گرگٹ

ایک کوشش اٹھتے ہی سپریم کورٹ نے بہت اچھی کی کہ اس نے اس شق کے استعمال کا معیار مقرر کیا ...

Jvqazi@gmail.com

میرے اس مضمون کے چھپنے تک آپ کے سامنے صورتحال بہت واضح ہوچکی ہوگی، اونٹ بہت حد تک اپنی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا اور میں شکاگو کے ایئرپورٹ پر اتر چکا ہوں گا۔ امریکا جاتے جاتے میں کچھ اچھی صورتحال نہیں چھوڑے جا رہا، میری یہ وکالت کہ شب خون نہیں ہوگا مجھے اپنے اس موقف سے کچھ ہٹ کر حقیقتوں کا دوبارہ ادراک کرنا پڑگیا ہے۔ وہ اس طرح کہ کہیں شاید شب خون اپنی ماہیت تبدیل کرچکا ہو۔ اس کی آکسفورڈ ڈکشنری والی تشریح میں اب کچھ فرق آگیا ہے۔ اب اس کلاسیکل ''کو '' coup نے ارتقا کر کے نئی شکل اختیار کرلی ہے۔

کل جو جنرل مشرف نے شب خون مارا تھا تو مارشل لا کورٹس کا نفاذ نہیں کیا تھا۔ اور اس سے پہلے ایوان صدر میں 58(2)(b) کا روپ لیے شب خوں نیم سرگوشی میں رہتا تھا۔ صدر صاحب اس آئینی شک کی کمان کو کھینچتے تھے تو فوجی بوٹوں کی چاپیں خودبخود سنائی دیتی تھیں اور کورٹس کے لیے بھی بڑا آسان سا معاملہ تھا۔ بس آئین میں لکھا ہے تو صحیح ہوگا۔ کورٹس یہ نہیں دیکھتی تھیں کیا آمر کی ڈالی ہوئی یہ شق آئین کے بنیادی ڈھانچے سے یا اس کے مغز سے کہیں تصادم میں تو نہیں۔ یوں کہیے کہ کورٹ اتنی آزاد نہیں تھی۔

ایک کوشش اٹھتے ہی سپریم کورٹ نے بہت اچھی کی کہ اس نے اس شق کے استعمال کا معیار مقرر کیا اور جونیجو صاحب کی حکومت کے خلاف جنرل ضیا الحق کے اس شق کے استعمال کو غیر آئینی قرار دے دیا، لیکن حکومت بحال نہیں کی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے (جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے خلاف استعمال کی) تو نہ صرف غیر آئینی قرار دیا بلکہ میاں صاحب کی حکومت کو بحال بھی کیا۔ تو کیا ہوا میاں صاحب کو اس فیصلے کے دو مہینے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔

کتنے عرصے سے میاں صاحب ایک ہی فرمائش کہ ''میں تو جاؤں گا، اسحاق خاں صاحب کو بھی رخصت کروائیں'' وہ یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اسحاق خان 58(2)(b) رکھوالے تھے، وہ چلے گئے تو فاروق لغاری بنے اور جب 58(2)(b) کو پارلیمنٹ نے نکال کر باہر کیا تو جسٹس سجاد علی شاہ والی بینچ نے اچکزئی کیس کی ججمنٹ میں لکھا کہ ''58(2)(b) مارشل لا کا راستہ روکتی ہے۔'' اور پھر جو شب خوں نہیں آنا تھا اس کو بھی حکومت کی جلد بازی نے ممکن بنا دیا۔

زرداری صاحب اس بات کو سمجھتے تھے کہ شب خون بہت سی شکلیں بدلتا ہے۔ کبھی وہ میمو گیٹ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ کبھی طاہر القادری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں یا یوں کہیے کہ میری نظر اتنی دور تک دیکھنے کی شاید صلاحیت رکھتی ہے کہ اسے ''عزیز ہم وطنو '' والا شب خوں نظر نہیں آرہا اور اگر آئین میں 58(2)(b) ہوئی اور ایوان صدر میں اس کا رکھوالا بیٹھا ہوتا تو بات اتنی دور تک نہ جاتی۔

58(2)(b) بھی کتنا بے رحم تھا۔ کرے کوئی اور بھگتے کوئی اور، نکالنا وزیراعظم یا اس کی حکومت کو تھا، لیکن عوام کی چنی ہوئی پوری اسمبلی کو رخصت کروانا پڑ جاتا تھا۔ مطلب یہ کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ہے یہ باور کروانا ہوتا تھا۔

اب کیا ہوا حکومت کے احکامات نہیں چلتے۔ اگر کسی بھی مہذب ملک میں بھی کوئی دھرنا، پاکستان کے تین بڑے سطحوں کے راستے روک کے دھرنا لگانے کی کوشش کرے تو ان پر آنسو گیس پھینکی جاتی، لاٹھی چارج ہوتا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو حکومت نافذ نہیں کروا پاتی۔ اب کون جائے تاریخ میں۔ یہ بتائیے آج مسلم لیگ ن کے حکمران کیا ہیں، کل وہ کیا تھے۔ مگر پیپلز پارٹی والوں کا ماضی اتنا تاریک نہیں۔ وہ شب خون سے لڑنے والوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے جب بھی مسلم لیگ ن والے آتے ہیں شب خوں کروٹ لینا شروع کرلیتے ہیں، کیا وہ اتنے ''بادشاہ'' بھولے ہیں۔


بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ آج اگر وکلا کی تحریک کی کوکھ سے عدالتیں انصاف دینے میں انقلاب برپا کرتیں یا کچھ تبدیلی آتی تو لوگوں کے دلوں میں بھی جگہ پیدا ہوتی۔

بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ، پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اگر لوگوں کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی لائی ہوتی، کوئی بجلی کا بحران کم کیا ہوتا، سندھ کے اندر جو بربادی تعلیم کے نظام کی ہوئی ہے اور بھی بہت کچھ ہے بیان کرنے کے لیے لیکن میں اس وقت یہ ساری باتیں نہیں کرنا چاہتا تو لوگ خصوصاً سندھ شب خوں کے خلاف سڑکوں پر ہوتا۔

اور نواز حکومت بھی بجلی کے بحران میں اس ڈیڑھ سال میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی ۔ مہنگائی کے تو سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ اب جب یہ صورتحال بنی ہے تو کیسے لوگ سڑکوں پر نہ آئیں۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ کتنی بھی جمہوریت بدترین ہو، وہ جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ مگر عام لوگوں کے دیکھنے کے معیار اس طرح کے نہیں ہیں۔

وینزویلا کے ہوگو شاویز کے خلاف بھی دھڑن تختہ ''کو'' کا مرحلہ آیا تھا۔ مشکل سے وہ چار دن چلا، لوگ سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے فوجیوں سے بندوقیں چھیننا شروع کردیں وہ اس لیے ہوا کہ ہوگو شاویز نے تیل کے ذخائر سے ملی ہوئی آمدنی سے لوگوں میں سرمایہ کاری کی، انھیں اسکول دیے، اسپتال دیے، روزگار دیا، بے روزگاری الاؤنس دیا۔ وہ سادگی سے رہتا تھا۔ سادہ لباس پہنتا تھا۔ اسے پتا تھا حکمرانی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے دل میں رہو اور لوگوں کے دل میں رہنے کے لیے عام آدمی کی طرح رہتا تھا۔ عام سا لباس پہنتا، عام سے اسپتال میں اپنا علاج کرواتا۔ اس کے پاس نہ ہی اربوں روپے والے محلات تھے نہ ذاتی جہاز تھے۔

وہ گرگٹ کی طرح رنگ نہیں بدلتے تھے۔وہ جب کچھ سال پہلے سرطان کے مرض میں اس دنیا سے رخصت ہوا تو پورے وینزویلا کے شہری بین کرتے رہے۔ایک عوام دوست لیڈر کی بعد از مرگ بھی شان ایسی ہی ہوتی ہے۔ان ہی جیسے انقلابی رہنمائوں کیلیے شاید ظہیر کاشمیری نے کہا ہے؎

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چرغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
Load Next Story