احمد سعید کی ن لیگ میں شمولیت سیاسی کھیل تو نہیں
احمد سعید ایف سی کالج میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز کے قریبی دوست تھے۔
سروس انڈسٹری گجرات کی بنیاد ایک کشمیری جاٹ چودھری محمد حسین نے رکھی تھی۔ ان کا خاندان مکمل غیر سیاسی سمجھا جاتا تھا تاہم ان کے تعلقات گجرات کے تمام سیاسی گھرانوں سے تھے اور سچ تویہ ہے کہ ان کی مضبوط مالی پوزیشن کو مقامی سیاستدانوں نے استعمال بھی کیا۔
فضل چودھری بھی ان سیاستدانوں میں شامل تھے۔انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک امیر محمد خان آف کالا باغ نے ایک بار چودھری ظہور الٰہی کو خبردار کیا تھا کہ سروس انڈسٹریز تمہارے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوگی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی نے چودھری محمد حسین کے تیسرے بیٹے چودھری احمد مختار کو سیاست کی طرف راغب کیا۔ پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ کے مضبوط ترین دھڑے یعنی چودھری برادران کے مقابلے میں سروس انڈسٹریز جیسے طاقتور گروپ کی حمایت حاصل ہوئی تو پیپلزپارٹی میں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
چودھری احمد مختار 90 کا اپنا پہلا الیکشن ہار گئے لیکن 93ء میں انہوں نے مسلم لیگ کے سرخیل چودھری شجاعت حسین کو شکست دے ڈالی۔
بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو احمد مختار کو کاروباری تجربے کی بنیاد پر کامرس منسٹری کا اہم عہدہ دیا گیا۔وہ ان چند لوگوں میں تھے جو بے نظیربھٹو کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کے بھی قریبی دوست سمجھے جاتے تھے ۔
ان کے بھائی چودھری احمد سعید بھی احمد مختار کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ وہ خود تو براہ راست انتخابی سیاست میں نہ آئے لیکن اپنے بھائی کیلئے کمپنی کے وسائل اور حمایت میں بھی پس و پیش نہ کی۔
چودھری احمد مختارکی ہی سفارش پر احمد سعید کو زرعی ترقیاتی بینک کا چیئرمین بنایا گیا۔ 1997ء میں بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کردیا گیا اور چودھری احمد مختار اور احمد سعید بھی اپنے عہدوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نواز شریف حکومت کے چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمن نے آصف زرداری کے ساتھ احمد مختار پر بھی ریفرنس دائر کئے۔ دو سال بعد 1999ء میں پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت برطرف کرکے ملک میں مارشل لاء لگادیا۔
احمد سعید ایف سی کالج میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز کے قریبی دوست تھے۔ چودھری احمدمختار کو نیب نے حراست میں لے لیا تو احمد مختار کا خیال تھا کہ ان کے بھائی احمد سعید ان کی رہائی کیلئے بھرپور کردار ادا کریں گے۔
لیکن بھائیوں میں اس وقت شدید اختلاف پیدا ہوا جب احمد مختار کے جیل میں ہوتے ہوئے احمد سعید مشرف حکومت میں پی آئی اے کے چیئرمین بن گئے۔
چوہدری احمد سعید نے پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتے اور پلی بارگین سے رہائی کا مشورہ دیالیکن چوہدری احمد مختار نے انکار کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود پر دھبہ نہیں لگانا چاہتے اور وہ عدالت سے باعزت بری ہوئے، یوں دونوں بھائیوں میں تعلقات میں رخنہ پیدا ہوگیا اور یہ ناراضگی کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ۔
جب احمد مختار رہا ہوگئے تو سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ بھائیوں میں خاندانی بزنس کی تقسیم ہوئی۔سروس انڈسٹریز احمد سعید کے پاس چلی گئی اور ٹیکسٹائل کا یونٹ احمد مختار کے حصے میں آگیا ۔
چوہدری احمد سعید کی شریف برادران سے دوسال سے ملاقاتیں چل رہی تھیں اور ان کے صاحبزادے عارف سعید ٹیوٹا کے چیئرمین بھی ہیں۔
چوہدری احمدسعید کی لیگی سیاسی گھرانوں جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے اور سعید مہدی کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں بھی ہیں۔ سروس گروپ کے مخالف چوہدری برادران جنہوں نے پہلے کامیابی سے احمد مختار کو وزیراعظم بننے سے روکا اور اب ان کی نشست پر بھی نظر لگائے ہوئے ہیں، وہ سمجھتے ہیںکہ احمد مختار اور احمد سعید کی چپقلش سیاسی کھیل ہے۔
آصف زرداری گجرات کی سیٹ چوہدری برادران کو دینے کاوعدہ کرچکے ہیں،اس بات کا علم چوہدری احمد مختار کو بھی ہے، اس لئے احمد مختار نے اپنے بھائی کو مسلم لیگ(ن) میںدھکیلا کہ اگر وہ خود پارٹی الیکشن نہ بھی لڑیں تو ان کے بھائی میدان میں رہیںاور ان کا گروپ اکٹھا رہے۔
مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی کچھ لوگوں میں اس طرح کی سوچ ہے مگر اس سے پیپلزپارٹی میں اتفاق نہیں کیا جاتا۔ چوہدری احمد مختار کی صدر زرداری کے ساتھ دوستی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور وہ صدر کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی رائے کا بڑا احترام کرتے ہیں۔
اس وقت وسطی اور جنوبی پنجاب کے دونوں صدور امتیاز صفدر وڑائچ اور مخدوم شہاب الدین چوہدری احمد مختار کی تجویز پر بنائے گئے ہیں۔ چوہدری احمد مختار پر صدر زرداری کے اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پانی و بجلی کی سب سے مشکل وزارت کی ذمہ داری سنبھالی اور لوڈ شیڈنگ کے بحران کی شدت کم کرکے صورتحال کو بہتر بنایا ۔
صدر زرداری 2008ء کے الیکشن کے بعد بھی انہیں وزیراعظم بنانا چاہتے تھے لیکن اس وقت ایسے حالات اور صورتحال پیدا ہوگئی کہ یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ اب یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار تھے۔
چوہدری برادران نے چوہدری احمد مختار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ان کا راستہ روکنے کیلئے صدر زرداری پر بہت دباؤ بھی ڈالا گیا، اس طرح وہ دوبارہ وزیراعظم پاکستان بنتے بنتے رہ گئے۔ چوہدری احمد مختار دل کی بات کہہ دیتے ہیں،اس کا انہیں سیاست میں بعض اوقات نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے مگر وہ اپنی صاف گوئی اور اصولی سیاست کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
فضل چودھری بھی ان سیاستدانوں میں شامل تھے۔انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک امیر محمد خان آف کالا باغ نے ایک بار چودھری ظہور الٰہی کو خبردار کیا تھا کہ سروس انڈسٹریز تمہارے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوگی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی نے چودھری محمد حسین کے تیسرے بیٹے چودھری احمد مختار کو سیاست کی طرف راغب کیا۔ پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ کے مضبوط ترین دھڑے یعنی چودھری برادران کے مقابلے میں سروس انڈسٹریز جیسے طاقتور گروپ کی حمایت حاصل ہوئی تو پیپلزپارٹی میں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
چودھری احمد مختار 90 کا اپنا پہلا الیکشن ہار گئے لیکن 93ء میں انہوں نے مسلم لیگ کے سرخیل چودھری شجاعت حسین کو شکست دے ڈالی۔
بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو احمد مختار کو کاروباری تجربے کی بنیاد پر کامرس منسٹری کا اہم عہدہ دیا گیا۔وہ ان چند لوگوں میں تھے جو بے نظیربھٹو کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کے بھی قریبی دوست سمجھے جاتے تھے ۔
ان کے بھائی چودھری احمد سعید بھی احمد مختار کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ وہ خود تو براہ راست انتخابی سیاست میں نہ آئے لیکن اپنے بھائی کیلئے کمپنی کے وسائل اور حمایت میں بھی پس و پیش نہ کی۔
چودھری احمد مختارکی ہی سفارش پر احمد سعید کو زرعی ترقیاتی بینک کا چیئرمین بنایا گیا۔ 1997ء میں بے نظیر بھٹو حکومت کو برطرف کردیا گیا اور چودھری احمد مختار اور احمد سعید بھی اپنے عہدوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نواز شریف حکومت کے چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمن نے آصف زرداری کے ساتھ احمد مختار پر بھی ریفرنس دائر کئے۔ دو سال بعد 1999ء میں پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت برطرف کرکے ملک میں مارشل لاء لگادیا۔
احمد سعید ایف سی کالج میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز کے قریبی دوست تھے۔ چودھری احمدمختار کو نیب نے حراست میں لے لیا تو احمد مختار کا خیال تھا کہ ان کے بھائی احمد سعید ان کی رہائی کیلئے بھرپور کردار ادا کریں گے۔
لیکن بھائیوں میں اس وقت شدید اختلاف پیدا ہوا جب احمد مختار کے جیل میں ہوتے ہوئے احمد سعید مشرف حکومت میں پی آئی اے کے چیئرمین بن گئے۔
چوہدری احمد سعید نے پرویز مشرف کے ساتھ سمجھوتے اور پلی بارگین سے رہائی کا مشورہ دیالیکن چوہدری احمد مختار نے انکار کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود پر دھبہ نہیں لگانا چاہتے اور وہ عدالت سے باعزت بری ہوئے، یوں دونوں بھائیوں میں تعلقات میں رخنہ پیدا ہوگیا اور یہ ناراضگی کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ۔
جب احمد مختار رہا ہوگئے تو سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ بھائیوں میں خاندانی بزنس کی تقسیم ہوئی۔سروس انڈسٹریز احمد سعید کے پاس چلی گئی اور ٹیکسٹائل کا یونٹ احمد مختار کے حصے میں آگیا ۔
چوہدری احمد سعید کی شریف برادران سے دوسال سے ملاقاتیں چل رہی تھیں اور ان کے صاحبزادے عارف سعید ٹیوٹا کے چیئرمین بھی ہیں۔
چوہدری احمدسعید کی لیگی سیاسی گھرانوں جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے اور سعید مہدی کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں بھی ہیں۔ سروس گروپ کے مخالف چوہدری برادران جنہوں نے پہلے کامیابی سے احمد مختار کو وزیراعظم بننے سے روکا اور اب ان کی نشست پر بھی نظر لگائے ہوئے ہیں، وہ سمجھتے ہیںکہ احمد مختار اور احمد سعید کی چپقلش سیاسی کھیل ہے۔
آصف زرداری گجرات کی سیٹ چوہدری برادران کو دینے کاوعدہ کرچکے ہیں،اس بات کا علم چوہدری احمد مختار کو بھی ہے، اس لئے احمد مختار نے اپنے بھائی کو مسلم لیگ(ن) میںدھکیلا کہ اگر وہ خود پارٹی الیکشن نہ بھی لڑیں تو ان کے بھائی میدان میں رہیںاور ان کا گروپ اکٹھا رہے۔
مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی کچھ لوگوں میں اس طرح کی سوچ ہے مگر اس سے پیپلزپارٹی میں اتفاق نہیں کیا جاتا۔ چوہدری احمد مختار کی صدر زرداری کے ساتھ دوستی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور وہ صدر کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی رائے کا بڑا احترام کرتے ہیں۔
اس وقت وسطی اور جنوبی پنجاب کے دونوں صدور امتیاز صفدر وڑائچ اور مخدوم شہاب الدین چوہدری احمد مختار کی تجویز پر بنائے گئے ہیں۔ چوہدری احمد مختار پر صدر زرداری کے اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پانی و بجلی کی سب سے مشکل وزارت کی ذمہ داری سنبھالی اور لوڈ شیڈنگ کے بحران کی شدت کم کرکے صورتحال کو بہتر بنایا ۔
صدر زرداری 2008ء کے الیکشن کے بعد بھی انہیں وزیراعظم بنانا چاہتے تھے لیکن اس وقت ایسے حالات اور صورتحال پیدا ہوگئی کہ یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ اب یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار تھے۔
چوہدری برادران نے چوہدری احمد مختار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ان کا راستہ روکنے کیلئے صدر زرداری پر بہت دباؤ بھی ڈالا گیا، اس طرح وہ دوبارہ وزیراعظم پاکستان بنتے بنتے رہ گئے۔ چوہدری احمد مختار دل کی بات کہہ دیتے ہیں،اس کا انہیں سیاست میں بعض اوقات نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے مگر وہ اپنی صاف گوئی اور اصولی سیاست کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔