میڈیا واچ ڈاگ – روشنی کی کرن
ظلم کا شکار مسخ چہروں کے پیچھے خوبصورتی کو بھی توجہ اور حوصلہ افزائی سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
جناب یہ اسلامی جمہوری پاکستان ہے جس میں سب کچھ چلتا ہے ما سوائے قانون کے اور سب کچھ ملتا ہے اگر نہیں ملتا تو انصاف نہیں ملتا۔ اور اگر بدقسمتی سے آپ عورت ہیں تو یہ دونوں اجناس یعنی قانون اور انصاف آپ کے لئے شجر ممنوعہ ہے ۔میرا قصور بھی یہی تھا کہ میں عورت ہوں غریب گھرانے سے تعلق ہے اسی لئے مجھ پر تیزاب پھینکنے والے مقدمے سے بری ہو کر دوبارہ تیزاب پھینکنے کی دھمکیا ں دے رہے ہیں۔ یہ الفاظ میرے لئے نئے تو نہیں تھے مگرجلے ہوئے چہرے والی فوزیہ بی بی کے منہ سے یہ سن کر میرے کان ضرور کھڑے ہوئے جو عدالت میں میرے دوست ایڈووکیٹ کے چیمبر میں بیٹھی د ہائی دے رہی تھی۔فوزیہ بی بی پاکستان کی سالانہ 1200 خواتین میں سے ایک ہے جن کو ہر سال تیزاب پھینک کر مار دیا جاتا ہے، جلا دیا جاتا ہے، یا چہرہ بگاڑ کر قسمت جلی بنا دیا جاتا ہے۔
تیزاب گردی کے اس مکروہ جرم کرنیوالے کو نہ تو اسلام کے سنہری اصول روک سکے اور نہ ہی ہمارا دبنگ میڈیا اس کے آگے بند باندھ سکا۔ یہاں تک کہ کروڑوں کی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور فلاحی ادارے بھی کچھ نہ کر سکے اور صورت حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے اس سارے افسانے میں قانون کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ تو صاحب مرد نا تواں کا ذکر کیا کرنا جس کے کندھے وی وی آئی پی اور اشرافیہ کلاس کے چونچلوں تلے دبے ہوئے ہیں جو پیسے اور صاحبان اثر کے گھر کی لونڈی ہے اور لونڈی بھی ایسی جو نہ نخرے کرتی ہے اور نہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ ۔
دنیا بھر میں تیزاب سے جھلس جانے والی خواتین کو نفرت انگیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اہل محلہ اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس نے ضرورکچھ ایسا ویسا کیا ہی ہو گا جس کی اسے سزا ملی ہے، اور جناب شادی کا تو بھول ہی جائے کیونکہ جسم کے ساتھ ساتھ اس کانصیب بھی جل چکا ہوتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی چیز جوڑی جا سکتی ہے مگر جلی ہوئی کا سوائے پھینک دینے کے کوئی حل نہیں۔ لیکن سلام ہے دہلی کی 22 سالہ روپا کی عظمت کو جو 15سال کی عمر میں وہ تیزاب کا شکار ہوئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ روپا نے اپنے مسخ شدہ چہرے اور جسم کے ساتھ تیزاب گردی کا شکار4 دیگر لڑکیوں کے ہمراہ فیشن فوٹوشوٹ کروایا اور ثابت کردیا کہ زندگی کسی بھی حال میں رکتی نہیں ۔ اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن ڈھونڈی جا سکتی ہے۔
فوٹو؛ راہول سہارن
فوٹو؛ راہول سہارن
فوٹو؛ راہول سہارن
مشہور فوٹو گرافر راہول سہارن نے اپنی طرزکی منفرد تصاویر کوکیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا، جس کی وجہ سے ان بہادر خواتین کی تصاویر کو نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں پزیرائی ملی۔ مستقبل میں روپا اور اس کی ساتھی خواتین اب ایک جدید بوتیک کھولنے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔
روپا جیسی تیزاب گردی کا شکار ان خواتین نے ہمارے معاشرے کو بھی ایک نئی راہ دکھائی ہے کہ ظلم کا شکار مسخ چہروں کے پیچھے چھپی خوبصورتی کو بھی توجہ اور حوصلہ افزائی سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تیزاب گردی کے اس مکروہ جرم کرنیوالے کو نہ تو اسلام کے سنہری اصول روک سکے اور نہ ہی ہمارا دبنگ میڈیا اس کے آگے بند باندھ سکا۔ یہاں تک کہ کروڑوں کی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور فلاحی ادارے بھی کچھ نہ کر سکے اور صورت حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے اس سارے افسانے میں قانون کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ تو صاحب مرد نا تواں کا ذکر کیا کرنا جس کے کندھے وی وی آئی پی اور اشرافیہ کلاس کے چونچلوں تلے دبے ہوئے ہیں جو پیسے اور صاحبان اثر کے گھر کی لونڈی ہے اور لونڈی بھی ایسی جو نہ نخرے کرتی ہے اور نہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ ۔
دنیا بھر میں تیزاب سے جھلس جانے والی خواتین کو نفرت انگیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اہل محلہ اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس نے ضرورکچھ ایسا ویسا کیا ہی ہو گا جس کی اسے سزا ملی ہے، اور جناب شادی کا تو بھول ہی جائے کیونکہ جسم کے ساتھ ساتھ اس کانصیب بھی جل چکا ہوتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی چیز جوڑی جا سکتی ہے مگر جلی ہوئی کا سوائے پھینک دینے کے کوئی حل نہیں۔ لیکن سلام ہے دہلی کی 22 سالہ روپا کی عظمت کو جو 15سال کی عمر میں وہ تیزاب کا شکار ہوئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ روپا نے اپنے مسخ شدہ چہرے اور جسم کے ساتھ تیزاب گردی کا شکار4 دیگر لڑکیوں کے ہمراہ فیشن فوٹوشوٹ کروایا اور ثابت کردیا کہ زندگی کسی بھی حال میں رکتی نہیں ۔ اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن ڈھونڈی جا سکتی ہے۔
فوٹو؛ راہول سہارن
فوٹو؛ راہول سہارن
فوٹو؛ راہول سہارن
مشہور فوٹو گرافر راہول سہارن نے اپنی طرزکی منفرد تصاویر کوکیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا، جس کی وجہ سے ان بہادر خواتین کی تصاویر کو نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں پزیرائی ملی۔ مستقبل میں روپا اور اس کی ساتھی خواتین اب ایک جدید بوتیک کھولنے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔
روپا جیسی تیزاب گردی کا شکار ان خواتین نے ہمارے معاشرے کو بھی ایک نئی راہ دکھائی ہے کہ ظلم کا شکار مسخ چہروں کے پیچھے چھپی خوبصورتی کو بھی توجہ اور حوصلہ افزائی سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔