سیلاب متاثرین سیاست نہیں عملی اقدامات کے منتظر
یوں لگتا ہے کہ اگر حالات یہی رہے اور سیلاب سے ڈوبنے والوں کو نہ سنبھالا گیا تو اس پورے خطے کی سیاست بدل جائے گی۔
ہزاروں گھروں کو مسمار کرتا، لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا سیلاب قیمتی جانوں اور مال اسباب کے ساتھ ساتھ حکمرانوں سے وابستہ امیدیں اور بڑے بڑے دعوؤں کا بھرم بھی بہا لے گیا۔ باہر کا سیلاب کچھ گزر گیا اور کچھ گزر جائے گا۔
لیکن پنجاب کے جنوب اور زیریں خطے میں بسنے والوں کے دلوں میں ایک نیا سیلاب برپا کر گیا وہ جو وسائل کی نامنصفانہ تقسیم اور اپنے علاقوں کو یکسر نظر انداز کرنے کا رونا روتے تھے۔
پھر سے چلا اٹھے کہ کاش خود کو بربادی سے بچانا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا۔ پہاڑی نالوں سے ڈوبنے والے پھر سوال کرنے لگے کہ اربوں روپے پلوں اور سڑکوں پر خرچ کرنے والے، لیپ ٹیپ اور دانش سکولوں پر بے پناہ وسائل خرچ کرنے والے، مرکز اور صوبے کے حکمران ان کی زندگی صرف ندی نالوں سے محفوظ نہیں بنا سکے۔
وہ جن کی کل کائنات ایک کچا کمرہ اور اس میں پڑا نام کا فرنیچر' گندم کی چار بوریاں اور صحن میں بندھی ایک گائے تھے۔ اپنی ساری متاع لٹا بیٹھے اور آگے سنبھلنے کا بھی کوئی چارہ نہیں، حیران ہیں کہ یہ کیسی سیاست ہے اور یہ کیسی حکمرانی ہے جو اچھی تعلیم' صحت اور صاف پانی تو دور کی بات اپنے لوگوں کو تحفظ تک نہیں دے سکتی ۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب آیا تو سیلابی سیاست بھی آ گئی ،چارہ گر کہلوانے والے قیمتی گاڑیاں بھگاتے' ہیلی کاپٹر اڑاتے، سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچنے لگے۔ سیاست کا ایک نیا کھیل شروع ہوا۔
دو دن کا راشن تھیلے میں باندھ کر متاثرین کو قطاروں میں کھڑا کر کے فوٹو سیشن ہونے لگے مرکزی اور صوبائی مشیروں وزیروں کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے۔
بلوچستان کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے علاقے لعل گڑھ کا بھی دورہ کیا۔ سیلاب پر بریفنگ لی اور انہیں بتایا گیا کہ صرف راجن پور میں پونے تین لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ بیسیوں جانیں گئیں اور اربوں روپے کی کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ وزیراعظم نے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے متاثرین کے لئے اڑھائی ارب روپے سے زائد کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔
اختلافی بیانات سے پانی سیاست چمکاتے گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ اور حج سکینڈل سے ضمانت کے بعد سیاسی زندگی میں لوٹ آنے والے سید حامد سعید کاظمی بھی وزیراعظم کے پہلو میں نظر آئے۔
لیکن وطن کارڈ کے اجراء' زرعی قرضوں کے معافی جیسے اعلانات بھی مقامی لوگوں کے دلوں کو متاثر نہ کر سکے اور لوگ یہ پوچھنا چاہتے تھے کہ اگر ان کی ڈبونے والی رود کوہیوں یا ندی نالوں کے پانی کو قابل استعمال اور محفوظ بنانے کے لئے مناسب طریقے سے بروقت رقم خرچ کی جاتی تو شاید آج انہیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا لیکن ہمارے ملک کی سیاست نرالی ہے جو شاید تباہ مکانات' ویران بستیوں اور مر جانے والے لیڈروں کے ناموں پر کی جاتی ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی حسب سابق اور حسب معمول متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ پہاڑی نالوں کے پانی کو محفوظ اور کار آمد بنانے کے منصوبے کی فوری طور پر تیاری کریں اور جلد از جلد یہ منصوبہ منظوری کے لئے ان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اس کے لئے فنڈز کا اجراء کریں اور جلد کام شروع ہو سکے۔
واپسی کے سفر میں منزل پر پہنچتی حکومت کے یہ اعلانات مقامی لوگوں کو نئے سراب کے علاوہ کچھ نہیں لگتے۔ وہ جنہوں نے پہلے بھی متعدد بار ایسے اعلانات کئے کدھر گئے۔ آمر نما سیاستدان ہوں یا سیاستدان نما آمر ترقی معکوس کے سفر میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور جب پانی سروں سے بہہ جاتا ہے تو یہ سب دور کھڑے انگلی منہ میں دبائے حیرانی سے حالات دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
انہوں نے تو ملک کی ترقی کے لئے بڑے بڑے کام کئے لیکن عوام کے نام پر سیاست کرنے والے یہ کیوں یاد نہیں رکھتے کہ سیلاب گزر جانے کے بعد والی سیاست ہی کیوں کرتے ہیں، امداد والی سیاست ہی کیوں کرتے ہیں۔
مردوں پر ہی سیاست کیوں کرتے ہیں۔ پھر بھلا یہ کیونکر ممکن ہو کہ ہم نے جو بویا ہے اس سے کاٹا مختلف جائے۔ اس خطے میں بسنے والوں پر دو برسوں میں سیلاب کی یہ د وسری قیامت گزری ہے اور تازہ تباہی تو اس وقت ہوئی جب الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں اور آخر جن سے ووٹ لینا ہے ان کو طفل تسلیوں اور جھوٹے نعروں سے کب تک بہلایا جائے گا۔
وزیراعظم' وزیراعلیٰ اور گورنر کے ہوائی اور چند لمحاتی دوروں سے معاملات کیسے سدھر پائیں گے اور اندر کا سیلاب کیسے تھمے گا۔ یوں لگتا ہے کہ اگر حالات یہی رہے اور سیلاب سے ڈوبنے والوں کو نہ سنبھالا گیا تو اس پورے خطے کی سیاست بدل جائے گی اور آئندہ انتخابات میں یہ تبدیلی بھی ابھر کر سامنے آئے گی۔
لیکن پنجاب کے جنوب اور زیریں خطے میں بسنے والوں کے دلوں میں ایک نیا سیلاب برپا کر گیا وہ جو وسائل کی نامنصفانہ تقسیم اور اپنے علاقوں کو یکسر نظر انداز کرنے کا رونا روتے تھے۔
پھر سے چلا اٹھے کہ کاش خود کو بربادی سے بچانا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا۔ پہاڑی نالوں سے ڈوبنے والے پھر سوال کرنے لگے کہ اربوں روپے پلوں اور سڑکوں پر خرچ کرنے والے، لیپ ٹیپ اور دانش سکولوں پر بے پناہ وسائل خرچ کرنے والے، مرکز اور صوبے کے حکمران ان کی زندگی صرف ندی نالوں سے محفوظ نہیں بنا سکے۔
وہ جن کی کل کائنات ایک کچا کمرہ اور اس میں پڑا نام کا فرنیچر' گندم کی چار بوریاں اور صحن میں بندھی ایک گائے تھے۔ اپنی ساری متاع لٹا بیٹھے اور آگے سنبھلنے کا بھی کوئی چارہ نہیں، حیران ہیں کہ یہ کیسی سیاست ہے اور یہ کیسی حکمرانی ہے جو اچھی تعلیم' صحت اور صاف پانی تو دور کی بات اپنے لوگوں کو تحفظ تک نہیں دے سکتی ۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب آیا تو سیلابی سیاست بھی آ گئی ،چارہ گر کہلوانے والے قیمتی گاڑیاں بھگاتے' ہیلی کاپٹر اڑاتے، سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچنے لگے۔ سیاست کا ایک نیا کھیل شروع ہوا۔
دو دن کا راشن تھیلے میں باندھ کر متاثرین کو قطاروں میں کھڑا کر کے فوٹو سیشن ہونے لگے مرکزی اور صوبائی مشیروں وزیروں کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے۔
بلوچستان کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے علاقے لعل گڑھ کا بھی دورہ کیا۔ سیلاب پر بریفنگ لی اور انہیں بتایا گیا کہ صرف راجن پور میں پونے تین لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ بیسیوں جانیں گئیں اور اربوں روپے کی کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ وزیراعظم نے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے متاثرین کے لئے اڑھائی ارب روپے سے زائد کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔
اختلافی بیانات سے پانی سیاست چمکاتے گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ اور حج سکینڈل سے ضمانت کے بعد سیاسی زندگی میں لوٹ آنے والے سید حامد سعید کاظمی بھی وزیراعظم کے پہلو میں نظر آئے۔
لیکن وطن کارڈ کے اجراء' زرعی قرضوں کے معافی جیسے اعلانات بھی مقامی لوگوں کے دلوں کو متاثر نہ کر سکے اور لوگ یہ پوچھنا چاہتے تھے کہ اگر ان کی ڈبونے والی رود کوہیوں یا ندی نالوں کے پانی کو قابل استعمال اور محفوظ بنانے کے لئے مناسب طریقے سے بروقت رقم خرچ کی جاتی تو شاید آج انہیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا لیکن ہمارے ملک کی سیاست نرالی ہے جو شاید تباہ مکانات' ویران بستیوں اور مر جانے والے لیڈروں کے ناموں پر کی جاتی ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی حسب سابق اور حسب معمول متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ پہاڑی نالوں کے پانی کو محفوظ اور کار آمد بنانے کے منصوبے کی فوری طور پر تیاری کریں اور جلد از جلد یہ منصوبہ منظوری کے لئے ان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اس کے لئے فنڈز کا اجراء کریں اور جلد کام شروع ہو سکے۔
واپسی کے سفر میں منزل پر پہنچتی حکومت کے یہ اعلانات مقامی لوگوں کو نئے سراب کے علاوہ کچھ نہیں لگتے۔ وہ جنہوں نے پہلے بھی متعدد بار ایسے اعلانات کئے کدھر گئے۔ آمر نما سیاستدان ہوں یا سیاستدان نما آمر ترقی معکوس کے سفر میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور جب پانی سروں سے بہہ جاتا ہے تو یہ سب دور کھڑے انگلی منہ میں دبائے حیرانی سے حالات دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
انہوں نے تو ملک کی ترقی کے لئے بڑے بڑے کام کئے لیکن عوام کے نام پر سیاست کرنے والے یہ کیوں یاد نہیں رکھتے کہ سیلاب گزر جانے کے بعد والی سیاست ہی کیوں کرتے ہیں، امداد والی سیاست ہی کیوں کرتے ہیں۔
مردوں پر ہی سیاست کیوں کرتے ہیں۔ پھر بھلا یہ کیونکر ممکن ہو کہ ہم نے جو بویا ہے اس سے کاٹا مختلف جائے۔ اس خطے میں بسنے والوں پر دو برسوں میں سیلاب کی یہ د وسری قیامت گزری ہے اور تازہ تباہی تو اس وقت ہوئی جب الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں اور آخر جن سے ووٹ لینا ہے ان کو طفل تسلیوں اور جھوٹے نعروں سے کب تک بہلایا جائے گا۔
وزیراعظم' وزیراعلیٰ اور گورنر کے ہوائی اور چند لمحاتی دوروں سے معاملات کیسے سدھر پائیں گے اور اندر کا سیلاب کیسے تھمے گا۔ یوں لگتا ہے کہ اگر حالات یہی رہے اور سیلاب سے ڈوبنے والوں کو نہ سنبھالا گیا تو اس پورے خطے کی سیاست بدل جائے گی اور آئندہ انتخابات میں یہ تبدیلی بھی ابھر کر سامنے آئے گی۔