لیفٹیننٹ زریاب مرحوم کی یاد میں

اس کی لگن اور مثالی جذبے کو دیکھ کر ہی اسے علاقے کا پوسٹ وارڈن بنایا گیا،

گوکہ لیفٹیننٹ زریاب ایچ رحمن کو ہم سے جدا ہوئے آٹھ سال ہوچکے ہیں لیکن اس کی برسی کے موقع پر دعائے مغفرت کے ساتھ اس میں بچپن سے ہی پائی جانے والی وہ خوبیاں جو اﷲ تعالیٰ نے اسے عطا کی تھیں انھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ ان کا تذکرہ اپنے زخم آلود خیالات کی تسکین کے لیے رقم کر رہا ہوں۔

مرحوم نے بہت کم عمری سے ہی خود کو سماجی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں کہیں خون کے عطیے کی خبر سنتا وہ کسی تاخیر کے بغیر ضرورت مند کو خون کا عطیہ دے کر آتا مگر گھر والوں کو اس کا علم بھی نہ ہونے دیتا، اسکول لائف میں اسکاؤٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ ریڈ کریسنٹ (ہلال احمر) کی تربیت سے لے کر شہری دفاع کی ٹریننگ کو اپنا شعار بنایا۔ اپنی اس وقت کی جائے سکونت (شاہ فیصل کالونی،کراچی) میں شہری دفاع کو فروغ دیا۔

اس کی لگن اور مثالی جذبے کو دیکھ کر ہی اسے علاقے کا پوسٹ وارڈن بنایا گیا، اس نے ان ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ کراچی میں شہری دفاع کے لیڈیز ونگ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسے یہ اعزاز حاصل رہا کہ شاہ فیصل کالونی کی وارڈن پوسٹ پر لیڈیز ونگ فعال و متحرک رہا۔ علاقے میں ''شہری دفاع میں خواتین کا کردار'' کے موضوع پر بہت متاثر کن سیمینار منعقد کروائے اور ادارے کی طرف سے ہی نہیں بلکہ ایدھی فاؤنڈیشن نے بہت سراہا اور اسے خراج تحسین سے نوازا۔ شہری دفاع کا عالمی دن ہوتا تو وہ اس کی اہمیت کے مطابق پرجوش طریقے سے مناتا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کے جوان بچوں کو کسی تنظیمی ماحول سے بچانے کے لیے ماں باپ اکثر و بیشتر سرگرداں نظر آتے تھے، اس لیے بے راہ روی سے بچانے کی خاطر مرحوم کو اسکول لائف سے ہی پوسٹ وارڈن کے مرتبے کی پاسبانی کی ترغیب دی گئی اور ہمیشہ اسے یہی احساس دلایا کہ شہری انتظامیہ نے اس پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح عزت و وقار سے نوازا ہے اس پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دینا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ والدین کی نصیحت پر گرہ باندھ لیتا اور اس پر مکمل عمل کرتا۔


ملک و ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر ہی اس نے پاک آرمی کی ذیلی شاخ جانباز فورس میں شمولیت اختیار کی اور خود کو اس میں اس طرح ڈھالا کہ بہت کم عرصے میں ہی اس کی یونٹ اور ہیڈ کوارٹر کی سفارش پر جی ایچ کیو نے اسے کمیشن سے نوازا اور اسے لیفٹیننٹ بنادیا گیا۔ جانباز فورس میں اس نے ہمیشہ فرض شناسی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

اس کے والدین نے اسے مصروف رکھنے اور گھریلو اخراجات کو پورا کرنے میں ہاتھ بٹانے کی خاطر چھوٹا موٹا کاروبار کرا دیا تھا اور یوں وہ پی سی او، فوٹو اسٹیٹ اور فوٹو گرافی جیسے شعبے سے منسلک ہوکر عملی زندگی میں داخل ہوگیا تھا تاکہ اہل خانہ کی کفالت میں ریٹائرڈ باپ کا سہارا بن سکے۔ حالانکہ وہ جانباز فورس میں لیفٹیننٹ ہی تھا لیکن کمیشنڈ یافتہ ہونے کی وجہ سے اس کے ریگولر آرمی کے افسران سے زیادہ مراسم تھے۔ فرصت کے اوقات وہ ان ہی افسران کے ساتھ گزارتا، جس خوش اخلاقی، حسن محبت، بلا لالچ و طمع ان کے ساتھ اس کا رہنا سہنا تھا وہ بلاشبہ دیدنی تھا۔

پھر یکایک حالات نے کروٹ لی اور وہ ابتدا میں کھانسی کا شکار ہوا، فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ کر آتا تو کھانستا آتا تھا، ادھر اس کا کھانا پینا بھی بہت کم ہوگیا تھا حالانکہ وہ کھانے پینے کا بہت شوقین تھا۔یہ دیکھ کر ماں باپ کو تشویش ہونا قدرتی امر تھا۔ 2005 ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اس کی تشویش کن کھانسی کے سبب اس کا ضیا الدین اسپتال میں طبی معائنہ کرایا گیا جہاں اس کا ایکسرے ہوا اور شک کی بنیاد پر اس کا سی ٹی اسکین کروایا گیا جس سے اس کی سانس کی نالی کے اوپر ٹشو کا انکشاف ہوا اور یوں لگا جیسے 25 اکتوبر 2005 کے دن اس انکشاف کے بعد تمام اہل خانہ اور سارے خاندان پر بجلی گر پڑی ہو۔کیونکہ تفتیش سے کینسر کے اثرات پائے گئے تھے۔

اسپتال میں اس کا علاج شروع کروایا گیا۔ پہلا فیز بہت اچھی طرح گزرا جس کے بعد اس نے معمول کے مطابق کھانا پینا شروع کردیا تھا اور مناسب انداز میں اس کا وزن بھی بڑھنے لگا۔ معمولات زندگی کسی حد تک بحال ہوگیا تھا۔ دوسرا مرحلہ بھی خیریت سے گزر گیا جس میں وہ ہر جگہ آتا جاتا اور سیر سپاٹے کرتا پھرتا۔ گھر والوں نے بھی اس کی ہمیشہ دلجوئی کی اور یوں وہ اعصاب شکن کیمو تھراپی جیسی تکلیف دہ ایکسرسائز کو جوانمردی سے جھیلتا رہتا، ایک وقت اس کی جوانی کا یہ بھی تھا کہ جہاں کہیں خون دینے کی ضرورت کو محسوس کرتا دوڑتا جاتا اور عطیہ خون کو اپنا فرض سمجھتا اور ایک وقت ایسا بھی آن پڑا کہ اسی بچے کے لیے ایک روز میں خون کی پچیس پچیس بوتلوں کی ضرورت پڑنے لگی۔

اس کی ماضی کی خدمات کام آئیں کہ اس کے چاہنے والوں کا خون عطیہ کرنے کے لیے تانتا بندھ گیا۔ وہ تقریباً دس ماہ تک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ کھانسی کی شکایت سے ہی اس کی طبی تحقیق کی ضرورت پڑی تھی تیسرے مرحلے میں یکایک پھر کھانسی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ کسی کے کنٹرول میں نہ آتا تھا جو باعث تشویش بن گیا تھا۔ اسی تکلیف دہ کھانسی کے باعث 2 ستمبر 2006 کو وہ خالق حقیقی سے جاملا۔ 3 ستمبر 2006 فیصل کینٹ قبرستان جوہر میں سپردخاک کردیا گیا۔
Load Next Story