میڈیا واچ ڈاگ آخر پہل کون کرے گا
آخر لڑکوں کیجانب سے لڑکیوں کوکیوں چھیڑا جاتا ہےیا پھر موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں حراساں کیوں کی جاتا ہے؟
کچھ دہائیاں قبل کی بات ہے کہ جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو میلی نگاہوں سے دیکھتا تھا تو معاشرے کا ہر فرد اس لڑکی کو اپنی بہن، بیٹی کی حیثیت دے کر اس لڑکے کی اس حرکت کا سخت نوٹس لیتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ کسی کو چھیڑنے یا اس کی طرف بری نگاہ ڈالنے سے پہلے آس پاس میں نگاہیں ضرور گھما لیتے تھے، تاہم آج کل کے بے ہنگم معاشرے میں لڑکوں کی جانب سے اسکول، کالج، یونیورسٹی یا پھر کسی ادارے میں کام کرنے والی لڑکیوں کو چھیڑنا، آوازیں کسنا یاگھورنا وغیرہ فیشن کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
ایسے اوباش قسم کے لڑکوں کی وجہ سے ناجانے کتنی ہی لڑکیاں تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے گھر بیٹھ چکی ہوں گی۔ بجائے اس کے وہ ان حالات کا سامنے کرے وہ اپنے آپ پر جبر کر کے گھر میں بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ وہ جان چکی ہیں کہ اب ان کی جانب سے ایسے لڑکوں کو کوئی منع کرنے والا نہیں ہے۔
حال ہی میں پڑوسی ملک کے کچھ نوجوان لڑکوں کی جانب سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی۔ ویڈیو میں ایک لڑکا لوگوں کے بیچ میں بیٹھی دو لڑکیوں کو چھیڑتا ہے، تاہم اس کے بار بار چھیڑنے کے باوجود سب اسے دیکھتے ہیں، ہنستے ہیں اور کوئی منع کرنے تک کی جسارت نہیں کرتا۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا جس کے بعد آخر کار ایک نوجوان یہ حرکت دیکھ کر کھڑا ہوا اور چھیڑنے والے لڑکے کو ایک طرف لے جاکر منع کر تا ہے۔ جس کے فوری بعد تمام لڑکے چھیڑنے والے کی حمایت میں آگئے اور دریافت کیا کہ بھائی کیا مسئلہ ہے جس پر اُس لڑکے نے کہا کہ یہ لڑکا سب کے سامنے لڑکیوں کو چھیڑ رہا ہے ۔ بس جیسے ہی لڑکے نے یہ بات کہی تو فوری طور پر وہاں موجود کچھ لڑکوں نے اُس لڑکے کو کیمرے کی جانب متوجہ کیا اور کہا کہ یار آپ ہمارے ہیرو ہیں ۔ پھر اُس لڑکے سے کہا گیا کہ آپ نے کیونکر یہ سمجھا کہ اِس لڑکے کو چھیڑنے سے روکنا چاہیے تو اُس نوجوان کا کہنا تھا کیونکہ اِن خواتین کو آزادانہ بیٹھنے بھی نہیں دیا جارہا۔
اِس پوری ویڈیو کا مقصد یہ تھا کہ آخر ایسے واقعات کوروکنے کے لیے کون ہے جو آغازکرے اور حقیقت میں ہیرو تووہی ہوتا ہے جو پہل کرے جس کے بعد لازمی طور پر لوگ حمایت میں آہی جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کوکیوں چھیڑا جاتا ہے؟، انہیں تنگ کیوں کیا جاتا ہے یا پھر موبائل اور انٹرنیٹ پر الٹے سیدھے پیغامات کے ذریعے انہیں حراساں کیوں کی جاتا ہے؟ اس کو روکنے کے لئے سب سے پہلی ذمہ داری تو والدین اور سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر مکمل توجہ دیں اور وہ ان کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی اولادیں کیا کر رہی ہیں۔ دوسری بڑی ذمہ داری ہمارے میڈیا پر عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کھلے عام ایسے پروگرامات نشر نہ کرے جن میں اِس قسم کے کام کرنے والوں کو رول ماڈل کو پیش کر کے ہمارے معاشرے کے نوجوان طبقہ کو ایسی حرکات کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے بگاڑ اور سدھار میں ذرائع و ابلاغ کا اہم کردار ہوتا ہے۔
جو جملے آپ کو اپنی کسی عزت دار ماں، بہن یا بیٹی کے لئے برداشت نہیں ہوتے تو پھر کسی اور کو کیسے برداشت ہو پائیں گے؟ یاد رکھیں یہ دنیا مکافات عمل ہے آج جو بوئیں گے کل وہ ہی کاٹنا پڑے گا بھلے پسند ہو یا نہیں ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایسے اوباش قسم کے لڑکوں کی وجہ سے ناجانے کتنی ہی لڑکیاں تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے گھر بیٹھ چکی ہوں گی۔ بجائے اس کے وہ ان حالات کا سامنے کرے وہ اپنے آپ پر جبر کر کے گھر میں بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ وہ جان چکی ہیں کہ اب ان کی جانب سے ایسے لڑکوں کو کوئی منع کرنے والا نہیں ہے۔
حال ہی میں پڑوسی ملک کے کچھ نوجوان لڑکوں کی جانب سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی۔ ویڈیو میں ایک لڑکا لوگوں کے بیچ میں بیٹھی دو لڑکیوں کو چھیڑتا ہے، تاہم اس کے بار بار چھیڑنے کے باوجود سب اسے دیکھتے ہیں، ہنستے ہیں اور کوئی منع کرنے تک کی جسارت نہیں کرتا۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا جس کے بعد آخر کار ایک نوجوان یہ حرکت دیکھ کر کھڑا ہوا اور چھیڑنے والے لڑکے کو ایک طرف لے جاکر منع کر تا ہے۔ جس کے فوری بعد تمام لڑکے چھیڑنے والے کی حمایت میں آگئے اور دریافت کیا کہ بھائی کیا مسئلہ ہے جس پر اُس لڑکے نے کہا کہ یہ لڑکا سب کے سامنے لڑکیوں کو چھیڑ رہا ہے ۔ بس جیسے ہی لڑکے نے یہ بات کہی تو فوری طور پر وہاں موجود کچھ لڑکوں نے اُس لڑکے کو کیمرے کی جانب متوجہ کیا اور کہا کہ یار آپ ہمارے ہیرو ہیں ۔ پھر اُس لڑکے سے کہا گیا کہ آپ نے کیونکر یہ سمجھا کہ اِس لڑکے کو چھیڑنے سے روکنا چاہیے تو اُس نوجوان کا کہنا تھا کیونکہ اِن خواتین کو آزادانہ بیٹھنے بھی نہیں دیا جارہا۔
اِس پوری ویڈیو کا مقصد یہ تھا کہ آخر ایسے واقعات کوروکنے کے لیے کون ہے جو آغازکرے اور حقیقت میں ہیرو تووہی ہوتا ہے جو پہل کرے جس کے بعد لازمی طور پر لوگ حمایت میں آہی جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کوکیوں چھیڑا جاتا ہے؟، انہیں تنگ کیوں کیا جاتا ہے یا پھر موبائل اور انٹرنیٹ پر الٹے سیدھے پیغامات کے ذریعے انہیں حراساں کیوں کی جاتا ہے؟ اس کو روکنے کے لئے سب سے پہلی ذمہ داری تو والدین اور سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر مکمل توجہ دیں اور وہ ان کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی اولادیں کیا کر رہی ہیں۔ دوسری بڑی ذمہ داری ہمارے میڈیا پر عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کھلے عام ایسے پروگرامات نشر نہ کرے جن میں اِس قسم کے کام کرنے والوں کو رول ماڈل کو پیش کر کے ہمارے معاشرے کے نوجوان طبقہ کو ایسی حرکات کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے بگاڑ اور سدھار میں ذرائع و ابلاغ کا اہم کردار ہوتا ہے۔
جو جملے آپ کو اپنی کسی عزت دار ماں، بہن یا بیٹی کے لئے برداشت نہیں ہوتے تو پھر کسی اور کو کیسے برداشت ہو پائیں گے؟ یاد رکھیں یہ دنیا مکافات عمل ہے آج جو بوئیں گے کل وہ ہی کاٹنا پڑے گا بھلے پسند ہو یا نہیں ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔