نوابزادہ نصراللہ خان ‘ایک عہد ساز شخصیت
کہتے ہیں کہ جو لوگ مشکل حالات میں متحد نہ ہو سکیں وہ اچھے حالات میں کیسے اکھٹے چل سکتے ہیں
KHAIRPUR / LARKANA:
پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کی تاریخ کو نواب زادہ نصراللہ خاں کی داستان ِ زندگی کہا جا سکتا ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر نے اس جدوجہد میں جان کا نذرانہ پیش کیا اور نواب زادہ نصراللہ خاں آخری سانس تک سول اور فوجی آمروں سے سے نبرد آزما رہے۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہر فوجی حکومت جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرتی رہی اور سیاسی حکمرانوں کے اندر فرعون بننے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائد ین کے آپس میں اس قدر شدید نظریاتی اور ذاتی تضادات اور اختلافات ہیں کہ انھیں جمہوری جدوجہد میں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے کر نا نا ممکن ہے۔
کہتے ہیں کہ جو لوگ مشکل حالات میں متحد نہ ہو سکیں وہ اچھے حالات میں کیسے اکھٹے چل سکتے ہیں۔ نواب زادہ صاحب کی دانائی، حکمت عملی اور سیاسی کرشمہ سازی کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ ہر مرتبہ ان منتشر اور متحارب سیاسی قوتوں کو متحد کر کے انھیں آمریت کے خلا ف ایک طاقت بنانے میں کامیاب ہو جاتے اور آصف علی زرداری صاحب نے یہ معجزہ کر دکھایا ہے کہ ان کی سر پرستی اور حکومت میں پاکستان کی تمام نمایندہ سیاسی جماعتیں حصے دار ہیں اور یہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کو ہے۔
نواب زادہ صاحب یورپی اور دیگر قوموں کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچتے تھے کہ جمہوریت بٹن دبانے سے نہیں بلکہ ہمہ وقت بیداری اور مسلسل جدوجہد سے آتے آتے آتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ فوجی طالع آزما جمہوریت کے پودے کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اکھاڑ دیتے ہیں ان کی آخری اور شاندار جمہوری جدوجہد جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف تھی۔
مجھے اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ مجھے نواب زادہ صاحب کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں ان کے انتہائی قریب رہنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔
مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ میں بطور مرکز ی سیکریٹری اطلاعات تین اتحادوں، پاکستان عوامی اتحاد، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس اور اے -آر -ڈی میں شہید محترمہ کا نمایندہ تھا۔ اسی حیثیت میں میں نواب زادہ صاحب کے دورۂ سعود ی عرب اور لندن کے دوران ان کے ساتھ تھا اور سعودی عرب میں میاں نواز شریف اور لندن /دبئی میں شہید محترمہ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں شریک رہا۔
نواب زادہ صاحب نصراللہ خاں 1918میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1933تک ایک طالب علم رہنما کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔
انھوں نے مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے بر صغیر کی آزادی کے لیے جدوجہدو کی۔ وہ اس عظیم الشان اور تاریخی اجتماع میں موجود تھے جنہوں نے23 مارچ 1940کی قرارداد لاہور پاس کی۔ آزادی کے بعد وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1952میں صوبائی اور 1962میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
پھر انھوں نے جناح عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی جب حسین شہید سہروردی اس کے صدر تھے تو وہ اس کے نائب صدر رہے۔ انھوں نے 1964 میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی۔ انھوں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
اس طرح ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی وجود میں آئی جس نے ایوب خاں کی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کی راہ ہموار کی۔ اس اتحاد کی کامیابی مستقبل کی ہر جمہوری جدوجہد کے لیے مشعل راہ بنی۔
انھوں نے 1969میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی الگ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ نواب زادہ صاحب 1977میں پاکستان قومی اتحاد کے اہم ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے۔
1977کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن پارٹی پالیسی کے مطابق حلف لینے سے انکار کر دیا وہ قومی اتحاد کی طرف سے نئے الیکشن کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رکن تھے۔
لیکن جب مذاکرات کا میاب ہو گئے تو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا جس کی انھوں نے بھر پور مخالفت کی۔
یہ نواب زادہ صاحب کا سیاسی کرشمہ تھا کہ وہ تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ ان سیاسی جماعتوں کو بھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے بھٹو حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسی پلیٹ فارم سے 1983 میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی گئی جسے فوجی آمریت نے نہایت بے رحمی سے کچل دیا۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں لوگوں نے قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
ضیائی آمریت نے انھیں پانچ سال تک گھر میں نظر بند رکھا اور طاقت اور لالچ سے انھیں جھکانے اور خریدنے کی کوشش کی لیکن انھیں اپنے مقصد کی سچائی پر پورا یقین تھا لہٰذا وہ ثابت قدم رہے۔
1988 کے صدارتی انتخاب میں انھوں نے غلام اسحاق خان کا مقابلہ کیا۔ 1993 کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انھیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا یا گیا اور ان کے بیٹے کو صوبہ پنجاب میں وزیر بنایا گیا۔ مسٔلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کیے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے سربراہی اجلا س منعقد کاسا بلانکا میں ایک متفقہ قرارداد میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان کی کوششوں کی بدولت برطانیہ کی لیبر پارٹی نے مسٔلہ کشمیر کے حل کو اپنے منشور کا حصہ بنا لیا۔ نواب زادہ صاحب نے ستر سالوں پر پھیلی سیاسی زندگی میں آمریت کے خلاف کئی اتحاد بنائے۔ و ہ کہا کرتے تھے کہ کسی ایک پارٹی کے لیے ممکن نہیں کہ فوجی آمریت کا مقابلہ کر سکے۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ تمام دیگر جمہوری قوتوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو اکٹھا ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ جب ان سے کہا جاتا کہ اتنے بلند اور اعلیٰ مقاصد کے لیے وہ تانگہ پارٹیوں کو غیر ضروری اہمیت دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جمہوری جدوجہد کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر آپ ایک مکان بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اینٹ، گارا، سیمنٹ، لوہا، روڑا اور بجری کی بھی ضرورت ہو تی ہے۔
نواب زادہ صاحب نہ صرف ایک بڑے سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے۔ وہ اپنی سادگی، حلیمی اور خلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ آج بھی نکلسن روڈ کے اس چھوٹے اور سادہ سے مکان کا بڑا کمرہ جس میں ان کی زندگی کے شب و روز گزارتے تھے بہت سے لوگوں کو یاد آ رہا ہو گا۔
گو نواب زادہ صاحب ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے ہمیشہ انقلابی سیاست کی۔ وہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوام کی بات کرتے تھے۔ انھوں نے ضیائی آمریت میں قید کے دوران اپنے انقلابی ہونے کا اس طرح اظہار کیا
کتنے بیدرد ہیں صر صر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں
آخر میں کہتے ہیں
کل بھی حق بات جو کہنی تھی سر دار کہی
آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں
پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کی تاریخ کو نواب زادہ نصراللہ خاں کی داستان ِ زندگی کہا جا سکتا ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر نے اس جدوجہد میں جان کا نذرانہ پیش کیا اور نواب زادہ نصراللہ خاں آخری سانس تک سول اور فوجی آمروں سے سے نبرد آزما رہے۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہر فوجی حکومت جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرتی رہی اور سیاسی حکمرانوں کے اندر فرعون بننے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائد ین کے آپس میں اس قدر شدید نظریاتی اور ذاتی تضادات اور اختلافات ہیں کہ انھیں جمہوری جدوجہد میں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے کر نا نا ممکن ہے۔
کہتے ہیں کہ جو لوگ مشکل حالات میں متحد نہ ہو سکیں وہ اچھے حالات میں کیسے اکھٹے چل سکتے ہیں۔ نواب زادہ صاحب کی دانائی، حکمت عملی اور سیاسی کرشمہ سازی کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ ہر مرتبہ ان منتشر اور متحارب سیاسی قوتوں کو متحد کر کے انھیں آمریت کے خلا ف ایک طاقت بنانے میں کامیاب ہو جاتے اور آصف علی زرداری صاحب نے یہ معجزہ کر دکھایا ہے کہ ان کی سر پرستی اور حکومت میں پاکستان کی تمام نمایندہ سیاسی جماعتیں حصے دار ہیں اور یہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کو ہے۔
نواب زادہ صاحب یورپی اور دیگر قوموں کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچتے تھے کہ جمہوریت بٹن دبانے سے نہیں بلکہ ہمہ وقت بیداری اور مسلسل جدوجہد سے آتے آتے آتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ فوجی طالع آزما جمہوریت کے پودے کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اکھاڑ دیتے ہیں ان کی آخری اور شاندار جمہوری جدوجہد جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف تھی۔
مجھے اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ مجھے نواب زادہ صاحب کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں ان کے انتہائی قریب رہنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔
مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ میں بطور مرکز ی سیکریٹری اطلاعات تین اتحادوں، پاکستان عوامی اتحاد، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس اور اے -آر -ڈی میں شہید محترمہ کا نمایندہ تھا۔ اسی حیثیت میں میں نواب زادہ صاحب کے دورۂ سعود ی عرب اور لندن کے دوران ان کے ساتھ تھا اور سعودی عرب میں میاں نواز شریف اور لندن /دبئی میں شہید محترمہ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں شریک رہا۔
نواب زادہ صاحب نصراللہ خاں 1918میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1933تک ایک طالب علم رہنما کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔
انھوں نے مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے بر صغیر کی آزادی کے لیے جدوجہدو کی۔ وہ اس عظیم الشان اور تاریخی اجتماع میں موجود تھے جنہوں نے23 مارچ 1940کی قرارداد لاہور پاس کی۔ آزادی کے بعد وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1952میں صوبائی اور 1962میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
پھر انھوں نے جناح عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی جب حسین شہید سہروردی اس کے صدر تھے تو وہ اس کے نائب صدر رہے۔ انھوں نے 1964 میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی۔ انھوں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
اس طرح ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی وجود میں آئی جس نے ایوب خاں کی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کی راہ ہموار کی۔ اس اتحاد کی کامیابی مستقبل کی ہر جمہوری جدوجہد کے لیے مشعل راہ بنی۔
انھوں نے 1969میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی الگ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ نواب زادہ صاحب 1977میں پاکستان قومی اتحاد کے اہم ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے۔
1977کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن پارٹی پالیسی کے مطابق حلف لینے سے انکار کر دیا وہ قومی اتحاد کی طرف سے نئے الیکشن کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رکن تھے۔
لیکن جب مذاکرات کا میاب ہو گئے تو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا جس کی انھوں نے بھر پور مخالفت کی۔
یہ نواب زادہ صاحب کا سیاسی کرشمہ تھا کہ وہ تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ ان سیاسی جماعتوں کو بھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے بھٹو حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسی پلیٹ فارم سے 1983 میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی گئی جسے فوجی آمریت نے نہایت بے رحمی سے کچل دیا۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں لوگوں نے قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
ضیائی آمریت نے انھیں پانچ سال تک گھر میں نظر بند رکھا اور طاقت اور لالچ سے انھیں جھکانے اور خریدنے کی کوشش کی لیکن انھیں اپنے مقصد کی سچائی پر پورا یقین تھا لہٰذا وہ ثابت قدم رہے۔
1988 کے صدارتی انتخاب میں انھوں نے غلام اسحاق خان کا مقابلہ کیا۔ 1993 کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انھیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا یا گیا اور ان کے بیٹے کو صوبہ پنجاب میں وزیر بنایا گیا۔ مسٔلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کیے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے سربراہی اجلا س منعقد کاسا بلانکا میں ایک متفقہ قرارداد میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان کی کوششوں کی بدولت برطانیہ کی لیبر پارٹی نے مسٔلہ کشمیر کے حل کو اپنے منشور کا حصہ بنا لیا۔ نواب زادہ صاحب نے ستر سالوں پر پھیلی سیاسی زندگی میں آمریت کے خلاف کئی اتحاد بنائے۔ و ہ کہا کرتے تھے کہ کسی ایک پارٹی کے لیے ممکن نہیں کہ فوجی آمریت کا مقابلہ کر سکے۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ تمام دیگر جمہوری قوتوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو اکٹھا ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ جب ان سے کہا جاتا کہ اتنے بلند اور اعلیٰ مقاصد کے لیے وہ تانگہ پارٹیوں کو غیر ضروری اہمیت دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جمہوری جدوجہد کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر آپ ایک مکان بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اینٹ، گارا، سیمنٹ، لوہا، روڑا اور بجری کی بھی ضرورت ہو تی ہے۔
نواب زادہ صاحب نہ صرف ایک بڑے سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے۔ وہ اپنی سادگی، حلیمی اور خلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ آج بھی نکلسن روڈ کے اس چھوٹے اور سادہ سے مکان کا بڑا کمرہ جس میں ان کی زندگی کے شب و روز گزارتے تھے بہت سے لوگوں کو یاد آ رہا ہو گا۔
گو نواب زادہ صاحب ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے ہمیشہ انقلابی سیاست کی۔ وہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوام کی بات کرتے تھے۔ انھوں نے ضیائی آمریت میں قید کے دوران اپنے انقلابی ہونے کا اس طرح اظہار کیا
کتنے بیدرد ہیں صر صر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں
آخر میں کہتے ہیں
کل بھی حق بات جو کہنی تھی سر دار کہی
آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں