نامور ترقی پسند شاعر احمد فراز کو بچھڑے 6 برس بیت گئے

12 جنوری 1931کو کوہاٹ میں پیدا ہونیوالے منفرد شاعر نے ضیا دور میں جیل بھی کاٹی

زندگی بھر مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں بطور ماہر تعلیم بھی خدمات سرانجام دیں۔ فوٹو : فائل

''رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ''، ''آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ'' اور منفرد انداز کی غزل مسلسل ''سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں''، ''سو ہم بھی اس کے شہر میں ٹھہر کے دیکھتے ہیں'' دینے والے ملک کے نامور ترقی پسند شاعر، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، نگار ایوارڈز اور ہلال پاکستان کے حامل ممتاز ماہر تعلیم وشعر نگار احمد فراز کی چھٹی برسی آج منائی جائے گی۔


احمد فراز 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیداہوئے۔ احمد فراز اردو، فارسی، پنجابی سمیت دیگر زبانوں پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ عمرکے آخری ایام میں وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔ احمد فراز نے ہزاروں نظمیں اور درجنوں مجموعہ کلام بھی تحریر کیے۔ احمد فراز کے تین بیٹے سعدی فراز، شبلی فراز اور سرمد فراز ان کا نام زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں۔

احمد فراز کڈنی فیلیئر کے باعث 25 اگست 2008 کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ وہ مختلف یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروںمیں ماہر تعلیم کے طور پر بھی اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ترقی پسندانہ شاعری کے باعث انھیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں گرفتار کرکے 6 سال تک پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔ مرحوم کی برسی کے موقع پر ان کے پرستار مختلف شہروں میں خصوصی تعزیتی تقریبات کا انعقاد کریں گے جس میں احمد فراز کی خدما ت کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔
Load Next Story