مسائل کی جڑ‘ جاگیردارانہ نظام
دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے کسی نہ کسی عمر یا مدت ملازمت کے مکمل ہونے پر...
کہا جاتا ہے کہ اقتدار کا اپنا ہی اک نشہ ہوتا ہے،اقتدار اور سیاست دراصل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں لہٰذا سیاست کا نشہ بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بلکہ یہ شاید اسی صورتحال کے لیے کہا گیا ہے کہ ''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی'' سیاست و اقتدار کے نشے سے مخمور اپنے انجام کو پہنچنے والوں کی مثالیں دنیا بھر میں کئی مل جائیں گی۔
مثلاً ایران، عراق، لیبیا اور مصر وغیرہ مگر ہمارے برصغیر میں موجود تین ممالک میں اقتدار سے وابستہ تین خاندان اقتداری شہادت سے دوچار ہوچکے ہیں، بھارت میں نہرو خاندان بنگلہ دیش میں مجیب الرحمن کا خاندان اور پاکستان میں بھٹو خاندان۔ مگر آج بھی ان خانوادوں کے بچے کچھے لوگ حصول اقتدار کی تگ و دو میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔ اگر حکومت میں نہیں تو اپوزیشن میں رہ کر بھی اپنے نشے سے باہر آنے کو تیار نہیں، بھارت میں سونیا اور راہول گاندھی بنگلہ دیش میں حسینہ واجد اور پاکستان میں بلاول سیاسی منظر نامے کا آج بھی حصہ ہیں، رہ گیا شریف خاندان تو وہ پورا کا پورا ہی فی الحال مسند اقتدار پر براجمان ہے۔
بلاول بھٹو طفل مکتب ہونے کے باعث پارٹی کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکے۔ البتہ اب رفتہ رفتہ وہ ادھر کچھ مائل ہوئے ہیں اور ٹوئیٹر پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ یہ سارا ذکر خیر تو ان لوگوں کا ہے جو اقتدار سے براہ راست منسلک رہے ہیں۔ مگر حصول اقتدار میں اصل امیدواروں کے علاوہ بھی کئی کردار بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی ساری زندگی سیاسی بازی گری یعنی بادشاہ گری میں بسر کرتے ہیں۔
صلے میں انھیں کبھی گورنری، وزارت یا حکمرانوں کے مشیر ہونے کا موقع مل جاتا ہے یہ تمام عہدے بظاہر ہوتے ہیں ،اصل میں حکمران یہی ہوتے ہیں کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ ان ہی کے مشوروں اور اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان سیاست دانوں کی ایک مشترکہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ہر چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ہر طلوع ہونے والا آفتاب کبھی نہ کبھی غروب بھی ہوتا ہے مگر قانون فطرت ہے کہ اگلے دن کوئی سورج پھر طلوع ہوتا ہے اور یہ پھر اس کے سامنے دست ادب باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، اہل دانش، قلمکار ان کو تھالی کا بینگن یا لوٹا سیاستدان کے پیار بھرے القابات سے یاد کرتے ہیں۔
اب چاہے ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہو یا آفتاب آمریت یہ لوگ ہر حال میں مطلع سیاست پر موجود رہتے ہیں۔ حزب اقتدار میں یا حزب اختلاف (اپوزیشن) میں مگر کمال ان کا یہ ہوتا ہے کہ تمام سیاسی حلقوں میں بے حد معتبر مانے جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہیں موقع ملتے ہی ان کی پشت میں خنجر گھونپ دیتے ہیں اورکسی کوکانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ قاتل کون ہے اور جن کے مخالف ہیں ان کا تو جینا ہی محال کردیتے ہیں لیکن کچھ فائدہ نظر آئے تو پھر ان کو ہی اپنا مائی باپ بنانے سے ذرا بھی نہ چوکیں۔ لیکن بات بنتی نظر نہ آئے تو اپنے مخالف کو بد سے بدتر صورتحال تک پہنچاکر دم لیتے ہیں اور خود ہاتھ جھاڑ کر ازسر نو بزرگ، تجربہ کار اور معتبر سیاستدانوں کی فہرست میں سرفہرست رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے کسی نہ کسی عمر یا مدت ملازمت کے مکمل ہونے پر ریٹائر ہوجاتے ہیں مگر کسی سیاستدان کو کبھی ریٹائر ہوتے ہم نے تو سنا نہ دیکھا۔ بس ایک بار میدان سیاست میں قدم رکھ دیا تو اب واپسی کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں مگر یہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔
سیاسی موجودہ صورتحال میں جو دو دن میں میدان مارنے کے ارادے سے نکلے تھے اب ماشا اللہ تیرہ چودہ دن (تادم تحریر) سے ملک میں انصاف اور انقلاب لانے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں (کئی حتمی لمحات آکر گزر چکے ہیں) بلکہ اب تو جام شہادت نوش فرمانے پر یا حکمرانوں کو پلانے پر بھی آمادہ ہیں تو اس صورتحال پر ہمارے کئی چینلز، اینکر پرسنز اور اخباری کالم نگار اپنی اپنی صائب رائے اور بحران حل کرنے کے لیے نت نئے فارمولے پیش کر رہے ہیں۔ اپنی تجاویز کی ایک مختصر اور بے ضرر سی فہرست مرتب کی ہے ۔
لہٰذا گزارش ہے کہ ہماری تجاویز پر صدق دل سے غور فرمائیں یہ الگ بات ہے کہ کالم کی اشاعت تک صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے اور ہماری تجاویز دھری کی دھری رہ جائیں مگر امید پہ دنیا قائم ہے اس لیے اپنی عظیم الشان تجاویز پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں شاید کبھی کسی کے کام آجائیں۔ تو جناب ہماری پہلی تجویز یہ ہے کہ ایسے تمام گھاگ اور سدا بہار سیاستدانوں کو تاحیات سیاست میں حصہ لینے سے روکا جائے۔
(یہ پہلی صف کے قائدین کے لیے ہے) دوسری سطح کے سیاستدانوں پر ہوا کا رخ دیکھ کر پرانی پارٹیاں چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے پر بھی قدغن لگائی جائے۔دوسری تجویز یہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار پارٹی ٹکٹ خریدنے پر نااہل قرار دیا جائے یعنی پارٹی ٹکٹ بلامعاوضہ صرف اہلیت اور سماجی خدمت کی بنیاد پر دیے جائیں تاکہ وہ لوگ آگے آسکیں جو انتخابات پر کروڑوں خرچ نہیں کرسکتے۔ مگر ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں کا خاندانی قبضہ ختم کرایا جاسکتا ہے۔
تیسری تجویز یہ کہ ایسا کوئی شخص انتخابات میں حصہ لینے کا مجاز نہ ہوگا جس کا کوئی قریبی رشتے دار، عزیز گزشتہ کئی بار اسمبلی (قومی و صوبائی) کا رکن رہا ہو۔ چوتھی تجویز ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ، ہنرمند باصلاحیت افراد کو عوامی نمایندگی کا اہل (بطور خاص) قرار دیا جائے تاکہ وہ ملک کے 98 فیصد افراد کے حقیقی مسائل سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ ان کے حل کو اولین ترجیح دیں۔
اہل اور حقیقی عوامی نمایندوں کو تمام لسانی، صوبائی، سیاسی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر آگے بڑھانے کا جذبہ اگر ایک بار عوام میں بیدار ہوجائے تو آیندہ ایک حقیقی عوامی حکومت تشکیل دیے جانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ آج تک ہونے والے انتخابات پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں ان سب کا خاتمہ ان تجاویز پر عمل کرنے سے بڑی حد تک ممکن ہے۔ کیونکہ ملک کا اصل مسئلہ تعلیم یافتہ باصلاحیت افراد کی حوصلہ شکنی اور جاگیردارانہ نظام اور اس کے پورے معاشرے پر اثرات ہیں۔ اب تک کوئی بھی اس نظام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آرہا مگر سب ہر صورت بہتری چاہتے ہیں
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
مثلاً ایران، عراق، لیبیا اور مصر وغیرہ مگر ہمارے برصغیر میں موجود تین ممالک میں اقتدار سے وابستہ تین خاندان اقتداری شہادت سے دوچار ہوچکے ہیں، بھارت میں نہرو خاندان بنگلہ دیش میں مجیب الرحمن کا خاندان اور پاکستان میں بھٹو خاندان۔ مگر آج بھی ان خانوادوں کے بچے کچھے لوگ حصول اقتدار کی تگ و دو میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔ اگر حکومت میں نہیں تو اپوزیشن میں رہ کر بھی اپنے نشے سے باہر آنے کو تیار نہیں، بھارت میں سونیا اور راہول گاندھی بنگلہ دیش میں حسینہ واجد اور پاکستان میں بلاول سیاسی منظر نامے کا آج بھی حصہ ہیں، رہ گیا شریف خاندان تو وہ پورا کا پورا ہی فی الحال مسند اقتدار پر براجمان ہے۔
بلاول بھٹو طفل مکتب ہونے کے باعث پارٹی کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکے۔ البتہ اب رفتہ رفتہ وہ ادھر کچھ مائل ہوئے ہیں اور ٹوئیٹر پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ یہ سارا ذکر خیر تو ان لوگوں کا ہے جو اقتدار سے براہ راست منسلک رہے ہیں۔ مگر حصول اقتدار میں اصل امیدواروں کے علاوہ بھی کئی کردار بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی ساری زندگی سیاسی بازی گری یعنی بادشاہ گری میں بسر کرتے ہیں۔
صلے میں انھیں کبھی گورنری، وزارت یا حکمرانوں کے مشیر ہونے کا موقع مل جاتا ہے یہ تمام عہدے بظاہر ہوتے ہیں ،اصل میں حکمران یہی ہوتے ہیں کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ ان ہی کے مشوروں اور اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان سیاست دانوں کی ایک مشترکہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ہر چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ہر طلوع ہونے والا آفتاب کبھی نہ کبھی غروب بھی ہوتا ہے مگر قانون فطرت ہے کہ اگلے دن کوئی سورج پھر طلوع ہوتا ہے اور یہ پھر اس کے سامنے دست ادب باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، اہل دانش، قلمکار ان کو تھالی کا بینگن یا لوٹا سیاستدان کے پیار بھرے القابات سے یاد کرتے ہیں۔
اب چاہے ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہو یا آفتاب آمریت یہ لوگ ہر حال میں مطلع سیاست پر موجود رہتے ہیں۔ حزب اقتدار میں یا حزب اختلاف (اپوزیشن) میں مگر کمال ان کا یہ ہوتا ہے کہ تمام سیاسی حلقوں میں بے حد معتبر مانے جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہیں موقع ملتے ہی ان کی پشت میں خنجر گھونپ دیتے ہیں اورکسی کوکانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ قاتل کون ہے اور جن کے مخالف ہیں ان کا تو جینا ہی محال کردیتے ہیں لیکن کچھ فائدہ نظر آئے تو پھر ان کو ہی اپنا مائی باپ بنانے سے ذرا بھی نہ چوکیں۔ لیکن بات بنتی نظر نہ آئے تو اپنے مخالف کو بد سے بدتر صورتحال تک پہنچاکر دم لیتے ہیں اور خود ہاتھ جھاڑ کر ازسر نو بزرگ، تجربہ کار اور معتبر سیاستدانوں کی فہرست میں سرفہرست رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے کسی نہ کسی عمر یا مدت ملازمت کے مکمل ہونے پر ریٹائر ہوجاتے ہیں مگر کسی سیاستدان کو کبھی ریٹائر ہوتے ہم نے تو سنا نہ دیکھا۔ بس ایک بار میدان سیاست میں قدم رکھ دیا تو اب واپسی کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں مگر یہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔
سیاسی موجودہ صورتحال میں جو دو دن میں میدان مارنے کے ارادے سے نکلے تھے اب ماشا اللہ تیرہ چودہ دن (تادم تحریر) سے ملک میں انصاف اور انقلاب لانے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں (کئی حتمی لمحات آکر گزر چکے ہیں) بلکہ اب تو جام شہادت نوش فرمانے پر یا حکمرانوں کو پلانے پر بھی آمادہ ہیں تو اس صورتحال پر ہمارے کئی چینلز، اینکر پرسنز اور اخباری کالم نگار اپنی اپنی صائب رائے اور بحران حل کرنے کے لیے نت نئے فارمولے پیش کر رہے ہیں۔ اپنی تجاویز کی ایک مختصر اور بے ضرر سی فہرست مرتب کی ہے ۔
لہٰذا گزارش ہے کہ ہماری تجاویز پر صدق دل سے غور فرمائیں یہ الگ بات ہے کہ کالم کی اشاعت تک صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے اور ہماری تجاویز دھری کی دھری رہ جائیں مگر امید پہ دنیا قائم ہے اس لیے اپنی عظیم الشان تجاویز پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں شاید کبھی کسی کے کام آجائیں۔ تو جناب ہماری پہلی تجویز یہ ہے کہ ایسے تمام گھاگ اور سدا بہار سیاستدانوں کو تاحیات سیاست میں حصہ لینے سے روکا جائے۔
(یہ پہلی صف کے قائدین کے لیے ہے) دوسری سطح کے سیاستدانوں پر ہوا کا رخ دیکھ کر پرانی پارٹیاں چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے پر بھی قدغن لگائی جائے۔دوسری تجویز یہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار پارٹی ٹکٹ خریدنے پر نااہل قرار دیا جائے یعنی پارٹی ٹکٹ بلامعاوضہ صرف اہلیت اور سماجی خدمت کی بنیاد پر دیے جائیں تاکہ وہ لوگ آگے آسکیں جو انتخابات پر کروڑوں خرچ نہیں کرسکتے۔ مگر ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں کا خاندانی قبضہ ختم کرایا جاسکتا ہے۔
تیسری تجویز یہ کہ ایسا کوئی شخص انتخابات میں حصہ لینے کا مجاز نہ ہوگا جس کا کوئی قریبی رشتے دار، عزیز گزشتہ کئی بار اسمبلی (قومی و صوبائی) کا رکن رہا ہو۔ چوتھی تجویز ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ، ہنرمند باصلاحیت افراد کو عوامی نمایندگی کا اہل (بطور خاص) قرار دیا جائے تاکہ وہ ملک کے 98 فیصد افراد کے حقیقی مسائل سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ ان کے حل کو اولین ترجیح دیں۔
اہل اور حقیقی عوامی نمایندوں کو تمام لسانی، صوبائی، سیاسی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر آگے بڑھانے کا جذبہ اگر ایک بار عوام میں بیدار ہوجائے تو آیندہ ایک حقیقی عوامی حکومت تشکیل دیے جانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ آج تک ہونے والے انتخابات پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں ان سب کا خاتمہ ان تجاویز پر عمل کرنے سے بڑی حد تک ممکن ہے۔ کیونکہ ملک کا اصل مسئلہ تعلیم یافتہ باصلاحیت افراد کی حوصلہ شکنی اور جاگیردارانہ نظام اور اس کے پورے معاشرے پر اثرات ہیں۔ اب تک کوئی بھی اس نظام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آرہا مگر سب ہر صورت بہتری چاہتے ہیں
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں