بات کچھ اِدھر اُدھر کی رشوت ایک بیماری
ضرورت یہ نہیں کہ میں پہلے میں معاشرے کو درست کروں بلکہ ضرورت تو یہ ہے کہ پہلے میں خود کو ٹھیک کروں۔
رشوت ایک ایسا مرض ہے جس نے پورے معاشرے کو مفلوج کر رکھا ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہماراپورا معاشرہ اس مرض میں مبتلا تو ہے ہی مگر اِس سے زیادہ حیرت کی بات اور دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ ہم کس کے ساتھ کیا زیادتی کر رہے ہیں ۔
اکثر اوقات میں نے یہ کہتے سنا ہے سرکاری دفاتر میں کرپشن عام ہے ، یا تو رشوت ہو یا بہت بڑی سفارش تب ہی آپ کا کام ہو سکتا ہے ،کیا صر ف سر کاری دفاتر میں یہ حال ہے ؟ یا پھر یہاں بد اچھابد نام بُرا والی بات ہے ،لیکن یہاں نجی ادارے بھی تو کم نہیں ۔ کسی میں ہمت ہی نہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے یا پھر ہمیں اپنی صلاحیتوں پر یقین ہی نہیں اور یہ ڈر ہے کہ اگررشوت نہ دی گئی تو ہمارا کام ممکن نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو میری ان صاحبان سے سوال ہے کہ آپ لوگ اپنے لیے ایسے پیشے کا انتخاب ہی کیوں کرتے ہیں جہاں آپ کو کسی کی منت کرنا پڑے کیا اﷲ پاک نے آپ میں کوئی صلاحیت نہیں رکھی ،ہر گز نہیں ،بے شک اﷲ نے کوئی چیز بھی بے مصرف پیدا نہیں کی ۔ ضرورت صرف اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے کی ہے۔
نفسا نفسی نے اس قدربڑھ گئی ہے کہ بس اب کسی کو کسی بھی طرح خود سے آگے نکلتا دیکھنا ہم برداشت ہی نہیں کر سکتے ، اس کے لیے جس کی جہاں چلتی ہے وہ اپنی پوری طاقت لگا کر دوسر ے سے آگے نکلے گا،خواہ وہ سرکاری دفاتر ہوں یا نجی ۔ دفتر میں اچھی نوکری چاہیے تو افسران کو خوش کرو نہیں تو موصوف کو آپ سے زیادہ قابلیت دوسروں میں نظر آئے گی ۔ سکول ، کالج میں بچوں کا داخلہ کروانا ہے اور اگر آپ کو داخلے میں دیر ہو گئی ہے تو کیا ہو ا بس پہلے سکول کے چپڑاسی کی اور بعد میں افسر کی جیب گرم کر دیں آپ کا کام ہو گیا۔ سڑک پر اگر ٹریفک سگنل توڑ دیا تو کیا ہوا ،بس کانسٹیبل کو درخت کے نیچے لے جا کر مٹھی گرم کردیں خود بخود چلان کے کاغذ ان کی جیب میں اور لائسنس آپ کی جیب میں ۔یہ سب تو خیر بہت چھوٹی چیزیں ہیں انہیں تو ہم کچھ سمجھتے ہی نہیں اور سمجھیں بھی کیوں بھئی کام ہوتا بھی تو اسی طرح ہے
ایک صاحب کو یہ کہتا سُنا کہ رشوت کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان ہے کوئی امریکہ یا یورپ نہیں ۔جب میں بنے یہ سنا تو ان سے یہ سوال کیے بغیر میں رہ نہیں سکی کہ پاکستان کہتا ہے بے ایمانی کرو یا یورپ امریکہ کہتا ہے کہ کرپشن نہ کرنا؟ موصوف نے فوراََ جواب دیا یہاں قانون ویسے نہیں ہیں جیسے بیرونِ ملک میں ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ موصوف سے غلطی ہو گئی شاید کہنا چاہتے تھے قانون کا نفاذ ویسا نہیں ! اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ قانون کا نفاذ کس نے کرنا ہے ؟ ہم کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکیں گے ، بادشاہ لوگ جو ہوئے اور یہ ہم اِس کے نقصانات جانتے ہوئے بھی روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔دوسروں کے میٹر میں کنڈے ڈالیں گے نہیں تو میٹر ریڈر کو پیسے دیں گے ، بچوں کے داخلے کے لیے پہلے رشوت بعد میں فیس جمع کریں گے۔ دفتر میں پہلے رشوت لیں گے پھر فائل کھولیں گے ،سفارش آگئی تو پہلے محبتیں نبھائیں گے ۔ کسی کا حق مرتا ہے تو مرے ہماری بلا سے کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ہو ہمیں کیا لگے ، ہمارا جنہوں نے ساتھ نبھایا تھا ہمیں یاد ہے اور اگر نہیں بھی ساتھ دیا تو آگے ضرورت نہیں پڑنی بھلا ۔
غرض یہ کہ خواہ گلی محلے کی بات ہو یا کسی دفتر کی ہم لوگ اس قدر رشوت خوری میں پھنس چکے ہیں کہ اب ہم اس دلدل سے نکلنا چاہیں بھی تو ووسرے ہماری ٹانگ کھینچ لیتے ہیں ، معاشرے کی اصلاح تب ممکن ہے جب انفرادی سطح پر ہم اصلاح کریں گے۔ ضرورت یہ نہیں کہ میں پہلے میں معاشرے کو درست کروں بلکہ ضرورت تو یہ ہے کہ پہلے میں خود کو ٹھیک کروں ، اگر ہر شخص یہ سوچ لے تو کیا ہی بہتر ہو۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اکثر اوقات میں نے یہ کہتے سنا ہے سرکاری دفاتر میں کرپشن عام ہے ، یا تو رشوت ہو یا بہت بڑی سفارش تب ہی آپ کا کام ہو سکتا ہے ،کیا صر ف سر کاری دفاتر میں یہ حال ہے ؟ یا پھر یہاں بد اچھابد نام بُرا والی بات ہے ،لیکن یہاں نجی ادارے بھی تو کم نہیں ۔ کسی میں ہمت ہی نہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے یا پھر ہمیں اپنی صلاحیتوں پر یقین ہی نہیں اور یہ ڈر ہے کہ اگررشوت نہ دی گئی تو ہمارا کام ممکن نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو میری ان صاحبان سے سوال ہے کہ آپ لوگ اپنے لیے ایسے پیشے کا انتخاب ہی کیوں کرتے ہیں جہاں آپ کو کسی کی منت کرنا پڑے کیا اﷲ پاک نے آپ میں کوئی صلاحیت نہیں رکھی ،ہر گز نہیں ،بے شک اﷲ نے کوئی چیز بھی بے مصرف پیدا نہیں کی ۔ ضرورت صرف اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے کی ہے۔
نفسا نفسی نے اس قدربڑھ گئی ہے کہ بس اب کسی کو کسی بھی طرح خود سے آگے نکلتا دیکھنا ہم برداشت ہی نہیں کر سکتے ، اس کے لیے جس کی جہاں چلتی ہے وہ اپنی پوری طاقت لگا کر دوسر ے سے آگے نکلے گا،خواہ وہ سرکاری دفاتر ہوں یا نجی ۔ دفتر میں اچھی نوکری چاہیے تو افسران کو خوش کرو نہیں تو موصوف کو آپ سے زیادہ قابلیت دوسروں میں نظر آئے گی ۔ سکول ، کالج میں بچوں کا داخلہ کروانا ہے اور اگر آپ کو داخلے میں دیر ہو گئی ہے تو کیا ہو ا بس پہلے سکول کے چپڑاسی کی اور بعد میں افسر کی جیب گرم کر دیں آپ کا کام ہو گیا۔ سڑک پر اگر ٹریفک سگنل توڑ دیا تو کیا ہوا ،بس کانسٹیبل کو درخت کے نیچے لے جا کر مٹھی گرم کردیں خود بخود چلان کے کاغذ ان کی جیب میں اور لائسنس آپ کی جیب میں ۔یہ سب تو خیر بہت چھوٹی چیزیں ہیں انہیں تو ہم کچھ سمجھتے ہی نہیں اور سمجھیں بھی کیوں بھئی کام ہوتا بھی تو اسی طرح ہے
ایک صاحب کو یہ کہتا سُنا کہ رشوت کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان ہے کوئی امریکہ یا یورپ نہیں ۔جب میں بنے یہ سنا تو ان سے یہ سوال کیے بغیر میں رہ نہیں سکی کہ پاکستان کہتا ہے بے ایمانی کرو یا یورپ امریکہ کہتا ہے کہ کرپشن نہ کرنا؟ موصوف نے فوراََ جواب دیا یہاں قانون ویسے نہیں ہیں جیسے بیرونِ ملک میں ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ موصوف سے غلطی ہو گئی شاید کہنا چاہتے تھے قانون کا نفاذ ویسا نہیں ! اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ قانون کا نفاذ کس نے کرنا ہے ؟ ہم کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکیں گے ، بادشاہ لوگ جو ہوئے اور یہ ہم اِس کے نقصانات جانتے ہوئے بھی روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔دوسروں کے میٹر میں کنڈے ڈالیں گے نہیں تو میٹر ریڈر کو پیسے دیں گے ، بچوں کے داخلے کے لیے پہلے رشوت بعد میں فیس جمع کریں گے۔ دفتر میں پہلے رشوت لیں گے پھر فائل کھولیں گے ،سفارش آگئی تو پہلے محبتیں نبھائیں گے ۔ کسی کا حق مرتا ہے تو مرے ہماری بلا سے کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ہو ہمیں کیا لگے ، ہمارا جنہوں نے ساتھ نبھایا تھا ہمیں یاد ہے اور اگر نہیں بھی ساتھ دیا تو آگے ضرورت نہیں پڑنی بھلا ۔
غرض یہ کہ خواہ گلی محلے کی بات ہو یا کسی دفتر کی ہم لوگ اس قدر رشوت خوری میں پھنس چکے ہیں کہ اب ہم اس دلدل سے نکلنا چاہیں بھی تو ووسرے ہماری ٹانگ کھینچ لیتے ہیں ، معاشرے کی اصلاح تب ممکن ہے جب انفرادی سطح پر ہم اصلاح کریں گے۔ ضرورت یہ نہیں کہ میں پہلے میں معاشرے کو درست کروں بلکہ ضرورت تو یہ ہے کہ پہلے میں خود کو ٹھیک کروں ، اگر ہر شخص یہ سوچ لے تو کیا ہی بہتر ہو۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔