بدلتی دنیا کے مسائل

اپنے نظریۂ پر راسخ شخص کی نظر میں دوسرے غلط اور گمراہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔

zahedahina@gmail.com

اس وقت مجھے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہم جنرل ضیاء الحق کے نقار خانے میں رہتے تھے۔ انھیں تاریکی کا دیوتا اور سیاہ قلبی کا امام جانتے تھے۔ ہم وہ تھے جن کی صدا اس نقار خانے میں سنائی نہیں دیتی تھی' لیکن طوطی کو اس سے کیا غرض کہ کوئی اسے سن رہا ہے یا نہیں۔

یہی دن تھے جب مقتدا علی خان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ماہنامہ 'روشن خیال' سے بہت متاثر تھے جو میری ' ندیم اختر اور اظہر عباس کی ادارت میں نکلتا تھا۔ اور ہر دوسرے برس روپے نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو جاتا تھا۔ مقتدا کسی ایسے قلمی نام کی تلاش میں تھے جس سے ان کی روشن خیالی اور خرد افروزی جھلکے۔

میں نے کہا شہیدِ وفا منصور حلاج کے نام کا ایک حصہ تبرک کے طور پر اپنے نام کا جزو بنا لیں۔ یوں مقتدا علی خان' مقتدا منصور ہو گئے۔ اس وقت سے اب تک کاغذ اور قلم سے ان کا رشتہ استوار ہے۔ ان کی کتاب 'بدلتی دنیا کے مسائل' اسی رشتے کا ایک بھرپور اظہار ہے۔ وہ ایک معروف تجزیہ نگار ہیں اور ان کی تحریروں میں دانش کے جواہر ریزے چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ہونے والی جنگیں' مسلح تنازعات' مسلم انتہا پسندی' سیکولر ازم' دہشت گردی اور بہ طور خاص مسلم معاشروں میں زوال کے معاملات انھیں مضطرب رکھتے ہیں اور اس کا اظہار ان کی تحریروں میں ہوتا ہے۔

دنیا ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ہر بدلاؤ اپنے ساتھ نئی مبارزت طلبی لے کر آتا ہے بدلاؤ کے اس عمل کے بارے میں اقبال نے کہا ہے:

'ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں' ۔

دنیا میں اب سے پہلے بدلاؤ کا یہ عمل سست رفتار تھا اور اس کے اثرات ساری دنیا پر فوری طور سے مرتب نہیں ہوتے تھے لیکن صنعتی انقلاب نے علم اور معلومات دونوں کے پھیلاؤ کو تیز تر کر دیا اور پھر STR یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کو اصطلاحاً نہیں واقعتاً ایک عالمی گاؤں میں بدل دیا ۔ سترہویں' اٹھارہویں اور انیسیوں صدی میں یورپ دنیا کے مختلف براعظموں میں اپنی نو آبادیات قائم کر کے ان کے وسائل کو اپنی دولت و ثروت اور اقتدار میں اضافے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

نو آبادیات کا زمانہ ختم ہوا۔ اب صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی طاقت اور ان کا اثر و رسوخ ایک ایسا نظام پیدا کر چکا ہے جس سے ٹکرانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ مقتدا منصور تو یہاں تک جاتے ہیں کہ ان کے خیال میں تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے یہ بے پناہ طاقت رکھنے والا یہ نظام ایک عفریت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس فاشسٹ نظام سے ٹکرانے کی قوت صرف بائیں بازو میں تھی۔ اس کتاب کے مختلف مضامین میں اس صورت حال کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔

تاریخی تناظر میں مسلم معاشروں کا ذہنی زوال انھیں بہت مضطرب کرتا ہے۔ اپنے ایک مضمون 'زوال کی نشانیاں' میں وہ لکھتے ہیں کہ: ''مسلم معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات کی ابتداء خلافت راشدہ کے دور ہی میں ہو گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں تین خلفا شہید کر دیے گئے تھے۔ خوارج جیسے انتہا پسند گروہ وجود میں آ گئے تھے، جو اختلاف رائے رکھنے والے ہر فرد اور گروہ کی تکفیر کرتے ہوئے انھیں قتل کر رہے تھے۔ علماء ا ور مفکرین جنون پسندی کا علمی بنیادوں پر راستہ روکنے میں ناکام تھے، جب کہ حکومتیں اس صورتحال سے نمٹنے میں تامل کا شکار تھیں۔ جس کے نتیجے میں ایسے گروہ کسی نہ کسی شکل میں تسلسل کے ساتھ مضبوط ہوتے رہے۔ دسویں سے تیرہویں صدی کے دوران مسلم معاشرے میں ایسے ان گنت گروہ وجود میں آ چکے تھے جو دلیل و مکالمہ کی بجائے مختلف نظریات رکھنے والوں کے خلاف تشدد کی راہ اپنا رہے تھے''۔


پاکستان گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جس بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس تناظر میں مقتدا منصور کا تحریری اضطراب ماضی سے حال کی طرف سفر کرتا ہے۔ وہ پاکستان کے موجودہ سیاسی، مذہبی، مسلکی اور متشدد، فرقہ وارانہ عناصر کے پیدا کیے ہوئے انتشار کے بارے میں کھل کر لکھتے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں اور یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ نظم حکمرانی کے فقدان کے سبب پاکستان تیزی سے زوال کی ڈھلان پر پھسل رہا ہے وہ یہ لکھتے ہیں کہ : ''نظم حکمرانی کے اس بحران کو دیکھتے ہوئے خوف پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دُہرانے تو نہیں جا رہی؟ کیا کوئی نیا چنگیز یا ہلاکو اس ملک کو تاراج کرنے کے لیے تیاریاں تو نہیں کر رہا؟''

پاکستان کی نئی نسل کو تاریخ سے جس طرح نابلد رکھا گیا، اس نے ان لوگوں کو جنم دیا جو ماضی قریب کی حقیقتوں سے بھی آگاہ نہیں، حد تو یہ ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ بنگالی مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر پاکستان نہیں بن سکتا تھا' ، وہ اس بات سے بھی واقف نہیں کہ پاکستان کی بنگالی اکثریت کے حقوق کس طرح سلب کیے گئے اور ان کے ساتھ کیا ستم روا رکھے گئے۔ ہماری نئی نسل کو علم نہیں کہ ہندوستان سے ہمارا کیسا گہرا علمی، ادبی، تہذیبی اور ثقافتی رشتہ رہا ہے۔

ہماری نئی نسل جانتی ہے تو اتنا کہ ایک انتہا پسند جماعت دیواروں پر2013ء اور 2014ء میں لکھتی رہتی ہے کہ ہندوستان سے ہمارا رشتہ کیا نفرت اور تعصب کا۔ تاریخ کو نہ جاننے کا ہمیں یہ ثمر ملا کہ 70 ء اور 71ء میں ہماری دیواروں پر Crush India اور Rape India لکھا گیا جس کا نتیجہ 1971ء میں یہ نکلا کہ ہمارے 90ہزار فوجیوں نے ایک ہندوستانی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ مقتدا منصور ان تمام زمانوں سے گزرے ہیں انھیں سچی تاریخ سے واقفیت ہے اور دیواری ہذیان انھوں نے پڑھا ہے اور اس کے نتائج دیکھے ہیں تب ہی وہ یہ بات واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ:

''پاکستانی معاشرے میں تاریخ کو کبھی وہ مقام حاصل نہیں رہا جو پوری دنیا میں اس مضمون کو حاصل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اور درباری دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ حقیقت اور سچائی کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے اور ایسے موضوعات سے دامن بچانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ان عقائد و نظریات کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو' جنھیں وہ ریاست کے منطقی جواز کے طور پر شد و مد سے پیش کرتا رہا ہے۔

اس لیے روز اول ہی سے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کے دروازے بند کر کے خرد افروزی، عقلیت پسندی اور روشن خیالی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔زمینی حقائق کو سمجھنے اور تاریخی ارتقا سے نا واقفیت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ کٹھ پتلی تماشا دیکھ رہے ہیں جس پر دنیا کے دوسرے ملک حیران اور پریشان ہیں جب کہ مختلف ٹیلی وژن چینلوں نے اسے ڈرائیو ان سنیما کے مسلسل شو میں بدل دیا ہے اور یہ ناچتا گاتا تماشہ کھڑکی توڑ ہفتہ منا رہا ہے۔ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کی دعویدار یہ مملکت کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹ رہی ہے۔

مقتدا منصور نے اپنی اس کتاب میں پاکستان کے مختلف صوبوں، بہ طور خاص سندھ کے معاملات' کراچی کی گلیوں میں خون کے چھڑکاؤ، وفاقی' صوبائی اور بلدیاتی سطح پر نہایت افسوس ناک نظم حکمرانی سے لے کر ہندوستان اور پاکستان کے بیچ مسلح تصادم کی تاریخ' بین الاقوامی سیاست اور مذہب کے نام پر جنون کی دکان داری کرنے والے پنساریوں کے بارے میں لکھا ہے۔ ان کی تحریروں میں جذباتیت نہیں' وہ ایک باشعور، روادار اور متحمل مزاج تجزیہ نگار کے طور پر معاملات کو پرکھتے اور ان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جسے رواداری' وسیع المشربی اور تحمل و بردباری اس کے بزرگوں اور اعلیٰ کتابوں نے تعلیم کی تھی۔ یہ ایسی کتاب ہے جسے پڑھا جائے اور جس میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب تلاش کیے جائیں۔ لیکن ان کا ایک مضمون 'یادوں کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں' پڑھیے تو دل خون ہوتا ہے۔ چند صفحوں میں انھوں نے بہت دردمندی سے ان دنوں کا ذکر کیا ہے جب پاکستان ایک وسیع المشرب سماج ہوتا تھا۔

وہ اپنی تحریروں میں برٹرینڈ رسل کا حوالہ دیتے ہیں جس نے کہا تھا کہ جب عقیدے یا نظریۂ کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو لامحالہ سفاکی جنم لیتی ہے۔ اپنے نظریۂ پر راسخ شخص کی نظر میں دوسرے غلط اور گمراہ ہوتے ہیں۔

اسی لیے گردن زدنی ہوتے ہیں۔ متحمل مزاجی اور رواداری اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب دوسروں کی بات کوسنا جائے، ان کے خیالات اور تصورات کو اہمیت دی جائے۔یہ تصورات دلیل و مکالمہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ روادار اور متحمل مزاج مقتدا منصور کی زندگی بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ رہی ہے۔ آج کے حالات و معاملات کو دیکھ کروہ دل گرفتہ ہوتے ہیں لیکن اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تب ہی ان کی تحریروں میں خوش امیدی کی ایک زیریں لہر چلتی رہتی ہے اور یہی اس کتاب کا حاصل ہے ۔
Load Next Story