ڈنڈا بردار جمہوریت
اب کسی بھی سیاسی یا مذہبی شدت پسند کو اس کے مطالبے پر ہٹانے کے لیے بہت کچھ قربان پڑے گا ۔۔۔
مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ 1969ء میں ریاست سوات ضم ہوئی ۔ جہاں اس وقت رواج اور شریعت کے نام سے دو متوازی نظام موجود تھے انصاف کی رفتار بھی تیز تھی ۔
1973ء میں سوات کو صوبہ سرحد میں شامل کرلیا گیا ۔ماضی میں 1990ء کی دہائی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوفی محمد نے سوات کے قدیم عدالتی نظام کی بحالی کے لیے تحریک شروع کردی ۔1994ء میں اس وقت کے وزیر اعلی آفتاب شیر پاؤ نے علاقے میں قاضی عدالتوں کے قیام کا قانون منظور کیا تھا۔
2001ء میں صوفی محمد افغانستان پر امریکی جارحیت کے نتیجے میں دس ہزار کلاشنکوف بردار کا ایک قافلہ لے کر افغانستان گئے جس میں صرف تین ہزار ہی زندہ واپس آسکے ، حکومت نے انھیں گرفتار کرکے ڈیرہ اسمعیل خان کی جیل میں ڈال دیا جہاں وہ2008ء تک بند رہے۔ جن کی عدم موجودگی میں ان کے نیم خواندہ داماد مولانا فضل اللہ نے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے تبلیغ شروع کردی جو کافی مشہور ہوگئی ۔
لیکن انھوں نے خود کو تحریک نفاذ شریعت کے بجائے طالبان کے نام سے پکارنا شروع کیا ۔صوفی محمد اور سوات کی عوام نے اسلام کی نام پر جب شریعت کا مطالبہ کیا اور اپنے مقدمات شرعی عدالتوں میں لے جانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کی دیگر عوام کو سوات کی عوام کا یہ فیصلہ بڑا عجیب محسوس ہوا انھیں ایسا لگا کہ جیسے سوات کے عوام انتہائی انوکھا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ حالاں کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے دور سے مسلمان ہونے والے پختون مذہبی روایات میں سخت پابند ہوئے ہیں ، اور ان کی اسی سخت مزاجی کے سبب ان پر کئی لطیفے بھی بنائے گئے ۔
جس میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والا'' رمضان جانے پٹھان جانے'' ہے۔لیکن یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ دیگر مسلمانوں کی بھی انتہائی دلی خواہش یہی ہے کہ اسلامی شریعت نافذ ہو تاکہ انھیں جلد ، فوری اور سستا انصاف مل سکے ، کیونکہ اسلامی عدالتی نظام کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی ایسا نظام نہیں ہے جو کسی بھی سائل کو جلد ، فوری اور سستا انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محمود و ایاز کو بھی ایک صف میں لا کھڑا کرسکے۔اس کے نزدیک امیر المومنین اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اور تاریخ میں لاتعداد ایسی مثالیں موجود ہیں ۔
جس میں ایک عام شہری کو خلافت ہو یا ملوکیت ، فوری انصاف نہ مل رہا ہو۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی نظام کی درست تشریح نہ کی جا سکی اور علما حق کی بات کو عوام نہ سمجھ سکے اور موجودہ اسلامی نظام بھی طبقاتی تفریق کی طرح متاثرہ بنا دیا گیا۔ سوات میں تحریک نفاذ شریعت ،پھر تحریک امارات اسلامیہ افغانستان اور اب تحریک طالبان نے شریعت کے لیے جس طریقے کو اپنایا اسے ڈنڈا بردار شریعت قرار دیکر سیکولر سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کردیا اور مذہبی جماعتوں کے درمیان فرقہ وارانہ اور مسالکی تفریق بڑھ گئی۔
جس کے نتیجے میں پاکستان میں فرقہ واریت اور مسالک کی سیاست کو بین الاقوامی تناظر میں شام ، عراق ، ایران ، سعودی عرب سے موازنہ کیا جانے لگا ۔جس کے بعد ممکن نہیں رہا ہے کہ کوئی صوفی محمد یا مولانا فضل اللہ کی طرح اٹھے ، اور شریعت کے نام پر کسی ریاست کو یرغمال بنا کر اپنی شرائط منوائے۔لال مسجد کے محاصرے میں ڈنڈا بردار خواتین کے کردار بھی زیر بحث رہا اور یہی ہمارا الیکڑونک میڈیا تھا جس نے سوات میں ایک مبینہ ویڈیو کلپ کی مکمل تصدیق کیے بغیر آن ائیر کیے جانے کی ضد اس وقت تک جاری رکھی جب تک تمام سیکولر سیاسی جماعتوں نے سوات میں متفقہ طور پر فوجی آپریشن کا مطالبہ نہ کردیا جس کے نتیجے میں پاک فوج ریاست سوات میں داخل ہوئی اور سولہ لاکھ افرادکو وہاں سے نکالا گیا ۔
پاکستان بھر میں انھیں اپنے اپنے رشتے داروں کے پاس جانا پڑا لیکن پاک فوج نے جلد ہی سوات ملاکند ڈویژن کو کلیئر قرار دے کر انھیں واپس گھروں میں منتقل کردیا۔ سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے تحریک نفاذ شریعت کے مطالبے کو مانتے ہوئے ملاکنڈ اور سوات سمیت آٹھ اضلاع میں شرعی عدالتی نظام(دار القضا) نافذ کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے ، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی جس کے بعد اختیارات کی جنگ میں عوام ہی پسے گئے۔یہی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتے ہوئے جنوبی وزیر ستان ، شمالی وزیرستان اور پھر ملک کے کونے کونے میں پہنچتی رہی اور مملکت میں اس سوچ کو طالبان مائنڈ سیٹ قرار دیکر مسترد کردیا گیا۔
لازمی بات تھی کیونکہ پاکستان میں صرف فرقہ وارانہ تفریق ہی نہیں بلکہ مسالک کے بھی بڑے اختلافات موجود ہیں اور پاکستانی عوام مذہب کے معاملے میں انتہائی حساس واقع ہوئے ہیں ۔اس لیے ڈنڈا بردار شریعت کے نام کو فعل ممنوع قرار دے دیا گیا اور پاکستان جس شریعت کے نفاذ کے لیے جھلس رہا ہے اسے اب ڈنڈا بردار جمہوریت نے مزید ہوا دے دی ہے۔ڈنڈا بردار جمہوریت کے نام پر ایک خاص مسلک سے وابستہ نیم سیاسی جماعت اور ایک سیاسی جماعت نے ڈنڈا بردار جمہوریت کو پاکستان میں متعارف کرا کر ڈنڈا بردار شریعت کے درست ہونے کو جواز فراہم کردیا ہے۔ڈنڈا بردار جمہوریت اعداد کا گیم ہے ، جس میں اکثریت اقلیت پر حکومت کرتی ہے لیکن پاکستان میں ہمیشہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اقلیت نے ہی اکثریت پر حکومت کی ہے۔
گو کہ جماعت اسلامی نے ماضی کے برعکس بڑا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اس تاثر کو ختم کردیا کہ جماعت اسلامی فوج کی آمد کا راستہ ہموار کرتی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے آمریت کا راستہ روکنے کے لیے بڑا اہم سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ۔جماعت اسلامی نے ڈنڈا بردار جمہوریت کے خلاف بہترین سعی کی اور فریقین کے درمیان پل بننے کی کوشش کو جاری رکھا ۔ لیکن جب ڈنڈا بردار جمہوریت میں خاص ماینڈ سیٹ ہو تو انھیں اپنی جگہ پر لانے کے لیے بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ، کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں ایک بار کہا گیا کہ مرگلہ کی پہاڑیوں تک شدت پسند پہنچ چکے ہیں اور اگلے چند گھنٹوں میں ہی اسلام آباد پر قبضہ ہوجائے گا ۔ماضی میں پھیلائے جانی افواہ ڈنڈا بردار جمہوریت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور اس سلسلے میں ہمیں یہ قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ڈنڈا بردار جمہوریت کے نتیجے میں پاکستان کی بنیادیں کس قدر کمزور ہوچکی ہیں۔
اب کسی بھی سیاسی یا مذہبی شدت پسند کو اس کے مطالبے پر ہٹانے کے لیے بہت کچھ قربان پڑے گا۔ڈنڈا بردار جمہوریت نے پاکستان کے نظریاتی اساس و عدم برداشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے ۔ چاہے اب اس ڈنڈا بردار جمہوریت مارچ کے کوئی بھی نتائج بر آمد ہوں لیکن پاکستان میں عدم برداشت کی سیاست نے مضبوطی سے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ کل تک لیڈر آگے اور اور ان کے پیروکار پیچھے ہوا کرتے تھے لیکن اب ڈنڈا بردار جمہوریت کے ثمرات کے نتیجے میں پیروکار آگے اور لیڈر ان کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔ڈنڈا بردار جمہوریت نے پاکستان کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے ۔
جس طرح کسی زلزلے کے بعد اس علاقے کی بحالی میں کئی عشرے گذر جاتے ہیں اسی طرح انقلاب مارچ کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی طویل وقت درکار ہوگا ۔ خاکم بدہن کچھ ایسا نہیں کہنا چاہتا کہ بھارتیوں کا خواب اب پورا ہونے جارہا ہے کہ پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا اور بہت جلد وہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائیں گے ۔لیکن جس قسم کی عالمی سازشی پاکستان میں چلائی جارہی ہے اس میں اندرونی سے زیادہ بیرونی عناصر زیادہ ملوث نظر آرہے ہیں ۔
1973ء میں سوات کو صوبہ سرحد میں شامل کرلیا گیا ۔ماضی میں 1990ء کی دہائی میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوفی محمد نے سوات کے قدیم عدالتی نظام کی بحالی کے لیے تحریک شروع کردی ۔1994ء میں اس وقت کے وزیر اعلی آفتاب شیر پاؤ نے علاقے میں قاضی عدالتوں کے قیام کا قانون منظور کیا تھا۔
2001ء میں صوفی محمد افغانستان پر امریکی جارحیت کے نتیجے میں دس ہزار کلاشنکوف بردار کا ایک قافلہ لے کر افغانستان گئے جس میں صرف تین ہزار ہی زندہ واپس آسکے ، حکومت نے انھیں گرفتار کرکے ڈیرہ اسمعیل خان کی جیل میں ڈال دیا جہاں وہ2008ء تک بند رہے۔ جن کی عدم موجودگی میں ان کے نیم خواندہ داماد مولانا فضل اللہ نے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے تبلیغ شروع کردی جو کافی مشہور ہوگئی ۔
لیکن انھوں نے خود کو تحریک نفاذ شریعت کے بجائے طالبان کے نام سے پکارنا شروع کیا ۔صوفی محمد اور سوات کی عوام نے اسلام کی نام پر جب شریعت کا مطالبہ کیا اور اپنے مقدمات شرعی عدالتوں میں لے جانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کی دیگر عوام کو سوات کی عوام کا یہ فیصلہ بڑا عجیب محسوس ہوا انھیں ایسا لگا کہ جیسے سوات کے عوام انتہائی انوکھا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ حالاں کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے دور سے مسلمان ہونے والے پختون مذہبی روایات میں سخت پابند ہوئے ہیں ، اور ان کی اسی سخت مزاجی کے سبب ان پر کئی لطیفے بھی بنائے گئے ۔
جس میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والا'' رمضان جانے پٹھان جانے'' ہے۔لیکن یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ دیگر مسلمانوں کی بھی انتہائی دلی خواہش یہی ہے کہ اسلامی شریعت نافذ ہو تاکہ انھیں جلد ، فوری اور سستا انصاف مل سکے ، کیونکہ اسلامی عدالتی نظام کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی ایسا نظام نہیں ہے جو کسی بھی سائل کو جلد ، فوری اور سستا انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محمود و ایاز کو بھی ایک صف میں لا کھڑا کرسکے۔اس کے نزدیک امیر المومنین اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اور تاریخ میں لاتعداد ایسی مثالیں موجود ہیں ۔
جس میں ایک عام شہری کو خلافت ہو یا ملوکیت ، فوری انصاف نہ مل رہا ہو۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی نظام کی درست تشریح نہ کی جا سکی اور علما حق کی بات کو عوام نہ سمجھ سکے اور موجودہ اسلامی نظام بھی طبقاتی تفریق کی طرح متاثرہ بنا دیا گیا۔ سوات میں تحریک نفاذ شریعت ،پھر تحریک امارات اسلامیہ افغانستان اور اب تحریک طالبان نے شریعت کے لیے جس طریقے کو اپنایا اسے ڈنڈا بردار شریعت قرار دیکر سیکولر سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کردیا اور مذہبی جماعتوں کے درمیان فرقہ وارانہ اور مسالکی تفریق بڑھ گئی۔
جس کے نتیجے میں پاکستان میں فرقہ واریت اور مسالک کی سیاست کو بین الاقوامی تناظر میں شام ، عراق ، ایران ، سعودی عرب سے موازنہ کیا جانے لگا ۔جس کے بعد ممکن نہیں رہا ہے کہ کوئی صوفی محمد یا مولانا فضل اللہ کی طرح اٹھے ، اور شریعت کے نام پر کسی ریاست کو یرغمال بنا کر اپنی شرائط منوائے۔لال مسجد کے محاصرے میں ڈنڈا بردار خواتین کے کردار بھی زیر بحث رہا اور یہی ہمارا الیکڑونک میڈیا تھا جس نے سوات میں ایک مبینہ ویڈیو کلپ کی مکمل تصدیق کیے بغیر آن ائیر کیے جانے کی ضد اس وقت تک جاری رکھی جب تک تمام سیکولر سیاسی جماعتوں نے سوات میں متفقہ طور پر فوجی آپریشن کا مطالبہ نہ کردیا جس کے نتیجے میں پاک فوج ریاست سوات میں داخل ہوئی اور سولہ لاکھ افرادکو وہاں سے نکالا گیا ۔
پاکستان بھر میں انھیں اپنے اپنے رشتے داروں کے پاس جانا پڑا لیکن پاک فوج نے جلد ہی سوات ملاکند ڈویژن کو کلیئر قرار دے کر انھیں واپس گھروں میں منتقل کردیا۔ سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے تحریک نفاذ شریعت کے مطالبے کو مانتے ہوئے ملاکنڈ اور سوات سمیت آٹھ اضلاع میں شرعی عدالتی نظام(دار القضا) نافذ کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے ، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی جس کے بعد اختیارات کی جنگ میں عوام ہی پسے گئے۔یہی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتے ہوئے جنوبی وزیر ستان ، شمالی وزیرستان اور پھر ملک کے کونے کونے میں پہنچتی رہی اور مملکت میں اس سوچ کو طالبان مائنڈ سیٹ قرار دیکر مسترد کردیا گیا۔
لازمی بات تھی کیونکہ پاکستان میں صرف فرقہ وارانہ تفریق ہی نہیں بلکہ مسالک کے بھی بڑے اختلافات موجود ہیں اور پاکستانی عوام مذہب کے معاملے میں انتہائی حساس واقع ہوئے ہیں ۔اس لیے ڈنڈا بردار شریعت کے نام کو فعل ممنوع قرار دے دیا گیا اور پاکستان جس شریعت کے نفاذ کے لیے جھلس رہا ہے اسے اب ڈنڈا بردار جمہوریت نے مزید ہوا دے دی ہے۔ڈنڈا بردار جمہوریت کے نام پر ایک خاص مسلک سے وابستہ نیم سیاسی جماعت اور ایک سیاسی جماعت نے ڈنڈا بردار جمہوریت کو پاکستان میں متعارف کرا کر ڈنڈا بردار شریعت کے درست ہونے کو جواز فراہم کردیا ہے۔ڈنڈا بردار جمہوریت اعداد کا گیم ہے ، جس میں اکثریت اقلیت پر حکومت کرتی ہے لیکن پاکستان میں ہمیشہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اقلیت نے ہی اکثریت پر حکومت کی ہے۔
گو کہ جماعت اسلامی نے ماضی کے برعکس بڑا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اس تاثر کو ختم کردیا کہ جماعت اسلامی فوج کی آمد کا راستہ ہموار کرتی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے آمریت کا راستہ روکنے کے لیے بڑا اہم سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ۔جماعت اسلامی نے ڈنڈا بردار جمہوریت کے خلاف بہترین سعی کی اور فریقین کے درمیان پل بننے کی کوشش کو جاری رکھا ۔ لیکن جب ڈنڈا بردار جمہوریت میں خاص ماینڈ سیٹ ہو تو انھیں اپنی جگہ پر لانے کے لیے بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ، کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں ایک بار کہا گیا کہ مرگلہ کی پہاڑیوں تک شدت پسند پہنچ چکے ہیں اور اگلے چند گھنٹوں میں ہی اسلام آباد پر قبضہ ہوجائے گا ۔ماضی میں پھیلائے جانی افواہ ڈنڈا بردار جمہوریت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور اس سلسلے میں ہمیں یہ قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ڈنڈا بردار جمہوریت کے نتیجے میں پاکستان کی بنیادیں کس قدر کمزور ہوچکی ہیں۔
اب کسی بھی سیاسی یا مذہبی شدت پسند کو اس کے مطالبے پر ہٹانے کے لیے بہت کچھ قربان پڑے گا۔ڈنڈا بردار جمہوریت نے پاکستان کے نظریاتی اساس و عدم برداشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے ۔ چاہے اب اس ڈنڈا بردار جمہوریت مارچ کے کوئی بھی نتائج بر آمد ہوں لیکن پاکستان میں عدم برداشت کی سیاست نے مضبوطی سے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ کل تک لیڈر آگے اور اور ان کے پیروکار پیچھے ہوا کرتے تھے لیکن اب ڈنڈا بردار جمہوریت کے ثمرات کے نتیجے میں پیروکار آگے اور لیڈر ان کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔ڈنڈا بردار جمہوریت نے پاکستان کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے ۔
جس طرح کسی زلزلے کے بعد اس علاقے کی بحالی میں کئی عشرے گذر جاتے ہیں اسی طرح انقلاب مارچ کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی طویل وقت درکار ہوگا ۔ خاکم بدہن کچھ ایسا نہیں کہنا چاہتا کہ بھارتیوں کا خواب اب پورا ہونے جارہا ہے کہ پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا اور بہت جلد وہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائیں گے ۔لیکن جس قسم کی عالمی سازشی پاکستان میں چلائی جارہی ہے اس میں اندرونی سے زیادہ بیرونی عناصر زیادہ ملوث نظر آرہے ہیں ۔