بالآخر اس پر فتح پا لی جائے گی۔ جنرل ڈیمپسی نے مزید انتباہ کیا ہے کہ آئی ایس کا اسلامی خلافت قائم کرنے کا مقصد ہر گز پورا ہونے نہیں دیا جائے گا۔ گویا اصل خطرہ یہ گروپ نہیں بلکہ اس کا ''نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر'' والا ارادہ ہے۔دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ میں جو خلفشار پیدا ہوا ہے'اس کی ذمے داری امریکا اور مغربی اقوام پر ہی عائد ہوتی ہے ۔
آج امریکا جس تنظیم کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ وہ انتہائی خطرناک ہے تو اس کے قیام کی وجوہات پر غور کرنا بھی امریکی انتظامیہ کی ذمے داری بنتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایس کی آڑ میں امریکا شام میں مداخلت کرنا چاہتا ہے ۔شام پر امریکا بڑی دیر سے نظریں جمائے ہوئے ہے لیکن عالمی طاقتوں کے ردعمل کے خوف نے اسے شام میں مداخلت سے روک رکھا ہے۔مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ امریکا اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔