غم زمانہ
دو مہینے کی بے روزگاری کے بعد دونوں کو نوکریاں مل گئیں۔۔۔۔۔۔
PESHAWAR:
اگر آپ انعام اور جزا کی حکمت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسماعیل اور اسحاق کی کہانی سننا ہوگی۔ دونوں برٹش انڈیا کی ریاست جوناگڑھ میں پیدا ہوئے۔ دونوں دوست۔ اور اپنے اپنے خاندان کے پہلے میٹرک پاس نوجوان تھے۔ 1945 میں دونوں ممبئی آگئے۔ ایک چھوٹے دیہات سے بین الاقوامی شہر میں ان کی آمد ظاہر کرتی ہے کہ دونوں زندگی میں بہتری چاہتے تھے۔ اسماعیل کے اندر سیاسی جراثیم بھی تھے جب کہ اسحاق کا انداز کاروباری تھا۔
دو مہینے کی بے روزگاری کے بعد دونوں کو نوکریاں مل گئیں۔ اسماعیل کو سبزی مارکیٹ میں تو اسحاق کو اسٹاک ایکسچینج میں اکاؤنٹنٹ کی جاب مل گئی۔ سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلی آرہی تھی۔ دو سال گزرے اور پاکستان بن گیا۔ دونوں کے خاندان کراچی آئے تو یہاں آکر دونوں کو وہ کام ملا جن کا انھیں ممبئی میں تجربہ تھا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی نماز جنازہ میں دونوں دوست شریک ہوئے۔ اسماعیل نے خواجہ ناظم الدین کے دور تک چھوٹی سی دکان خرید لی۔ وہ معاشی کاموں کے علاوہ سیاسی اور سماجی کاموں میں بھی دلچسپی لیتا۔
اسحاق نے نوکری کے ساتھ نئی آنے والی کمپنیوں کے شیئر خریدنا شروع کردیے۔ وہ بیلنس شیٹ دیکھ کر کمپنی کے تیرنے یا ڈوبنے کا اندازہ کرلیتا۔ دو برسوں میں خاندان کے کئی لوگوں نے اسے سرمایہ کاری کے لیے رقم دی۔ سہروردی دور تک اسحاق کراچی اسٹاک ایکسچینج کا ممبر بن چکا تھا۔ اگلے تین برسوں میں اس نے انڈسٹری کے شعبے میں قدم رکھ دیا۔ فیروز خان نون کے دور میں خیرپور میں ٹیکسٹائل مل کے علاوہ چاٹگام میں جوٹ مل کے لیے وہ پلاٹ خرید چکا تھا۔ اسماعیل کی سیاسی دلچسپی نے اسے مسلم لیگ کا مقامی لیڈر بنا دیا تھا۔
جوناگڑھ پر پاکستان کا دعویٰ تھا اس لیے کہ وہاں کے نواب نے اپنی ریاست کی اسلامی مملکت میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہاں سے ہجرت کرکے آنے والوں کی مدد کرنا اسماعیل نے اپنا فرض سمجھا۔ ریاست کے کوٹے کے خاتمے سے قبل ایک نوجوان کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور اس نے فیس بھی جمع کروا دی۔ جب اس کا داخلہ منسوخ ہوگیا تو اسماعیل اس کا ہمدرد بن گیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کے ذریعے داخلہ بحال ہوا تو خاندان میں اسماعیل کی عزت بڑھ گئی۔ اسحاق اسے کام سے کام رکھنے اور کاروبار پر دھیان دینے کی نصیحت کرتا۔
اسحاق ذاتی ترقی کا پرچار کرتا تو اسماعیل کی رائے تھی کہ ہمیں آگے بڑھ کر لوگوں کے دکھ کو بٹانا چاہیے۔ ملک ترقی کرے گا تو سب ترقی کریں گے۔ وہ امریکا اور برطانیہ جیسے ماڈرن ملکوں کی مثال دیتا۔ اسحاق کی رائے تھی کہ ان ممالک میں بھی غریب اور نادار لوگ ہیں۔ اسماعیل کہتا کہ ریاست ان لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس دیتی ہے۔ وہاں تعلیم اور علاج مفت ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو فلاحی بنانا چاہیے۔ اسحاق کی رائے تھی کہ ہمیں ریاست سے لینے کے بجائے دینے والا ہونا چاہیے۔ ان دوستوں کی اس بحث کو ان کے بچے غور سے سنتے لیکن ان کی بیویاں بور ہوتیں۔
ایوب کے ابتدائی چار برسوں میں اسحاق کے کارخانوں کی تعداد دو سے چار ہوگئی۔ اس نے ٹیکسٹائل اور پٹ سن کے علاوہ چینی اور سیمنٹ کی دنیا میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اسٹاک ایکسچینج کا ممبر شپ کارڈ فروخت کردیا۔ اس کا شمار حکومت کے حامی سرمایہ داروں میں ہونے لگا۔ ایک طرف ''اسحاق گروپ آف انڈسٹریز'' تھا تو دوسری طرف اسماعیل کی بطور کمیشن ایجنٹ کے اکلوتی دکان۔
سماجی و سیاسی مصروفیات نے اسماعیل کے کاروباری کام کو محدود کردیا تھا۔ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں دونوں الگ الگ کیمپوں میں تھے۔ اسحاق کے بنگلے کے باہر پھول کا بڑا بورڈ اور اسماعیل کے مکان کی گیلری میں لٹکا فانوس ان کے سیاسی نظریے اور معاشی حیثیت کا اظہار کررہا تھا۔ پانچ سال مزید گزرے تو اسحاق نصف درجن ملوں کا مالک تھا۔ جب کہ اسماعیل اپنی دکان بیچ کر سبزی منڈی میں بروکری پر مجبور ہوگیا تھا۔
جنرل یحییٰ کا دور آیا تو اسحاق اس کا حامی بن گیا۔ اس کی رائے تھی کہ صنعت کار کو حکمرانوں اور افسروں کے قریب رہنا چاہیے۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت پسند کہتا کہ ایک سرمایہ دار شخص اپوزیشن پارٹی کا حامی ہونا برداشت نہیں کرسکتا۔ اسماعیل کا رومانس آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تھا۔ وہ اس کے لیے قربانی کو اعزاز سمجھتا۔ اس کا کہنا تھا کہ نظر آنے والے سنگ مرمر کی طرح بنیاد میں لگنے والا پتھر بھی ضروری ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بے وقوف قرار دیتا۔ اسماعیل کہتا بہت سے غریب خوشحال ہونے پر انقلاب چھوڑ کر سسٹم کے حامی بن جاتے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی تو اسحاق کی ایک پٹ سن کی مل اور فریج کی ایک دکان ہنگاموں کی نذر ہوگئیں۔ مغربی پاکستان میں سات آٹھ کارخانوں نے معیار زندگی کو متاثر نہ کیا۔ اسحاق کے بیٹے میٹرک یا بی کام کرکے کارخانوں کو سنبھالتے جب کہ اسماعیل کے بیٹوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہ دیتا۔ اسماعیل کا بیٹا اقبال سی اے کی طالب علمی کے دوران کبھی ملتا تو اپنے والد کی شکایت کرتا کہ انھوں نے سیاسی و سماجی کاموں کے پیچھے دکان کو وقت نہ دیا۔ نوکر بھی کسی کو کما کر دیتے ہیں اگر مالک توجہ نہ دے۔
ایک دن دوپہر کو اسحاق کو جنرل منیجر کا فون آیا کہ ملوں پر پولیس آگئی ہے۔ انھوں نے اسٹاف اور چوکیداروں کو نکال باہر کیا ہے۔ اسحاق نے مل کی طرف دوڑ لگائی تو افسران نے کہا کہ آج شام وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے۔ اب اسحاق کے لیے ایک ایک پل کاٹنا مشکل تھا۔ تقریر انگریزی میں ہونی تھی اس لیے اس نے اپنے بیٹوں کو بھی قریب بلالیا تھا۔
اسحاق کے آٹھ کے آٹھ کارخانے قومی تحویل میں لے لیے گئے تھے۔ اب اس کے پاس صرف کپڑے کی ایک دکان رہ گئی تھی۔ پورے بنگلے میں سوگ کا ماحول تھا۔ تین سال گزرے تو اسماعیل کے بیٹے اقبال نے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کا آخری امتحان پاس کرلیا۔ ایک سال کے بعد جب اس کی آڈٹ فرم کو چند کارخانوں کی مالیت معلوم کرنے کا کام ملا تو عجیب صورتحال پیش آئی۔ تلہار کی ''اسحاق شوگر مل'' پر وقتی طور پر دسترس اسماعیل کے بیٹے کو حاصل تھی۔
ضیا دور تک اسماعیل اپنے بچوں کے ساتھ مکان کو بڑا کروا کر رہ رہا تھا اور اسحاق؟ ماموں کی بیٹی کا رشتہ اسحاق کے بیٹے سے آیا۔ میں اور ماموں ان کے گھر کی طرف گئے۔ ماموں نے ایوب دور میں اسحاق کی شان بتاتے ہوئے کہا کہ وہ عمدہ گاڑی میں آتا اور دروازہ باوردی ڈرائیور کھولتا۔ اب گئے تو ریلوے کالونی کے قریب گھر تھا۔ ریل گاڑی آتی تو گھر ہلتا۔ بیٹے نے ایف اے کیا تھا اور کپڑے کی دکان پر بیٹھتا تھا۔
بے نظیر کے دور تک ہماری کہانی کے دونوں ہیروز انتقال کرگئے۔ مشرف دور سے اسماعیل کا بیٹا ہماری برادری کا سب سے بڑا چندہ دینے والا ہے۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں جب پہلی مرتبہ برادری کا میگزین جاری ہوا تو ایک بڑا اشتہار اسماعیل کے خاندان کا تھا۔ 2014 میں بطور صدر، اسحاق کے بیٹے کی درخواست نے دو رکنی امداد کمیٹی کو اداس کردیا۔ قدرت بھی نیکیوں کا اجر اس کی اولاد کو دیتی ہے۔
پیسہ، ہنر اور تعلیم نہ ہونے کے باوجود کبھی کبھار لوگ دادا کی نیک نیتی کا اجر پاتے ہیں۔ کبھی پرخلوص قدم کا صلہ آنے والی نسل پاتی ہے۔ ایک رشتے دار کے انتقال پر قبرستان جانے کا موقع ملا۔ دونوں دوستوں کی قبریں تھوڑے فاصلے پر تھیں۔ خیال آیا کہ شاید اسماعیل اپنے پڑوسی اسحاق سے دونوں کے انداز زندگی کے فرق کو صاف صاف بیان کرکے کہہ رہا ہو کہ تیرا درد، درد تنہا۔ میرا غم، غم زمانہ۔
اگر آپ انعام اور جزا کی حکمت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسماعیل اور اسحاق کی کہانی سننا ہوگی۔ دونوں برٹش انڈیا کی ریاست جوناگڑھ میں پیدا ہوئے۔ دونوں دوست۔ اور اپنے اپنے خاندان کے پہلے میٹرک پاس نوجوان تھے۔ 1945 میں دونوں ممبئی آگئے۔ ایک چھوٹے دیہات سے بین الاقوامی شہر میں ان کی آمد ظاہر کرتی ہے کہ دونوں زندگی میں بہتری چاہتے تھے۔ اسماعیل کے اندر سیاسی جراثیم بھی تھے جب کہ اسحاق کا انداز کاروباری تھا۔
دو مہینے کی بے روزگاری کے بعد دونوں کو نوکریاں مل گئیں۔ اسماعیل کو سبزی مارکیٹ میں تو اسحاق کو اسٹاک ایکسچینج میں اکاؤنٹنٹ کی جاب مل گئی۔ سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلی آرہی تھی۔ دو سال گزرے اور پاکستان بن گیا۔ دونوں کے خاندان کراچی آئے تو یہاں آکر دونوں کو وہ کام ملا جن کا انھیں ممبئی میں تجربہ تھا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی نماز جنازہ میں دونوں دوست شریک ہوئے۔ اسماعیل نے خواجہ ناظم الدین کے دور تک چھوٹی سی دکان خرید لی۔ وہ معاشی کاموں کے علاوہ سیاسی اور سماجی کاموں میں بھی دلچسپی لیتا۔
اسحاق نے نوکری کے ساتھ نئی آنے والی کمپنیوں کے شیئر خریدنا شروع کردیے۔ وہ بیلنس شیٹ دیکھ کر کمپنی کے تیرنے یا ڈوبنے کا اندازہ کرلیتا۔ دو برسوں میں خاندان کے کئی لوگوں نے اسے سرمایہ کاری کے لیے رقم دی۔ سہروردی دور تک اسحاق کراچی اسٹاک ایکسچینج کا ممبر بن چکا تھا۔ اگلے تین برسوں میں اس نے انڈسٹری کے شعبے میں قدم رکھ دیا۔ فیروز خان نون کے دور میں خیرپور میں ٹیکسٹائل مل کے علاوہ چاٹگام میں جوٹ مل کے لیے وہ پلاٹ خرید چکا تھا۔ اسماعیل کی سیاسی دلچسپی نے اسے مسلم لیگ کا مقامی لیڈر بنا دیا تھا۔
جوناگڑھ پر پاکستان کا دعویٰ تھا اس لیے کہ وہاں کے نواب نے اپنی ریاست کی اسلامی مملکت میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہاں سے ہجرت کرکے آنے والوں کی مدد کرنا اسماعیل نے اپنا فرض سمجھا۔ ریاست کے کوٹے کے خاتمے سے قبل ایک نوجوان کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا اور اس نے فیس بھی جمع کروا دی۔ جب اس کا داخلہ منسوخ ہوگیا تو اسماعیل اس کا ہمدرد بن گیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کے ذریعے داخلہ بحال ہوا تو خاندان میں اسماعیل کی عزت بڑھ گئی۔ اسحاق اسے کام سے کام رکھنے اور کاروبار پر دھیان دینے کی نصیحت کرتا۔
اسحاق ذاتی ترقی کا پرچار کرتا تو اسماعیل کی رائے تھی کہ ہمیں آگے بڑھ کر لوگوں کے دکھ کو بٹانا چاہیے۔ ملک ترقی کرے گا تو سب ترقی کریں گے۔ وہ امریکا اور برطانیہ جیسے ماڈرن ملکوں کی مثال دیتا۔ اسحاق کی رائے تھی کہ ان ممالک میں بھی غریب اور نادار لوگ ہیں۔ اسماعیل کہتا کہ ریاست ان لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس دیتی ہے۔ وہاں تعلیم اور علاج مفت ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو فلاحی بنانا چاہیے۔ اسحاق کی رائے تھی کہ ہمیں ریاست سے لینے کے بجائے دینے والا ہونا چاہیے۔ ان دوستوں کی اس بحث کو ان کے بچے غور سے سنتے لیکن ان کی بیویاں بور ہوتیں۔
ایوب کے ابتدائی چار برسوں میں اسحاق کے کارخانوں کی تعداد دو سے چار ہوگئی۔ اس نے ٹیکسٹائل اور پٹ سن کے علاوہ چینی اور سیمنٹ کی دنیا میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اسٹاک ایکسچینج کا ممبر شپ کارڈ فروخت کردیا۔ اس کا شمار حکومت کے حامی سرمایہ داروں میں ہونے لگا۔ ایک طرف ''اسحاق گروپ آف انڈسٹریز'' تھا تو دوسری طرف اسماعیل کی بطور کمیشن ایجنٹ کے اکلوتی دکان۔
سماجی و سیاسی مصروفیات نے اسماعیل کے کاروباری کام کو محدود کردیا تھا۔ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں دونوں الگ الگ کیمپوں میں تھے۔ اسحاق کے بنگلے کے باہر پھول کا بڑا بورڈ اور اسماعیل کے مکان کی گیلری میں لٹکا فانوس ان کے سیاسی نظریے اور معاشی حیثیت کا اظہار کررہا تھا۔ پانچ سال مزید گزرے تو اسحاق نصف درجن ملوں کا مالک تھا۔ جب کہ اسماعیل اپنی دکان بیچ کر سبزی منڈی میں بروکری پر مجبور ہوگیا تھا۔
جنرل یحییٰ کا دور آیا تو اسحاق اس کا حامی بن گیا۔ اس کی رائے تھی کہ صنعت کار کو حکمرانوں اور افسروں کے قریب رہنا چاہیے۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت پسند کہتا کہ ایک سرمایہ دار شخص اپوزیشن پارٹی کا حامی ہونا برداشت نہیں کرسکتا۔ اسماعیل کا رومانس آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تھا۔ وہ اس کے لیے قربانی کو اعزاز سمجھتا۔ اس کا کہنا تھا کہ نظر آنے والے سنگ مرمر کی طرح بنیاد میں لگنے والا پتھر بھی ضروری ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بے وقوف قرار دیتا۔ اسماعیل کہتا بہت سے غریب خوشحال ہونے پر انقلاب چھوڑ کر سسٹم کے حامی بن جاتے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی تو اسحاق کی ایک پٹ سن کی مل اور فریج کی ایک دکان ہنگاموں کی نذر ہوگئیں۔ مغربی پاکستان میں سات آٹھ کارخانوں نے معیار زندگی کو متاثر نہ کیا۔ اسحاق کے بیٹے میٹرک یا بی کام کرکے کارخانوں کو سنبھالتے جب کہ اسماعیل کے بیٹوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہ دیتا۔ اسماعیل کا بیٹا اقبال سی اے کی طالب علمی کے دوران کبھی ملتا تو اپنے والد کی شکایت کرتا کہ انھوں نے سیاسی و سماجی کاموں کے پیچھے دکان کو وقت نہ دیا۔ نوکر بھی کسی کو کما کر دیتے ہیں اگر مالک توجہ نہ دے۔
ایک دن دوپہر کو اسحاق کو جنرل منیجر کا فون آیا کہ ملوں پر پولیس آگئی ہے۔ انھوں نے اسٹاف اور چوکیداروں کو نکال باہر کیا ہے۔ اسحاق نے مل کی طرف دوڑ لگائی تو افسران نے کہا کہ آج شام وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے۔ اب اسحاق کے لیے ایک ایک پل کاٹنا مشکل تھا۔ تقریر انگریزی میں ہونی تھی اس لیے اس نے اپنے بیٹوں کو بھی قریب بلالیا تھا۔
اسحاق کے آٹھ کے آٹھ کارخانے قومی تحویل میں لے لیے گئے تھے۔ اب اس کے پاس صرف کپڑے کی ایک دکان رہ گئی تھی۔ پورے بنگلے میں سوگ کا ماحول تھا۔ تین سال گزرے تو اسماعیل کے بیٹے اقبال نے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کا آخری امتحان پاس کرلیا۔ ایک سال کے بعد جب اس کی آڈٹ فرم کو چند کارخانوں کی مالیت معلوم کرنے کا کام ملا تو عجیب صورتحال پیش آئی۔ تلہار کی ''اسحاق شوگر مل'' پر وقتی طور پر دسترس اسماعیل کے بیٹے کو حاصل تھی۔
ضیا دور تک اسماعیل اپنے بچوں کے ساتھ مکان کو بڑا کروا کر رہ رہا تھا اور اسحاق؟ ماموں کی بیٹی کا رشتہ اسحاق کے بیٹے سے آیا۔ میں اور ماموں ان کے گھر کی طرف گئے۔ ماموں نے ایوب دور میں اسحاق کی شان بتاتے ہوئے کہا کہ وہ عمدہ گاڑی میں آتا اور دروازہ باوردی ڈرائیور کھولتا۔ اب گئے تو ریلوے کالونی کے قریب گھر تھا۔ ریل گاڑی آتی تو گھر ہلتا۔ بیٹے نے ایف اے کیا تھا اور کپڑے کی دکان پر بیٹھتا تھا۔
بے نظیر کے دور تک ہماری کہانی کے دونوں ہیروز انتقال کرگئے۔ مشرف دور سے اسماعیل کا بیٹا ہماری برادری کا سب سے بڑا چندہ دینے والا ہے۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں جب پہلی مرتبہ برادری کا میگزین جاری ہوا تو ایک بڑا اشتہار اسماعیل کے خاندان کا تھا۔ 2014 میں بطور صدر، اسحاق کے بیٹے کی درخواست نے دو رکنی امداد کمیٹی کو اداس کردیا۔ قدرت بھی نیکیوں کا اجر اس کی اولاد کو دیتی ہے۔
پیسہ، ہنر اور تعلیم نہ ہونے کے باوجود کبھی کبھار لوگ دادا کی نیک نیتی کا اجر پاتے ہیں۔ کبھی پرخلوص قدم کا صلہ آنے والی نسل پاتی ہے۔ ایک رشتے دار کے انتقال پر قبرستان جانے کا موقع ملا۔ دونوں دوستوں کی قبریں تھوڑے فاصلے پر تھیں۔ خیال آیا کہ شاید اسماعیل اپنے پڑوسی اسحاق سے دونوں کے انداز زندگی کے فرق کو صاف صاف بیان کرکے کہہ رہا ہو کہ تیرا درد، درد تنہا۔ میرا غم، غم زمانہ۔