سعودی حکام سائبر کرائم کے قانون میں مجوزہ ترامیم کا جائزہ لے رہے ہیں
بے راہ روی اور بے دینی پر مبنی اکاؤنٹس کے سدباب کے لیے اقدامات کا فیصلہ
ہر ملک کی اپنی معاشرتی اور مذہبی اقدار ہوتی ہیں، جن سے روگردانی قابل گرفت تصور کی جاتی ہے۔
انٹرنیٹ کے سامنے آنے سے پہلے ہر ریاست کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ دیگر قوانین کے نفاذ کے ساتھ ایسے قواعدوضوابط کی پابندی بھی یقینی بنائے جو اس سماج کی اقدار کا تحفظ کرتے ہوں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس نوعیت کی پابندیاں منوانا ممکن تھا، لیکن انٹرنیٹ اور پھر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی آمد نے دنیا بھر کے روایت پسند اور خاص طور پر مذہبی معاشروں کو سماجی بحران ایک بہت بڑے چیلینج سے دوچار کردیا۔ اس مسئلے کا سامنا کرنے والے ممالک مختلف طریقے اپنا کر اس صورت حال سے نمٹ رہے ہیں، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے حکام سوشل ویب سائٹس پر ناجائز تعلقات، ہم جنس پرستی اور بے دینی کی تشہیر پر پابندیاں لگانے کے لیے ملک کے اینٹی سائبر کرائم قانون میں ترامیم کی تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سعودی پریس میں اس حوالے سے شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مجوزہ ترمیمی قانون کی منظوری کی صورت میں ٹوئٹر اور سماجی روابط کی دیگر ویب سائٹس کے خلاف بے راہ روی اور الحاد کی تشہیر کرنے والے اکاؤنٹس بنانے کی اجازت دینے کے الزام میں قانونی چارہ جوئی کی جاسکے گی۔
سعودی شوریٰ کے رکن اور سوشل میڈیا سے متعلق کنسلٹینٹ ڈاکٹر فیاض الشہری کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے تقریباً پچیس ہزار اکاؤنٹس کے ذریعے سعودی شہریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اس سوشل ویب سائٹ کے پینتالیس ہزار اکاؤنٹس کے ذریعے الحاد کی وکالت اور تشہیر کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر فیاض کا کہنا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں سے پندرہ سے پچیس ہزار عربی میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ان اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے۔ یہ اکاؤنٹس بڑے منظم انداز میں ظاہر ہوتے اور غائب ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر فیاض کہتے ہیں کہ یہ ایک ثقافتی جنگ ہے۔ یہ اکاؤنٹس صرف مالی مفادات کے لیے نہیں بنائے جاتے، بلکہ اس طرح کے حملوں کے پیچھے وہ مُنظّم ادارے کارفرما ہیں جو پہلے روایتی میڈیا کے ذریعہ حملہ آور ہوا کرتے تھے۔
اگر ہم سوشل ویب سائٹس کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کو بھی اپنی ثقافت، مذہب اور اقدار پر ایسے ہی حملوں کا سامنا ہے جس طرح کی یلغار سوشل میڈیا کے ذریعے سعودی عرب پر کی جارہی ہے۔ اس صورت سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے متعلقہ اداروں کو بھی حرکت میں آنا ہوگا۔
انٹرنیٹ کے سامنے آنے سے پہلے ہر ریاست کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ دیگر قوانین کے نفاذ کے ساتھ ایسے قواعدوضوابط کی پابندی بھی یقینی بنائے جو اس سماج کی اقدار کا تحفظ کرتے ہوں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس نوعیت کی پابندیاں منوانا ممکن تھا، لیکن انٹرنیٹ اور پھر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی آمد نے دنیا بھر کے روایت پسند اور خاص طور پر مذہبی معاشروں کو سماجی بحران ایک بہت بڑے چیلینج سے دوچار کردیا۔ اس مسئلے کا سامنا کرنے والے ممالک مختلف طریقے اپنا کر اس صورت حال سے نمٹ رہے ہیں، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے حکام سوشل ویب سائٹس پر ناجائز تعلقات، ہم جنس پرستی اور بے دینی کی تشہیر پر پابندیاں لگانے کے لیے ملک کے اینٹی سائبر کرائم قانون میں ترامیم کی تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سعودی پریس میں اس حوالے سے شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مجوزہ ترمیمی قانون کی منظوری کی صورت میں ٹوئٹر اور سماجی روابط کی دیگر ویب سائٹس کے خلاف بے راہ روی اور الحاد کی تشہیر کرنے والے اکاؤنٹس بنانے کی اجازت دینے کے الزام میں قانونی چارہ جوئی کی جاسکے گی۔
سعودی شوریٰ کے رکن اور سوشل میڈیا سے متعلق کنسلٹینٹ ڈاکٹر فیاض الشہری کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے تقریباً پچیس ہزار اکاؤنٹس کے ذریعے سعودی شہریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے اور اس سوشل ویب سائٹ کے پینتالیس ہزار اکاؤنٹس کے ذریعے الحاد کی وکالت اور تشہیر کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر فیاض کا کہنا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں سے پندرہ سے پچیس ہزار عربی میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ان اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے۔ یہ اکاؤنٹس بڑے منظم انداز میں ظاہر ہوتے اور غائب ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر فیاض کہتے ہیں کہ یہ ایک ثقافتی جنگ ہے۔ یہ اکاؤنٹس صرف مالی مفادات کے لیے نہیں بنائے جاتے، بلکہ اس طرح کے حملوں کے پیچھے وہ مُنظّم ادارے کارفرما ہیں جو پہلے روایتی میڈیا کے ذریعہ حملہ آور ہوا کرتے تھے۔
اگر ہم سوشل ویب سائٹس کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کو بھی اپنی ثقافت، مذہب اور اقدار پر ایسے ہی حملوں کا سامنا ہے جس طرح کی یلغار سوشل میڈیا کے ذریعے سعودی عرب پر کی جارہی ہے۔ اس صورت سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے متعلقہ اداروں کو بھی حرکت میں آنا ہوگا۔