وائسرائے کے آنسو
ہم پاکستانیوں کے لیے بھی یہاں ایک سبق موجود ہے۔۔۔۔
نئی دلّی کے وائسرائے ہاؤس میں کیسا عجیب منظر تھا! پرلطف بھی اور کچھ غمگین بھی!
یہ واقعہ تقسیم ہند سے فوراً پہلے کا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم الشان محل میں، جو سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت کا مظہر تھا، انگریز وائسرائے کی اہلیہ، یعنی حسین و جمیل خاتون خانہ، ایک غسل خانے میں بند ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ ہے اور پلیٹ پر بھنے ہوئے مرغ کے اشتہا انگیز پارچے رکھے ہیں جنھیں وہ مزے لے لے کر حلق سے اتار رہی ہے۔ ساتھ ہی میم صاحبہ کا پالتو سیلی ہیم (کتا) بھی مالکن کی پنڈلی کو کھرچ کر اپنے حصے کا مطالبہ کررہا ہے۔
منہ میں پانی بھرے ہم یہاں سے رخصت ہوتے ہیں اور نچلی منزل پر وائسرائے بہادر کی شاہانہ اسٹڈی کی طرف آتے ہیں۔ یہاں ایک اور حیرت ناک منظر ہمارا منتظر ہے۔
لارڈ وائسرائے جو شاہ برطانیہ کا نمایندہ (اور فرسٹ کزن) ہے، اس بڑے کمرے میں گم صم یوں کھڑا ہے جیسے کوئی مسافر صحرا میں راستہ بھول گیا ہو اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں۔ دنیا کی ایک طاقت ور ترین ہستی کی آنکھوں میں آنسو؟ ان آنکھوں میں آنسو جن کا ایک اشارہ برصغیر کے چالیس کروڑ انسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے:
بھلا کیوں ہے مغموم یہ وائسرائے؟
ان آنکھوں میں آنسو بھلا کیسے آئے؟
جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں مزید 32 سال پیچھے جانا پڑے گا۔
پندرہ سالہ شوخ و شنگ لڑکی بہت خوب صورت تھی اور سولہ سالہ لڑکا بھی مردانہ جمال کا نمونہ تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پہلی ہی نظر میں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوگیا۔ روس کا دارالحکومت سینٹ پیٹرس برگ ایک بہت دلکش اور رومان پرور شہر تھا۔ موسم بھی خوش گوار تھا۔
دونوں کا رشتہ شاہی خاندانوں سے تھا اور دونوں انگلستان کی ملکہ اور سلطنتِ برطانیہ کی قیصرہ وکٹوریہ کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ لڑکی تھی زار روس نکولس کی صحت مند اور پرکشش بیٹی شہزادی ''میری'' اور لڑکا تھا ''ڈِکی'' Dickie یعنی لوئی بیٹن برگ L ouis Batanbergجو آگے چل کر جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر بنا اور اب لارڈ مائونٹ بیٹن کے طور پر ہندوستان کے آخری وائسرائے کی حیثیت سے آیا تھا۔
تو پھر ''میری'' اور ''ڈِکی'' کی شادی کیوں نہ ہوسکی؟ بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی، یہ یورپ کے دو عظیم شاہی خاندانوں کا ملاپ ہوتا مگر بے رحم تاریخ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لڑکا لڑکی کی اس ملاقات کے بعد جلد ہی روس میں انقلاب در انقلاب آگیا۔ بادشاہت ختم کردی گئی اور زار، بیمار زارینہ اور الیگزینڈرا، چار جوان بیٹیوں اور معذور شہزادے کو گرفتار کرلیا گیا۔
سات افراد پر مشتمل شاہی خاندان کی بہت تذلیل کی گئی اور پھر جولائی 1918 میں یورال پہاڑی سلسلے کے ایک دور افتاد ہ گائوں ایکاتیرن برگ Ekaterinberg میں وہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جسے بھلانا ممکن نہیں۔ روس کے نئے سربراہ ''لینن'' کے حکم پر ان سب کو بیدردی سے شوٹ کرکے مار ڈالا جاتا ہے۔ یاد رہے لینن کا بڑا بھائی 1887 میں زار الیگزینڈر سوئم کے قتل کی ناکام سازش میں گرفتار ہوا اور پھانسی پر لٹکایا گیا تھا، کیا یہ لینن کا انتقام تھا۔ شاید!
اپنی مقتول محبوبہ کو یاد کرکے اب وائسرائے رو رہا ہے۔ زار روس کی حماقتوں کی وجہ سے روس تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ اب اس کے سامنے ہندوستانی لیڈر، راجے مہاراجے اور نواب تھے۔ زار روس کا حشر ان سب کے لیے درس عبرت تھا۔ برصغیر کی مجوزہ تقسیم بھی قتل و غارت کے بغیر ممکن نظر نہیں آرہی تھی۔
ہم پاکستانیوں کے لیے بھی یہاں ایک سبق موجود ہے۔
آسان حل: ہر مسئلے کا ایک آسان حل ہوتا ہے اور بے شمار مشکل حل۔ اگر انقلاب سے کچھ پہلے روسی بیکریوں کو اچھے اوون فراہم کردیے جاتے تو روٹی کی قلت پیدا نہ ہوتی جو انقلاب کی ایک وجہ بنی تھی۔ یہ ایک آسان حل تھا لیکن افسران حکومت تو لمبے چوڑے خرچ والے حل پسند کرتے ہیں۔ پاکستانی بیورو کریٹ بھی اسی قسم کے لوگ ہیں۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز وغیرہ کو ٹھیک کرنے کے سیدھے سادے حل موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔
قرضے معاف: ہمارا یہ پسندیدہ مشغلہ روس میں بھی عام تھا۔ شاہی خاندان کے افراد خصوصاً زار کی والدہ محترمہ اور رشتے دار سرکاری خزانے سے خوب خوب ''قرضے'' لیتے تھے جن کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نتیجہ: معیشت کی تباہی۔
بیروزگاری: زار نے ایک بڑا کام تو ضرور کیا یعنی دارالحکومت سے ولادی وسٹاک تک چھ ہزار میل لمبی ریل گاڑی متعارف کرائی لیکن اس کے علاوہ صنعتی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا اور زراعت کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ بیروزگاری اور افلاس نے انقلاب کا راستہ ہموار کیا۔
اقربا نوازی: تمام اہم عہدوں پر عزیز و اقارب اور من پسند لوگ بھرتی کیے جاتے تھے۔ میرٹ کو بالکل نظر انداز کیاگیا۔ لہٰذا ہر محکمہ پاکستان ریلوے جیسا نقشہ پیش کرتا تھا کیوںکہ کوئی بھی کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔
پولیس راج: قانون نافذ کرنے والے ارباب عوام کو بے حد حقیر سمجھتے تھے۔ خوب لوٹتے تھے اور ذلیل کرتے تھے، حتیٰ کہ عوام پر گولیاں چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔
وڈیرہ شاہی: زار روس تو بادشاہ تھا لیکن اس کے حواریوں نے سارے ملک میں ''وڈیرہ شاہی'' بھی نافذ کر رکھی تھی۔ ان کے پرائیویٹ جیل بھی تھے اور ''بیگار'' کا بھی خوب رواج تھا۔
رشوت اور خوشامد: تمام وزرا اور مصاحب چاپلوسی میں بھی ماہر تھے۔ رشوت کا بازار گرم تھا۔ نہایت ناکارہ لوگ چھائے ہوئے تھے۔ ''راسپوٹین'' جیسا ''جعلی پیر'' سیاہ وسفید کا مالک بنا ہوا تھا۔ آخر میں زار روس نے کف افسوس ملا تھا کہ اس کے وزیروں نے اسے دھوکا دیا۔ مگر نااہل وزیروں کو چنا کس نے تھا؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو ضیا الحق کو خود لائے اور نواز شریف پرویز مشرف کو لائے اور پھر شکایت کرے۔
ریاستوں میں بے چینی: روس کی مختلف ریاستوں میں بھی بے چینی بہت تھی، اس لیے کہ سارا اقتدار یورپی روس تک محدود تھا۔ لیبیا اور شام میں یہی صورت حال رہی ہے اور پاکستان میں بھی صوبائی بے چینی ملک کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے، طاقت و دولت کا ارتکاز ایک خاص علاقے تک محدود ہے۔
عوامی نمایندگی: زار کو چاہیے تھا کہ وہ جمہوریت کی راہ ہموار کرتا اور عوامی نمایندگی کو فروغ دیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ پاکستان کہنے کو تو ایک جمہوری ملک ہے مگر قبائلی اور جاگیردارانہ ماحول میں عوامی نمایندگی ممکن نہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے مذہبی پیشوا، ہمارے سیاست دان وغیرہ سب پاکستانی عوام کو بے اختیار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انھیں دھوکا دیا جاسکے۔ قومی دولت اور وسائل کو لوٹا جاسکے۔ ملک پر ڈرون حملے جاری رکھے جاسکیں۔ لوٹی ہوئی بے اندازہ دولت سوئس بینکوں میں محفوظ رہے، عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاسکیں، دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو کھلی چھوٹ دی جاسکے، خارجہ پالیسی کو بھی ہیر پھیر میں استعمال کیا جاسکے۔ ساری دنیا میں پاکستان کو بے عزت کیا جاسکے۔
روس میں تو ایک زار تھا۔ یہاں ہر وزیر، ہر وڈیرہ، ہر رہنما اور ہر پولیس افسر زار بنا ہوا ہے۔ وہاں تو ایک راسپوٹین تھا، یہاں نہ صرف سیکڑوں دھوکے باز راسپوٹین مزے کررہے ہیں بلکہ مذہبی جنون اور تعصب اور دہشت گردی کو فروغ دینے والے تور کیمادا (Torquemada) جیسے پیشوا بھی موجود ہیں جو بستیاں اجاڑ کر اور لاشیں گرا کر خوش ہوتے ہیں۔ ہسپانیہ میں 1492 میں عربوں کی شکست کے بعد مذہبی دہشت گردی Inquistion)) کا دور شروع ہوا۔
ہر شہر میں Autodafe کا اہتمام کیا جاتا جس میں غیر کیتھولک آگ میںجلائے جاتے اور ''تماشائی'' خوشی سے تالیاں بجاتے۔ ملکہ ایزابیلا کے پیر (Confessor) تور کیمادا نے ملکہ کو مشورہ دیا کہ تمام مسلمان اور یہودی خراب و خستہ جہازوں میں بھر کر سمندر میں چھوڑ دیے جائیں تاکہ وہ ڈوب جائیں یا بھوکے مر جائیں۔ اس جنونی ذہنیت کے لوگ ہمارے درمیان دیکھے جاسکتے ہیں اور تمام ''با اثر لوگ'' ان کے حمایتی ہیں۔ کوئی بہتری ممکن نہیں۔
ہمارے وطن میں ہے سب کچھ ہی ''اوکے''
بہت خوش ہے یہ قوم ہر چیز کھو کے
یہ واقعہ تقسیم ہند سے فوراً پہلے کا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم الشان محل میں، جو سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت کا مظہر تھا، انگریز وائسرائے کی اہلیہ، یعنی حسین و جمیل خاتون خانہ، ایک غسل خانے میں بند ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ ہے اور پلیٹ پر بھنے ہوئے مرغ کے اشتہا انگیز پارچے رکھے ہیں جنھیں وہ مزے لے لے کر حلق سے اتار رہی ہے۔ ساتھ ہی میم صاحبہ کا پالتو سیلی ہیم (کتا) بھی مالکن کی پنڈلی کو کھرچ کر اپنے حصے کا مطالبہ کررہا ہے۔
منہ میں پانی بھرے ہم یہاں سے رخصت ہوتے ہیں اور نچلی منزل پر وائسرائے بہادر کی شاہانہ اسٹڈی کی طرف آتے ہیں۔ یہاں ایک اور حیرت ناک منظر ہمارا منتظر ہے۔
لارڈ وائسرائے جو شاہ برطانیہ کا نمایندہ (اور فرسٹ کزن) ہے، اس بڑے کمرے میں گم صم یوں کھڑا ہے جیسے کوئی مسافر صحرا میں راستہ بھول گیا ہو اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں۔ دنیا کی ایک طاقت ور ترین ہستی کی آنکھوں میں آنسو؟ ان آنکھوں میں آنسو جن کا ایک اشارہ برصغیر کے چالیس کروڑ انسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے:
بھلا کیوں ہے مغموم یہ وائسرائے؟
ان آنکھوں میں آنسو بھلا کیسے آئے؟
جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں مزید 32 سال پیچھے جانا پڑے گا۔
پندرہ سالہ شوخ و شنگ لڑکی بہت خوب صورت تھی اور سولہ سالہ لڑکا بھی مردانہ جمال کا نمونہ تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پہلی ہی نظر میں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوگیا۔ روس کا دارالحکومت سینٹ پیٹرس برگ ایک بہت دلکش اور رومان پرور شہر تھا۔ موسم بھی خوش گوار تھا۔
دونوں کا رشتہ شاہی خاندانوں سے تھا اور دونوں انگلستان کی ملکہ اور سلطنتِ برطانیہ کی قیصرہ وکٹوریہ کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ لڑکی تھی زار روس نکولس کی صحت مند اور پرکشش بیٹی شہزادی ''میری'' اور لڑکا تھا ''ڈِکی'' Dickie یعنی لوئی بیٹن برگ L ouis Batanbergجو آگے چل کر جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر بنا اور اب لارڈ مائونٹ بیٹن کے طور پر ہندوستان کے آخری وائسرائے کی حیثیت سے آیا تھا۔
تو پھر ''میری'' اور ''ڈِکی'' کی شادی کیوں نہ ہوسکی؟ بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی، یہ یورپ کے دو عظیم شاہی خاندانوں کا ملاپ ہوتا مگر بے رحم تاریخ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لڑکا لڑکی کی اس ملاقات کے بعد جلد ہی روس میں انقلاب در انقلاب آگیا۔ بادشاہت ختم کردی گئی اور زار، بیمار زارینہ اور الیگزینڈرا، چار جوان بیٹیوں اور معذور شہزادے کو گرفتار کرلیا گیا۔
سات افراد پر مشتمل شاہی خاندان کی بہت تذلیل کی گئی اور پھر جولائی 1918 میں یورال پہاڑی سلسلے کے ایک دور افتاد ہ گائوں ایکاتیرن برگ Ekaterinberg میں وہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جسے بھلانا ممکن نہیں۔ روس کے نئے سربراہ ''لینن'' کے حکم پر ان سب کو بیدردی سے شوٹ کرکے مار ڈالا جاتا ہے۔ یاد رہے لینن کا بڑا بھائی 1887 میں زار الیگزینڈر سوئم کے قتل کی ناکام سازش میں گرفتار ہوا اور پھانسی پر لٹکایا گیا تھا، کیا یہ لینن کا انتقام تھا۔ شاید!
اپنی مقتول محبوبہ کو یاد کرکے اب وائسرائے رو رہا ہے۔ زار روس کی حماقتوں کی وجہ سے روس تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ اب اس کے سامنے ہندوستانی لیڈر، راجے مہاراجے اور نواب تھے۔ زار روس کا حشر ان سب کے لیے درس عبرت تھا۔ برصغیر کی مجوزہ تقسیم بھی قتل و غارت کے بغیر ممکن نظر نہیں آرہی تھی۔
ہم پاکستانیوں کے لیے بھی یہاں ایک سبق موجود ہے۔
آسان حل: ہر مسئلے کا ایک آسان حل ہوتا ہے اور بے شمار مشکل حل۔ اگر انقلاب سے کچھ پہلے روسی بیکریوں کو اچھے اوون فراہم کردیے جاتے تو روٹی کی قلت پیدا نہ ہوتی جو انقلاب کی ایک وجہ بنی تھی۔ یہ ایک آسان حل تھا لیکن افسران حکومت تو لمبے چوڑے خرچ والے حل پسند کرتے ہیں۔ پاکستانی بیورو کریٹ بھی اسی قسم کے لوگ ہیں۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز وغیرہ کو ٹھیک کرنے کے سیدھے سادے حل موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔
قرضے معاف: ہمارا یہ پسندیدہ مشغلہ روس میں بھی عام تھا۔ شاہی خاندان کے افراد خصوصاً زار کی والدہ محترمہ اور رشتے دار سرکاری خزانے سے خوب خوب ''قرضے'' لیتے تھے جن کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نتیجہ: معیشت کی تباہی۔
بیروزگاری: زار نے ایک بڑا کام تو ضرور کیا یعنی دارالحکومت سے ولادی وسٹاک تک چھ ہزار میل لمبی ریل گاڑی متعارف کرائی لیکن اس کے علاوہ صنعتی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا اور زراعت کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ بیروزگاری اور افلاس نے انقلاب کا راستہ ہموار کیا۔
اقربا نوازی: تمام اہم عہدوں پر عزیز و اقارب اور من پسند لوگ بھرتی کیے جاتے تھے۔ میرٹ کو بالکل نظر انداز کیاگیا۔ لہٰذا ہر محکمہ پاکستان ریلوے جیسا نقشہ پیش کرتا تھا کیوںکہ کوئی بھی کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔
پولیس راج: قانون نافذ کرنے والے ارباب عوام کو بے حد حقیر سمجھتے تھے۔ خوب لوٹتے تھے اور ذلیل کرتے تھے، حتیٰ کہ عوام پر گولیاں چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔
وڈیرہ شاہی: زار روس تو بادشاہ تھا لیکن اس کے حواریوں نے سارے ملک میں ''وڈیرہ شاہی'' بھی نافذ کر رکھی تھی۔ ان کے پرائیویٹ جیل بھی تھے اور ''بیگار'' کا بھی خوب رواج تھا۔
رشوت اور خوشامد: تمام وزرا اور مصاحب چاپلوسی میں بھی ماہر تھے۔ رشوت کا بازار گرم تھا۔ نہایت ناکارہ لوگ چھائے ہوئے تھے۔ ''راسپوٹین'' جیسا ''جعلی پیر'' سیاہ وسفید کا مالک بنا ہوا تھا۔ آخر میں زار روس نے کف افسوس ملا تھا کہ اس کے وزیروں نے اسے دھوکا دیا۔ مگر نااہل وزیروں کو چنا کس نے تھا؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو ضیا الحق کو خود لائے اور نواز شریف پرویز مشرف کو لائے اور پھر شکایت کرے۔
ریاستوں میں بے چینی: روس کی مختلف ریاستوں میں بھی بے چینی بہت تھی، اس لیے کہ سارا اقتدار یورپی روس تک محدود تھا۔ لیبیا اور شام میں یہی صورت حال رہی ہے اور پاکستان میں بھی صوبائی بے چینی ملک کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے، طاقت و دولت کا ارتکاز ایک خاص علاقے تک محدود ہے۔
عوامی نمایندگی: زار کو چاہیے تھا کہ وہ جمہوریت کی راہ ہموار کرتا اور عوامی نمایندگی کو فروغ دیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ پاکستان کہنے کو تو ایک جمہوری ملک ہے مگر قبائلی اور جاگیردارانہ ماحول میں عوامی نمایندگی ممکن نہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہمارے مذہبی پیشوا، ہمارے سیاست دان وغیرہ سب پاکستانی عوام کو بے اختیار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انھیں دھوکا دیا جاسکے۔ قومی دولت اور وسائل کو لوٹا جاسکے۔ ملک پر ڈرون حملے جاری رکھے جاسکیں۔ لوٹی ہوئی بے اندازہ دولت سوئس بینکوں میں محفوظ رہے، عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاسکیں، دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو کھلی چھوٹ دی جاسکے، خارجہ پالیسی کو بھی ہیر پھیر میں استعمال کیا جاسکے۔ ساری دنیا میں پاکستان کو بے عزت کیا جاسکے۔
روس میں تو ایک زار تھا۔ یہاں ہر وزیر، ہر وڈیرہ، ہر رہنما اور ہر پولیس افسر زار بنا ہوا ہے۔ وہاں تو ایک راسپوٹین تھا، یہاں نہ صرف سیکڑوں دھوکے باز راسپوٹین مزے کررہے ہیں بلکہ مذہبی جنون اور تعصب اور دہشت گردی کو فروغ دینے والے تور کیمادا (Torquemada) جیسے پیشوا بھی موجود ہیں جو بستیاں اجاڑ کر اور لاشیں گرا کر خوش ہوتے ہیں۔ ہسپانیہ میں 1492 میں عربوں کی شکست کے بعد مذہبی دہشت گردی Inquistion)) کا دور شروع ہوا۔
ہر شہر میں Autodafe کا اہتمام کیا جاتا جس میں غیر کیتھولک آگ میںجلائے جاتے اور ''تماشائی'' خوشی سے تالیاں بجاتے۔ ملکہ ایزابیلا کے پیر (Confessor) تور کیمادا نے ملکہ کو مشورہ دیا کہ تمام مسلمان اور یہودی خراب و خستہ جہازوں میں بھر کر سمندر میں چھوڑ دیے جائیں تاکہ وہ ڈوب جائیں یا بھوکے مر جائیں۔ اس جنونی ذہنیت کے لوگ ہمارے درمیان دیکھے جاسکتے ہیں اور تمام ''با اثر لوگ'' ان کے حمایتی ہیں۔ کوئی بہتری ممکن نہیں۔
ہمارے وطن میں ہے سب کچھ ہی ''اوکے''
بہت خوش ہے یہ قوم ہر چیز کھو کے