انقلاب اور رد انقلاب
1998 اور 2008 کے عالمی سرمایہ داری کا انہدام سوویت یونین کے انہدام سے بڑے واقعے ہیں۔...
انقلاب نظام کو یکسر بدل دیتا ہے، جیسا کہ غلامی سے جاگیرداری، جاگیرداری سے سرمایہ داری اور سرمایہ داری سے اشتمالی یا امداد باہمی کا سماج۔ معلوم تاریخ میں غلامی اور جاگیرداری کے خلاف انقلابات برپا ہوئے اور عالمی سرمایہ داری ہم پر مسلط ہے۔ سرمایہ داری کے عروج کی دہائیاں 1970 میں ختم ہوگئیں، اب مسلسل زوال کی جانب رواں دواں ہے۔
1998 اور 2008 کے عالمی سرمایہ داری کا انہدام سوویت یونین کے انہدام سے بڑے واقعے ہیں۔ 1997 میں وال اسٹریٹ سے لے کر ہانگ کانگ تک اور پھر 2008 میں یورپ سے جاپان تک انہدام کی لپیٹ میں آیا۔ جنت نظیر آئس لینڈ اور آئرلینڈ دیوالیہ ہوا۔ یونان، پرتگال، اٹلی اور اسپین دیوالیہ کی جانب گامزن ہے۔ 2014 کے مطابق جاپان کی شرح نمو 1.7 فیصد، امریکا 4 فیصد اور جرمنی میں 1.8 کی گراوٹ آئی۔
ان سامراجی ملکوں کو بریکس (برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ) سے سہارا ملنے کی امید تھی، ان کی معیشت بھی انحطاط پذیری کی شکار ہوچکی ہے۔ 2013 میں برازیل کی شرح نمو 2.3 فیصد، روس کی 1.3 فیصد، انڈیا 3.7 فیصد، 2014 کے مطابق چین کی شرح نمو 7.4 فیصد اور 2012 کے مطابق جنوبی افریقہ کی شرح نمو 2.6 فیصد ہوگئی ہے۔ اس سنگینی نے عالمی سرمایہ داری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب وہ عوام کو دی گئی رعایتیں واپس لے کر ان پر ٹیکس مسلط کرکے اس نظام کو چلانے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔
جس کے نتیجے میں دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں 5.5 ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ عمل سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ ناگزیر نتیجہ ہے۔ جب کروڑ پتی ارب پتی اور ارب پتی کھرب پتی بنیں گے تو دوسری جانب عوام کی افلاس زدہ فوج جنم لے گی۔ چونکہ یہ نظام اب سرمایہ داروں سے چلائے نہیں چلایا جارہا ہے، اس لیے وہ آپس میں ہی الجھتے جارہے ہیں۔ ایک جانب 85 ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں تو دوسری جانب ہر روز 75 ہزار انسان اس دنیا میں بھوک سے مر رہے ہیں۔
ان بدترین عالمی حالات کی روشنی میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ بیشتر اداروں میں اربوں روپے کا گھپلا ہوتا ہے اور ان کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، بہت سے لوگوں پر خورد برد کے الزام کے مقدمے بھی چل رہے ہیں جب کہ قلیل رقوم کی واپسی بھی ہوئی ہے۔ اربوں ڈالر بیرون ملک خفیہ طور پر منتقل ہوئے جو کہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ اور امریکا کے بینکوں میں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کروڑوں روپے خرچ کیے بغیر اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ان برائیوں کو دور یا ختم کرنا اب ممکن نہیں۔
امریکا میں 3 کروڑ، جاپان میں 65 لاکھ اور جرمنی میں 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ اصلاحات کے ذریعے جب امریکا، جاپان اور جرمنی عوام کی بھلائی کرنے سے لاچار ہیں تو پھر اس نظام میں رہتے ہوئے پاکستان میں کیسے ممکن ہے؟ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو یہ کوئی نظام نہیں ہے، یہ صرف اکثریت رائے سے منتخب کرنے اور مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے اظہار خیال کرنے کا نام ہے۔
جہاں تک آئین اور قانون کی بات ہے تو اس پر 16 ویں صدی کے ذہین دانشور، شاعر اور فلسفی سولونو نے کہا تھا کہ 'قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے'۔ بھلا 8 ہزار تنخواہ لینے والا مزدور یا کسان لاکھوں روپے وکیل کو فیس دے کر کیونکر عدالت جاسکتا ہے۔
میڈیا پر بھی دولت مند ہی کو بلایا جاتا ہے، کھاتے پیتے خوشحال لوگ ہی میڈیا پر آکر تجزیہ کرتے ہیں، جن کا محنت کش طبقے یعنی عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں، وہ بسوں میں لٹک کر سفر کرتے ہیں اور نہ مل فیکٹری میں 10 گھنٹے کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔
جب طاہرالقادری اور عمران خان انقلاب اور آزادی کی بات کرتے ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اسی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات چاہتے ہیں، ان کا انقلاب شکلوں کی تبدیلی کا انقلاب ہے، ان کی آزادی سرمایہ کے بٹورنے کی آزادی ہے اور تجارتی لوٹ مار کی آزادی ہے۔
ہاں مگر بھوکے مرنے کی بھی آزادی ہے، خودکشی کرنے کی آزادی ہے، گداگری کی بھی آزادی ہے، بے روزگاری کی بھی آزادی ہے اور افلاس کی بھی۔ جب بھی کوئی حزب اختلاف میں ہوتا ہے تو اسے آزادی اور انقلاب کے نعرے یاد آتے ہیں۔ آج کے حاکم بھی حزب اختلاف میں رہتے ہوئے انقلاب کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ درحقیقت ریاستوں کے قیام کی وجہ سے اس کی سرحدوں پہ فوج اور گولہ بارود جمع کیا جاتا ہے۔ زمین کے لیے اور چیزوں کے لیے، ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی فوج سے لڑتی ہیں۔
معروف فلسفی میخائل باکونن کہتا ہے کہ ''انسانوں کے مابین کبھی کوئی تنازع یا جھگڑا نہیں رہا، صرف چیزوں پر لڑائی ہوتی ہے''۔ جب دنیا میں سرحدیں نہیں تھیں تو ساری دولت کے مالک سارے لوگ تھے، جب ریاست تشکیل پائی تو طبقات نے جنم لیا اور سرحدی محافظ، سرمایہ دار، جاگیردار اور دوسری جانب بھوکے ننگے مزدور، کسان اور افلاس زدہ شہری۔ اب یہ سرمایہ دارانہ نظام سڑ گل چکا ہے، اس سے تعفن اٹھنے لگا ہے، اس لیے اسے دفن کرنا ہے اور اس کا متبادل نسل انسانی کا ایک ایسا ہموار معاشرہ قائم کرنا ہے ۔
جہاں سب لوگ یکساں غذا، رہائش، تعلیم اور صحت کی سہولت حاصل کریں۔ آسٹریلیا اور کینیڈا کی کتنی قلیل آبادی ہے اور وسائل بے شمار، جب کہ چین اور ہندوستان کی آبادی زیادہ ہے، یہاں سے لوگوں کو کینیڈا اور آسٹریلیا منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اگر دولت اور وسائل کو سب کے لیے مختص کردیا جائے تو یہ طبقاتی تقسیم ختم ہوسکتی ہے۔ خودکار انجمنوں اور عبوری عوامی کمیٹیوں کے ذریعے یہ سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، انقلاب روس، انقلاب چین اور انقلاب اسپین ان کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
اس قسم کے نظام ہمارے پاکستان میں بھی موجود تھے۔ ٹیکسلا، ہڑپہ، نال اور موئنجوداڑو کی تہذیبیں اور معاشرہ امداد باہمی یعنی اشتمالی نظام پر مشتمل تھے، جو کہ کمیون کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔ سندھ میں صرف 3 سو سال قبل صوفی عنایت اﷲ نے بھی ایسا ہی نظام جھوک میں قائم کرکے ثابت کردیا تھا۔ اور یہ کام انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ محنت کشوں اور استحصال زدہ عوام کے انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
1998 اور 2008 کے عالمی سرمایہ داری کا انہدام سوویت یونین کے انہدام سے بڑے واقعے ہیں۔ 1997 میں وال اسٹریٹ سے لے کر ہانگ کانگ تک اور پھر 2008 میں یورپ سے جاپان تک انہدام کی لپیٹ میں آیا۔ جنت نظیر آئس لینڈ اور آئرلینڈ دیوالیہ ہوا۔ یونان، پرتگال، اٹلی اور اسپین دیوالیہ کی جانب گامزن ہے۔ 2014 کے مطابق جاپان کی شرح نمو 1.7 فیصد، امریکا 4 فیصد اور جرمنی میں 1.8 کی گراوٹ آئی۔
ان سامراجی ملکوں کو بریکس (برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ) سے سہارا ملنے کی امید تھی، ان کی معیشت بھی انحطاط پذیری کی شکار ہوچکی ہے۔ 2013 میں برازیل کی شرح نمو 2.3 فیصد، روس کی 1.3 فیصد، انڈیا 3.7 فیصد، 2014 کے مطابق چین کی شرح نمو 7.4 فیصد اور 2012 کے مطابق جنوبی افریقہ کی شرح نمو 2.6 فیصد ہوگئی ہے۔ اس سنگینی نے عالمی سرمایہ داری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب وہ عوام کو دی گئی رعایتیں واپس لے کر ان پر ٹیکس مسلط کرکے اس نظام کو چلانے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔
جس کے نتیجے میں دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں 5.5 ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ عمل سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ ناگزیر نتیجہ ہے۔ جب کروڑ پتی ارب پتی اور ارب پتی کھرب پتی بنیں گے تو دوسری جانب عوام کی افلاس زدہ فوج جنم لے گی۔ چونکہ یہ نظام اب سرمایہ داروں سے چلائے نہیں چلایا جارہا ہے، اس لیے وہ آپس میں ہی الجھتے جارہے ہیں۔ ایک جانب 85 ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں تو دوسری جانب ہر روز 75 ہزار انسان اس دنیا میں بھوک سے مر رہے ہیں۔
ان بدترین عالمی حالات کی روشنی میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ بیشتر اداروں میں اربوں روپے کا گھپلا ہوتا ہے اور ان کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، بہت سے لوگوں پر خورد برد کے الزام کے مقدمے بھی چل رہے ہیں جب کہ قلیل رقوم کی واپسی بھی ہوئی ہے۔ اربوں ڈالر بیرون ملک خفیہ طور پر منتقل ہوئے جو کہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ اور امریکا کے بینکوں میں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کروڑوں روپے خرچ کیے بغیر اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ان برائیوں کو دور یا ختم کرنا اب ممکن نہیں۔
امریکا میں 3 کروڑ، جاپان میں 65 لاکھ اور جرمنی میں 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ اصلاحات کے ذریعے جب امریکا، جاپان اور جرمنی عوام کی بھلائی کرنے سے لاچار ہیں تو پھر اس نظام میں رہتے ہوئے پاکستان میں کیسے ممکن ہے؟ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو یہ کوئی نظام نہیں ہے، یہ صرف اکثریت رائے سے منتخب کرنے اور مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے اظہار خیال کرنے کا نام ہے۔
جہاں تک آئین اور قانون کی بات ہے تو اس پر 16 ویں صدی کے ذہین دانشور، شاعر اور فلسفی سولونو نے کہا تھا کہ 'قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے'۔ بھلا 8 ہزار تنخواہ لینے والا مزدور یا کسان لاکھوں روپے وکیل کو فیس دے کر کیونکر عدالت جاسکتا ہے۔
میڈیا پر بھی دولت مند ہی کو بلایا جاتا ہے، کھاتے پیتے خوشحال لوگ ہی میڈیا پر آکر تجزیہ کرتے ہیں، جن کا محنت کش طبقے یعنی عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں، وہ بسوں میں لٹک کر سفر کرتے ہیں اور نہ مل فیکٹری میں 10 گھنٹے کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔
جب طاہرالقادری اور عمران خان انقلاب اور آزادی کی بات کرتے ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اسی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات چاہتے ہیں، ان کا انقلاب شکلوں کی تبدیلی کا انقلاب ہے، ان کی آزادی سرمایہ کے بٹورنے کی آزادی ہے اور تجارتی لوٹ مار کی آزادی ہے۔
ہاں مگر بھوکے مرنے کی بھی آزادی ہے، خودکشی کرنے کی آزادی ہے، گداگری کی بھی آزادی ہے، بے روزگاری کی بھی آزادی ہے اور افلاس کی بھی۔ جب بھی کوئی حزب اختلاف میں ہوتا ہے تو اسے آزادی اور انقلاب کے نعرے یاد آتے ہیں۔ آج کے حاکم بھی حزب اختلاف میں رہتے ہوئے انقلاب کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ درحقیقت ریاستوں کے قیام کی وجہ سے اس کی سرحدوں پہ فوج اور گولہ بارود جمع کیا جاتا ہے۔ زمین کے لیے اور چیزوں کے لیے، ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی فوج سے لڑتی ہیں۔
معروف فلسفی میخائل باکونن کہتا ہے کہ ''انسانوں کے مابین کبھی کوئی تنازع یا جھگڑا نہیں رہا، صرف چیزوں پر لڑائی ہوتی ہے''۔ جب دنیا میں سرحدیں نہیں تھیں تو ساری دولت کے مالک سارے لوگ تھے، جب ریاست تشکیل پائی تو طبقات نے جنم لیا اور سرحدی محافظ، سرمایہ دار، جاگیردار اور دوسری جانب بھوکے ننگے مزدور، کسان اور افلاس زدہ شہری۔ اب یہ سرمایہ دارانہ نظام سڑ گل چکا ہے، اس سے تعفن اٹھنے لگا ہے، اس لیے اسے دفن کرنا ہے اور اس کا متبادل نسل انسانی کا ایک ایسا ہموار معاشرہ قائم کرنا ہے ۔
جہاں سب لوگ یکساں غذا، رہائش، تعلیم اور صحت کی سہولت حاصل کریں۔ آسٹریلیا اور کینیڈا کی کتنی قلیل آبادی ہے اور وسائل بے شمار، جب کہ چین اور ہندوستان کی آبادی زیادہ ہے، یہاں سے لوگوں کو کینیڈا اور آسٹریلیا منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اگر دولت اور وسائل کو سب کے لیے مختص کردیا جائے تو یہ طبقاتی تقسیم ختم ہوسکتی ہے۔ خودکار انجمنوں اور عبوری عوامی کمیٹیوں کے ذریعے یہ سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، انقلاب روس، انقلاب چین اور انقلاب اسپین ان کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
اس قسم کے نظام ہمارے پاکستان میں بھی موجود تھے۔ ٹیکسلا، ہڑپہ، نال اور موئنجوداڑو کی تہذیبیں اور معاشرہ امداد باہمی یعنی اشتمالی نظام پر مشتمل تھے، جو کہ کمیون کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔ سندھ میں صرف 3 سو سال قبل صوفی عنایت اﷲ نے بھی ایسا ہی نظام جھوک میں قائم کرکے ثابت کردیا تھا۔ اور یہ کام انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ محنت کشوں اور استحصال زدہ عوام کے انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔