سینے پہ مرے نقش قدم کس کا ہے
پاکستان کے منتخب نہ ہونے والے سیاست دانوں کی دولت کا اندازہ بھی ان کی شاہانہ طرز زندگی دیکھ کرکیا جا سکتا ہے۔۔۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی دور خلافت میں ایک دفعہ حمص تشریف لے گئے اور وہاں کے مفلسوں کی فہرست مرتب کرنے کا حکم دیا جب مفلسوں فہرست میں ان کی نظر حضرت سعید ابن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پر پڑی تو انھوں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حمص کے موجودہ گورنر ہیں، یہ سنتے ہی شدت جذبات سے حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اسی طرح دل جھنجھوڑ دینے والا ایک واقعہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے جو مدائن کے گورنر تھے لیکن ان کا ذریعہ معاش خود اپنے ہاتھوں سے چٹائیاں بنا کر بازاروں میں فروخت کرنا تھا ، ان کے پاس اپنا مکان تک نہ تھا ، دیواروں کے سائے میں زندگی بسر کرتے تھے، جب ان کی رعایا نے مکان بنوانے کا شدت سے اصرار کیا تو رہائش کے لیے ایسا تنگ اور پست مکان بنوایا جس میں داخل ہونے کے بعد کھڑے ہوتے تو سر چھت سے ٹکرا جاتا اور جب سوتے تو پائوں کی انگلیاں دیوار سے لگ جاتی۔
ہم اپنے موجودہ مسلم حکمرانوں کی بات کریں تو ان کے لیے کچھ کہنے سے پہلے ہی سب جانتے ہیں کہ حالیہ یا سابقہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا طرز زندگی کیسا ہے، چھ سو سال قدیم بادشاہت کے وارث برونائی کے امیر سلطان حسن ال بلقیہ مراکش کے شاہ محمد ششم 20 ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص ہیں، سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز 18 ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کے چوتھے امیر ترین شخص ہیں۔
مشرق وسطی کے امیر ترین شخصیت متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابوظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زاید آل نہیان ، دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم اربوں ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ انتہائی امیر شخصیات ہیں۔ تیونس کے زین العابدین بن علی 1987 سے لے کر2011 تک تیونس میں سیاہ و سفید کے مالک رہے اور پھر 14 جنوری 2011 کو بھاگ کر سعودی عرب چلے گئے۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کی دولت 70ارب ڈالر تھی۔
دنیا کی 20 امیر ترین شخصیات کی فہرست میںسب سے زیادہ تعداد مسلم ممالک کے حکمرانوں کی ہے، جس میں مراکش، قطر، دبئی، متحدہ عرب امارت، اومان اور شامی صدر بشار الاسد کا نام بھی شامل ہے۔ پاکستان بھی ایک ''امیر ترین'' ملک ہے کیونکہ صرف38 سالوں میں 6 لاکھ 69 ہزار 819 بااثر افراد کے 256 ارب روپے کے مالیت کے قرضے معاف کیے گئے۔ سوئیس بینک نے اربوں روپوں کی مالیت کے اثاثے اپنی تحویل میں رکھے ہوئے ہیں، جیسے سابق حکومت نے این آر او کے تحت سوئس بینک سے کیس واپس لے کر پاکستانی حکومت کا مقدمہ ختم کرا دیا، دو وزیر اعظم سوئس کیس نہ کھلوانے پر وزارت عظمی سے گئے۔
لندن میں سرے محل کی مالیت چار ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ شریف خاندان صرف1980سے 1990کے درمیان ایک مل اتفاق فائونڈری سے تیس اداروں کا مالک بن چکا تھا اور ان کی مجموعی آمدنی 400 ملین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ رائے ونڈ محل کی مالیت کئی ارب روپے ہے۔ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کی مالیت بھی اس سے کم نہیں۔ بلاول ہاوس کراچی و لاہور کی مالیت بھی کروڑوں روپے ہے۔ اسلام آباد سمیت پورے پاکستان میں عوامی نمایندوں کے لیے کھربوں روپے مالیت کی عمارات بنائی گئیں ہیں اور ان پر سالانہ خرچ کروڑوں روپے ہے۔
اسٹیٹ گیسٹ ہائوسز سمیت عوامی نمایندوں کو تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپے جاری کیے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق1988 سے 2014 تک پاکستان کا قومی خزانہ کرپشن میں وجہ سے ساٹھ تا سو ارب ڈالر سے محروم ہو گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی سرکاری قرضے اور واجبات جون 2013کے آخر تک 16228 ارب روپے تھے جو ستمبر 2013 سے بڑھ کر 17356 ارب روپے تک جا پہنچے۔ ستمبر 2013 تک ہر پاکستانی 96422 روپے کا مقروض تھا۔
پاکستان کے منتخب نہ ہونے والے سیاست دانوں کی دولت کا اندازہ بھی ان کی شاہانہ طرز زندگی دیکھ کرکیا جا سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں ایسی جماعتیں بھی ہیں جو خودکو غریب و متوسط طبقے کا نمایندہ قرار دیتی ہیں لیکن ان کے نمایندوں کی دولت کاجب حساب کتاب سامنے آیا کہ کل تک آلو چھولے بیچنے والا آج کھربوں کی بلڈنگوں کا مالک ہے۔ ''انقلاب'' لانے والوں کا طرز زندگی دیکھیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں تو '' انقلاب'' آ چکا ہے لیکن اب آنے والے سات نسلوں کی بہتری کے لیے مزید انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ مگر حریص شخص کبھی بھی انقلاب نہیں لا سکتا۔
پاکستان سمیت مسلم امہ اور پوری دنیا کے غریب انسانوں کی معاشی زندگیوں میں تبدیلی کیونکر واقع ہو گی، اس کا جواب کم از کم اسلام نے سہل انداز میں دے دیا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہو جائے تو محمود و ایاز سب ایک صف میں آ جائیں گے ۔ بلا شبہ موجودہ عالمی مالیاتی نظام یہود و نصاری کی مشترکہ سازشوں کے تحت مرتب کیا گیا ہے جس میں ایک امیر، امیر تر اور ایک غریب غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔
سیاست منافع بخش کاروبار بن جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں گی، پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں پارلیمانی نظام قائم ہے، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بادشاہت تو اب بھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ بادشاہ کا ایک وزیر اعظم تو ہوتا ہی ہے اور پاکستان سمیت پارلیمانی جمہوریت کے نام پر بیشتر مسلم حکمران وزیر اعظم ہیں جہاں وزارت عظمی نہیں وہاں بادشاہت ہے، جہاں وزیر اعظم ہے، لیکن عوام کو بادشاہ، نظر نہیں آتا، کبھی آئی ایم ایف کے احکامات لاگو کرائے جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہی بادشاہ ہے، کبھی ورلڈ بینک تو کبھی حقیقی معنوں میں امریکا، بادشاہ معظم ہے۔
اس لیے وزیر اعظم کے ساتھ اس کی کابینہ بھی وزرا ء کہلائی جا تی ہے تو پھر فرق کہاں ہے اور پھر جب تک برطانیہ اور امریکا سے خلعت مملکت نہ لے لی جائے، وزیر اعظم بھی نہیں بنا جا سکتا، اس لیے بادشاہت تو ختم ہی نہیں ہوئی بس اس کا نام تبدیل ہو گیا ہے، اشرافیہ کے تمام مراعات یافتہ خاندانوں کا اس میں کیا قصور؟ شریف خاندان کو سعودی عرب بادشاہت کی تربیت کے لیے شاہی مہمان بنا کر نہ بھیجا ہوتا، اب جب کہ وہ شاہی تربیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے فیصلے حزب مخالف کو پسند نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا طرز زندگی و معاشرت عام انسان کے لیے ماڈل ہے بلکہ وہ بھی ان ہی کی طرح کسی سے خلعت وزیر اعظم کا اشارہ حاصل کرنے کے لیے اربوں روپے جلسے جلسوں، ریلیوں، دھرنوں اور مظاہروں میں اڑا رہے ہیں۔
جب ملک میں کوئی نظام ہی نہیں بدلا بلکہ پوری دنیا میں بادشاہت چل رہی ہے تو قومی خزانہ بھی تو بادشاہ معظم کا ہوتا ہے۔ جب قومی، جیسے شاہی خزانہ کہا جائے تو بہتر ہو گا اس لیے عوام کو خود فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ان کے پاس سانسوں سمیت جتنا بھی سرمایہ، اثاثہ اور رقم ہے، تو یہ دولت کس کی ہے؟ کم از کم اس شاہی خزانہ سے اخراجات پر غریب عوام کا تو کوئی حق نہیں۔
اسی طرح دل جھنجھوڑ دینے والا ایک واقعہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے جو مدائن کے گورنر تھے لیکن ان کا ذریعہ معاش خود اپنے ہاتھوں سے چٹائیاں بنا کر بازاروں میں فروخت کرنا تھا ، ان کے پاس اپنا مکان تک نہ تھا ، دیواروں کے سائے میں زندگی بسر کرتے تھے، جب ان کی رعایا نے مکان بنوانے کا شدت سے اصرار کیا تو رہائش کے لیے ایسا تنگ اور پست مکان بنوایا جس میں داخل ہونے کے بعد کھڑے ہوتے تو سر چھت سے ٹکرا جاتا اور جب سوتے تو پائوں کی انگلیاں دیوار سے لگ جاتی۔
ہم اپنے موجودہ مسلم حکمرانوں کی بات کریں تو ان کے لیے کچھ کہنے سے پہلے ہی سب جانتے ہیں کہ حالیہ یا سابقہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا طرز زندگی کیسا ہے، چھ سو سال قدیم بادشاہت کے وارث برونائی کے امیر سلطان حسن ال بلقیہ مراکش کے شاہ محمد ششم 20 ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص ہیں، سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز 18 ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کے چوتھے امیر ترین شخص ہیں۔
مشرق وسطی کے امیر ترین شخصیت متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابوظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زاید آل نہیان ، دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم اربوں ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ انتہائی امیر شخصیات ہیں۔ تیونس کے زین العابدین بن علی 1987 سے لے کر2011 تک تیونس میں سیاہ و سفید کے مالک رہے اور پھر 14 جنوری 2011 کو بھاگ کر سعودی عرب چلے گئے۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کی دولت 70ارب ڈالر تھی۔
دنیا کی 20 امیر ترین شخصیات کی فہرست میںسب سے زیادہ تعداد مسلم ممالک کے حکمرانوں کی ہے، جس میں مراکش، قطر، دبئی، متحدہ عرب امارت، اومان اور شامی صدر بشار الاسد کا نام بھی شامل ہے۔ پاکستان بھی ایک ''امیر ترین'' ملک ہے کیونکہ صرف38 سالوں میں 6 لاکھ 69 ہزار 819 بااثر افراد کے 256 ارب روپے کے مالیت کے قرضے معاف کیے گئے۔ سوئیس بینک نے اربوں روپوں کی مالیت کے اثاثے اپنی تحویل میں رکھے ہوئے ہیں، جیسے سابق حکومت نے این آر او کے تحت سوئس بینک سے کیس واپس لے کر پاکستانی حکومت کا مقدمہ ختم کرا دیا، دو وزیر اعظم سوئس کیس نہ کھلوانے پر وزارت عظمی سے گئے۔
لندن میں سرے محل کی مالیت چار ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ شریف خاندان صرف1980سے 1990کے درمیان ایک مل اتفاق فائونڈری سے تیس اداروں کا مالک بن چکا تھا اور ان کی مجموعی آمدنی 400 ملین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ رائے ونڈ محل کی مالیت کئی ارب روپے ہے۔ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کی مالیت بھی اس سے کم نہیں۔ بلاول ہاوس کراچی و لاہور کی مالیت بھی کروڑوں روپے ہے۔ اسلام آباد سمیت پورے پاکستان میں عوامی نمایندوں کے لیے کھربوں روپے مالیت کی عمارات بنائی گئیں ہیں اور ان پر سالانہ خرچ کروڑوں روپے ہے۔
اسٹیٹ گیسٹ ہائوسز سمیت عوامی نمایندوں کو تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپے جاری کیے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق1988 سے 2014 تک پاکستان کا قومی خزانہ کرپشن میں وجہ سے ساٹھ تا سو ارب ڈالر سے محروم ہو گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی سرکاری قرضے اور واجبات جون 2013کے آخر تک 16228 ارب روپے تھے جو ستمبر 2013 سے بڑھ کر 17356 ارب روپے تک جا پہنچے۔ ستمبر 2013 تک ہر پاکستانی 96422 روپے کا مقروض تھا۔
پاکستان کے منتخب نہ ہونے والے سیاست دانوں کی دولت کا اندازہ بھی ان کی شاہانہ طرز زندگی دیکھ کرکیا جا سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں ایسی جماعتیں بھی ہیں جو خودکو غریب و متوسط طبقے کا نمایندہ قرار دیتی ہیں لیکن ان کے نمایندوں کی دولت کاجب حساب کتاب سامنے آیا کہ کل تک آلو چھولے بیچنے والا آج کھربوں کی بلڈنگوں کا مالک ہے۔ ''انقلاب'' لانے والوں کا طرز زندگی دیکھیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں تو '' انقلاب'' آ چکا ہے لیکن اب آنے والے سات نسلوں کی بہتری کے لیے مزید انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ مگر حریص شخص کبھی بھی انقلاب نہیں لا سکتا۔
پاکستان سمیت مسلم امہ اور پوری دنیا کے غریب انسانوں کی معاشی زندگیوں میں تبدیلی کیونکر واقع ہو گی، اس کا جواب کم از کم اسلام نے سہل انداز میں دے دیا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہو جائے تو محمود و ایاز سب ایک صف میں آ جائیں گے ۔ بلا شبہ موجودہ عالمی مالیاتی نظام یہود و نصاری کی مشترکہ سازشوں کے تحت مرتب کیا گیا ہے جس میں ایک امیر، امیر تر اور ایک غریب غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔
سیاست منافع بخش کاروبار بن جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں گی، پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں پارلیمانی نظام قائم ہے، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بادشاہت تو اب بھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ بادشاہ کا ایک وزیر اعظم تو ہوتا ہی ہے اور پاکستان سمیت پارلیمانی جمہوریت کے نام پر بیشتر مسلم حکمران وزیر اعظم ہیں جہاں وزارت عظمی نہیں وہاں بادشاہت ہے، جہاں وزیر اعظم ہے، لیکن عوام کو بادشاہ، نظر نہیں آتا، کبھی آئی ایم ایف کے احکامات لاگو کرائے جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہی بادشاہ ہے، کبھی ورلڈ بینک تو کبھی حقیقی معنوں میں امریکا، بادشاہ معظم ہے۔
اس لیے وزیر اعظم کے ساتھ اس کی کابینہ بھی وزرا ء کہلائی جا تی ہے تو پھر فرق کہاں ہے اور پھر جب تک برطانیہ اور امریکا سے خلعت مملکت نہ لے لی جائے، وزیر اعظم بھی نہیں بنا جا سکتا، اس لیے بادشاہت تو ختم ہی نہیں ہوئی بس اس کا نام تبدیل ہو گیا ہے، اشرافیہ کے تمام مراعات یافتہ خاندانوں کا اس میں کیا قصور؟ شریف خاندان کو سعودی عرب بادشاہت کی تربیت کے لیے شاہی مہمان بنا کر نہ بھیجا ہوتا، اب جب کہ وہ شاہی تربیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے فیصلے حزب مخالف کو پسند نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا طرز زندگی و معاشرت عام انسان کے لیے ماڈل ہے بلکہ وہ بھی ان ہی کی طرح کسی سے خلعت وزیر اعظم کا اشارہ حاصل کرنے کے لیے اربوں روپے جلسے جلسوں، ریلیوں، دھرنوں اور مظاہروں میں اڑا رہے ہیں۔
جب ملک میں کوئی نظام ہی نہیں بدلا بلکہ پوری دنیا میں بادشاہت چل رہی ہے تو قومی خزانہ بھی تو بادشاہ معظم کا ہوتا ہے۔ جب قومی، جیسے شاہی خزانہ کہا جائے تو بہتر ہو گا اس لیے عوام کو خود فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ان کے پاس سانسوں سمیت جتنا بھی سرمایہ، اثاثہ اور رقم ہے، تو یہ دولت کس کی ہے؟ کم از کم اس شاہی خزانہ سے اخراجات پر غریب عوام کا تو کوئی حق نہیں۔