جدید کمپیوٹر سے واپس پرانے ٹائپ رائٹر پر
انٹرنیٹ کے ذریعے ہوئی خط و کتابت اور زبانی گفتگو بھی ’’پرائیویٹ‘‘ نہیں رکھی جا سکتی۔...
KARACHI:
ٹیلی فون ٹیپ کرنا اب بہت آسان بات ہو گئی ہے۔ ریاستوں کی اس معاملہ پر اجارہ داری برقرار نہیں رہی۔ اسمارٹ فون کی بے شمار قسمیں آپ کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں۔ کئی امریکی شہروں میں عام دکانوں پر ایسے Scanners بھی مل جاتے ہیں جن کے ذریعے آپ گھروں میں بیٹھے ان موبائل فونوں پر ہوئی گفتگو کو بآسانی ریکارڈ کر سکتے ہیں جو آپ کی رہائش کے قرب و جوار میں نصب ٹاوروں کی وساطت سے ہو رہی ہوتی ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے ہوئی خط و کتابت اور زبانی گفتگو بھی ''پرائیویٹ'' نہیں رکھی جا سکتی۔ Hackers کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بلکہ اب کئی انتہائی ترقی یافتہ ریاستوں کے اعلیٰ حکام کو اتنا خوفزدہ کر دیا ہے کہ ان کے اعلیٰ افسران کمپیوٹر استعمال کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ پرانے زمانے کے ٹائپ رائٹروں پر اپنا مدعا لکھ کر اسے فائلوں میں لگا کر آگے پہنچاتے ہیں۔
یہ تمہید باندھنے کا اصل مقصد آپ کو محض یہ احساس دلانا ہے کہ میرے جیسا بے وقعت صحافی بھی اب خوب جان چکا ہے کہ منہ سے نکلی آوازوں کو ریکارڈ کرنے کے ہزار ہا طریقے مارکیٹ میں پہنچ کر عام شہریوں کی دسترس میں آ چکے ہیں اور نواز شریف کوئی بے وقعت صحافی نہیں ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تھے۔ 1985ء سے 1990ء تک وہ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے۔ ان دنوں تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ 1990ء سے 2008ء تک انھوں نے اقتدار کے بغیر بھی کئی سال مشکل میں گزارے ہیں۔
سیاست میں آنے سے کئی برس پہلے انھیں جدید ترین کیمرے خریدنے کا شوق لاحق ہو چکا تھا۔ کیمروں کے ساتھ ہی ساتھ انھیں میوزک کے جدید ترین ساؤنڈ سسٹم جمع کرنے کا جنون بھی ہے۔ کئی غیر ملکی صحافیوں اور عالمی شہرت یافتہ کیمرہ مینوں نے ان سے انٹرویوز کے بعد مجھے اکثر یہ ''اطلاع'' دی کہ نواز شریف کو کیمروں کے مختلف ماڈلز اور ان کی تکنیکی صلاحیتوں کا زبردست علم ہے۔ اس سارے بیک گراؤنڈ کے ہوتے ہوئے میں یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ وہ چند ''حساس'' معاملات پر سرکاری ٹیلی فونوں کے ذریعے اپنے سیاسی مشیروں یا سرکاری افسران سے ایسی Loose Talk کرتے ہوں گے جو ریکارڈ ہو جائے اور کسی وقت ان کے خلاف استعمال ہو سکے۔
ہمارے ملک میں لیکن کئی خوش بخت ایسے بھی ہیں جنھیں میری طرح خبریں اکٹھا کرنے کی مشقت کو ایک لمحے کے لیے بھی سہنا نہیں پڑا مگر وہ بہت ''باخبر'' مانے جاتے ہیں۔ ایسے ہی چند ''باخبر'' افراد ان دنوں بڑی شدت سے اصرار کر رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شدت کے دوران نواز شریف کے چند ٹیلی فون پر دیے گئے احکامات ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ اسی لیے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں اپنی تیار کردہ FIR میں ان کا نام بھی ڈالا ہے۔ ایک مرتبہ اس FIR پر ''حقیقی معنوں'' میں عمل درآمد شروع ہوا تو اس گفتگو کیDirect Conversation Transcript (DCT) تفتیش کاروں کو کہیں نہ کہیں سے فراہم کر دی جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ تو شاید مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔
نواز شریف کے ساتھ مستقبل میں کیا ہونا ہے اس سے فی الحال مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ یاد بس اتنا آ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کی ریکارڈنگ کی بدولت کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ''مہران گیٹ'' کے عنوان سے ایک زبردست اسکینڈل بنا تھا۔ اس اسکینڈل نے فوری طور پر نہ تو اس وقت کے صوبہ سرحد میں آفتاب شیر پاؤ کی حکومت کو کوئی نقصان پہنچایا اور نہ ہی مرکز میں بیٹھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کوئی خاص زک پہنچی۔ ہاں سردار فاروق خان لغاری کے یونس حبیب کے ساتھ مبینہ تعلقات کا بہت چرچا ہوا۔ اس چرچے نے بالآخر صدر لغاری کو اس شک میں مبتلا کر دیا کہ ان پر خاک اُچھالنے کا یہ ڈھونگ کسی نہ کسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایماء پر رچایا گیا تھا۔ اپنے دل میں پڑی اس گرہ کو انھوں نے بالآخر 1996ء میں محترمہ کی دوسری حکومت کو برطرف کر کے کھولا۔
چند DCTs میں نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے پاس بھی ایک فائل میں دیکھے تھے۔ کمال عنایت فرماتے ہوئے انھوں نے مجھے ان کی نقول بھی فراہم کر دی تھیں۔ ان نقول کا مگر انھیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کئی ہفتوں تک وہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر رونق ضرور لگاتے رہے۔ مگر اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کو سندھ حکومت سے جدا نہ کر پائے نہ ہی رحمن ملک کا بال بیکا کر سکے۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اپنی لگائی رونق ختم ہو جانے کے بعد اپنے بچپن کے یار اور کئی حوالوں سے ذاتی محسن آصف علی زرداری کی دوستی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔
یہ دو مثالیں میں نے صرف یہ دعویٰ کرنے کو بیان کی ہیں کہ ٹیلی فون ریکارڈ ضرور ہوتے ہیں مگر انھیں سیاست دانوں کو سبق سکھانے کے لیے ''استعمال'' نہیں کیا جاتا۔ عدالتوں میں ایسی چیزیں پیش کر دی جائیں تو وکلاء صفائی ہزار ہا دلائل دے کر اچھے بھلے کیس کو بلکہ خراب کر سکتے ہیں۔ پورا معاملہ اُلٹ بھی سکتا ہے۔ عدالتی عمل سے متعلقہ الجھنوں کے علاوہ اہم بات یہ بھی ہے کہ آپ کی باتیں ریکارڈ کرنے والے قطعی منطقی بنیادوں پر اپنی اسCapacity کو عیاں نہیں کرنا چاہتے۔ DCTs وغیرہ کے حوالے محض دباؤ بڑھانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ انھیں حقیقی معنوں میں کبھی مخالف سیاستدانوں کو سزائیں دلوانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ دُنیا بھر کی ریاستیں اپنی حریف ریاستوں کے اہم افراد کی گفتگو کو جاسوسی کے جدید ترین ذرایع کی بدولت ریکارڈ کرتی ہیں۔ امریکا اس ضمن میں دوست اور دشمن کی تمیز بھی روا نہیں رکھتا۔ پاکستان اور بھارت بھی ایک دوسرے پر اسی تناظر میں کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔
آپ میں سے نجانے کتنے لوگوں کو یاد رہا ہے کہ کارگل بحران کے دنوں میں بھارتی میڈیا نے وہ Tapes تواتر کے ساتھ دُنیا بھر کے سامنے آشکار کی تھیں جن کے ذریعے جنرل مشرف کی دورئہ چین کے دوران جنرل عزیز سے ہوئی مبینہ گفتگو کو ''بے نقاب'' کیا گیا تھا۔ ہم نے تو کبھی اس حیران کن واقعہ کو یاد نہیں رکھا۔ مگر دُنیا کے کئی صحافی مسلسل یہ جاننے میں مصروف رہے کہ چین کے ایک ہوٹل سے ہوئی ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپ بھارت تک کیسے پہنچی۔ ابھی تک کوئی ایک صحافی بھی اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا۔ صرف اس وجہ سے کہ ٹیپ کرنے کی استطاعت رکھنے والے اپنی اصل Capacity کو دُنیا کے سامنے نہیں لایا کرتے۔
ٹیلی فون ٹیپ کرنا اب بہت آسان بات ہو گئی ہے۔ ریاستوں کی اس معاملہ پر اجارہ داری برقرار نہیں رہی۔ اسمارٹ فون کی بے شمار قسمیں آپ کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں۔ کئی امریکی شہروں میں عام دکانوں پر ایسے Scanners بھی مل جاتے ہیں جن کے ذریعے آپ گھروں میں بیٹھے ان موبائل فونوں پر ہوئی گفتگو کو بآسانی ریکارڈ کر سکتے ہیں جو آپ کی رہائش کے قرب و جوار میں نصب ٹاوروں کی وساطت سے ہو رہی ہوتی ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے ہوئی خط و کتابت اور زبانی گفتگو بھی ''پرائیویٹ'' نہیں رکھی جا سکتی۔ Hackers کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بلکہ اب کئی انتہائی ترقی یافتہ ریاستوں کے اعلیٰ حکام کو اتنا خوفزدہ کر دیا ہے کہ ان کے اعلیٰ افسران کمپیوٹر استعمال کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ پرانے زمانے کے ٹائپ رائٹروں پر اپنا مدعا لکھ کر اسے فائلوں میں لگا کر آگے پہنچاتے ہیں۔
یہ تمہید باندھنے کا اصل مقصد آپ کو محض یہ احساس دلانا ہے کہ میرے جیسا بے وقعت صحافی بھی اب خوب جان چکا ہے کہ منہ سے نکلی آوازوں کو ریکارڈ کرنے کے ہزار ہا طریقے مارکیٹ میں پہنچ کر عام شہریوں کی دسترس میں آ چکے ہیں اور نواز شریف کوئی بے وقعت صحافی نہیں ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تھے۔ 1985ء سے 1990ء تک وہ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے۔ ان دنوں تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ 1990ء سے 2008ء تک انھوں نے اقتدار کے بغیر بھی کئی سال مشکل میں گزارے ہیں۔
سیاست میں آنے سے کئی برس پہلے انھیں جدید ترین کیمرے خریدنے کا شوق لاحق ہو چکا تھا۔ کیمروں کے ساتھ ہی ساتھ انھیں میوزک کے جدید ترین ساؤنڈ سسٹم جمع کرنے کا جنون بھی ہے۔ کئی غیر ملکی صحافیوں اور عالمی شہرت یافتہ کیمرہ مینوں نے ان سے انٹرویوز کے بعد مجھے اکثر یہ ''اطلاع'' دی کہ نواز شریف کو کیمروں کے مختلف ماڈلز اور ان کی تکنیکی صلاحیتوں کا زبردست علم ہے۔ اس سارے بیک گراؤنڈ کے ہوتے ہوئے میں یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ وہ چند ''حساس'' معاملات پر سرکاری ٹیلی فونوں کے ذریعے اپنے سیاسی مشیروں یا سرکاری افسران سے ایسی Loose Talk کرتے ہوں گے جو ریکارڈ ہو جائے اور کسی وقت ان کے خلاف استعمال ہو سکے۔
ہمارے ملک میں لیکن کئی خوش بخت ایسے بھی ہیں جنھیں میری طرح خبریں اکٹھا کرنے کی مشقت کو ایک لمحے کے لیے بھی سہنا نہیں پڑا مگر وہ بہت ''باخبر'' مانے جاتے ہیں۔ ایسے ہی چند ''باخبر'' افراد ان دنوں بڑی شدت سے اصرار کر رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شدت کے دوران نواز شریف کے چند ٹیلی فون پر دیے گئے احکامات ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ اسی لیے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں اپنی تیار کردہ FIR میں ان کا نام بھی ڈالا ہے۔ ایک مرتبہ اس FIR پر ''حقیقی معنوں'' میں عمل درآمد شروع ہوا تو اس گفتگو کیDirect Conversation Transcript (DCT) تفتیش کاروں کو کہیں نہ کہیں سے فراہم کر دی جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ تو شاید مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔
نواز شریف کے ساتھ مستقبل میں کیا ہونا ہے اس سے فی الحال مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ یاد بس اتنا آ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کی ریکارڈنگ کی بدولت کسی ایک شخص کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ''مہران گیٹ'' کے عنوان سے ایک زبردست اسکینڈل بنا تھا۔ اس اسکینڈل نے فوری طور پر نہ تو اس وقت کے صوبہ سرحد میں آفتاب شیر پاؤ کی حکومت کو کوئی نقصان پہنچایا اور نہ ہی مرکز میں بیٹھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کوئی خاص زک پہنچی۔ ہاں سردار فاروق خان لغاری کے یونس حبیب کے ساتھ مبینہ تعلقات کا بہت چرچا ہوا۔ اس چرچے نے بالآخر صدر لغاری کو اس شک میں مبتلا کر دیا کہ ان پر خاک اُچھالنے کا یہ ڈھونگ کسی نہ کسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایماء پر رچایا گیا تھا۔ اپنے دل میں پڑی اس گرہ کو انھوں نے بالآخر 1996ء میں محترمہ کی دوسری حکومت کو برطرف کر کے کھولا۔
چند DCTs میں نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے پاس بھی ایک فائل میں دیکھے تھے۔ کمال عنایت فرماتے ہوئے انھوں نے مجھے ان کی نقول بھی فراہم کر دی تھیں۔ ان نقول کا مگر انھیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کئی ہفتوں تک وہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر رونق ضرور لگاتے رہے۔ مگر اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کو سندھ حکومت سے جدا نہ کر پائے نہ ہی رحمن ملک کا بال بیکا کر سکے۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اپنی لگائی رونق ختم ہو جانے کے بعد اپنے بچپن کے یار اور کئی حوالوں سے ذاتی محسن آصف علی زرداری کی دوستی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔
یہ دو مثالیں میں نے صرف یہ دعویٰ کرنے کو بیان کی ہیں کہ ٹیلی فون ریکارڈ ضرور ہوتے ہیں مگر انھیں سیاست دانوں کو سبق سکھانے کے لیے ''استعمال'' نہیں کیا جاتا۔ عدالتوں میں ایسی چیزیں پیش کر دی جائیں تو وکلاء صفائی ہزار ہا دلائل دے کر اچھے بھلے کیس کو بلکہ خراب کر سکتے ہیں۔ پورا معاملہ اُلٹ بھی سکتا ہے۔ عدالتی عمل سے متعلقہ الجھنوں کے علاوہ اہم بات یہ بھی ہے کہ آپ کی باتیں ریکارڈ کرنے والے قطعی منطقی بنیادوں پر اپنی اسCapacity کو عیاں نہیں کرنا چاہتے۔ DCTs وغیرہ کے حوالے محض دباؤ بڑھانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ انھیں حقیقی معنوں میں کبھی مخالف سیاستدانوں کو سزائیں دلوانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ دُنیا بھر کی ریاستیں اپنی حریف ریاستوں کے اہم افراد کی گفتگو کو جاسوسی کے جدید ترین ذرایع کی بدولت ریکارڈ کرتی ہیں۔ امریکا اس ضمن میں دوست اور دشمن کی تمیز بھی روا نہیں رکھتا۔ پاکستان اور بھارت بھی ایک دوسرے پر اسی تناظر میں کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔
آپ میں سے نجانے کتنے لوگوں کو یاد رہا ہے کہ کارگل بحران کے دنوں میں بھارتی میڈیا نے وہ Tapes تواتر کے ساتھ دُنیا بھر کے سامنے آشکار کی تھیں جن کے ذریعے جنرل مشرف کی دورئہ چین کے دوران جنرل عزیز سے ہوئی مبینہ گفتگو کو ''بے نقاب'' کیا گیا تھا۔ ہم نے تو کبھی اس حیران کن واقعہ کو یاد نہیں رکھا۔ مگر دُنیا کے کئی صحافی مسلسل یہ جاننے میں مصروف رہے کہ چین کے ایک ہوٹل سے ہوئی ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپ بھارت تک کیسے پہنچی۔ ابھی تک کوئی ایک صحافی بھی اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا۔ صرف اس وجہ سے کہ ٹیپ کرنے کی استطاعت رکھنے والے اپنی اصل Capacity کو دُنیا کے سامنے نہیں لایا کرتے۔