ایک قدم پیچھے
مولانا فضل الرحمن نے بھی ردعمل میں خان صاحب اور قادری صاحب کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کرلیا
سابق صدر آصف علی زرداری اسلام آباد میں جاری دھرنوں، سیاسی بحران کے حوالے سے معاملات کو مفاہمت و مصالحت کی پالیسی کے تحت جلدازجلد حل کرانے کے ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے جوں ہی پاکستان پہنچے تو سیاسی ماحول میں یکدم مثبت تبدیلی کے امکانات بھی روشن ہوگئے۔
مبصرین و تجزیہ نگار پرامید ہیں کہ صدر زرداری اپنی روایتی نرم روی، مثبت و تعمیری سوچ، سیاسی تدبر، دور اندیشی، صبر و تحمل اور برداشت کی بے پناہ قوت کے باعث نواز حکومت اور عمران خان و مولانا طاہر القادری کے درمیان گزشتہ 12 روز سے جاری اعصاب شکن سیاسی جنگ کے خاتمے میں یقینا ایک فعال و تعمیری کردار ادا کرکے قوم کو اس بحران سے نکال لیں گے۔ وطن واپسی کے دوسرے ہی دن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کو رائے ونڈ جاتی امرا، ظہرانے پر آنے کی دعوت دی تاکہ ان کے سیاسی تجربے کی روشنی میں موجودہ بحران سے نکلنے پر مشاورت کی جائے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات میں جاری سیاسی ہنگامے کے پیش منظر اور پس منظر سمیت تمام پہلوؤں پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ صبر و تحمل، برداشت اور مصالحت سے کام لیں اور مفاہمت کی پالیسی کے تحت صرف مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔
انھوں نے وزیر اعظم کو تجویز دی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے کسی رکن کو شامل کیے بغیر دیگر جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کا پارلیمانی وفد تشکیل دیں جو عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری سے ٹھوس و نتیجہ خیز مذاکرات کرے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف نے سابق صدر کی مذکورہ تجویز کو قبول کرلیا اور امکان ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک مذاکراتی کمیٹیوں سے بات چیت کا عمل شروع ہوچکا ہوگا اور کسی نہ کسی قابل قبول حل کی جانب پیش رفت کے امکانات بھی نظر آنے لگیں گے۔
سابق صدر نے دوران ملاقات اور اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی فرد نہیں بلکہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی صورت جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی کوششوں کو قبول نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ کو بہر صورت اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ صدر زرداری نے مزید کہا کہ جمہوری نظام کو اسٹریٹ پاور سے چیلنج نہیں کرنا چاہیے اور اگر ''تھرڈ ایمپائر''کی بات نکلی تو دور تک جائے گی۔ صدر نے چوہدری برادران و دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرکے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ملک کے دور اندیش مبصرین و تجزیہ نگار جو سابق صدر کی خوابیدہ صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں وہ بجا طور پر توقع کر رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے مشوروں اور تجاویز پر اخلاص نیت کے ساتھ عمل کیا تو وہ موجودہ سیاسی بحران میں سرخرو ہوسکتے ہیں کیونکہ آصف علی زرداری ملک کے واحد سیاستدان ہیں جو ملک کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں انھیں تمام مسائل کا پورا ادراک ہے اور پیچیدہ سیاسی معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے قابل قبول راستے تلاش کرنے میں انھیں ملکہ حاصل ہے وہ زیرک، کہنہ مشق اور معاملہ فہم سیاستدان کی شہرت رکھتے ہیں جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔
سابق صدر نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وژن کی روشنی میں ملک میں پہلی مرتبہ مفاہمانہ پالیسی کو متعارف کروایا جس کے نتیجے میں پی پی پی کی حکومت نے قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 5 سالہ آئینی مدت کی تکمیل پر پرامن طریقے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ طے کرکے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ لیکن افسوس کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم تو بن گئے تاہم وہ سابق صدر کی مفاہمانہ پالیسی کو جاری رکھنے میں ناکام رہے نتیجتاً آج عمران خان اور علامہ طاہر القادری ہزاروں کا مجمع لے کر اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دینے ان کے اقتدار کو چیلنج کرتے ان کے مقابلے آکھڑے ہوگئے ہیں اور اب وزیر اعظم کے استعفے سے کم کسی صورت واپس جانے کو تیار نہیں۔
حکومت کی مذاکراتی کمیٹیاں عمران خان اور طاہر القادری کی مذاکراتی کمیٹیوں سے بات چیت کے تین چار مراحل طے کرچکی ہیں لیکن دونوں رہنما وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے اپنے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں ان کا یہی مطالبہ تادم تحریر ڈیڈ لاک کا باعث بنا ہوا ہے۔ ڈاکٹرطاہر القادری ایک قدم آگے جاکر وفاق و پنجاب کی حکومتوں کو تحلیل کرنے پر مصر ہیں یہاں تک کہ سیشن کورٹ کے حکم کی روشنی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR کٹوانے اور تمام نامزد ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی سرفہرست رکھا ہے۔
جب کہ عمران خان ایک قدم پیچھے ہٹ کر اس بات پر آمادہ ہوگئے ہیں کہ وزیر اعظم صرف 30 یوم کے لیے منظر سے ہٹ جائیں اور رخصت پر چلے جائیں ان کی کابینہ اور پارلیمنٹ کام کرتی رہے پھر ان 30 دنوں میں عدالت عظمیٰ کے معزز ججز پر مشتمل کمیشن انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات مکمل کرے اگر دھاندلی ثابت ہوجائے تو وزیر اعظم مستعفی ہوکر اسمبلیاں تحلیل کردیں اور نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔ حکومت نے عمران خان کمیٹی کی 30 یوم رخصت والی تجویز کو مسترد کردیا اور بقول گورنر پنجاب کے وزیر اعظم کے استعفے پر ڈیڈ لاک کے باعث مذاکرات ناکام ہوگئے۔
عمران خان اور طاہر القادری نے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اپنے کارکنوں اور پیروکاروں کو اندرون اور بیرون ملک اپنے گھروں سے نکلنے اور مختلف شہروں میں دھرنے دینے کا اعلان جاری کردیا ہے۔ عمران کی کال پر ڈنمارک و انگلینڈ سمیت کئی ممالک کے سفارت خانوں کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کردیے ہیں جب کہ اندرون ملک کراچی، لاہور اور ملتان سمیت دیگر شہروں میں بھی پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے دے رہی ہے جس کے باعث ان شہروں میں کاروبار زندگی مفلوج ہونے اور امن عامہ کی صورتحال بگڑنے کے امکانات بڑھ گئے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ دوسری جانب (ن) لیگ کے کارکنوں اور جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن نے بھی ردعمل میں خان صاحب اور قادری صاحب کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔
حکومت کی حامی وکلا برادری بھی احتجاج کی تیاری کر رہی ہے یوں دیکھا جائے تو اگر اسلام آباد کی صورتحال تبدیل نہ ہوئی اور دونوں لیڈروں کی تان وزیر اعظم کے استعفے پر آکر ٹوٹتی رہی تو حالات 1977 کے مارشل لا سے قبل کا منظر پیش کرتے نظر آئیں گے جب پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) میں شامل مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، خان عبدالولی خان، ایئرمارشل اصغر خان وغیرہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
کراچی سے لے کر خیبر تک پی این اے کے کارکنان سڑکوں پر تھے اس کے باوجود بھٹو صاحب نے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈا اور قریب تھا کہ اپوزیشن اور بھٹو صاحب کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد محض کارروائی اور دستخط کردیے جاتے، جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر جمہوریت پر شب خون مارا، اگر حکومت، عمران خان اور مولانا طاہر القادری نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ نہ کیا تو جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جاسکتی ہے۔ حکمراں ''مقتدر قوتوں'' کے صبر کا امتحان نہ لیں بلکہ بند گلی سے نکلنے کی راہیں تلاش کریں۔ اپنے رویوں میں لچک، لہجے میں نرمی اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں۔
مبصرین و تجزیہ نگار پرامید ہیں کہ صدر زرداری اپنی روایتی نرم روی، مثبت و تعمیری سوچ، سیاسی تدبر، دور اندیشی، صبر و تحمل اور برداشت کی بے پناہ قوت کے باعث نواز حکومت اور عمران خان و مولانا طاہر القادری کے درمیان گزشتہ 12 روز سے جاری اعصاب شکن سیاسی جنگ کے خاتمے میں یقینا ایک فعال و تعمیری کردار ادا کرکے قوم کو اس بحران سے نکال لیں گے۔ وطن واپسی کے دوسرے ہی دن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کو رائے ونڈ جاتی امرا، ظہرانے پر آنے کی دعوت دی تاکہ ان کے سیاسی تجربے کی روشنی میں موجودہ بحران سے نکلنے پر مشاورت کی جائے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات میں جاری سیاسی ہنگامے کے پیش منظر اور پس منظر سمیت تمام پہلوؤں پر تفصیلی غوروخوض کیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ صبر و تحمل، برداشت اور مصالحت سے کام لیں اور مفاہمت کی پالیسی کے تحت صرف مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔
انھوں نے وزیر اعظم کو تجویز دی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے کسی رکن کو شامل کیے بغیر دیگر جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کا پارلیمانی وفد تشکیل دیں جو عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری سے ٹھوس و نتیجہ خیز مذاکرات کرے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف نے سابق صدر کی مذکورہ تجویز کو قبول کرلیا اور امکان ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک مذاکراتی کمیٹیوں سے بات چیت کا عمل شروع ہوچکا ہوگا اور کسی نہ کسی قابل قبول حل کی جانب پیش رفت کے امکانات بھی نظر آنے لگیں گے۔
سابق صدر نے دوران ملاقات اور اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی فرد نہیں بلکہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی صورت جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی کوششوں کو قبول نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ کو بہر صورت اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ صدر زرداری نے مزید کہا کہ جمہوری نظام کو اسٹریٹ پاور سے چیلنج نہیں کرنا چاہیے اور اگر ''تھرڈ ایمپائر''کی بات نکلی تو دور تک جائے گی۔ صدر نے چوہدری برادران و دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرکے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ملک کے دور اندیش مبصرین و تجزیہ نگار جو سابق صدر کی خوابیدہ صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں وہ بجا طور پر توقع کر رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے مشوروں اور تجاویز پر اخلاص نیت کے ساتھ عمل کیا تو وہ موجودہ سیاسی بحران میں سرخرو ہوسکتے ہیں کیونکہ آصف علی زرداری ملک کے واحد سیاستدان ہیں جو ملک کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں انھیں تمام مسائل کا پورا ادراک ہے اور پیچیدہ سیاسی معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے قابل قبول راستے تلاش کرنے میں انھیں ملکہ حاصل ہے وہ زیرک، کہنہ مشق اور معاملہ فہم سیاستدان کی شہرت رکھتے ہیں جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔
سابق صدر نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وژن کی روشنی میں ملک میں پہلی مرتبہ مفاہمانہ پالیسی کو متعارف کروایا جس کے نتیجے میں پی پی پی کی حکومت نے قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 5 سالہ آئینی مدت کی تکمیل پر پرامن طریقے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ طے کرکے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ لیکن افسوس کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم تو بن گئے تاہم وہ سابق صدر کی مفاہمانہ پالیسی کو جاری رکھنے میں ناکام رہے نتیجتاً آج عمران خان اور علامہ طاہر القادری ہزاروں کا مجمع لے کر اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دینے ان کے اقتدار کو چیلنج کرتے ان کے مقابلے آکھڑے ہوگئے ہیں اور اب وزیر اعظم کے استعفے سے کم کسی صورت واپس جانے کو تیار نہیں۔
حکومت کی مذاکراتی کمیٹیاں عمران خان اور طاہر القادری کی مذاکراتی کمیٹیوں سے بات چیت کے تین چار مراحل طے کرچکی ہیں لیکن دونوں رہنما وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے اپنے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں ان کا یہی مطالبہ تادم تحریر ڈیڈ لاک کا باعث بنا ہوا ہے۔ ڈاکٹرطاہر القادری ایک قدم آگے جاکر وفاق و پنجاب کی حکومتوں کو تحلیل کرنے پر مصر ہیں یہاں تک کہ سیشن کورٹ کے حکم کی روشنی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR کٹوانے اور تمام نامزد ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی سرفہرست رکھا ہے۔
جب کہ عمران خان ایک قدم پیچھے ہٹ کر اس بات پر آمادہ ہوگئے ہیں کہ وزیر اعظم صرف 30 یوم کے لیے منظر سے ہٹ جائیں اور رخصت پر چلے جائیں ان کی کابینہ اور پارلیمنٹ کام کرتی رہے پھر ان 30 دنوں میں عدالت عظمیٰ کے معزز ججز پر مشتمل کمیشن انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات مکمل کرے اگر دھاندلی ثابت ہوجائے تو وزیر اعظم مستعفی ہوکر اسمبلیاں تحلیل کردیں اور نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔ حکومت نے عمران خان کمیٹی کی 30 یوم رخصت والی تجویز کو مسترد کردیا اور بقول گورنر پنجاب کے وزیر اعظم کے استعفے پر ڈیڈ لاک کے باعث مذاکرات ناکام ہوگئے۔
عمران خان اور طاہر القادری نے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اپنے کارکنوں اور پیروکاروں کو اندرون اور بیرون ملک اپنے گھروں سے نکلنے اور مختلف شہروں میں دھرنے دینے کا اعلان جاری کردیا ہے۔ عمران کی کال پر ڈنمارک و انگلینڈ سمیت کئی ممالک کے سفارت خانوں کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کردیے ہیں جب کہ اندرون ملک کراچی، لاہور اور ملتان سمیت دیگر شہروں میں بھی پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے دے رہی ہے جس کے باعث ان شہروں میں کاروبار زندگی مفلوج ہونے اور امن عامہ کی صورتحال بگڑنے کے امکانات بڑھ گئے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ دوسری جانب (ن) لیگ کے کارکنوں اور جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن نے بھی ردعمل میں خان صاحب اور قادری صاحب کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔
حکومت کی حامی وکلا برادری بھی احتجاج کی تیاری کر رہی ہے یوں دیکھا جائے تو اگر اسلام آباد کی صورتحال تبدیل نہ ہوئی اور دونوں لیڈروں کی تان وزیر اعظم کے استعفے پر آکر ٹوٹتی رہی تو حالات 1977 کے مارشل لا سے قبل کا منظر پیش کرتے نظر آئیں گے جب پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) میں شامل مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، خان عبدالولی خان، ایئرمارشل اصغر خان وغیرہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
کراچی سے لے کر خیبر تک پی این اے کے کارکنان سڑکوں پر تھے اس کے باوجود بھٹو صاحب نے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈا اور قریب تھا کہ اپوزیشن اور بھٹو صاحب کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد محض کارروائی اور دستخط کردیے جاتے، جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر جمہوریت پر شب خون مارا، اگر حکومت، عمران خان اور مولانا طاہر القادری نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ نہ کیا تو جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جاسکتی ہے۔ حکمراں ''مقتدر قوتوں'' کے صبر کا امتحان نہ لیں بلکہ بند گلی سے نکلنے کی راہیں تلاش کریں۔ اپنے رویوں میں لچک، لہجے میں نرمی اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں۔