کامیاب حکمرانی کی دو شرطیں
بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلیوں کے الزام پر قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک چلائی، دونوں مرتبہ فوج کی مداخلت سے معاملہ نمٹا
ایک آدمی کئی لفافے لے کر سڑک پر بھاگے جارہا تھا، کسی نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے، تو اس نے جواب دیا کہ بیوی کے کپڑے۔ بھاگتے بھاگتے جب وہ گھر کی جانب پہنچا تو ایک دوست نے ہانپنے کانپنے کی وجہ پوچھی۔ نوجوان نے کہا بیگم کے کپڑے لے کر جارہا ہوں۔ تو جلدی کیا ہے؟ محبت کرنے والے شوہر نے کہا کہ ڈر ہے کہ کہیں فیشن نہ بدل جائے۔
ایک دور تھا کہ لوگوں کی پسند و ناپسند تیزی سے بدلتی تھی، کبھی تنگ پائنچے تو کبھی کھلے، پتلون تو بچ جاتی لیکن لڑکوں کی شلوار اسکوٹر کے ٹائر میں پھنس کر حادثے کا سبب بنتی، کبھی پائجامے کے پائنچے اتنے تنگ کہ پلاسٹک کی تھیلی کے بغیر نجات پانا ممکن نہ تھا، اس دور میں سیاست دھیمے سروں میں چلتی تھی، ایوب اور بھٹو کے خلاف تحریکیں تو چلیں لیکن واقعات کی رفتار اتنی تیزنہ ہوتی جتنی آج کل ہے۔ ابھی ایک واقعہ (سول نافرمانی) پر تبصرہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا واقعہ (اسمبلیوں سے استعفے کا) سامنے آجاتا ہے۔
ابھی اس پر ٹی وی کے میزبان گفتگو کا ماحول بناتے ہیں تو تیسری بریکنگ نیوز سامنے آجاتی ہے (ریڈ زون عبور کیا جائے گا) براہ راست والا میڈیم حالات کی تیز رفتاری کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو پرنٹ میڈیا کیا کرے؟ واقعات کے چار چھ گھنٹوں بعد شایع ہونے والی خبریں کبھی باسی محسوس ہوتی ہیں تو چالیس سے ستر گھنٹوں بعد شایع ہونے والے کالم کو Expiry Date سے بچانے کے لیے واقعات کا انتخاب و الفاظ کا چنائو اور منظرکشی مزید توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے، دو پارٹیوں کا اسلام آباد میں ایک ہفتے تک دھرنا پاکستانی آسمان نے کبھی نہ دیکھا تھا، اس سے پہلے بعض مذہبی جماعتیں تین روزہ تربیتی پروگرام کے لیے بے شمار لوگوں کو ایک مقام پر جمع کرتی تھیں۔ 13ء کے سرد موسم میں طاہر القادری کے دھرنے کا ریکارڈ دو وجوہات کے سبب ٹوٹ گیا ہے۔ وقت اور تعداد نے ڈیڑھ سال قبل کے اجتماع کو گہنادیا ہے، قیام کے ایام کا بڑھ جانا اور ایک کے بجائے دو شخصیات کے الگ الگ مقامات پر کنٹینرز سے خطاب نے انوکھی روایت کو جنم دیا ہے۔ اس روایت نے ایک سوال پیدا کیا ہے، اس سوال اور اس کے جواب پر آج ہمارا کالم گردش کرے گا۔
آزادی اور انقلاب مارچ نے سیاست کے طالب علموں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، ایک سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس طرح تو کوئی بھی گروہ چند ہزار یا ایک آدھ لاکھ لوگوں کو لے کر دارالخلافے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ اس طرح تو پاکستان میں کبھی بھی کوئی حکومت مستحکم نہیں رہ سکے گی۔ ایوب خان کی سرکار کو مختلف پارٹیوں کے مظاہرے نے کمزور کرکے ختم کردیا تھا۔
بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلیوں کے الزام پر قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک چلائی، دونوں مرتبہ فوج کی مداخلت سے معاملہ نمٹا، یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہوا تو ضیا الحق کے دور میں بھٹو کی پھانسی کا المیہ۔ ان اندوہناک واقعات کو دیکھ کر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہر احتجاجی تحریک ٹریجڈی پر ختم ہوئی ہے۔ سوال ہے کہ پھر کیا اپوزیشن کو کبھی کوئی تحریک نہیں چلانی چاہیے؟ یہ سوال ایک اور سوال کو جنم دے رہا ہے۔
کیا حکمران کو ہٹانے کے تمام آئینی ذرایع بند ہوجانے کے بعد تحریک چلتی ہے؟ اس سوال کا جواب بڑی حد تک ہاں میں ہے، ضیا الحق کی رخصتی کے تمام دروازے بند ہوگئے تو دہشت گردی ہوگئی، مشرف اپنی صدارت کے مزید پانچ سال لے کر ضیا الحق کا ریکارڈ توڑنا چاہتے تھے تو وکلا میدان میں آئے۔
پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقتور سے طاقت ور حکمران نے جب واپسی کے تمام راستے بند کردیے تو گھٹن کا ماحول پیدا ہوا۔ آگ جلائیں اور پتیلی میں پانی ڈال کر اسے ڈھک دیں، کھولتا پانی دھماکے سے وزنی سے وزنی چیز کو اڑا دے گا جو اس کے راستے میں حائل ہوگی۔ کمزور ایرانی اور بزدل مصری بھی شہنشاہ رضا پہلوی اور حسنی مبارک کے خلاف تحریک چلاچکے ہیں۔ ایک کو بمشکل پناہ ملی اور دوسرے کو پنجرے میں لیٹ کر عدالت آنا پڑا ۔
سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ہر طاقت ور لیڈر اپنے ایک آدھ لاکھ حامیوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھ دوڑے؟ اس سوال کا ایک جواب مل گیا کہ حکمرانوں کو اپنے آپ کو جائز ذرایع سے ہٹائے جانے کا راستہ کھلا چھوڑنا چاہیے، جب یہ راستہ بند ہوتا ہے تب ہی کوئی نہ کوئی رہنما یا گروہ حکمرانوں کو کمزور جان کر ان کی حکومت گرانے کی تدبیر کرتے ہیں۔ یہ پہلی شرط ہے کسی بھی احتجاجی تحریک سے بچنے کی۔ دوسری شرط کیا ہے؟
ایک بادشاہ ایک نائی سے بال کٹواتا اور اس سے عوام کا احوال پوچھتا۔ وہ جواب دیتا کہ لوگ بہت خوش ہیں۔ وزیراعظم کی رائے تھی کہ رعایا میں بے چینی ہے، بادشاہ نہ مانتا کہ نائی تو عوام میں شادمانی کے شادیانے بجارہا ہے۔ وزیر نے کہا کہ آپ کی پسند کے سبب نائی سے بڑے بڑے رئیس و امرا بھی بال کٹواتے ہیں۔ اس کی آمدنی زیادہ ہورہی ہے، وہ اپنی خوش حالی کو عوام کی خوش حالی سمجھ رہا ہے، وزیر نے رائے دی کہ آپ کسی دوسرے نائی سے بال کٹوائیں اور پھر دو تین ماہ بعد پہلے نائی سے عوام کا حال پوچھیں۔
بادشاہ نے تین ماہ بعد اپنے سابق چہیتے کو بلاکر رعایا کی خبر جانی تو اس نے جواب دیا کہ کیا پوچھتے ہیں بادشاہ سلامت! لوگ تو بھوکوں مررہے ہیں۔ جب حکمران اپنے قریبی لوگوں کی خوش حالی کو عوام کی خوش حالی سمجھیں گے تو انھیں غلط فہمی پیدا ہوگی۔ یہ دوسری شرط ہے کسی بھی احتجاجی تحریک سے بچنے کی اور کامیاب حکمرانی کرنے کی۔
سوال کا جواب مل گیا کہ کوئی گروہ دارالخلافے پر تب چڑھ دوڑتا ہے جب حکمران اپنی واپسی کا راستہ بند کردے اور امیر و غریب میں معاشی فرق بڑھتا جائے، حکومت جلد از جلد ایسی انتخابی اصلاحات کرے کہ انسان چاہے تو حکمران کو ایوان سے نکال باہر کرے، یوں نہ اسے زندان میں جانا پڑے اور نہ جلا وطن ہونا پڑے اور نہ آویزاں ہونا پڑے، نہ خانہ نشین ہونا پڑے۔ ن لیگ کے لیے نون کی گردان والی نصیحت انھیں کبھی بے جان نہیں ہونے دے گی۔ اگر وہ یاد رکھیں کامیاب حکمرانی کی دو شرطیں۔
ایک دور تھا کہ لوگوں کی پسند و ناپسند تیزی سے بدلتی تھی، کبھی تنگ پائنچے تو کبھی کھلے، پتلون تو بچ جاتی لیکن لڑکوں کی شلوار اسکوٹر کے ٹائر میں پھنس کر حادثے کا سبب بنتی، کبھی پائجامے کے پائنچے اتنے تنگ کہ پلاسٹک کی تھیلی کے بغیر نجات پانا ممکن نہ تھا، اس دور میں سیاست دھیمے سروں میں چلتی تھی، ایوب اور بھٹو کے خلاف تحریکیں تو چلیں لیکن واقعات کی رفتار اتنی تیزنہ ہوتی جتنی آج کل ہے۔ ابھی ایک واقعہ (سول نافرمانی) پر تبصرہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا واقعہ (اسمبلیوں سے استعفے کا) سامنے آجاتا ہے۔
ابھی اس پر ٹی وی کے میزبان گفتگو کا ماحول بناتے ہیں تو تیسری بریکنگ نیوز سامنے آجاتی ہے (ریڈ زون عبور کیا جائے گا) براہ راست والا میڈیم حالات کی تیز رفتاری کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو پرنٹ میڈیا کیا کرے؟ واقعات کے چار چھ گھنٹوں بعد شایع ہونے والی خبریں کبھی باسی محسوس ہوتی ہیں تو چالیس سے ستر گھنٹوں بعد شایع ہونے والے کالم کو Expiry Date سے بچانے کے لیے واقعات کا انتخاب و الفاظ کا چنائو اور منظرکشی مزید توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے، دو پارٹیوں کا اسلام آباد میں ایک ہفتے تک دھرنا پاکستانی آسمان نے کبھی نہ دیکھا تھا، اس سے پہلے بعض مذہبی جماعتیں تین روزہ تربیتی پروگرام کے لیے بے شمار لوگوں کو ایک مقام پر جمع کرتی تھیں۔ 13ء کے سرد موسم میں طاہر القادری کے دھرنے کا ریکارڈ دو وجوہات کے سبب ٹوٹ گیا ہے۔ وقت اور تعداد نے ڈیڑھ سال قبل کے اجتماع کو گہنادیا ہے، قیام کے ایام کا بڑھ جانا اور ایک کے بجائے دو شخصیات کے الگ الگ مقامات پر کنٹینرز سے خطاب نے انوکھی روایت کو جنم دیا ہے۔ اس روایت نے ایک سوال پیدا کیا ہے، اس سوال اور اس کے جواب پر آج ہمارا کالم گردش کرے گا۔
آزادی اور انقلاب مارچ نے سیاست کے طالب علموں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، ایک سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس طرح تو کوئی بھی گروہ چند ہزار یا ایک آدھ لاکھ لوگوں کو لے کر دارالخلافے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ اس طرح تو پاکستان میں کبھی بھی کوئی حکومت مستحکم نہیں رہ سکے گی۔ ایوب خان کی سرکار کو مختلف پارٹیوں کے مظاہرے نے کمزور کرکے ختم کردیا تھا۔
بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلیوں کے الزام پر قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک چلائی، دونوں مرتبہ فوج کی مداخلت سے معاملہ نمٹا، یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہوا تو ضیا الحق کے دور میں بھٹو کی پھانسی کا المیہ۔ ان اندوہناک واقعات کو دیکھ کر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہر احتجاجی تحریک ٹریجڈی پر ختم ہوئی ہے۔ سوال ہے کہ پھر کیا اپوزیشن کو کبھی کوئی تحریک نہیں چلانی چاہیے؟ یہ سوال ایک اور سوال کو جنم دے رہا ہے۔
کیا حکمران کو ہٹانے کے تمام آئینی ذرایع بند ہوجانے کے بعد تحریک چلتی ہے؟ اس سوال کا جواب بڑی حد تک ہاں میں ہے، ضیا الحق کی رخصتی کے تمام دروازے بند ہوگئے تو دہشت گردی ہوگئی، مشرف اپنی صدارت کے مزید پانچ سال لے کر ضیا الحق کا ریکارڈ توڑنا چاہتے تھے تو وکلا میدان میں آئے۔
پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقتور سے طاقت ور حکمران نے جب واپسی کے تمام راستے بند کردیے تو گھٹن کا ماحول پیدا ہوا۔ آگ جلائیں اور پتیلی میں پانی ڈال کر اسے ڈھک دیں، کھولتا پانی دھماکے سے وزنی سے وزنی چیز کو اڑا دے گا جو اس کے راستے میں حائل ہوگی۔ کمزور ایرانی اور بزدل مصری بھی شہنشاہ رضا پہلوی اور حسنی مبارک کے خلاف تحریک چلاچکے ہیں۔ ایک کو بمشکل پناہ ملی اور دوسرے کو پنجرے میں لیٹ کر عدالت آنا پڑا ۔
سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ہر طاقت ور لیڈر اپنے ایک آدھ لاکھ حامیوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھ دوڑے؟ اس سوال کا ایک جواب مل گیا کہ حکمرانوں کو اپنے آپ کو جائز ذرایع سے ہٹائے جانے کا راستہ کھلا چھوڑنا چاہیے، جب یہ راستہ بند ہوتا ہے تب ہی کوئی نہ کوئی رہنما یا گروہ حکمرانوں کو کمزور جان کر ان کی حکومت گرانے کی تدبیر کرتے ہیں۔ یہ پہلی شرط ہے کسی بھی احتجاجی تحریک سے بچنے کی۔ دوسری شرط کیا ہے؟
ایک بادشاہ ایک نائی سے بال کٹواتا اور اس سے عوام کا احوال پوچھتا۔ وہ جواب دیتا کہ لوگ بہت خوش ہیں۔ وزیراعظم کی رائے تھی کہ رعایا میں بے چینی ہے، بادشاہ نہ مانتا کہ نائی تو عوام میں شادمانی کے شادیانے بجارہا ہے۔ وزیر نے کہا کہ آپ کی پسند کے سبب نائی سے بڑے بڑے رئیس و امرا بھی بال کٹواتے ہیں۔ اس کی آمدنی زیادہ ہورہی ہے، وہ اپنی خوش حالی کو عوام کی خوش حالی سمجھ رہا ہے، وزیر نے رائے دی کہ آپ کسی دوسرے نائی سے بال کٹوائیں اور پھر دو تین ماہ بعد پہلے نائی سے عوام کا حال پوچھیں۔
بادشاہ نے تین ماہ بعد اپنے سابق چہیتے کو بلاکر رعایا کی خبر جانی تو اس نے جواب دیا کہ کیا پوچھتے ہیں بادشاہ سلامت! لوگ تو بھوکوں مررہے ہیں۔ جب حکمران اپنے قریبی لوگوں کی خوش حالی کو عوام کی خوش حالی سمجھیں گے تو انھیں غلط فہمی پیدا ہوگی۔ یہ دوسری شرط ہے کسی بھی احتجاجی تحریک سے بچنے کی اور کامیاب حکمرانی کرنے کی۔
سوال کا جواب مل گیا کہ کوئی گروہ دارالخلافے پر تب چڑھ دوڑتا ہے جب حکمران اپنی واپسی کا راستہ بند کردے اور امیر و غریب میں معاشی فرق بڑھتا جائے، حکومت جلد از جلد ایسی انتخابی اصلاحات کرے کہ انسان چاہے تو حکمران کو ایوان سے نکال باہر کرے، یوں نہ اسے زندان میں جانا پڑے اور نہ جلا وطن ہونا پڑے اور نہ آویزاں ہونا پڑے، نہ خانہ نشین ہونا پڑے۔ ن لیگ کے لیے نون کی گردان والی نصیحت انھیں کبھی بے جان نہیں ہونے دے گی۔ اگر وہ یاد رکھیں کامیاب حکمرانی کی دو شرطیں۔