پاکستان ایک نظر میں حکومت کی غلطیاں

آمرانہ، شاہانہ یا کوئی بھی خواہش کہہ لیں،میاں صاحب کی یہ وہ نہ ختم ہونیوالی خواہش ہے جو انہیں ہر دفعہ تنہا کردیتی ہے.

دو تہائی اکثریت میاں صاحب کی ایسی خواہش تھی جس کو حاصل کرنے کی کوشش میں میاں صاحب نے اپنے اقتدار کی بنیادیں بہت کمزور کرلیں۔

جب سے نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں ان کے ناقدین نے متعدد بار کہا ہے کہ ان کی حکومت اپنے ہی بوجھ تلے دب جائے گی اور یہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے گھر جائیں گے۔ حکومت کے معاملات پر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح طور معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ناقدین کو درست ثابت کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہے۔

اپوزیشن اور حکومت کے طرز سیاست میں خاصا فرق ہوتا ہے حکومت کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہوتاہے۔ علاوہ ازیں حکومت کے پاس عذر کی گنجائش بھی نہیں ہوتی ہے حکومت کو اپنے قول فعل کا بہر حال حساب دینا ہوتا ہے اور بعض مواقع پرخاموشی بھی جرم تصور کی جاتی ہے۔

دوسری طرف احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی سب سے بڑی کمزوری اسکے لیڈران کا آمرانہ رویہ ہے بالخوص اقتدار کے ایوانوں میں یہ لوگ سیاسی بلوغت سے عاری نظر آتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے سال بھر کے دور اقتدار پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں حکومتی جماعت کے اندر مشاورت کا فقدان رہا ہے وہیں اہم ملکی اور خارجی معاملات پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔

14 ماہ کے دور اقتدار میں نواز شریف کی حکومت 4 بڑی غلطیاں کر چکی ہے۔ بھارت کےساتھ نام نہاد دوستانہ تعلقات بڑھانے میں حکومت نہ صرف عجلت میں نظر آئی ہے بلکہ کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے اہم امور پر دو ٹوک موقف نہیں اپنایا گیا۔ حکومت کی دوسری بڑی غلطی ایک نجی چینل کی طرف سے دفاعی ادارے اور اسکے سربراہ پر کی جانے والی بے توقیری پر خاموشی اختیار کرنا ہے۔ پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کرنا اور انہیں مختلف کیسز میں الجھائے رکھنا حکومت کی تیسری بڑی غلطی تھی۔ جس بنا پر وزیر داخلہ چوہدری نثار برہم بھی ہوئے۔ اور سب سے بڑھ کر سانحہ ماڈل ٹاون اس حکومت کی وہ چوتھی غلطی تھی جس نے اس حکومت کو بند گلی میں دھکیل دیا۔


آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد عین ممکن تھا کہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف اپنی احتجاجی تحریکیں موخر کر دیتے لیکن پنجاب حکومت نے غیر ضروری طور پر سانحہ ماڈل ٹاون کی صورت میں خود کو مشکل میں ڈالتے ہو انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کو ایک مضبوط گراونڈ فراہم کردیا۔

شروع دن سے نواز شریف کی حکومت کسی انجانے خوف کا شکار نظر آئی ہے، اس کی وجہ 1999 کا نا خوشگوار تجربہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس دفعہ بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آئے ہیں کہ 5 سال حکومت کرنے کے لیے انہیں تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی اشد ضرورت ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام قوتوں کے ساتھ معاملات خوشگوار انداز میں چلائے جاتے لیکن میاں صاحب غلطیوں پر غلطیاں ہی کرتے چلے گئے۔ 14 سال بعد جب ان کو وفاق میں اقتدار نصیب ہوا تو بھی انہوں نے اپنے خاندان کو نوازنے کی روایت برقرار رکھی ۔

آمرانہ، شاہانہ یا کوئی بھی خواہش کہہ لیں، میاں صاحب کی یہ وہ نہ ختم ہونے والی خواہش ہے کہ جو انہیں ہر دفعہ تنہا کر دیتی ہے۔ دو تہائی اکثریت میاں صاحب کی ایسی خواہش تھی جس کو حاصل کرنے کی کوشش میں میاں صاحب نے اپنے اقتدار کی بنیادیں بہت کمزور کرلیں۔

موجودہ طرز حکمرانی کا، کیونکہ آج ملک جن حالات کا سامنا کر رہا ہے حکومت اگر بروقت دانشمندی کا مظاہرہ کرتی تو معاملات اس نہج پر نہ پہنچتے۔ باوجود تمام شکوک وشبہات کے عوام نے اس جماعت پر اعتماد کیا جس پر پورا اترنے میں وہ بری طرح ناکام نظر آئی، زرداری سے عوام کا مال وصول کرنے والے 70 کھانوں کا اہتمام کر کے ان کی ضیافت کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عوام کے پاس بجلی کا شارٹ فال تھا لیکن بل کسی قدر کم آتے تھی،لیکن اب بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ اب اتنے پیسے نہیں ہیں کہ دن بھر میں کچھ گھنٹے آنے والی بجلی کا بل ادا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ نامعلوم، حکومتیں اقتدار میں آ کر عوام سے کیے ہوئے وعدے کیوں بھول جاتی ہیں؟ جہاں بات کارکردگی کی ہو وہاں بتایا جاتا ہے کہ انتخابی وعدوں اور حکومتی چلیجنز میں فرق ہوتا ہے، جہاں بات زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی ہو وہاں سیاسی عذر اور جہوریت کو بچانے کی باتیں کی جاتی ہیں، لیکن اس حکومت کو جب مشرف کے معاملے کو سیاسی افہام و تفہیم سے حل کرنے کا کہا جائے تو کابینہ میں موجود شعلہ بیان وفاقی وزرا کو اپنی سیاست ختم ہوتی نظر آتی ہے، حلانکہ ان کی یہی جذباتیت اور انتقامی سیاست جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ نظر آرہی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story