بات کچھ اِدھر اُدھر کی کرپشن برائی یا فیشن
جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ کرپشن میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے سے پرہیز نہیں کرتا۔
کرپشن ویسے تو ایک عالمگیر کیفیت ہے لیکن ہمارے ہاں یہ ایک فیشن بنتا جا رہا ہے اور کار ثواب سمجھتے ہوئے اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھا یا جا رہا ہے اور اسی ثواب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ''حکمرانوں سمیت جس بندے کا بھی ''دا'' لگتا ہے اُس نے کر پشن کے انبار لگا دئیے ہیں۔
حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگ جو ایمانداری کا حلف لے کے کھلے عام کرپشن کی داستانیں رقم کرتے جا رہے ہیں ظلم تو یہ ہے کہ ان کے پریشر میں کام کرتے تفتیشی ادارے بھی حال سے بے حال ہوتے دکھا ئی دے رہے ہیں۔ گذشتہ چار برسوں میں اربوں روپے کی کرپشن کے تقر یباََ 2500 مقدمات میں کو ئی پیشرفت نہیں ہو پائی جس کی وجہ سے اربوں روپے کی کرپشن کھربوں میں پہنچ گئی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے بین الاقوامی اور پاکستانی چیپٹر کے تحت 2013کے لئے جاری پاکستان میں کرپشن پر سیشن سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک کے برے شعبوں بشمول محکمہ خزانہ،ٹیکس کلیکشن،مواصلات ،وزارت پانی و بجلی سمیت دیگر ادروں میں نشاندہی کے بعد لوٹی گئی رقم کی برآمدگی کی بجائے من پسند افراد کی تقرریاں ہوئیں جنہوں نے نام نہاد انکوائریوں کے نام پر قو می خزانے پر مزید بوجھ ڈالا۔ہمیں یہ بات بھی تسلیم کر نا ہو گی کہ اس میں صرف حکمران طبقہ ہی نہیں عام شہری بھی اسی طاقت کے ساتھ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جتنی شدت سے حکمران اشر افیہ ملک کو تبا ہی اور بربادی کے رستے گامزن کر نے میں مصروف عمل ہے۔پچھلے دنوں ایک دوست نے بتایا کہ کس طرح لوگ جعلی ٹینڈروں کے ذریعے ہسپتال انتظامیہ کی ملی بھگت سے ادویات کا ٹھیکہ لیتے ہیں اور ادویات کی بجائے یہ رقم آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔یقین جانیے کرپشن کے نے نئے طریقے سن کر انسا ن ہکا بکا رہ جا تا ہے کہ کس کس طریقے سے کرپشن کے راستے کھولے جاتے ہیں۔
اس بات میں بھی کو ئی شک نہیں کہ فُٹ پاتھ پر ٹھیہ لگائے بیٹھا پھل والا ہو یا پوش علاقے میں موجودڈیپارٹمنٹل سٹورکا مالک ،پٹرول پمپ کے ملازم سے لے کر مالکان ،مزدور سے لیکر ٹھیکیدار ، طالبعلم سے لیکر استاد ،وکیل سے لیکر جج ،صحافی سے لیکر اینکر پرسن ،سرکاری ملازم سے لیکر افسران خاص،پیرا میڈیکل سٹاف سے لیکر ڈاکٹر ،نوکر سے لیکر صاحب اور چھوٹے سے لیکر بڑے تک ہر بندہ کہیں نہ کہیں کرپشن میں ملوث ہے۔یہ بات شاید اِسی لیے کہی جاتی ہے کہ جس طرح کی رعا یا ہوتی ہے اُس پر اُس طرح کے حکمران مسلط کر دیئے جا تے ہیں''۔اگر ہم اِس بات کی روشنی میں ہم اپنے گریبانوں کے اندر جھانکیں تو جواب ہمیں خود مل جا ئے گا۔لیکن افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرتے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کرپشن کے حمام میں ہم سب ننگے ہیں جس کو جہاں مو قع میسر آتا ہے وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسروں کے حقوق غضب کرتے ہیں اور کمال مہارت کے ساتھ حکمرانوں کو اس کا قصو ر وار ٹہرا کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں،یہا ں تک کہ ظلم، ناا نصافی،،مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،فراڈ اور دھوکہ دہی ان سب گناہوں میں ہم اپنے حکمرانوں سے بھی سبقت لے جا تے ہیں۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات تبدیل ہوں تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیل ہونا ہوگا ،منافقت کا لبا دہ اُتار کے سچائی اور دیانتداری کے ساتھ کام کر نا ہوگا۔نہیں تو ہمیں انتظار کر نا ہو گا اس سے بھی بُرے حالات کاجو ہمارا مقدر ٹہریں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگ جو ایمانداری کا حلف لے کے کھلے عام کرپشن کی داستانیں رقم کرتے جا رہے ہیں ظلم تو یہ ہے کہ ان کے پریشر میں کام کرتے تفتیشی ادارے بھی حال سے بے حال ہوتے دکھا ئی دے رہے ہیں۔ گذشتہ چار برسوں میں اربوں روپے کی کرپشن کے تقر یباََ 2500 مقدمات میں کو ئی پیشرفت نہیں ہو پائی جس کی وجہ سے اربوں روپے کی کرپشن کھربوں میں پہنچ گئی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے بین الاقوامی اور پاکستانی چیپٹر کے تحت 2013کے لئے جاری پاکستان میں کرپشن پر سیشن سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک کے برے شعبوں بشمول محکمہ خزانہ،ٹیکس کلیکشن،مواصلات ،وزارت پانی و بجلی سمیت دیگر ادروں میں نشاندہی کے بعد لوٹی گئی رقم کی برآمدگی کی بجائے من پسند افراد کی تقرریاں ہوئیں جنہوں نے نام نہاد انکوائریوں کے نام پر قو می خزانے پر مزید بوجھ ڈالا۔ہمیں یہ بات بھی تسلیم کر نا ہو گی کہ اس میں صرف حکمران طبقہ ہی نہیں عام شہری بھی اسی طاقت کے ساتھ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جتنی شدت سے حکمران اشر افیہ ملک کو تبا ہی اور بربادی کے رستے گامزن کر نے میں مصروف عمل ہے۔پچھلے دنوں ایک دوست نے بتایا کہ کس طرح لوگ جعلی ٹینڈروں کے ذریعے ہسپتال انتظامیہ کی ملی بھگت سے ادویات کا ٹھیکہ لیتے ہیں اور ادویات کی بجائے یہ رقم آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔یقین جانیے کرپشن کے نے نئے طریقے سن کر انسا ن ہکا بکا رہ جا تا ہے کہ کس کس طریقے سے کرپشن کے راستے کھولے جاتے ہیں۔
اس بات میں بھی کو ئی شک نہیں کہ فُٹ پاتھ پر ٹھیہ لگائے بیٹھا پھل والا ہو یا پوش علاقے میں موجودڈیپارٹمنٹل سٹورکا مالک ،پٹرول پمپ کے ملازم سے لے کر مالکان ،مزدور سے لیکر ٹھیکیدار ، طالبعلم سے لیکر استاد ،وکیل سے لیکر جج ،صحافی سے لیکر اینکر پرسن ،سرکاری ملازم سے لیکر افسران خاص،پیرا میڈیکل سٹاف سے لیکر ڈاکٹر ،نوکر سے لیکر صاحب اور چھوٹے سے لیکر بڑے تک ہر بندہ کہیں نہ کہیں کرپشن میں ملوث ہے۔یہ بات شاید اِسی لیے کہی جاتی ہے کہ جس طرح کی رعا یا ہوتی ہے اُس پر اُس طرح کے حکمران مسلط کر دیئے جا تے ہیں''۔اگر ہم اِس بات کی روشنی میں ہم اپنے گریبانوں کے اندر جھانکیں تو جواب ہمیں خود مل جا ئے گا۔لیکن افسوس کہ ہم ایسا نہیں کرتے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کرپشن کے حمام میں ہم سب ننگے ہیں جس کو جہاں مو قع میسر آتا ہے وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسروں کے حقوق غضب کرتے ہیں اور کمال مہارت کے ساتھ حکمرانوں کو اس کا قصو ر وار ٹہرا کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں،یہا ں تک کہ ظلم، ناا نصافی،،مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،فراڈ اور دھوکہ دہی ان سب گناہوں میں ہم اپنے حکمرانوں سے بھی سبقت لے جا تے ہیں۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات تبدیل ہوں تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیل ہونا ہوگا ،منافقت کا لبا دہ اُتار کے سچائی اور دیانتداری کے ساتھ کام کر نا ہوگا۔نہیں تو ہمیں انتظار کر نا ہو گا اس سے بھی بُرے حالات کاجو ہمارا مقدر ٹہریں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔