انوکھا احتجاج
طاہر القادری کے کارکنوں کی آزمائش سانحہ ماڈل ٹائون سے شروع ہوتی ہے۔۔۔
گزشتہ کالم میں دی گئی تاریخیں انتہا سنسنی خیز ثابت ہوئیں۔ خاص طور پر 26-25 سے 28 اگست۔ 26 تاریخ کو لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی وزراء کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، وفاقی وزراء اور سابق وزیر قانون پنجاب سمیت 21 افراد کے خلاف درج کرنے کا سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور فیصلے کے خلاف چار وفاقی وزراء کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
28 اگست کی رات اس لیے اہم تھی کہ خبر آئی فوج نے حکومت کی طرف سے ثالث ضامن بننا قبول کر لیا ہے۔ ساری رات یہ خبر چلتی رہی حکومت کی طرف سے کوئی تردید سامنے نہ آئی تو عوام نے، جو پچھلے دو ہفتوں سے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے تھے، سکھ کا سانس لیا کیونکہ معاشرے کے تمام طبقات شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ معیشت ڈوب رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج بدترین اشارے دے رہا ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ سب سے زیادہ یہی دو شہر متاثر ہوئے ہیں۔
گرمیوں کی طویل چھٹیوں کے باوجود تعلیمی ادارے بدستور بند ہیں۔ سب کو امید تھی کہ فوج کی مداخلت حالات سے جلد روبہ اصلاح ہو جائیں گے لیکن اگلے دن وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ فوج نے ثالث بننے کا کہا نہ ہم نے ان سے کوئی ایسی درخواست کی بلکہ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ فوج کا کردار نہ ضامن کا ہو سکتا ہے اور نہ ہی ثالثی کا کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔ اسی صورت حال نے پوری قوم کو انتہائی کنفیوز اور شدید پریشانی سے دوچار کر دیا اور قوم آئی ایس پی آر کے بیان کا انتظار کرنے لگی۔
آخر کار آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل سلیم باجوہ کی طرف سے یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ حکومت نے فوج سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ یعنی موجودہ سیاسی بحران کو ڈی فیوز کرنے کے لیے فوج مدد گار بنے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن جوش جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ فوری ایکشن چاہتے تھے۔ گزشتہ جمعہ کی رات کو قادری صاحب نے مجمع کو بمشکل کنٹرول کیا تھاکہ وہ مزید 24 گھنٹے انتظار کر لیں لیکن کارکنوں نے ان کی بات کو آسانی سے قبول نہیں کیا۔
اس کے لیے ڈاکٹر صاحب کو تقریر کرتے ہوئے بہت سے دلائل دینے پڑے پھر جا کر مجمع بڑی مشکل سے رکنے پر قائل ہوا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی جو اس اجتماع اور اس میں شامل لوگوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ اگر اجتماع میں دس بیس لاکھ لوگ بھی شامل ہو جاتے تو یہی لوگ اعتراض کرتے کہ باقی 18 کروڑ عوام کہاں ہے۔ وہ تو یہاں نظر نہیں آ رہے۔ ادھر عمران خان کے کارکن بھی بپھرے ہوئے تھے۔ عمران خان انھیں کتنی دیر تک روک سکتے تھے۔ حکومت اور قومی اسمبلی میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت کو اس صورت حال پر غور کرنا چاہیے تھا اور معاملات کو اتنا طول نہیں دینا چاہیے تھا۔
طاہر القادری کے کارکنوں کی آزمائش سانحہ ماڈل ٹائون سے شروع ہوتی ہے پھر یکم اگست سے مسلسل اذیت میں ہے، دس دن ان پر کھانا پانی بند کر دیا گیا۔ اس بدترین گرمی اور حبس میں لیکن ان کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں۔ اس میں بچے ہیں، بوڑھے ہیں، مرد، خواتین، لڑکیاں سب شامل ہیں۔ اسلام آباد پہنچ کر بھی اس آزمائش میں کمی نہیں آئی۔ کھلے آسمان تلے چلچلاتی دھوپ ہے۔ اعتراض کرنے والے اگر اس دھوپ میں چند گھنٹے ہی بیٹھ کر دکھا دیں تو وہ میڈل کے حقدار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کے پیٹ میں اعتراض کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں۔
پچھلی دفعہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ پر معترضین بلک بلک کر آنسو بہاتے رہے کہ ڈاکٹر صاحب گرم کنٹینر میں آرام فرماتے رہے جب کہ ان کے کارکن باہر اسلام آباد کی سردی میں پانچ راتیں ٹھٹھرتے رہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا ان کے کسی ایک کارکن نے بھی میڈیا سے اس حوالے سے کوئی شکایت کی۔
پھر آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ اس دفعہ حریف قادری صاحب پر تو کوئی اعتراض جڑ نہ سکے لیکن انھوں نے عمران خان کو ٹارگٹ بنا لیا کہ وہ اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر بنی گالہ اپنی رہائش گاہ پر آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔ جب عمران خان نے کارکنوں کے درمیان کنٹینر میں سونا شروع کر دیا تو پھر بھی اعتراض ہے۔ بات پھر وہی ہے کہ جب کارکنوں کو اعتراض نہیں تو آپ کون؟ کارکنوں کے لیے اپنے لیڈر کی صحت و سلامتی سب سے مقدم ہوتی ہے اس کے لیے وہ کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوریت اس وقت واقعی خطرے میں آ جاتی ہے جب غریب عوام فاقوں کے ہاتھوں خودکشی کرنے لگیں۔ کوئی بھی طاقتور ان کے گھر کی چار دیواری پھلانگ کر ان کی عزت کو لوٹ لے۔ انصاف نہ ملنے پر ان کے پاس اپنے آپ کو آگ لگانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ عوام ہی جمہوریت کے محافظ ہوتے ہیں لیکن جب جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتیں وجود میں آ جائیں۔
ان کے لیڈر امیر سے امیر تر ہوتے جائیں اور عوام کے فاقوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو عوام جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت اصلی نہیں نقلی ہے جس میں پاکستانی عوام کی قسمت میں حکمرانوں کی اولادوں کی بھی غلامی لکھ دی گئی ہے۔ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکن اسی غلامی سے نجات کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ اسی وجہ سے ہوا۔
سیاسی بحران 31 اگست سے 3 ستمبر کے درمیان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گا۔
سیل فون: 0346-4527997
28 اگست کی رات اس لیے اہم تھی کہ خبر آئی فوج نے حکومت کی طرف سے ثالث ضامن بننا قبول کر لیا ہے۔ ساری رات یہ خبر چلتی رہی حکومت کی طرف سے کوئی تردید سامنے نہ آئی تو عوام نے، جو پچھلے دو ہفتوں سے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے تھے، سکھ کا سانس لیا کیونکہ معاشرے کے تمام طبقات شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ معیشت ڈوب رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج بدترین اشارے دے رہا ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ سب سے زیادہ یہی دو شہر متاثر ہوئے ہیں۔
گرمیوں کی طویل چھٹیوں کے باوجود تعلیمی ادارے بدستور بند ہیں۔ سب کو امید تھی کہ فوج کی مداخلت حالات سے جلد روبہ اصلاح ہو جائیں گے لیکن اگلے دن وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ فوج نے ثالث بننے کا کہا نہ ہم نے ان سے کوئی ایسی درخواست کی بلکہ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ فوج کا کردار نہ ضامن کا ہو سکتا ہے اور نہ ہی ثالثی کا کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔ اسی صورت حال نے پوری قوم کو انتہائی کنفیوز اور شدید پریشانی سے دوچار کر دیا اور قوم آئی ایس پی آر کے بیان کا انتظار کرنے لگی۔
آخر کار آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل سلیم باجوہ کی طرف سے یہ اطلاع فراہم کی گئی کہ حکومت نے فوج سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ یعنی موجودہ سیاسی بحران کو ڈی فیوز کرنے کے لیے فوج مدد گار بنے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن جوش جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ فوری ایکشن چاہتے تھے۔ گزشتہ جمعہ کی رات کو قادری صاحب نے مجمع کو بمشکل کنٹرول کیا تھاکہ وہ مزید 24 گھنٹے انتظار کر لیں لیکن کارکنوں نے ان کی بات کو آسانی سے قبول نہیں کیا۔
اس کے لیے ڈاکٹر صاحب کو تقریر کرتے ہوئے بہت سے دلائل دینے پڑے پھر جا کر مجمع بڑی مشکل سے رکنے پر قائل ہوا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی جو اس اجتماع اور اس میں شامل لوگوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ اگر اجتماع میں دس بیس لاکھ لوگ بھی شامل ہو جاتے تو یہی لوگ اعتراض کرتے کہ باقی 18 کروڑ عوام کہاں ہے۔ وہ تو یہاں نظر نہیں آ رہے۔ ادھر عمران خان کے کارکن بھی بپھرے ہوئے تھے۔ عمران خان انھیں کتنی دیر تک روک سکتے تھے۔ حکومت اور قومی اسمبلی میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت کو اس صورت حال پر غور کرنا چاہیے تھا اور معاملات کو اتنا طول نہیں دینا چاہیے تھا۔
طاہر القادری کے کارکنوں کی آزمائش سانحہ ماڈل ٹائون سے شروع ہوتی ہے پھر یکم اگست سے مسلسل اذیت میں ہے، دس دن ان پر کھانا پانی بند کر دیا گیا۔ اس بدترین گرمی اور حبس میں لیکن ان کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں۔ اس میں بچے ہیں، بوڑھے ہیں، مرد، خواتین، لڑکیاں سب شامل ہیں۔ اسلام آباد پہنچ کر بھی اس آزمائش میں کمی نہیں آئی۔ کھلے آسمان تلے چلچلاتی دھوپ ہے۔ اعتراض کرنے والے اگر اس دھوپ میں چند گھنٹے ہی بیٹھ کر دکھا دیں تو وہ میڈل کے حقدار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کے پیٹ میں اعتراض کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں۔
پچھلی دفعہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ پر معترضین بلک بلک کر آنسو بہاتے رہے کہ ڈاکٹر صاحب گرم کنٹینر میں آرام فرماتے رہے جب کہ ان کے کارکن باہر اسلام آباد کی سردی میں پانچ راتیں ٹھٹھرتے رہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا ان کے کسی ایک کارکن نے بھی میڈیا سے اس حوالے سے کوئی شکایت کی۔
پھر آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ اس دفعہ حریف قادری صاحب پر تو کوئی اعتراض جڑ نہ سکے لیکن انھوں نے عمران خان کو ٹارگٹ بنا لیا کہ وہ اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر بنی گالہ اپنی رہائش گاہ پر آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔ جب عمران خان نے کارکنوں کے درمیان کنٹینر میں سونا شروع کر دیا تو پھر بھی اعتراض ہے۔ بات پھر وہی ہے کہ جب کارکنوں کو اعتراض نہیں تو آپ کون؟ کارکنوں کے لیے اپنے لیڈر کی صحت و سلامتی سب سے مقدم ہوتی ہے اس کے لیے وہ کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ جمہوریت اس وقت واقعی خطرے میں آ جاتی ہے جب غریب عوام فاقوں کے ہاتھوں خودکشی کرنے لگیں۔ کوئی بھی طاقتور ان کے گھر کی چار دیواری پھلانگ کر ان کی عزت کو لوٹ لے۔ انصاف نہ ملنے پر ان کے پاس اپنے آپ کو آگ لگانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ عوام ہی جمہوریت کے محافظ ہوتے ہیں لیکن جب جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتیں وجود میں آ جائیں۔
ان کے لیڈر امیر سے امیر تر ہوتے جائیں اور عوام کے فاقوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو عوام جمہوریت پر آمریت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت اصلی نہیں نقلی ہے جس میں پاکستانی عوام کی قسمت میں حکمرانوں کی اولادوں کی بھی غلامی لکھ دی گئی ہے۔ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکن اسی غلامی سے نجات کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ اسی وجہ سے ہوا۔
سیاسی بحران 31 اگست سے 3 ستمبر کے درمیان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گا۔
سیل فون: 0346-4527997