کوزہ گری سندھ کا ایک قدیم ہنر
مٹی کے برتن ٹھنڈے اور فطرت سے قریب ہونے کے باعث صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔
ISLAMABAD:
سندھ کی دست کاریوں میں کوزہ گری بڑا خوب صورت ہنر ہے۔ دنیا میں ہاتھ سے بنائی گئی اشیاء میں مٹی کے برتن سب سے قدیم ہیں، موہنجو دڑو، ہڑپا اور کاہو جو دڑو کے آثار بھی اس کو ثابت کرتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کو سب سے پہلے پانی جمع کرنے کے لیے برتن کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس ضرورت کے باعث مٹی کا برتن ایجاد کیا گیا۔ دراصل انسان کو کھانے پینے کے لیے ایسے برتن جن میں خالص تازہ اور ٹھنڈی اشیاء رکھی جاسکیں ہر دور میں در کار رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ ایسی خاصیت والے صرف مٹی کے برتن ہی ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ایسی ہی دلیل سائنسی ماہرین نے بھی دی ہے۔ مٹی کے برتن ٹھنڈے اور فطرت سے قریب ہونے کے باعث صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ وہیں ہماری ثقافت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
کمہاروں کے بنائے ہوئے مختلف رنگوں اور ساخت کے مٹی کے ایسے برتن آثار قدیمہ سے بڑی تعداد میں ملتے رہے ہیں، جہاں تحقیق ادھوری ہو، آثار قدیمہ سے کوئی تحریر نہ ملے، اگر ملے تو پڑھی نہ جاسکے، وہاں ثقافتی ورثے کو سمجھنے کے لیے مٹی کے برتن بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں، موہنجو دڑو کی تہذیب سے لے کر آج تک کوزہ گری کا پیشہ اپنی مکمل قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ یہ بڑا خوب صورت، مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اس فن کی تیکنیکک بڑی دل چسپ اور پیچیدہ ہے۔ یہ فن انسان کو فطرت سے قریب رکھتا ہے۔ مٹی سے کھیلنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
مٹی کے برتن بنانے کے لیے کمہار ایک خاص مٹی، جسے سندھ میں ''چیکی مٹی'' کہتے ہیں، استعمال کرتے ہیں۔ اس مٹی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں نہ ریت ہوتی ہے اور نہ ہی دوسرے فاضل مادے۔ اچھے برتنوں کے لیے ایسی ہی صاف ستھری مٹی درکار ہوتی ہے۔ کمہار یہ مٹی دریا کے کناروں سے لاتے ہیں، مٹی کے ڈھیلوں کو سب سے پہلے چھوٹے سے گٹکے سے آٹے کی طرح گوندھتے ہیں، اس کے بعد مٹی کو چھانتے ہیں، جو مٹی اس سے گزر نہیں سکتی اسے پانی میں تحلیل کیا جاتا ہے۔
اگلے مرحلے میں گوندھی ہوئی مٹی کو ایک سانچے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سانچے سے گزارنے کے بعد مٹی کو چاک پر چڑھایا جاتا ہے۔ جب برتن چاک پر تیار ہوجاتا ہے تو اسے ایک دھاگے سے کاٹا جاتا ہے جس کو کمہار ''شنوٹ'' کہتے ہیں۔ اس مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد برتن کو زمین پر مزید سیدھا کیا جاتا ہے۔ یوں مٹی کے برتن کئی مراحل سے گزر کر لوگوں کے ہاتھوں اور گھروں تک پہنچتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں میں مٹکے اور صراحیاں بہت عام ہیں اور اکثر گھروں میں پانی کے استعمال میں آتے ہیں۔ مٹی کی صراحی، جسے سندھ میں ''گھگھی'' کہا جاتا ہے اپنی بناوٹ اور سجاوٹ کے اعتبار سے بہت خوب صورت برتن ہے۔ گھگھی کا مطلب ہے کہ گھو دینا یا گلا دبانا، صراحی بناتے ہوئے کمہار چوں کہ صراحی کے گلے کو دباتا ہے، اسی لیے اسے ''گھگھی'' کہا جاتا ہے، مٹی کے برتنوں میں صراحی نما برتن (گھگھی) کو بنانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کمہار گھگھی کو تین مراحل میں تیار کرتے ہیں، پہلے اس کا منہ بناتے ہیں، اس کے بعد درمیانی حصہ اور آخر میں نچلا حصہ بناتے ہیں، پھر سب سے آخر میں تینوں حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں تو یہ برتن صراحی یا گھگھی بن جاتا ہے۔
ویسے تو مٹی کی صراحیاں سندھ کے کئی اضلاع میں تیار کی جاتی ہیں، لیکن جوہی کی صراحیاں سندھ کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک میں بھی شہرت رکھتی ہیں۔ سندھ میں اس وقت جوہی صراحیاں یا مٹی کے برتنوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ جوہی کی صراحیوں کی مقبولیت کا سبب یہ ہے کہ یہ شہر سندھ کے گرم صحرائی خطے میں واقع ہے، جہاں صراحی کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے اور پانی ٹھنڈا کرنے اور رکھنے کے لیے صراحی استعمال کی جاتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں جب موٹر گاڑیاں نہیں تھیں اور لوگ اونٹوں اور گھوڑوں وغیرہ پر سفر کرتے تھے تو سفر کی طوالت اور موسم کی شدت کے پیش نظر پانی ساتھ رکھنا لازمی ہوتا تھا۔ چوں کہ مٹکوں یا دیگر برتنوں میں پانی ساتھ لے جانا مشکل ہوتا تھا، اس لیے صراحی کو اہمیت دی جانے لگی۔ صراحی کے گلے میں رسی وغیرہ باندھ کر اسے لٹکادیا جاتا تھا ۔ صراحی کی اس اہمیت کے باعث اس کی کھپت میں اضافہ ہونے لگا اور کمہاروں نے بھی صراحی بنانے میں زیادہ دل چسپی لی۔
جوہی کے مٹی کے برتنوں میں خصوصاً صراحی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہاں کی وہ مخصوص چکنی مٹی ہے جس سے تیار شدہ برتنوں میں پانی دیر تک اور زیادہ ٹھنڈا رہتا ہے، جتنی زیادہ گرمی ہوتی ہے اور لو چلتی ہے پانی ان برتنوں میں اتنا زیادہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ رات کے وقت تو صراحی کا پانی اتنا زیادہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ جیسے برف کا پانی ہو۔ ان خصوصیات کے باعث صحرا میں رہنے والے لوگ صراحی یا گھگھی کو فریزر یا برف سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جوہی میں سیکڑوں کاری گر مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے منسلک ہیں۔ صدیوں قدیم اس ہنر سے وابستہ کمہار نسل در نسل اس ہنر کو منتقل کرتے آرہے ہیں۔ اسے سیکھنے یا سکھانے کا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ سارا دن مٹی سے رشتہ قائم رکھنے والے کمہاروں کو اپنی محنت کا بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ اس کام میں ان کی خواتین بھی مدد کرتی ہیں۔
کمہار ایک سیاہ مسالا استعمال کرتے ہیں، یہ مصالحہ ''ناب دان'' بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا مسالا ''سہاگہ'' ہوتا ہے۔ سہاگہ بھی ''ناب دان'' یا ''بدر رو'' بنانے کے کام آتا ہے، یہ مسالہ مصری کی طرح ہوتا ہے۔ مٹی کے برتنوں پر نقش و نگار یا ڈیزائن بنانے کے لیے کچھ ''شیمپو'' بھی ہوتے ہیں، جنھیں کمہار ''مہر'' کہتے ہیں۔ یہ مہر بھیگے ہوئے یا کچے برتنوں پر لگائی جاتی ہے تو ان پر نقش ابھر آتے ہیں، جو برتنوں کے پکے ہونے کے بعد بھی ان پر موجود رہتے ہیں۔ آخری مرحلے پر یہ برتن ایک بھٹی میں، جس کو کمہار ''آوی'' کہتے ہیں، پکے ہونے کے لیے رکھ دیے جاتے ہیں، جہاں وہ پکے ہوکر استعمال کے لائق ہوجاتے ہیں۔ کمہار اس ''آوی'' کو دو دن قبل بھرلیتے ہیں، تیسرے دن اس کو آگ لگاتے ہیں، اسی طرح یہ برتن اس آگ میں پک جاتے ہیں۔
''آوی'' اینٹیں رکھ کر بنائی جاتی ہے، اس کا دہانہ تنگ ہوتا ہے جو کہ کھلا ہی رہتا ہے۔ اس میں آگ کو تیز کرنے کے لیے ایندھن ڈالتے ہیں۔ برتن کو پکانے کے لیے ترتیب سے رکھے جاتے ہیں ان برتنوں کے درمیان کے اوپر مٹی بکھیر دیتے ہیں، برتنوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھنے کو کمہار ''گھملا'' کہتے ہیں، برتن ترتیب سے رکھنے پر ان برتنوں کے درمیان جو جگہ بچتی ہے اس میں مٹی ڈالتے ہیں، مٹی کے برتن آوی یا بھتی میں پکنے کے بعد استعمال کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں کی چمک بنانے کے لیے کمہار دریا سے چمک دار ریت لے کر آتے ہیں جو برتنوں کے سانچے میں لگاتے ہیں۔ اس سے مٹی کے برتن چمک دار ہوجاتے ہیں جو اکثر دیکھنے میں خوش نما لگتے ہیں۔ اسی طرح لال مٹی کے برتن بھی خوب صورت لگتے ہیں، کمہار برتنوں کو رنگ نہیں کرتے، بل کہ ان پر مٹی کی طرح ایک چیز ہوتی ہے جسے سندھ میں ''میٹ'' کہتے ہیں، لگاتے ہیں جو کہ برتنوں کے پکے ہونے کے بعد سرخ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔
تاریخی کب میں لکھا ہے کہ سکندر اعظم 325-26 ق م میں دریا کی مٹی سے برتن بنواکر ان میں کھانا کھاتا اور پانی پینا پسند کرتا تھا۔ یہ فن موہنجو دڑو کے دور سے بھی ہزاروں برس پہلے موجود تھا اور کوزہ گری کا کام آئندہ بھی اپنی اہمیت کے حوالے سے زندہ رہ گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مٹی کے برتنوں کا استعمال بڑھایا جائے، مٹکے اور صراحی کے پانی ٹھنڈک فریزر یا برف کے ٹھنڈے پانی سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ پھر مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پانی میں شامل ہوکر اسے مزید ذائقہ دار بناتی ہے، مٹی کے برتن ہماری ثقافت کا حصہ بھی ہیں۔
سندھ کی دست کاریوں میں کوزہ گری بڑا خوب صورت ہنر ہے۔ دنیا میں ہاتھ سے بنائی گئی اشیاء میں مٹی کے برتن سب سے قدیم ہیں، موہنجو دڑو، ہڑپا اور کاہو جو دڑو کے آثار بھی اس کو ثابت کرتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کو سب سے پہلے پانی جمع کرنے کے لیے برتن کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس ضرورت کے باعث مٹی کا برتن ایجاد کیا گیا۔ دراصل انسان کو کھانے پینے کے لیے ایسے برتن جن میں خالص تازہ اور ٹھنڈی اشیاء رکھی جاسکیں ہر دور میں در کار رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ ایسی خاصیت والے صرف مٹی کے برتن ہی ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ایسی ہی دلیل سائنسی ماہرین نے بھی دی ہے۔ مٹی کے برتن ٹھنڈے اور فطرت سے قریب ہونے کے باعث صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ وہیں ہماری ثقافت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
کمہاروں کے بنائے ہوئے مختلف رنگوں اور ساخت کے مٹی کے ایسے برتن آثار قدیمہ سے بڑی تعداد میں ملتے رہے ہیں، جہاں تحقیق ادھوری ہو، آثار قدیمہ سے کوئی تحریر نہ ملے، اگر ملے تو پڑھی نہ جاسکے، وہاں ثقافتی ورثے کو سمجھنے کے لیے مٹی کے برتن بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں، موہنجو دڑو کی تہذیب سے لے کر آج تک کوزہ گری کا پیشہ اپنی مکمل قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ یہ بڑا خوب صورت، مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اس فن کی تیکنیکک بڑی دل چسپ اور پیچیدہ ہے۔ یہ فن انسان کو فطرت سے قریب رکھتا ہے۔ مٹی سے کھیلنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
مٹی کے برتن بنانے کے لیے کمہار ایک خاص مٹی، جسے سندھ میں ''چیکی مٹی'' کہتے ہیں، استعمال کرتے ہیں۔ اس مٹی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں نہ ریت ہوتی ہے اور نہ ہی دوسرے فاضل مادے۔ اچھے برتنوں کے لیے ایسی ہی صاف ستھری مٹی درکار ہوتی ہے۔ کمہار یہ مٹی دریا کے کناروں سے لاتے ہیں، مٹی کے ڈھیلوں کو سب سے پہلے چھوٹے سے گٹکے سے آٹے کی طرح گوندھتے ہیں، اس کے بعد مٹی کو چھانتے ہیں، جو مٹی اس سے گزر نہیں سکتی اسے پانی میں تحلیل کیا جاتا ہے۔
اگلے مرحلے میں گوندھی ہوئی مٹی کو ایک سانچے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سانچے سے گزارنے کے بعد مٹی کو چاک پر چڑھایا جاتا ہے۔ جب برتن چاک پر تیار ہوجاتا ہے تو اسے ایک دھاگے سے کاٹا جاتا ہے جس کو کمہار ''شنوٹ'' کہتے ہیں۔ اس مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد برتن کو زمین پر مزید سیدھا کیا جاتا ہے۔ یوں مٹی کے برتن کئی مراحل سے گزر کر لوگوں کے ہاتھوں اور گھروں تک پہنچتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں میں مٹکے اور صراحیاں بہت عام ہیں اور اکثر گھروں میں پانی کے استعمال میں آتے ہیں۔ مٹی کی صراحی، جسے سندھ میں ''گھگھی'' کہا جاتا ہے اپنی بناوٹ اور سجاوٹ کے اعتبار سے بہت خوب صورت برتن ہے۔ گھگھی کا مطلب ہے کہ گھو دینا یا گلا دبانا، صراحی بناتے ہوئے کمہار چوں کہ صراحی کے گلے کو دباتا ہے، اسی لیے اسے ''گھگھی'' کہا جاتا ہے، مٹی کے برتنوں میں صراحی نما برتن (گھگھی) کو بنانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کمہار گھگھی کو تین مراحل میں تیار کرتے ہیں، پہلے اس کا منہ بناتے ہیں، اس کے بعد درمیانی حصہ اور آخر میں نچلا حصہ بناتے ہیں، پھر سب سے آخر میں تینوں حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں تو یہ برتن صراحی یا گھگھی بن جاتا ہے۔
ویسے تو مٹی کی صراحیاں سندھ کے کئی اضلاع میں تیار کی جاتی ہیں، لیکن جوہی کی صراحیاں سندھ کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک میں بھی شہرت رکھتی ہیں۔ سندھ میں اس وقت جوہی صراحیاں یا مٹی کے برتنوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ جوہی کی صراحیوں کی مقبولیت کا سبب یہ ہے کہ یہ شہر سندھ کے گرم صحرائی خطے میں واقع ہے، جہاں صراحی کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے اور پانی ٹھنڈا کرنے اور رکھنے کے لیے صراحی استعمال کی جاتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں جب موٹر گاڑیاں نہیں تھیں اور لوگ اونٹوں اور گھوڑوں وغیرہ پر سفر کرتے تھے تو سفر کی طوالت اور موسم کی شدت کے پیش نظر پانی ساتھ رکھنا لازمی ہوتا تھا۔ چوں کہ مٹکوں یا دیگر برتنوں میں پانی ساتھ لے جانا مشکل ہوتا تھا، اس لیے صراحی کو اہمیت دی جانے لگی۔ صراحی کے گلے میں رسی وغیرہ باندھ کر اسے لٹکادیا جاتا تھا ۔ صراحی کی اس اہمیت کے باعث اس کی کھپت میں اضافہ ہونے لگا اور کمہاروں نے بھی صراحی بنانے میں زیادہ دل چسپی لی۔
جوہی کے مٹی کے برتنوں میں خصوصاً صراحی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہاں کی وہ مخصوص چکنی مٹی ہے جس سے تیار شدہ برتنوں میں پانی دیر تک اور زیادہ ٹھنڈا رہتا ہے، جتنی زیادہ گرمی ہوتی ہے اور لو چلتی ہے پانی ان برتنوں میں اتنا زیادہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ رات کے وقت تو صراحی کا پانی اتنا زیادہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ جیسے برف کا پانی ہو۔ ان خصوصیات کے باعث صحرا میں رہنے والے لوگ صراحی یا گھگھی کو فریزر یا برف سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جوہی میں سیکڑوں کاری گر مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے منسلک ہیں۔ صدیوں قدیم اس ہنر سے وابستہ کمہار نسل در نسل اس ہنر کو منتقل کرتے آرہے ہیں۔ اسے سیکھنے یا سکھانے کا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ سارا دن مٹی سے رشتہ قائم رکھنے والے کمہاروں کو اپنی محنت کا بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ اس کام میں ان کی خواتین بھی مدد کرتی ہیں۔
کمہار ایک سیاہ مسالا استعمال کرتے ہیں، یہ مصالحہ ''ناب دان'' بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا مسالا ''سہاگہ'' ہوتا ہے۔ سہاگہ بھی ''ناب دان'' یا ''بدر رو'' بنانے کے کام آتا ہے، یہ مسالہ مصری کی طرح ہوتا ہے۔ مٹی کے برتنوں پر نقش و نگار یا ڈیزائن بنانے کے لیے کچھ ''شیمپو'' بھی ہوتے ہیں، جنھیں کمہار ''مہر'' کہتے ہیں۔ یہ مہر بھیگے ہوئے یا کچے برتنوں پر لگائی جاتی ہے تو ان پر نقش ابھر آتے ہیں، جو برتنوں کے پکے ہونے کے بعد بھی ان پر موجود رہتے ہیں۔ آخری مرحلے پر یہ برتن ایک بھٹی میں، جس کو کمہار ''آوی'' کہتے ہیں، پکے ہونے کے لیے رکھ دیے جاتے ہیں، جہاں وہ پکے ہوکر استعمال کے لائق ہوجاتے ہیں۔ کمہار اس ''آوی'' کو دو دن قبل بھرلیتے ہیں، تیسرے دن اس کو آگ لگاتے ہیں، اسی طرح یہ برتن اس آگ میں پک جاتے ہیں۔
''آوی'' اینٹیں رکھ کر بنائی جاتی ہے، اس کا دہانہ تنگ ہوتا ہے جو کہ کھلا ہی رہتا ہے۔ اس میں آگ کو تیز کرنے کے لیے ایندھن ڈالتے ہیں۔ برتن کو پکانے کے لیے ترتیب سے رکھے جاتے ہیں ان برتنوں کے درمیان کے اوپر مٹی بکھیر دیتے ہیں، برتنوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھنے کو کمہار ''گھملا'' کہتے ہیں، برتن ترتیب سے رکھنے پر ان برتنوں کے درمیان جو جگہ بچتی ہے اس میں مٹی ڈالتے ہیں، مٹی کے برتن آوی یا بھتی میں پکنے کے بعد استعمال کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں کی چمک بنانے کے لیے کمہار دریا سے چمک دار ریت لے کر آتے ہیں جو برتنوں کے سانچے میں لگاتے ہیں۔ اس سے مٹی کے برتن چمک دار ہوجاتے ہیں جو اکثر دیکھنے میں خوش نما لگتے ہیں۔ اسی طرح لال مٹی کے برتن بھی خوب صورت لگتے ہیں، کمہار برتنوں کو رنگ نہیں کرتے، بل کہ ان پر مٹی کی طرح ایک چیز ہوتی ہے جسے سندھ میں ''میٹ'' کہتے ہیں، لگاتے ہیں جو کہ برتنوں کے پکے ہونے کے بعد سرخ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔
تاریخی کب میں لکھا ہے کہ سکندر اعظم 325-26 ق م میں دریا کی مٹی سے برتن بنواکر ان میں کھانا کھاتا اور پانی پینا پسند کرتا تھا۔ یہ فن موہنجو دڑو کے دور سے بھی ہزاروں برس پہلے موجود تھا اور کوزہ گری کا کام آئندہ بھی اپنی اہمیت کے حوالے سے زندہ رہ گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مٹی کے برتنوں کا استعمال بڑھایا جائے، مٹکے اور صراحی کے پانی ٹھنڈک فریزر یا برف کے ٹھنڈے پانی سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ پھر مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پانی میں شامل ہوکر اسے مزید ذائقہ دار بناتی ہے، مٹی کے برتن ہماری ثقافت کا حصہ بھی ہیں۔