بس ہو چکی نماز‘ مصلیٰ اٹھائیے
مگر اردو میں ایسے مقامات آنے پر ابتذال سے بچنے کا ایک بہت شریفانہ راستہ موجود ہے ...
KARACHI:
جب آزادی مارچ اور دھرنے کی سیاست نے زور پکڑا اور لاہور سے چل کر مظاہرین قطار اندر قطار اسلام آباد پہنچے اور وہاں کی فضا تقریروں' نعروں اور دھمکیوں سے گونج اٹھی تو منجملہ اور مسائل کے جو ایک مسئلہ کھڑا ہوا وہ زبان سے متعلق تھا۔ جن لوگوں نے تواتر کے ساتھ مظاہرین اور ان کے رہنماؤں کی طرف سے دھمکی آمیز اور تحقیر آمیز بیانات سنے تو انھوں نے شکایت کی کہ یہاں آ کر اردو کا معیار پست ہو گیا اور بعض رہنما وقتاً فوقتاً مبتذل زبان کی سطح پر اتر آتے ہیں۔
جب ہم سے یاروں نے کہا کہ اے زبان و بیاں کے رسیا تونے گونگے کا گڑ کیوں کھا لیا ہے۔ کچھ منہ سے پھوٹ کہ یہ زبان جو یہاں استعمال ہو رہی ہے وہ شرفا کی زبان نہیں ہے۔
تب ہم نے کہا کہ عزیز ہمارا بچاؤ اس میں ہے کہ ہم ٹی وی پر یہ مناظر اور مظاہرے دیکھتے ہی نہیں۔ ہم تو اخبار پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس لیے نجی حیثیت میں ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مگر ایک بات ضرور کہیں گے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اردو پاکستان کے عوام کی زبان نہیں ہے تو اردو کے علمبردار اس پر بہت چیں بچیں ہوتے ہیں۔ ارے اب تو تمہارے موقف کی کھلم کھلا تائید ہو رہی ہے۔
آفتاب آمد دلیل آفتاب
یہ جو مظاہرے ہو رہے ہیں' نعرے لگ رہے ہیں' دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ گالیوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور جس میں ہر صوبے کے عام لوگ شامل ہیں یہ سب کچھ کس زبان میں ہو رہا ہے۔ اگر اردو یہاں کے عوام کی زبان نہیں ہے تو یہ سارا عوامی اظہار اس زبان میں کیوں ہو رہا ہے اور میرے عزیز جب کوئی زبان عوامی سطح پر اظہار پاتی ہے تو پھر زبان کا معیار تھوڑا نیچے بھی آئے گا اور لہجہ ابتذال کا شکار ہوتا بھی نظر آئے گا۔
یہ تو ہوئی اصولی بات۔ لیکن اب جو دو تین دنوں سے اس قسم کی خبریں آ رہی ہیں کہ بہت ہو گئی۔ اپنا کباڑ اٹھاؤ اور لمبے بنو۔ بلکہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ حکم بھی جاری ہوا ہے کہ شاہراہ دستور سے کنارہ کرو۔ اور کہیں آگے جا کر پڑاؤ کرو۔ اور خاص طور پر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ارے سپریم کورٹ کی بیرونی دیوار کیا اسی لیے کھڑی کی گئی تھی کہ اس پر میلے کچیلے کپڑے دھو کر پھیلائے جائیں۔
دیکھیے ویسے تو دیوار کا مسئلہ اردو میں کچھ نیا نہیں ہے۔ سب سے پہلے مجنوں صفت عاشقوں پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ آخر تم اس کوچہ ہی میں دن رات کیوں منڈلاتے رہتے ہو اور اس شریف گھرانے کی دیوار نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ اس سے لگے کھڑے رہتے ہو۔ تب ادھر سے جواب آیا کہ ع
زیر دیوار کھڑے ہیں ترا کیا لیتے ہیں
مگر غالبؔ نے اپنے لہجہ میں بات کر کے اس جواب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ؎
بیٹھا ہے جو کہ سایہ دیوار یار میں
فرماں روائے کشور ہندوستان ہے
لو بات کدھر نکل گئی۔ کسی شریف آدمی سے یا کسی بھلے مانسوں کی پارٹی سے یہ کہنا کچھ زیب نہیں دیتا کہ اٹھاؤ پاندان اپنا اور لمبے بنو۔ یا اپنا بستر بوریا سمیٹو اور کہیں آگے جا کر اپنی بساط بچھاؤ۔ صحیح ہے کہ ایک دن مہمان' دو دن مہمان' تیسرے دن بلائے جان۔ تو شاید ادھر تیسرا دن شروع ہو چکا ہے۔ مگر اردو میں اس مضمون کو ادا کرنے کے بہت شائستہ اور مہذب اشاراتی زبان بھی موجود ہے۔ مثلاً یوں بھی کہا جا سکتا تھا کہ ع
بس ہو چکی نماز' مصلیٰ اٹھائیے
اور یہ اشاراتی بیان اتنا مہذب اور پاکیزہ ہے کہ کم از کم علامہ طاہر القادری تو فوراً ہی سمجھ جاتے کہ اس پاکیزہ زبان میں کیا اشارہ کیا جا رہا ہے ع
اور اس پر بھی نہ سمجھے تو تو تجھ بت کو خدا سمجھے
ہاں لیجیے آج ہی ایک انگریزی اخبار میں کسی رپورٹر نے شاہراہ دستور کی گزشتہ صفائی اور موجودہ گندگی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اگر اس بیان کو اردو میں ترجمہ کر کے چھاپا جائے تو شرفا کہیں گے کہ یہ بہت مبتذل اردو ہے۔ مبتذل کی اصطلاح انگریزی زدگان کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو تو ان کی آسانی کے لیے انگریزی میں ترجمہ کیے دیتے ہیں۔ Vulgar۔
مگر اردو میں ایسے مقامات آنے پر ابتذال سے بچنے کا ایک بہت شریفانہ راستہ موجود ہے۔ فارسی اور عربی کے الفاظ اردو میں ملے جلے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہم اردو کو چھوڑ کر عربی فارسی الفاظ اور اصطلاحات کا سہارا لیتے ہیں اور ابتذال سے بچ جاتے ہیں سو اگر ایسے کسی بیان میں تعفن کا بیان کرتے ہوئے لکھنے والا بول و براز' یا 'حوائج ضروریہ' یا 'رفع حاجت' کی اصطلاحیں استعمال کرے گا تو کسی کو ابتذال کا شائبہ بھی نہیں گزرے گا۔
مگر بدقسمتی سے ہندوستان کے نو آمدہ وزیر اعظم کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ وہ تو پندرہ اگست کی صبح کو لال قلعہ کی فصیل پر کھڑے ہو کر ٹھیٹ ہندی میں تقریر کر رہے تھے اور ایسے نازک مواقع پر ٹھیٹ ہندی یا ٹھیٹ اردو میں بات کر دی جائے تو مجمع ٹھٹھا لگائے گا اور تھو تھو کرے گا۔ مگر نریندر مودی کیا کرتے۔ ہندی زبان میں ایسے موقعوں کے لیے اردو والی سہولت موجود نہیں ہے۔ نریندر مودی صاحب جب لال قلعہ کی بلند و بالا فصیل پر کھڑے ہوئے تو انھیں ہندوستان کے دیہات میں بہت گندگی نظر آئی اور انھوں نے اعلان کیا کہ میں ہندوستان کے دیہات میں ٹوالٹس (Toilets) کا جال بچھا دوں گا۔ ظاہر ہے کہ تقریر ہندی میں تھی اور ٹوائلٹ کے لیے بول چال کی ہندی میں (و نیز بول چال کی اردو) میں جو اصطلاح مستعمل ہے اسے ہی استعمال کیا ہو گا۔ سو وہ فقرہ سن کر مجمع کو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونا ہی تھا۔
اس سے مسلمان کالم نگار سعید نقوی کو کیا خوب موقعہ ملا کہ انھوں نے ایک کالم لکھ ڈالا کہ نریندر مودی جی کو قلعہ معلیٰ کی فصیل پر کھڑے ہو کر کیا خوب سوجھی کہ ہندوستان کے دیہات میں ٹوائلٹس کا جال بچھا دینے کا اعلان کر ڈالا۔ اس موقع پر انھیں ہندوستان کے سابق وزیر زراعت دیوی لال جاٹ کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب وہ چین کے دورے پر گئے اور وہاں کے وسیع و عریض کھیتوں کو دیکھا تو انھوں نے اپنے سفیر کے کان میں کچھ کہا۔ وہ غریب سفیر بہت سٹپٹایا۔ پہلے اس نے ہندی لفظ کا ترجمہ انگریزی میں کیا Shit۔ پھر اس لفظ کو زیادہ ثقہ انگریزی میں منتقل کیا۔Nitrogenous waste matter اور یوں اس مضمون کو چینیوں تک پہنچایا۔ وہ بیچارے یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے کہ ہندوستان کے وزیر زراعت کا ذہن رسا کہاں تک پہنچا ہے۔
تو دوستو' زبان و بیان میں ایسی نزاکتیں بہت ہوتی ہیں تو ایسے شرفا جو اپنی ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے عمران خان سے یہ توقع کریں کہ جلال میں آ کر نواز شریف کو جلی کٹی سناتے ہوئے زبان کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھیں یہ غلط بات ہے۔ عوامی رہنما عوام سے خطاب کرتے ہوئے عوام ہی کے لہجہ میں بات کرے تو کیا مضائقہ ہے۔
جب آزادی مارچ اور دھرنے کی سیاست نے زور پکڑا اور لاہور سے چل کر مظاہرین قطار اندر قطار اسلام آباد پہنچے اور وہاں کی فضا تقریروں' نعروں اور دھمکیوں سے گونج اٹھی تو منجملہ اور مسائل کے جو ایک مسئلہ کھڑا ہوا وہ زبان سے متعلق تھا۔ جن لوگوں نے تواتر کے ساتھ مظاہرین اور ان کے رہنماؤں کی طرف سے دھمکی آمیز اور تحقیر آمیز بیانات سنے تو انھوں نے شکایت کی کہ یہاں آ کر اردو کا معیار پست ہو گیا اور بعض رہنما وقتاً فوقتاً مبتذل زبان کی سطح پر اتر آتے ہیں۔
جب ہم سے یاروں نے کہا کہ اے زبان و بیاں کے رسیا تونے گونگے کا گڑ کیوں کھا لیا ہے۔ کچھ منہ سے پھوٹ کہ یہ زبان جو یہاں استعمال ہو رہی ہے وہ شرفا کی زبان نہیں ہے۔
تب ہم نے کہا کہ عزیز ہمارا بچاؤ اس میں ہے کہ ہم ٹی وی پر یہ مناظر اور مظاہرے دیکھتے ہی نہیں۔ ہم تو اخبار پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس لیے نجی حیثیت میں ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مگر ایک بات ضرور کہیں گے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اردو پاکستان کے عوام کی زبان نہیں ہے تو اردو کے علمبردار اس پر بہت چیں بچیں ہوتے ہیں۔ ارے اب تو تمہارے موقف کی کھلم کھلا تائید ہو رہی ہے۔
آفتاب آمد دلیل آفتاب
یہ جو مظاہرے ہو رہے ہیں' نعرے لگ رہے ہیں' دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ گالیوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور جس میں ہر صوبے کے عام لوگ شامل ہیں یہ سب کچھ کس زبان میں ہو رہا ہے۔ اگر اردو یہاں کے عوام کی زبان نہیں ہے تو یہ سارا عوامی اظہار اس زبان میں کیوں ہو رہا ہے اور میرے عزیز جب کوئی زبان عوامی سطح پر اظہار پاتی ہے تو پھر زبان کا معیار تھوڑا نیچے بھی آئے گا اور لہجہ ابتذال کا شکار ہوتا بھی نظر آئے گا۔
یہ تو ہوئی اصولی بات۔ لیکن اب جو دو تین دنوں سے اس قسم کی خبریں آ رہی ہیں کہ بہت ہو گئی۔ اپنا کباڑ اٹھاؤ اور لمبے بنو۔ بلکہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ حکم بھی جاری ہوا ہے کہ شاہراہ دستور سے کنارہ کرو۔ اور کہیں آگے جا کر پڑاؤ کرو۔ اور خاص طور پر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ارے سپریم کورٹ کی بیرونی دیوار کیا اسی لیے کھڑی کی گئی تھی کہ اس پر میلے کچیلے کپڑے دھو کر پھیلائے جائیں۔
دیکھیے ویسے تو دیوار کا مسئلہ اردو میں کچھ نیا نہیں ہے۔ سب سے پہلے مجنوں صفت عاشقوں پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ آخر تم اس کوچہ ہی میں دن رات کیوں منڈلاتے رہتے ہو اور اس شریف گھرانے کی دیوار نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ اس سے لگے کھڑے رہتے ہو۔ تب ادھر سے جواب آیا کہ ع
زیر دیوار کھڑے ہیں ترا کیا لیتے ہیں
مگر غالبؔ نے اپنے لہجہ میں بات کر کے اس جواب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ؎
بیٹھا ہے جو کہ سایہ دیوار یار میں
فرماں روائے کشور ہندوستان ہے
لو بات کدھر نکل گئی۔ کسی شریف آدمی سے یا کسی بھلے مانسوں کی پارٹی سے یہ کہنا کچھ زیب نہیں دیتا کہ اٹھاؤ پاندان اپنا اور لمبے بنو۔ یا اپنا بستر بوریا سمیٹو اور کہیں آگے جا کر اپنی بساط بچھاؤ۔ صحیح ہے کہ ایک دن مہمان' دو دن مہمان' تیسرے دن بلائے جان۔ تو شاید ادھر تیسرا دن شروع ہو چکا ہے۔ مگر اردو میں اس مضمون کو ادا کرنے کے بہت شائستہ اور مہذب اشاراتی زبان بھی موجود ہے۔ مثلاً یوں بھی کہا جا سکتا تھا کہ ع
بس ہو چکی نماز' مصلیٰ اٹھائیے
اور یہ اشاراتی بیان اتنا مہذب اور پاکیزہ ہے کہ کم از کم علامہ طاہر القادری تو فوراً ہی سمجھ جاتے کہ اس پاکیزہ زبان میں کیا اشارہ کیا جا رہا ہے ع
اور اس پر بھی نہ سمجھے تو تو تجھ بت کو خدا سمجھے
ہاں لیجیے آج ہی ایک انگریزی اخبار میں کسی رپورٹر نے شاہراہ دستور کی گزشتہ صفائی اور موجودہ گندگی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اگر اس بیان کو اردو میں ترجمہ کر کے چھاپا جائے تو شرفا کہیں گے کہ یہ بہت مبتذل اردو ہے۔ مبتذل کی اصطلاح انگریزی زدگان کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو تو ان کی آسانی کے لیے انگریزی میں ترجمہ کیے دیتے ہیں۔ Vulgar۔
مگر اردو میں ایسے مقامات آنے پر ابتذال سے بچنے کا ایک بہت شریفانہ راستہ موجود ہے۔ فارسی اور عربی کے الفاظ اردو میں ملے جلے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہم اردو کو چھوڑ کر عربی فارسی الفاظ اور اصطلاحات کا سہارا لیتے ہیں اور ابتذال سے بچ جاتے ہیں سو اگر ایسے کسی بیان میں تعفن کا بیان کرتے ہوئے لکھنے والا بول و براز' یا 'حوائج ضروریہ' یا 'رفع حاجت' کی اصطلاحیں استعمال کرے گا تو کسی کو ابتذال کا شائبہ بھی نہیں گزرے گا۔
مگر بدقسمتی سے ہندوستان کے نو آمدہ وزیر اعظم کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ وہ تو پندرہ اگست کی صبح کو لال قلعہ کی فصیل پر کھڑے ہو کر ٹھیٹ ہندی میں تقریر کر رہے تھے اور ایسے نازک مواقع پر ٹھیٹ ہندی یا ٹھیٹ اردو میں بات کر دی جائے تو مجمع ٹھٹھا لگائے گا اور تھو تھو کرے گا۔ مگر نریندر مودی کیا کرتے۔ ہندی زبان میں ایسے موقعوں کے لیے اردو والی سہولت موجود نہیں ہے۔ نریندر مودی صاحب جب لال قلعہ کی بلند و بالا فصیل پر کھڑے ہوئے تو انھیں ہندوستان کے دیہات میں بہت گندگی نظر آئی اور انھوں نے اعلان کیا کہ میں ہندوستان کے دیہات میں ٹوالٹس (Toilets) کا جال بچھا دوں گا۔ ظاہر ہے کہ تقریر ہندی میں تھی اور ٹوائلٹ کے لیے بول چال کی ہندی میں (و نیز بول چال کی اردو) میں جو اصطلاح مستعمل ہے اسے ہی استعمال کیا ہو گا۔ سو وہ فقرہ سن کر مجمع کو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونا ہی تھا۔
اس سے مسلمان کالم نگار سعید نقوی کو کیا خوب موقعہ ملا کہ انھوں نے ایک کالم لکھ ڈالا کہ نریندر مودی جی کو قلعہ معلیٰ کی فصیل پر کھڑے ہو کر کیا خوب سوجھی کہ ہندوستان کے دیہات میں ٹوائلٹس کا جال بچھا دینے کا اعلان کر ڈالا۔ اس موقع پر انھیں ہندوستان کے سابق وزیر زراعت دیوی لال جاٹ کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب وہ چین کے دورے پر گئے اور وہاں کے وسیع و عریض کھیتوں کو دیکھا تو انھوں نے اپنے سفیر کے کان میں کچھ کہا۔ وہ غریب سفیر بہت سٹپٹایا۔ پہلے اس نے ہندی لفظ کا ترجمہ انگریزی میں کیا Shit۔ پھر اس لفظ کو زیادہ ثقہ انگریزی میں منتقل کیا۔Nitrogenous waste matter اور یوں اس مضمون کو چینیوں تک پہنچایا۔ وہ بیچارے یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے کہ ہندوستان کے وزیر زراعت کا ذہن رسا کہاں تک پہنچا ہے۔
تو دوستو' زبان و بیان میں ایسی نزاکتیں بہت ہوتی ہیں تو ایسے شرفا جو اپنی ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے عمران خان سے یہ توقع کریں کہ جلال میں آ کر نواز شریف کو جلی کٹی سناتے ہوئے زبان کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھیں یہ غلط بات ہے۔ عوامی رہنما عوام سے خطاب کرتے ہوئے عوام ہی کے لہجہ میں بات کرے تو کیا مضائقہ ہے۔