اسلام آباد میں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کے دوران 3 افراد جاں بحق 480 زخمی
پمز میں229اور پولی کلینک میں 251مریض لائے گئے ہیں جن میں مظاہرین اور پولیس کے علاوہ صحافی بھی شامل ہیں
وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں گزشتہ کئی گھنٹوں سے پولیس اور مظاہرین میں آنکھ مچولی جاری ہے جبکہ شیلنگ، لاٹھی چارج اور پتھراؤ سے اب تک 3 افراد جاں بحق جبکہ 480 زخمی ہوگئے ہیں۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں کئی گھنٹوں بعد بھی پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ احتجاجی مظاہرین کا ایک گروپ پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں خیمے ڈال لئے ہیں اور وہاں موجود سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں، ان لوگوں میں اکثریت خواتین اور چھوٹے بچوں کی ہے۔ شاہراہِ دستور پر پاک سیکریٹیریٹ کے سامنے مظاہرین اور پولیس کی جھڑپیں جاری ہیں۔ ڈنڈو ں غلیلوں اور پتھروں سے لیس یہ مظاہرین ریڈ زون کی سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے کنٹینرز کے عقب میں چھپے ہیں جو وقفے وقفے سے باہر نکل کر پتھراؤ اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں تاہم پولیس کی جانب سے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی ہے جبکہ زیادہ قریب آنے پر پر ربڑ کی گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں۔ جس کے بعد وہ پھر کنٹینرز کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ رات سے جاری اس تصادم کے نتیجے میں اب تک 3 افراد جاں بحق جبکہ 480 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ پمز میں229اور پولی کلینک میں 251مریض لائے گئے ہیں، زخمی ہونے والوں میں مظاہرین اور پولیس کے علاوہ صحافی، میڈیا کے نمائندوں اور براہ راست کوریج سے منسلک عملے کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ ترجمان پمز اسپتال ڈاکٹر عائشہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک دو افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن کی شناخت گلفام محمود اور نوید رضا کے نام سے ہوئی ہے۔ معمولی زخمیوں کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے، رفیق اللہ اور آصف نامی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ پمز میں زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 45 ہے جب کہ 38عورتیں اور 5بچے بھی پمز اسپتال لائے گئے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض آنسو گیس کے اثرات کے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ سے بھی آئے ہیں۔ مظاہرے کے دوران 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں جنہیں آبپارہ، سیکریٹریٹ،سبزی منڈی اور کوہسار پولیس اسٹیشنز میں رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب پولیس اہلکاروں نے کئی نیوز چینلز سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز، کمیرا مین اور دیگر عملے پرلاتوں، لاٹھیوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا، کئی کمیرے توڑ دیئے گئے اور ڈی ایس این جی وینز کو نشانہ بنایا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے صحافیوں پر پولیس تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے، اس کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ جمہوریت اور آزادی صحافت لازم و ملزوم ہیں، حکومت آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے، صحافیوں پر تشدد کرنے والے جمہوریت اور جمہوری نظام کے خیر خواہ نہیں۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں کئی گھنٹوں بعد بھی پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ احتجاجی مظاہرین کا ایک گروپ پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں خیمے ڈال لئے ہیں اور وہاں موجود سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں، ان لوگوں میں اکثریت خواتین اور چھوٹے بچوں کی ہے۔ شاہراہِ دستور پر پاک سیکریٹیریٹ کے سامنے مظاہرین اور پولیس کی جھڑپیں جاری ہیں۔ ڈنڈو ں غلیلوں اور پتھروں سے لیس یہ مظاہرین ریڈ زون کی سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے کنٹینرز کے عقب میں چھپے ہیں جو وقفے وقفے سے باہر نکل کر پتھراؤ اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں تاہم پولیس کی جانب سے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جاتی ہے جبکہ زیادہ قریب آنے پر پر ربڑ کی گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں۔ جس کے بعد وہ پھر کنٹینرز کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ رات سے جاری اس تصادم کے نتیجے میں اب تک 3 افراد جاں بحق جبکہ 480 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ پمز میں229اور پولی کلینک میں 251مریض لائے گئے ہیں، زخمی ہونے والوں میں مظاہرین اور پولیس کے علاوہ صحافی، میڈیا کے نمائندوں اور براہ راست کوریج سے منسلک عملے کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ ترجمان پمز اسپتال ڈاکٹر عائشہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک دو افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن کی شناخت گلفام محمود اور نوید رضا کے نام سے ہوئی ہے۔ معمولی زخمیوں کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے، رفیق اللہ اور آصف نامی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ پمز میں زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 45 ہے جب کہ 38عورتیں اور 5بچے بھی پمز اسپتال لائے گئے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض آنسو گیس کے اثرات کے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ سے بھی آئے ہیں۔ مظاہرے کے دوران 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں جنہیں آبپارہ، سیکریٹریٹ،سبزی منڈی اور کوہسار پولیس اسٹیشنز میں رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب پولیس اہلکاروں نے کئی نیوز چینلز سے تعلق رکھنے والے رپورٹرز، کمیرا مین اور دیگر عملے پرلاتوں، لاٹھیوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا، کئی کمیرے توڑ دیئے گئے اور ڈی ایس این جی وینز کو نشانہ بنایا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے صحافیوں پر پولیس تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے، اس کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ جمہوریت اور آزادی صحافت لازم و ملزوم ہیں، حکومت آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے، صحافیوں پر تشدد کرنے والے جمہوریت اور جمہوری نظام کے خیر خواہ نہیں۔