انقلاب کی سواری ٹی ہاؤس تک تو آئی تھی
مگر آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ...
SHANGHAI:
ایک کالم نگار نے ابھی پچھلے دنوں ایک بہت رجعت پسندانہ قسم کا کالم لکھا ہے۔ غصہ انھیں تھا عمران خاں اور علامہ طاہر القادری پر۔ نزلہ گرا غریب انقلاب پر۔ انقلاب کا معاملہ برصغیر پاک و ہند میں کچھ اسی قسم کا چلا آ رہا تھا جو غالبؔ نے جنت سے منسوب کیا ہے۔ یعنی یہ کہ ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش کرنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
اب ہم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ دل کو خوش کرنے کے لیے انقلاب کا نسخہ اس برصغیر میں پہلے کس نے اور کب استعمال کیا۔ بس اتنا یاد ہے کہ بچپن میں جب ہماری بستی میں کانگریس کا جلوس نکلتا تھا تو ہم کس شوق سے اسے دیکھنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر نظر دوڑاتے تھے۔
یار پوچھیں گے کہ یہ تمہیں کیسے پتہ چلتا تھا کہ یہ کانگریس کا جلوس ہے وہ اس واسطے سے کہ نعروں کی ترتیب طے شدہ تھی۔ اور وہ اس طرح تھی۔ انقلاب زندہ باد۔ مہاتما گاندھی زندہ باد۔ پنڈت موتی لال نہرو زندہ باد۔ سردار پٹیل زندہ باد۔ ڈاکٹر کچلو زندہ باد۔ ہمارے حافظہ میں نعرے بس یہاں تک محفوظ چلے آتے تھے۔ ڈاکٹر کچلو کے بعد کون زندہ باد اور کون مردہ باد ہوتا تھا بالکل یاد نہیں۔
یہ نعرہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نخالص اردو نعرہ تھا۔ ہندی والوں کو اس پر تائو آیا۔ انھوں نے اس نعرے کو ہندی میں اس طرح منتقل کیا۔ کرانتی کی جے ہو۔ مگر یہ نعرہ اچھا خاصا پھسپھسا ثابت ہوا۔ حلق کے پورے زور کے ساتھ جب انقلاب کا نعرہ لگایا جاتا تھا اور جواب میں اسی جوش کے ساتھ زندہ باد۔ اس کے مقابلہ میں کرانتی' میں وہ زور پیدا نہیں ہوتا۔ اور نہ جے ہو' میں 'زندہ باد' والی زندگی جھلکتی تھی۔ خیر جب بھگت سنگھ نے اس نعرے کو اپنایا اور خالی نعرے کو نہیں اپنایا بلکہ اس میں زور پیدا کرتے کرتے پھانسی پر بھی چڑھ گیا۔ پھر تو اس نعرے کو چار چاند لگ گئے۔
صرف ایک پھانسی نے اس نعرے میں کتنا رومانس پیدا کر دیا تھا۔ ایک شعر بھی اس زمانے کا اسی رومانس کی پیداوار ہے۔ وہ شعر یوں ہے ؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
مگر علامہ طاہر القادری حلق کے سارے زور کے باوجود اس نعرے کو بھگت سنگھ کے مقام تک نہ لے جا سکے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو مذکورہ کالم نگار کی مجال تھی کہ ہمارے اتنے شاندار رومانس کی چندی چندی اس طرح کر ڈالتے۔
اب ہم بتاتے ہیں کہ اس کالم نگار سے پہلے بھی ہمارے ایک دوست کو یہ راز معلوم تھا کہ ہر انقلاب کے موقع پر کیا کیا ہوا تھا۔ اور اس نے احمد بشیر کو اس خطرے سے خبردار بھی کیا تھا۔ اصل میں وہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ اور احمد بشیر اپنی سیاسی بصیرت سے اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ پاکستان میں ایک خونیں انقلاب آئے۔ پھر ضیاء الحق جائے ہی جائے۔
جب احمد بشیر کا انقلابی لہجہ بہت تیز ہو گیا اور ٹی ہائوس میں سلیم شاہد سے لے کر الہی بیرے تک سب اس کے قائل ہو چکے تھے کہ انقلاب اب آوے ہی آوے۔ مگر سب سے موثر قدم احمد بشیر نے نہیں بلکہ عزیز الحق نے اٹھایا۔ یہ انقلابی پورے ملک کی سیاسی سماجی اقتصادی صورت حال کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر ہم انقلابی یلغار کر کے حلقہ ارباب ذوق پر قبضہ کر لیں تو یہاں سے لانگ مارچ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اور پھر دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مشرف بہ انقلاب ہونے سے باز نہیں رکھ سکتی۔
مگر آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ عزیز الحق دنیا سے سدھار گئے اور انقلاب کی باگ ڈور پھر احمد بشیر کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس شام احمد بشیر نے سب سے موثر انقلابی تقریر کی۔ اب زاہد ڈار کے بولنے کا وقت آ گیا تھا۔ اس نے کہا کہ احمد بشیر تمہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ انقلاب آنے پر کتنی خونریزی ہوتی ہے۔ کتنی تباہی پھیلتی ہے۔ اور خون خرابہ ایسا کہ لوگ مکھی مچھروں کی طرح مارے جاتے ہیں۔
احمد بشیر نے غصے اور حقارت کی نظروں سے زاہد ڈار کو دیکھا اور کہا کہ انقلاب کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ تجھ ایسے مکھی مچھر دور دفان ہو جاتے ہیں۔
تب زاہد ڈار نے اپنی کتاب بغل میں دبائی اور اس انقلابی میز سے اٹھ کر باہر فٹ پاتھ پر جا کھڑا ہوا۔ اور پھر کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔
تب سے اب تک زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔
آن قدح بشکست و آں ساقی نمانہ۔
احمد بشیر دنیا سے سدھار گیا۔ انقلابی نعروں سے گونجتا وہ ٹی ہائوس بند ہو گیا۔ زاہد ڈار اب کتاب بغل میں دبائے نیرنگ آرٹ گیلری کی طرف جاتے دیکھا جاتا ہے اور انقلاب کا وہ قدح تو ٹوٹ گیا اور اس ساقی نے اب پردہ کر لیا۔ اب انقلاب کو علامہ طاہر القادری نے اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا ہے۔
جب انقلاب کے رومانس نے یہ سارے وقت پاکستان میں بھگتا دیے تب مذکورہ کالم نگار کو خیال آیا کہ انقلاب اپنے جلو میں جو تباہی لاتا ہے اس کا ذکر کیا جائے۔ مگر انھوں نے کیا ذکر کیا۔ مائو انقلاب میں انسانی تباہی کا ذکر تو انھوں نے بڑی شدومد سے کیا مگر مائو انقلاب نے انسانی جانوں سے شروع ہو کر غریب چڑیوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ارے اس ذکر کو کیسے فراموش کرو گے۔ سرخ چین کی سرخی میں چینی چڑیوں کے خون کی بھی سرخی شامل ہے۔
اور اب جب لے دیکے طاہر القادری والا انقلاب باقی رہ گیا ہے تو ہمیں فراقؔ کا وہ شعر یاد آتا ہے؎
دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز
جب علامہ صاحب اپنے انقلاب کے نمودار ہونے کی خبر دیتے ہیں تو لگتا ہے کہ ایک آندھی طوفان ہے جو سب کچھ اڑا کر لے جائے گا۔ جب تقریر ختم ہو جاتی ہے تو عمران خاں شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک انقلاب' دو اس کے منہ۔ رہرو مشکل میں ہے۔ کبھی اس منہ کو دیکھتا ہے کبھی دوسرے منہ کو۔ اور حیران ہو کر سوچتا ہے کہ جائوں کدھر کو میں
ہم سے پوچھو تو انقلاب کی سواری ٹی ہائوس تک تو آئی تھی۔ اس کے بعد نہ جانے کس طرف مڑ گئی۔ اب دیوار ایک ہے انقلاب کے منہ دو دو ہیں۔ اور ہر پھر کر وہی سوال کہ منہ کس کا دیکھوں اور جائوں کدھر کو میں۔
ایک کالم نگار نے ابھی پچھلے دنوں ایک بہت رجعت پسندانہ قسم کا کالم لکھا ہے۔ غصہ انھیں تھا عمران خاں اور علامہ طاہر القادری پر۔ نزلہ گرا غریب انقلاب پر۔ انقلاب کا معاملہ برصغیر پاک و ہند میں کچھ اسی قسم کا چلا آ رہا تھا جو غالبؔ نے جنت سے منسوب کیا ہے۔ یعنی یہ کہ ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش کرنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
اب ہم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ دل کو خوش کرنے کے لیے انقلاب کا نسخہ اس برصغیر میں پہلے کس نے اور کب استعمال کیا۔ بس اتنا یاد ہے کہ بچپن میں جب ہماری بستی میں کانگریس کا جلوس نکلتا تھا تو ہم کس شوق سے اسے دیکھنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر نظر دوڑاتے تھے۔
یار پوچھیں گے کہ یہ تمہیں کیسے پتہ چلتا تھا کہ یہ کانگریس کا جلوس ہے وہ اس واسطے سے کہ نعروں کی ترتیب طے شدہ تھی۔ اور وہ اس طرح تھی۔ انقلاب زندہ باد۔ مہاتما گاندھی زندہ باد۔ پنڈت موتی لال نہرو زندہ باد۔ سردار پٹیل زندہ باد۔ ڈاکٹر کچلو زندہ باد۔ ہمارے حافظہ میں نعرے بس یہاں تک محفوظ چلے آتے تھے۔ ڈاکٹر کچلو کے بعد کون زندہ باد اور کون مردہ باد ہوتا تھا بالکل یاد نہیں۔
یہ نعرہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نخالص اردو نعرہ تھا۔ ہندی والوں کو اس پر تائو آیا۔ انھوں نے اس نعرے کو ہندی میں اس طرح منتقل کیا۔ کرانتی کی جے ہو۔ مگر یہ نعرہ اچھا خاصا پھسپھسا ثابت ہوا۔ حلق کے پورے زور کے ساتھ جب انقلاب کا نعرہ لگایا جاتا تھا اور جواب میں اسی جوش کے ساتھ زندہ باد۔ اس کے مقابلہ میں کرانتی' میں وہ زور پیدا نہیں ہوتا۔ اور نہ جے ہو' میں 'زندہ باد' والی زندگی جھلکتی تھی۔ خیر جب بھگت سنگھ نے اس نعرے کو اپنایا اور خالی نعرے کو نہیں اپنایا بلکہ اس میں زور پیدا کرتے کرتے پھانسی پر بھی چڑھ گیا۔ پھر تو اس نعرے کو چار چاند لگ گئے۔
صرف ایک پھانسی نے اس نعرے میں کتنا رومانس پیدا کر دیا تھا۔ ایک شعر بھی اس زمانے کا اسی رومانس کی پیداوار ہے۔ وہ شعر یوں ہے ؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
مگر علامہ طاہر القادری حلق کے سارے زور کے باوجود اس نعرے کو بھگت سنگھ کے مقام تک نہ لے جا سکے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو مذکورہ کالم نگار کی مجال تھی کہ ہمارے اتنے شاندار رومانس کی چندی چندی اس طرح کر ڈالتے۔
اب ہم بتاتے ہیں کہ اس کالم نگار سے پہلے بھی ہمارے ایک دوست کو یہ راز معلوم تھا کہ ہر انقلاب کے موقع پر کیا کیا ہوا تھا۔ اور اس نے احمد بشیر کو اس خطرے سے خبردار بھی کیا تھا۔ اصل میں وہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ اور احمد بشیر اپنی سیاسی بصیرت سے اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ پاکستان میں ایک خونیں انقلاب آئے۔ پھر ضیاء الحق جائے ہی جائے۔
جب احمد بشیر کا انقلابی لہجہ بہت تیز ہو گیا اور ٹی ہائوس میں سلیم شاہد سے لے کر الہی بیرے تک سب اس کے قائل ہو چکے تھے کہ انقلاب اب آوے ہی آوے۔ مگر سب سے موثر قدم احمد بشیر نے نہیں بلکہ عزیز الحق نے اٹھایا۔ یہ انقلابی پورے ملک کی سیاسی سماجی اقتصادی صورت حال کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر ہم انقلابی یلغار کر کے حلقہ ارباب ذوق پر قبضہ کر لیں تو یہاں سے لانگ مارچ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اور پھر دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مشرف بہ انقلاب ہونے سے باز نہیں رکھ سکتی۔
مگر آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ عزیز الحق دنیا سے سدھار گئے اور انقلاب کی باگ ڈور پھر احمد بشیر کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس شام احمد بشیر نے سب سے موثر انقلابی تقریر کی۔ اب زاہد ڈار کے بولنے کا وقت آ گیا تھا۔ اس نے کہا کہ احمد بشیر تمہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ انقلاب آنے پر کتنی خونریزی ہوتی ہے۔ کتنی تباہی پھیلتی ہے۔ اور خون خرابہ ایسا کہ لوگ مکھی مچھروں کی طرح مارے جاتے ہیں۔
احمد بشیر نے غصے اور حقارت کی نظروں سے زاہد ڈار کو دیکھا اور کہا کہ انقلاب کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ تجھ ایسے مکھی مچھر دور دفان ہو جاتے ہیں۔
تب زاہد ڈار نے اپنی کتاب بغل میں دبائی اور اس انقلابی میز سے اٹھ کر باہر فٹ پاتھ پر جا کھڑا ہوا۔ اور پھر کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔
تب سے اب تک زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔
آن قدح بشکست و آں ساقی نمانہ۔
احمد بشیر دنیا سے سدھار گیا۔ انقلابی نعروں سے گونجتا وہ ٹی ہائوس بند ہو گیا۔ زاہد ڈار اب کتاب بغل میں دبائے نیرنگ آرٹ گیلری کی طرف جاتے دیکھا جاتا ہے اور انقلاب کا وہ قدح تو ٹوٹ گیا اور اس ساقی نے اب پردہ کر لیا۔ اب انقلاب کو علامہ طاہر القادری نے اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا ہے۔
جب انقلاب کے رومانس نے یہ سارے وقت پاکستان میں بھگتا دیے تب مذکورہ کالم نگار کو خیال آیا کہ انقلاب اپنے جلو میں جو تباہی لاتا ہے اس کا ذکر کیا جائے۔ مگر انھوں نے کیا ذکر کیا۔ مائو انقلاب میں انسانی تباہی کا ذکر تو انھوں نے بڑی شدومد سے کیا مگر مائو انقلاب نے انسانی جانوں سے شروع ہو کر غریب چڑیوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ارے اس ذکر کو کیسے فراموش کرو گے۔ سرخ چین کی سرخی میں چینی چڑیوں کے خون کی بھی سرخی شامل ہے۔
اور اب جب لے دیکے طاہر القادری والا انقلاب باقی رہ گیا ہے تو ہمیں فراقؔ کا وہ شعر یاد آتا ہے؎
دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز
جب علامہ صاحب اپنے انقلاب کے نمودار ہونے کی خبر دیتے ہیں تو لگتا ہے کہ ایک آندھی طوفان ہے جو سب کچھ اڑا کر لے جائے گا۔ جب تقریر ختم ہو جاتی ہے تو عمران خاں شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک انقلاب' دو اس کے منہ۔ رہرو مشکل میں ہے۔ کبھی اس منہ کو دیکھتا ہے کبھی دوسرے منہ کو۔ اور حیران ہو کر سوچتا ہے کہ جائوں کدھر کو میں
ہم سے پوچھو تو انقلاب کی سواری ٹی ہائوس تک تو آئی تھی۔ اس کے بعد نہ جانے کس طرف مڑ گئی۔ اب دیوار ایک ہے انقلاب کے منہ دو دو ہیں۔ اور ہر پھر کر وہی سوال کہ منہ کس کا دیکھوں اور جائوں کدھر کو میں۔