عظیم کون

خدا سب کو مواقعے دیتا ہے تیمور لنگ کو بھی تین بار ایسے مواقعے ملے کہ وہ سرخرو ہو کر غازی بن کر نکلے ۔۔۔

shehla_ajaz@yahoo.com

ISLAMABAD:
انسان کا ذہن ایک ایسی زر خیز کھیتی ہے جس میں نجانے کتنے بڑے اور عظیم منصوبے پنپتے ہیں اور اگر یقین مستحکم ہو، نصیب اچھے ہوں تو قدرت کی جانب سے مواقعے بھی میسر ہوتے ہیں۔ اب یہ انسانی سوچ کا اپنا انداز فکر ہے کہ وہ ان مواقعے کو کس طرح استعمال کرتا ہے، منفی انداز میں یہ عظیم موقع رائیگاں جائے گا جب کہ مثبت انداز میں ایک عظیم ہستی بن کر امر ہو جائے گا۔ گویا دنیا اور آخرت میں سرخرو۔ ایسے زر خیز ذہن دنیا کے خطے میں ابھرتے رہے ہیں لیکن اگر دنیا کے فاتحین کے حوالے سے بات کی جائے کہ جن کو قدرت کی جانب سے مواقعے ملے تو ان میں تین نام ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

سکندر اعظم، چنگیز خان اور تیمور لنگ۔ یہ تین نام آج بھی اپنے کارناموں اور جنگ و جدل کے حوالے سے تاریخ کا حصہ ہیں۔ سکندر اعظم خاندانی پس منظر کا حامل شخص تھا وہ ایک بادشاہ کا بیٹا تھا، چنگیز خان کا تعلق منگولوں کے ایک قبیلے سے تھا، بربریت اور دہشت کے حوالے سے چنگیز خان کا نام ہی اس کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ تیمور لنگ ایک نارمل انسان نہ تھا اس کی ایک ٹانگ میں نقص تھا لیکن اس ایک ٹانگ سے لنگڑا کر چلنے والے تیمور لنگ نے اپنی ہمت اور ذہانت سے پورے ایشیا کو زیر کرلیا۔

یہ مسلمان تھا، کچی اینٹوں اور لکڑی کے گھر میں پیدا ہونے والا تیمور لنگ تاتاری قبیلے سے تعلق رکھتا تھا لیکن دہشت اور ہیبت کے باعث یہ لرزندہ جہاں کہلانے لگا تھا یعنی جہان کو لرزانے والا۔ اس کے بعد کسی ایک فرد نے دنیا کو فتح کرنے کی کوشش نہ کی، خدا تعالیٰ نے اسے بہت سے مواقعے دیے کہ یہ اپنا مقام پیدا کر کے اچھے لفظوں میں محفوظ ہو جائے لیکن یہ اس کی اپنی سوچ تھی، اسے فتح کرنے کا جنون تھا اور یہ جنون اسے لوٹ مار، جلائو اور انسانی سروں کے میناروں تک لے گئی۔

ایک غیر معروف علاقے سے ابھر کر نکلنے والا تیمور ایک ایسی علامت بن کر ابھرا کہ اہل یورپ حیران رہ گئے، تیمور نے فاتح یورپ بایزید یلدرم کو شکست فاش دی۔ 1402ء میں یہ عظیم جنگ تلخ حقیقت پر ختم ہوئی اس میں خدا کی رضا تھی اور تیمور لنگ کی آزمائش اور تیمور اپنی آزمائش پر جیت کر بھی ہار گیا، یلدرم سے جیت کر بھی وہ غازی نہ بن سکا، اسے بہت سے مواقعے ملے کہ وہ غازی بن کر اسلام کا سکہ جما سکے لیکن اس نے توجہ نہ دی جب کہ بایزید یلدرم کی شدت سے خواہش تھی کہ وہ پورے یورپ کو فتح کر کے اسے اسلامی قلمرو میں شامل کرے۔

اس نے گھمسان کی جنگ میں فتح حاصل کی اور فرانس، آسٹریا، اٹلی، اور ہنگری کے نواب اور شہزادوں کو قید کیا۔ ہنگری کا بادشاہ اسی جنگ میں جان بچا کر بھاگا تھا، عظیم یورپ کے حملہ آور بایزید کا کچھ نہ بگاڑ سکے اس کے بعد اس نے یورپ پر اپنی فوجوں کا رخ رکھا اور کامیابیاں حاصل کیں۔


یہی وہ زمانہ تھا جب اہل یورپ پر ترکوں کی ہیبت سوار ہو گئی تھی جسے تیمور لنگ نے بایزید کو شکست دے کر مزید دہشت زدہ کر دیا تھا۔ لیکن عثمانی ترکوں کی قائم کردہ ہیبت تیمور کی مداخلت سے ٹھنڈی پڑ گئی اس نے بایزید کے یورپ میں بڑھتے قدم روک لیے۔

ان تمام فتوحات کے بدلے تو یورپ کی سازش نے سلطنت عثمانیہ کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے گل کر کے لے لیا تھا لیکن اگر دیکھا جائے تو عظیم تیمور کی تمام تر ذہانت، شجاعت نے مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچایا اس کی ماضی کی فتوحات نے آج کے دنیائے اسلام میں کیا کچھ نہیں کیا یہ ہم سب کے سامنے ہے، اس کے دل میں یورپ میں داخل ہونے کا کوئی جوش نہ تھا اس نے زیادہ تر مسلم ریاستوں کے خلاف جنگجوئی کی۔ اس کے اندر جوش مارتا خون صرف زمین فتح کرنا چاہتا تھا دلوں کی فتوحات سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔

خدا سب کو مواقعے دیتا ہے تیمور لنگ کو بھی تین بار ایسے مواقعے ملے کہ وہ سرخرو ہو کر غازی بن کر نکلے، ایک بار ماسکو کے قریب، دوسری بار قسطنطنیہ کے نزدیک اور تیسری بار جنوبی ہندوستان میں ۔ وہ چاہتا تو لشکر کشی کر کے مجاہد یا غازی کا لقب حاصل کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور تین سنہری مواقعے ضایع کر دیے۔

تیمور لنگ کے بارے میں صفحہ در صفحہ فتوحات کا سلسلہ ہے لیکن وہ ایک عظیم فاتح ہونے کے باوجود بھی عظیم نہ تھا، اس کی زندگی کے پہلو بڑے دلچسپ ہیں وہ محمود غزنوی اور چنگیز خان سے متاثر تھا، اس کے اقوال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے خدا سے لگاؤ تھا لیکن شاید وہ آنے والی نسلوں کو امپریس کرنا چاہتا تھا لیکن اسے اندازہ نہ تھا کہ آنے والی نسلیں بھی ذہین، دانا اور محتاط ہو سکتی ہیں، شاید وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگا تھا اس کا ایک قول بہت دلچسپ ہے ''کسی انسان کی کامیابی میں جتنا اس کی قابلیت اور ذہانت کا عمل دخل ہوتا ہے اتنا ہی دوسروں کی نالائقی اور حماقت کا بھی حصہ ہوتا ہے۔''

پاکستانی قوم میں ایسے بے تحاشا زرخیز ذہن آباد ہیں جن میں عظیم منصوبے، عظیم خیالات اور عظیم خواہشات پنپ رہی ہیں یہ عظیم زر خیز ذہن کبھی بھی اپنے ملک کی ترقی اور سربلندی کے لیے عظیم کارنامے انجام دے سکتے ہیں اور ابھی بھی ان عظیم کارناموں میں محو عمل ہیں۔ ان ذہنوں کی زرخیزی سے ذہانت اور دانش وری سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ذہن سے کچھ ہی فاصلے سے اتر کر دل آتا ہے یہ دل بہت کام کی چیز ہے جسے انسان کا ''میٹر'' بھی کہا جا سکتا ہے۔

جو دماغ سوچتا ہے میٹر اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ اسے منفی جانب گھمایا جائے یا مثبت جانب، ہمارے یہاں ایسے زر خیز ذہن ہیں جو برسوں سے اپنی ملوں اور فیکٹریوں میں چوری کی بجلی استعمال کر رہے ہیں لیکن ادارے کو علم ہی نہیں ہو سکا کہ یہ چوری کہاں اور کیسے ہو رہی ہے، سندھ میں داخل ہونے سے پہلے ہی پانی چوری ہو رہا ہے، کیسے ... سیاسی جماعتیں انتہائی ذہانت سے اپنے بڑے بڑے منصوبے بناتی ہیں اور عمل بھی کرتی ہیں لیکن انسانی ذہانت اپنے میٹر پر آ کر بے بس ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ اسے پہلے ہی خبردار کر دیتا ہے کہ اس زرخیز کھیتی کا رخ کس جانب کرنا ہے، ہمیں فاتح تیمور لنگ سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو دنیا کے فاتحین میں اپنا نام لکھوانے کے باوجود بھی عظیم نہ بن سکا۔
Load Next Story