فلسطین مزاحمت کی بے نظیر مثال
فلسطین مزاحمت یا پھر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل، اسی طرح حکمرانوں اور طاقتور افراد سے بھی گذارش ہے کہ عالمی فورمز۔۔۔۔
FAISALABAD:
سرزمین انبیاء علیہم السلام ''فلسطین'' کی غزہ پٹی پر آج جو کچھ ہو رہاہے اس بارے میں صرف غزہ کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح غزہ پر صیہونی دشمن بھاری گولہ بارود، گن شپ ہیلی کاپٹروں، توپوں اور جدید ترین اسلحہ سے حملہ آور ہے، یہ سب ایسے مظالم ہیں کہ شاید ہمارے خواب اور خیال سے بھی آگے ہیں۔
فلسطین میں ایک طرف ظلم اور بربریت اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ہے لیکن سلام ہو اس ملت عظیم فلسطین پر کہ جس نے غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ فخر سے سر کو بلند کر کے اپنا سر کٹوانا تو پسند کیا ہے لیکن غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے جھکایا نہیں۔آج مغربی کنارے اور غزہ میں موجود الفتح اور فلسطینی اتھارٹی کے پولیس اہلکار شرمسار ہو رہے ہیں اور اپنے گھروں کو لوٹ کر جانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف جہاں غاصب اسرائیلی دشمن نے فلسطینیوں پر ظلم کی حدیں پار کی ہیں وہاں یہ نام نہاد فلسطینی اتھارٹی اور اس کے پولیس اہلکار بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
غزہ پر ہونے والے حملے کے پہلے روز ہی ان پولیس والوں نے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے 34اراکین پارلیمنٹ کو گرفتار کرکے غاصب اسرائیل کے حوالے کر دیا،آج یہ سب کے سب شرمندہ ہیں کیونکہ پورا فلسطین مزاحمت کر رہا ہے اور اپنا دفاع کر رہا ہے، یہ سوچ رہے ہیں کہ اب اپنے گھر والوں کو پلٹ کر کیا منہ دکھائیں گے؟ کیونکہ فلسطینی باغیرت، شجاعت اور دلیر ملت نے دنیا بھر کے جابروں اور سامراجی قوتوں کے سامنے اپنا اٹل فیصلہ رکھ دیا ہے اور وہ ہے مزاحمت کا فیصلہ، کہ اب غزہ پر جاری صیہونی جارحیت کا فیصلہ اسلامی مزاحمت ہی کرے گی۔
میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اس بات کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا شروع کر دیں کہ یہ سب جذباتی باتیں ہیں جیسا کہ ہمارے اس باشعور معاشرے میں کہا جاتا ہے ، چند افراد کہ جنھیں صرف ٹی وی کے ٹاک شوز پروگراموں میں بیٹھ کر فلسطین اور غاصب اسرائیل کے بارے میں تبصرے کرنا ہوں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بہت ہی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے، تو بات صرف یہاں ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر باتیں کرنیوالوں تک نہیں ہے۔
یہاں عملی جد وجہد کرنا پڑتی ہے، اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کے لیے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے نہ کہ صرف باتیں کی جائیں، بہر حال جو لوگ بھی اس بات کو جذباتی نظر سے دیکھتے ہوں ان کے لیے واضح کرتا ہوں کہ ''یہ فلسطینی ملت کی غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک نہیں، بلکہ ملت فلسطین کی یہ مزاحمت ان کی عزت، شرف، کرامت، شجاعت، دلیری، غیرت اور بہادری کا نتیجہ ہے۔''
دنیا کے تمام باشعور افراد کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو فلسطین کے عظیم عوام کی پاکیزہ جدوجہد اور مزاحمت کو جذبات سے تشبیہ دیتے ہیں خدارا عقل سے کام لیجیے اگر آپ مظلوموں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم سے کم ان کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں، ہو سکتا ہے ہمارے معاشرے کے باشعور اور بہت زیادہ پڑھے لکھے افراد کو شاید میری باتیں بھی جذبات نظر سے سمجھ آرہی ہوں لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج ملت فلسطین غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں اس قدر تنگ کر دی گئی ہے اور ان پر زندگی کو اس قدر تنگ کیا گیا ہے کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہادت طلب کارروائیاں انجام دیں اور فلسطینی مزاحمت کی یہ شہادت طلب کاروائیاں صرف اس لیے نہیں کہ جذبات ہیں، بلکہ یہ ملت بزرگ فلسطین کی اللہ پر ایمان، قیامت پر ایمان اور موت پر ایمان اور پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر ایمان کا نتیجہ ہے کہ جس نے اس عظیم ملت کو غاصب اسرائیلی صیہونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت اور شہادت پر آمادہ کیا ہے۔
دنیا بھر کے ان باشعور افراد کو چاہیے کہ جو شاید دانستہ یا پھر نا دانستہ طور پر ملت فلسطین کی غاصب اسرائیل کے مقابلے میں دفاعی مزاحمت کو جذبات کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس قسم کی باتیں کرنا ترک کر دیں اگر آپ دفاع پر یقین نہیں رکھتے یا پھر مزاحمت پر آپ کسی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت کو پسند نہیں کرتے تو کم سے کم اتنا ضرورکیجیے کہ فلسطینیوں کی پاکیزہ اور اسلامی مزاحمت کے خلاف اپنی تنقید کو بند رکھیے اور انتظار کیجیے کہ فیصلہ ہو جائے ۔
فلسطین مزاحمت یا پھر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل، اسی طرح حکمرانوں اور طاقتور افراد سے بھی گذارش ہے کہ عالمی فورمز پر بیٹھ پر فلسطینیوں کی مزاحمت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن مزاحمت کے اصولوں اور اس کی بنیاد تک سے نابلد ہیں، خدارا فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے ہو تو ان کی مزاحمت کے خلاف اپنی سازشیں بھی نہ کرو۔آج فلسطین میں رونما ہونے والے ہر حادثے کے بعد دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ فلسطین مزاحمت میں مزید مضبوطی اور پائیداری سے آگے بڑھ رہا ہے۔
کل تک جو لوگ فلسطین میں فلسطینی مزاحمت سے اختلافات رکھتے تھے آج وہ بھی فلسطین کی بقاء کو مزاحمت کے راستے میں ہی دیکھ رہے ہیں،حتیٰ کہ اب تو الفتح کے اندر بھی کچھ بڑے عہدیداروں نے اپنی تنظیم کو خبردار کیا ہے کہ وہ حماس اور فلسطینیوں کی مزاحمت کے درمیان کسی قسم کی سازشوں کو برداشت نہیں کریں گے اور ایسی تمام کوششوں کو جن سے فلسطین کی مزاحمت کو نقصان پہنچے اس کا راستہ روکیں گے۔اس کے علاوہ اب تو مصر ، اردن اور شام میں بھی مزاحمت کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے۔
شام جو کہ ایک بڑی جنگ سے نکل کر آیا ہے ، شامی صدر بشار الاسد نے اپنی پہلی تقریر میں فلسطینی مزاحمت کی مدد کرتے رہنے کا اعلان کر کے امریکا اور اسرائیل کے اس ناپاک مقصد کو ناکام بنا دیا ہے جس کے تحت عالم مغرب اور غاصب اسرائیل نے شام میں انارکی پھیلانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی مدد کی تھی۔
لبنان پہلے دن سے مزاحمت کی عظیم الشان مثال ہے کہ جس نے2006 ء میں بھی فلسطینیوں کی مدد کی خاطر غاصب اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع کی تھی اور پھر یہ جنگ 33روز جاری رہنے کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی کامیابی اور فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی، اسی طرح لبنان آج بھی فلسطین مزاحمت کے ساتھ کھڑا ہے۔
حال ہی میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے دنیا پر واضح کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ اور اس کے مجاہدین فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہیں اور فلسطینیوں کو کسی میدان میں نہ پہلے کبھی تنہا چھوڑا تھا اور نہ اب چھوڑیں گے۔خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے بہادر اور دلیر عوام نے 1948 سے ہی اپنی آزادی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مزاحمت کا ہے، اور یہ جذبہ شہادت ہے جو اس مزاحمت کو کمزور نہیں ہونے دے رہا۔
آج فلسطین کا بچہ بھی غاصب اسرائیلی ٹینکوں اور توپوں کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لیے بہادری سے ڈٹ جاتا ہے لیکن حیرت ہے ہمارے حکمرانوں پر جو فلسطین کی مزاحمت کی حمایت نہیں کرتے، آج ایک مرتبہ پھر وہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
جو جولائی2006 میں لبنان میں پیدا ہوئی تھی، آج ایک مرتبہ پھر مزاحمت فیصلہ کن مراحل میں ہے اور پورے کا پورا فلسطین مزاحمت کی بے نظیر مثال بن چکا ہے، جہاد اسلامی فلسطین ہو، یا اسلامی مزاحمت حماس، یا پھر حزب اللہ، اور یا پھر القسام سب کے سب متحد ہیں اور غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں، پس فلسطین کی مزاحمت کو دنیا کے لوگوں سے کچھ مدد نہیں چاہیے، وہ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ میدان میں آ جائیں بلکہ صرف اور صرف ان کا مطالبہ یہ ہے کہ خدارا فلسطین کی مزاحمت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بند کریں۔
سرزمین انبیاء علیہم السلام ''فلسطین'' کی غزہ پٹی پر آج جو کچھ ہو رہاہے اس بارے میں صرف غزہ کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح غزہ پر صیہونی دشمن بھاری گولہ بارود، گن شپ ہیلی کاپٹروں، توپوں اور جدید ترین اسلحہ سے حملہ آور ہے، یہ سب ایسے مظالم ہیں کہ شاید ہمارے خواب اور خیال سے بھی آگے ہیں۔
فلسطین میں ایک طرف ظلم اور بربریت اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ہے لیکن سلام ہو اس ملت عظیم فلسطین پر کہ جس نے غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ فخر سے سر کو بلند کر کے اپنا سر کٹوانا تو پسند کیا ہے لیکن غاصب اسرائیلی دشمن کے سامنے جھکایا نہیں۔آج مغربی کنارے اور غزہ میں موجود الفتح اور فلسطینی اتھارٹی کے پولیس اہلکار شرمسار ہو رہے ہیں اور اپنے گھروں کو لوٹ کر جانے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف جہاں غاصب اسرائیلی دشمن نے فلسطینیوں پر ظلم کی حدیں پار کی ہیں وہاں یہ نام نہاد فلسطینی اتھارٹی اور اس کے پولیس اہلکار بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
غزہ پر ہونے والے حملے کے پہلے روز ہی ان پولیس والوں نے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے 34اراکین پارلیمنٹ کو گرفتار کرکے غاصب اسرائیل کے حوالے کر دیا،آج یہ سب کے سب شرمندہ ہیں کیونکہ پورا فلسطین مزاحمت کر رہا ہے اور اپنا دفاع کر رہا ہے، یہ سوچ رہے ہیں کہ اب اپنے گھر والوں کو پلٹ کر کیا منہ دکھائیں گے؟ کیونکہ فلسطینی باغیرت، شجاعت اور دلیر ملت نے دنیا بھر کے جابروں اور سامراجی قوتوں کے سامنے اپنا اٹل فیصلہ رکھ دیا ہے اور وہ ہے مزاحمت کا فیصلہ، کہ اب غزہ پر جاری صیہونی جارحیت کا فیصلہ اسلامی مزاحمت ہی کرے گی۔
میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اس بات کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا شروع کر دیں کہ یہ سب جذباتی باتیں ہیں جیسا کہ ہمارے اس باشعور معاشرے میں کہا جاتا ہے ، چند افراد کہ جنھیں صرف ٹی وی کے ٹاک شوز پروگراموں میں بیٹھ کر فلسطین اور غاصب اسرائیل کے بارے میں تبصرے کرنا ہوں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بہت ہی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے، تو بات صرف یہاں ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر باتیں کرنیوالوں تک نہیں ہے۔
یہاں عملی جد وجہد کرنا پڑتی ہے، اپنی عزت اور ناموس کی حفاظت کے لیے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے نہ کہ صرف باتیں کی جائیں، بہر حال جو لوگ بھی اس بات کو جذباتی نظر سے دیکھتے ہوں ان کے لیے واضح کرتا ہوں کہ ''یہ فلسطینی ملت کی غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت صرف جذبات اور نعروں کی حد تک نہیں، بلکہ ملت فلسطین کی یہ مزاحمت ان کی عزت، شرف، کرامت، شجاعت، دلیری، غیرت اور بہادری کا نتیجہ ہے۔''
دنیا کے تمام باشعور افراد کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو فلسطین کے عظیم عوام کی پاکیزہ جدوجہد اور مزاحمت کو جذبات سے تشبیہ دیتے ہیں خدارا عقل سے کام لیجیے اگر آپ مظلوموں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم سے کم ان کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں، ہو سکتا ہے ہمارے معاشرے کے باشعور اور بہت زیادہ پڑھے لکھے افراد کو شاید میری باتیں بھی جذبات نظر سے سمجھ آرہی ہوں لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج ملت فلسطین غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں اس قدر تنگ کر دی گئی ہے اور ان پر زندگی کو اس قدر تنگ کیا گیا ہے کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہادت طلب کارروائیاں انجام دیں اور فلسطینی مزاحمت کی یہ شہادت طلب کاروائیاں صرف اس لیے نہیں کہ جذبات ہیں، بلکہ یہ ملت بزرگ فلسطین کی اللہ پر ایمان، قیامت پر ایمان اور موت پر ایمان اور پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر ایمان کا نتیجہ ہے کہ جس نے اس عظیم ملت کو غاصب اسرائیلی صیہونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت اور شہادت پر آمادہ کیا ہے۔
دنیا بھر کے ان باشعور افراد کو چاہیے کہ جو شاید دانستہ یا پھر نا دانستہ طور پر ملت فلسطین کی غاصب اسرائیل کے مقابلے میں دفاعی مزاحمت کو جذبات کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس قسم کی باتیں کرنا ترک کر دیں اگر آپ دفاع پر یقین نہیں رکھتے یا پھر مزاحمت پر آپ کسی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت کو پسند نہیں کرتے تو کم سے کم اتنا ضرورکیجیے کہ فلسطینیوں کی پاکیزہ اور اسلامی مزاحمت کے خلاف اپنی تنقید کو بند رکھیے اور انتظار کیجیے کہ فیصلہ ہو جائے ۔
فلسطین مزاحمت یا پھر غاصب صیہونی دشمن اسرائیل، اسی طرح حکمرانوں اور طاقتور افراد سے بھی گذارش ہے کہ عالمی فورمز پر بیٹھ پر فلسطینیوں کی مزاحمت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن مزاحمت کے اصولوں اور اس کی بنیاد تک سے نابلد ہیں، خدارا فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے ہو تو ان کی مزاحمت کے خلاف اپنی سازشیں بھی نہ کرو۔آج فلسطین میں رونما ہونے والے ہر حادثے کے بعد دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ فلسطین مزاحمت میں مزید مضبوطی اور پائیداری سے آگے بڑھ رہا ہے۔
کل تک جو لوگ فلسطین میں فلسطینی مزاحمت سے اختلافات رکھتے تھے آج وہ بھی فلسطین کی بقاء کو مزاحمت کے راستے میں ہی دیکھ رہے ہیں،حتیٰ کہ اب تو الفتح کے اندر بھی کچھ بڑے عہدیداروں نے اپنی تنظیم کو خبردار کیا ہے کہ وہ حماس اور فلسطینیوں کی مزاحمت کے درمیان کسی قسم کی سازشوں کو برداشت نہیں کریں گے اور ایسی تمام کوششوں کو جن سے فلسطین کی مزاحمت کو نقصان پہنچے اس کا راستہ روکیں گے۔اس کے علاوہ اب تو مصر ، اردن اور شام میں بھی مزاحمت کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے۔
شام جو کہ ایک بڑی جنگ سے نکل کر آیا ہے ، شامی صدر بشار الاسد نے اپنی پہلی تقریر میں فلسطینی مزاحمت کی مدد کرتے رہنے کا اعلان کر کے امریکا اور اسرائیل کے اس ناپاک مقصد کو ناکام بنا دیا ہے جس کے تحت عالم مغرب اور غاصب اسرائیل نے شام میں انارکی پھیلانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی مدد کی تھی۔
لبنان پہلے دن سے مزاحمت کی عظیم الشان مثال ہے کہ جس نے2006 ء میں بھی فلسطینیوں کی مدد کی خاطر غاصب اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع کی تھی اور پھر یہ جنگ 33روز جاری رہنے کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی کامیابی اور فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی، اسی طرح لبنان آج بھی فلسطین مزاحمت کے ساتھ کھڑا ہے۔
حال ہی میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے دنیا پر واضح کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ اور اس کے مجاہدین فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہیں اور فلسطینیوں کو کسی میدان میں نہ پہلے کبھی تنہا چھوڑا تھا اور نہ اب چھوڑیں گے۔خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے بہادر اور دلیر عوام نے 1948 سے ہی اپنی آزادی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ مزاحمت کا ہے، اور یہ جذبہ شہادت ہے جو اس مزاحمت کو کمزور نہیں ہونے دے رہا۔
آج فلسطین کا بچہ بھی غاصب اسرائیلی ٹینکوں اور توپوں کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لیے بہادری سے ڈٹ جاتا ہے لیکن حیرت ہے ہمارے حکمرانوں پر جو فلسطین کی مزاحمت کی حمایت نہیں کرتے، آج ایک مرتبہ پھر وہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
جو جولائی2006 میں لبنان میں پیدا ہوئی تھی، آج ایک مرتبہ پھر مزاحمت فیصلہ کن مراحل میں ہے اور پورے کا پورا فلسطین مزاحمت کی بے نظیر مثال بن چکا ہے، جہاد اسلامی فلسطین ہو، یا اسلامی مزاحمت حماس، یا پھر حزب اللہ، اور یا پھر القسام سب کے سب متحد ہیں اور غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں، پس فلسطین کی مزاحمت کو دنیا کے لوگوں سے کچھ مدد نہیں چاہیے، وہ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ میدان میں آ جائیں بلکہ صرف اور صرف ان کا مطالبہ یہ ہے کہ خدارا فلسطین کی مزاحمت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بند کریں۔