لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

ملک میں بجلی نہیں، گیس نہیں، پینے کا صاف پانی نہیں، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہر جگہ موجود ۔۔۔

fatimaqazi7@gmail.com

بھوک سے بے حال جم غفیر جب فرانس کی ملکہ میری کے محل کے باہر جمع ہوکر فریاد کر رہے تھے۔ ملکہ نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ تب فرماں بردار غلاموں نے بتایا کہ عوام کا مجمع روٹی نہ ملنے کی شکایت کر رہا ہے۔ یہ بھوکے لوگ ہیں اور اپنا حق مانگنے آئے ہیں۔ ملکہ نے تعجب، حیرت اور سادگی سے جواب دیا۔ ''روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟'' ملکہ کا یہ جملہ نہ صرف تاریخ کا حصہ بن گیا بلکہ انقلاب فرانس کا محرک بھی بنا۔

کبھی آپ نے سوچا کہ ملکہ نے روٹی کے بجائے کیک کھانے کا مشورہ کیوں دیا تھا؟ اس لیے کہ وہ ملکہ تھی، شاندار محل میں رہتی تھی،ہیرے جواہرات ٹنکے ملبوسات زیب تن کرتی تھی۔ سنہری، روپہلی قیمتی لڑیوں سے سجے چھپر کھٹ پہ سوتی تھی۔ انواع و اقسام کے کھانے صرف اس کے چکھنے کے منتظر رہتے تھے۔ پکانے والے کھانا پسند آنے پر قیمتی انعامات پاتے تھے، تیتر، ہرن، نیل گائے کے روسٹ اور ہنٹر بیف بھی اک نگاہ کرم کے مشتاق رہتے تھے، کئی کئی اقسام کے کیک، بسکٹ، باقر خانیاں، پڈنگ اور جیلی کسٹرڈ بھی اپنی اپنی بہار دکھاتے تھے۔ وہ تو ملکہ تھی، ملکہ بننے سے پہلے شہزادی تھی۔

تو اسے کیا پتا ہوتا کہ کیک اور ڈبل روٹی دونوں گندم سے بنتی ہیں۔ بادشاہوں اور عام آدمی میں یہی سب سے اہم بنیادی فرق ہے کہ عوام آدمی مزدور کسان بن کر اپنی محنت سے جو اشیا پیدا کرتا ہے۔ بادشاہ صرف انھیں استعمال کرتے ہیں۔ بادشاہوں کو کیا معلوم کہ نرم روئی کی رضائی، کمبل اور لحاف جو ان کی خواب گاہوں میں اطلس و کمخواب میں لپٹے رکھے ہیں۔ اس روئی کو یہاں تک پہنچانے میں مزدوروں کا کتنا پسینہ اور محنت صرف ہوئی ہے؟ وہ جو پہلے کیک کھاتے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ روٹی کے لیے بھی وہی اناج درکار ہے جس سے کیک بنتا ہے۔ عوام کے غصے کے آگے وہ زیر ہوگئے۔

بالکل اسی طرح جیسے جنگل میں اکیلی بھینس، اکیلی گائے، اکیلا ہرن اور اکیلا خرگوش ، تیندوے، ٹائیگر، چیتے اور شیر کو دیکھ کر جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب یہی گائے، بھینس، خرگوش اور معصوم ہرن سب اکٹھے ہوکر کسی خونخوار درندے کی طرف سینگ نکال کر پوری قوت سے اس پر بھرپور حملہ کرتے ہیں تو یہی جنگل پہ راج کرنے والے جانور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اتحاد ایک ایسی قوت ہے جو کسی بھی جابر حکمراں کو ٹکنے نہیں دیتی۔

کیا آج ہمارے وطن کی کہانی ملکہ فرانس کی کہانی سے مختلف ہے؟ بالکل! یکسر مختلف ہے، کیونکہ وہ مہذب، تعلیم یافتہ اور باشعور قومیں تھیں۔ اس لیے ایک جملے نے ان کی اجتماعی قلب ماہیت کردی۔ انقلاب نے فرانس کا مقدر بدل دیا لیکن ہم؟ غلام ابن غلام ابن غلام! ہم اپنی خواہشات کے غلام! ذاتی فوائد کے لیے قاتل کو مظلوم اور مقتول کو سزاوار ٹھہرانے والے۔ سب اپنی اپنی جھولیاں بھر چکے اب ڈر ہے کہ کہیں ان کی بھری زنبیلوں میں سے کوئی ''رابن ہڈ'' وہ مال نہ بازیاب کرالے جو علی بابا چالیس چوروں نے مرجینا کی موت اور تعاون سے حاصل کیا تھا؟

اس خزانے کی حفاظت کے لیے وقت پڑنے پر انھیں بھی گلے لگا لیا گیا جنھیں گلیوں اور بازاروں میں گھسیٹنے کا عزم لے کر اور لوٹا ہوا مال بازیاب کرانے کی نوید سناکر نعروں کی دکانیں سجائی گئیں۔ ایسی دکانیں جہاں پنکچر بھی لگائے گئے۔ اردو زبان اپنے محاورات اور کہاوتوں کے حوالے سے بڑی مال دار اور زرخیز زبان ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ وقت پڑنے پر ...... کو بھی باپ بنایا جاسکتا ہے (خالی جگہ خود پر کرلیں) یہ کہاوت پاکستانی سیاست کا اصل چہرہ ہے۔


ملک میں بجلی نہیں، گیس نہیں، پینے کا صاف پانی نہیں، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہر جگہ موجود، بھوک اور غربت کا یہ عالم کہ لوگ اپنے بچے فروخت کرنے نکل آئے۔ کوڑے کے ڈھیر میں سے غذا تلاش کرکے شکم کی آگ کو ٹھنڈا کرنے والوں نے حیرت، تعجب اور مایوسی کے عالم میں قوم کے غم میں آنسو بہانے والوں کو جب 70 اقسام کے کھانے کھاتے دیکھا تو ان کی سمجھ میں آیا کہ ''جمہوریت'' کسے کہتے ہیں؟ اور اس کے ڈی ریل ہونے سے کن قوتوں کو نقصان ہوگا؟ مذاکرات کے لیے ایک مخالف دوسرے مخالف کو لینے کے لیے خود گاڑی ڈرائیو کرکے سسٹم کو بچانے کی التجا کرتا ہے۔

اس سسٹم کی جس کا جادوئی نام ''بی بی جمہوریت'' ہے۔ اس پردہ نشین بی بی کا چہرہ آج تک عوام میں سے تو کسی نے نہیں دیکھا۔ کیونکہ اس ''بی بی'' کا تعلق عوام سے نہ کبھی تھا اور نہ ہوگا۔ یہ بی بی اپنا گھونگھٹ صرف وزرائے اعظم، صدور اور پارلیمنٹ کے ممبران کے سامنے اٹھاتی ہیں۔ ان کا حسن جہاں سوز اور دل افروز حکومتیں پارٹی کے ساتھ ساتھ ''فرینڈلی اپوزیشن'' کو بھی گرماتا ہے اور لبھاتا ہے۔ اسی لیے جمہوریت کے نام پر عوام کو دیا جانے والا زہر لیڈروں کے لیے امرت ثابت ہوتا ہے۔

ایک ایسی چیز جو عنقا ہے اور کہیں موجود نہیں اس کے جانے کا غم کھانے والے دیہاڑی پہ کام کرنے والے وہ ارکان اسمبلی ہیں جو نہ ٹیکس دیتے ہیں نہ بجلی اور گیس کے بل، بلکہ بہت سے وفاقی وزرا ایسے ہیں جو باقاعدہ اپنے ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی چوری کرتے ہیں۔ ساری تفصیل میڈیا سامنے لاچکا ہے۔ ذرا سوچیے اگر میڈیا کی طاقت ہمارے ساتھ نہ ہوتی تو کبھی ہم بارک اوباما، ملکہ برطانیہ کے دسترخوانوں کا مینو کبھی نہ جان سکتے۔ بعض اوقات قسمت خراب ہو تو ہر وار اوچھا پڑتا ہے۔

سابق صدر نے موجودہ قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ (بلے کو بھاگنے مت دینا، یہ سارا دودھ پی جاتا ہے)اس وقت مہذب لوگوں کو حیرت ہوئی تھی کہ ایسی زبان استعمال کرتے ہوئے کم ازکم اپنے عہدے اور اسٹیٹس کا تو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اب جو مسکراہٹ لبوں پہ سجائے وہ اچانک جلوہ گر ہوئے تو راز کھلا کہ تحفظ کس کو دیا جا رہا ہے؟ اس سڑے بسے سسٹم کو جس نے دو کلاسیں پیدا کیں۔ ایک اسمبلیوں کے اندر اور دوسری باہر۔

اسمبلیوں کے اندر والی کلاس فرانس کی ملکہ میری کی کلاس ہے اور اسمبلیوں کے باہر والی کلاس وہ بپھرے ہوئے مجبور لاچار اور بدنصیب عوام ہیں جنھیں روٹی دستیاب نہ ہونے پر کیک کھانے کا پیارا سا مشورہ دیا گیا تھا۔ ایک کلاس ستر اقسام کے کھانے اور سوئیٹ ڈشیں کھاتی نظر آئی اور دوسری حسرت دکھ اور مایوسی سے انھیں دیکھتی۔ کہ یا الٰہی یہ کیسے لوگ ہیں؟ کہ قوم کے غم میں جاں سے گزرنے کے وعدے کرکے منتخب ہونے والوں کو اس کا خیال ہی نہیں۔ نہ اس دکھ اور فرسٹریشن کا احساس جو یہ سب دیکھ کر لوگوں کو بتا رہا تھا کہ دیکھو انھیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

قارئین کو یہ بھی بتاتی چلوں کہ عام سرکاری ملازم کو تنخواہ ٹیکس کی کٹوتی کے بعد ملتی ہے۔ بجٹ آنے پر بہ ہزار دقت پنشن اور تنخواہوں میں دس فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ مفت علاج معالجے کی سہولت کا تو کہیں ذکر ہی نہیں اور یہ ارکان اسمبلی جن کو جمہوریت کا جنون سب سے زیادہ اس لیے ہوگیا ہے کہ یہ مہینے میں دو چار دفعہ آکر ڈیسک بجاکر نیند لے کر، میک اپ کرکے، چھٹیاں وصول کرکے اور ہاتھا پائی کرکے چلے جاتے ہیں، لیکن انھیں الاؤنس پورے مہینے کا نہ صرف ملتا ہے بلکہ مہربان وزیر خزانہ اسے فوراً دو گنا کردیتے ہیں۔ یہ بل بھی فوراً پاس ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بل پاس کرنے والے وہی تو ہیں جنھیں آج کل کسی کروٹ چین نہیں پڑ رہا کہ اگر نئے الیکشن ہوئے تو کیا وہ دوبارہ قابض ہوسکیں گے؟

سارے عیش آرام سفری اخراجات، علاج معالجہ سب مفت۔ کیونکہ یہ کوئین میری کے کلاس کے ہیں! وطن کی کسی کو فکر نہیں ۔ مولوی حضرات اپنا گھسا پٹا ایجنڈا لے کر میدان میں یوں ہی نہیں اترے ۔ ضرور کہیں سے ''چمک'' کی کمک ملی ہے۔ انھیں فحاشی بابائے قوم کے مزار کے اطراف میں اور احاطے کے اندر نظر نہیں آئی ۔ اگر دکھائی دی تو وہ خواتین جو دھرنے میں شریک ہیں ۔ واہ! کیا کہنا! کالم میں جگہ نہیں ورنہ ضرور بتاتی کہ جو ٹی وی پہ آکر حکومت کو کندھا دے رہے ہیں ان کو اور ان کے خاندان کو کہاں کہاں نوازا گیا ہے۔ اتنا سچ تو میں بتا ہی سکتی ہوں ۔ حالانکہ وہ تو سب کو معلوم ہی ہے ۔ پھر بھی اگلے کالم میں سہی!
Load Next Story